کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی زیب اذکار حسین اور موسیٰ کلیم کی سرکردگی میں تواتر سے ادبی تقریبات کے انعقاد میں سرگرم عمل ہے۔ گزشتہ دنوں ادبی کمیٹی نے محترمہ ڈاکٹر تنویر خان کی پانچ نثری کتابوں ’’زنجیریں‘‘، ’’عکس اور پرچھائیں‘‘، ’’پانی کا بلبلہ‘‘، ’’وہ بارش کا پانی کاغذ کی کشتی‘‘ اور ’’میت رے‘‘ کی تقریبِ اجراء کا اہتمام کیا۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے فرمائی۔ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عالیہ امام تھیں، جبکہ اکرم کنجاہی، زیب اذکار حسین، غلام علی وفا، ڈاکٹر نزہت عباسی، تزئین انصاری، شاعر علی شاعرؔ اور نجیب عمر نے اظہارِ خیال فرمایا۔ تقریب کی نظامت موسیٰ کلیم کو کرنا تھی مگر اچانک مصروفیت کے باعث یہ فریضہ جہانگیر سید نے خوش اسلوبی سے ادا کیا۔
ڈاکٹر تنویر خان پیشے کے اعتبار سے معروف طبیبہ ہیں، آپ کے شوہر ڈاکٹر محمد انور خان (تمغائِ امتیاز) بھی ماہر چشم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا قلمی سفر 1985ء میں بچوں کے رسالے ’’پھول‘‘ سے شروع ہوا، مختلف ڈائجسٹوں میں ان کے افسانے، کہانیاں تواتر سے شائع ہورہی ہیں۔ گھریلو اور پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود ہزاروں صفحات پر مشتمل ان کی پانچ کتابوں کا یکے بعد دیگرے اشاعت پذیر ہونا بڑی بات ہے، بقول شبیر احمد انصاری ’’ڈاکٹر صاحبہ افسانوی ادب کی کہنہ مشق قلمکار ہیں، یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ یہ دنیا جو افسانے بناتی ہے، تہذیبی، معاشرتی تقاضوں کے ساتھ قلمکار ان کی تراش خراش کرتے رہتے ہیں، مصنفہ بھی اس عمل سے گزرتی ہیں لیکن آپ کے افسانوں کا رنگ ڈھب تحریری نہیں، تخلیقی ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی ہے۔‘‘
آپ کے تخلیقی کام پر گورنمنٹ کالج بنوں (کے پی کے) کے ایک طالب علم ایم فل کے لیے مقالہ تحریر کررہے ہیں۔
’’ڈاکٹر صاحبہ کی تحریر میں ہجرت اور اس کے بعد کے دکھوں کے کرب کے ساتھ غربت میں ہمت و محنت کے گلاب بھی کھِلے دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ برسوں پہلے کی تحریر آج بھی تروتازہ ہے۔‘‘ (راقم)
اکادمی ادبیات کے آغا نور محمد پٹھان نے کہا تھا ’’ایک طبیبہ کی حیثیت سے انہوں نے انسانی دکھوں کو دیکھا اور ان کی کیفیات اور رویوں کا مشاہدہ کیا، ان کے افسانے انہی مشاہدات کا اظہار ہیں جس میں رات کی چاندنی بھی ہے اور گہرے کنویں کا اندھیرا بھی۔‘‘ ڈاکٹر نظر کامرانی لکھتے ہیں ’’انہوں نے نہایت چابک دستی کے ساتھ اپنے کرداروں کو معاشرتی عدالت میں لاکھڑا کیا ہے اور اپنی فکری تخلیق کا بوجھ اتار دیا ہے۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی گواہی ہے کہ ’’مصنفہ صحتِ زبان کا بڑا خیال رکھتی ہیں، نئے لکھنے والوں کے لیے زبان کا یہ معیار یقینا قابلِ تقلید ہے۔‘‘ معروف کالم نویس، ناول نگار نسیم انجم کہتی ہیں ’’ڈاکٹر تنویر صاحبہ کہانیاں لکھنے کا فن جانتی ہیں اور ان قصے کہانیوں کو افسانے کے قالب میں ڈھالنے کے گر سے واقف ہیں، ان کے افسانوں کا خمیر معاشرے کے تلخ و شیریں حقائق کا مرہونِ منت ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحبہ کی یہ کتابیں میرے برادرِ محترم شبیر انصاری کی نگرانی میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں جو صوری دلکشی کی حامل ہیں۔ مصنفہ کی مزید تین کتابیں طباعت کے مراحل میں ہیں۔
اس باوقار تقریب کی ابتدا محمد شہزاد نے تلاوتِ کلام پاک سے فرمائی، محمد اکرم رازی نے گلہائے عقیدت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیے۔ جہانگیر سید نے مصنفہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’’وہ دوسروں کا دکھ خود پر طاری کرکے جب بیان کرتی ہیں تو وہ دکھ قاری کو اپنا دکھ محسوس ہوتا ہے۔‘‘ مصنفہ کے صاحبزادے اعظم انور خان نے کہا کہ ہماری والدہ نے ہماری بہت اچھی تربیت کی ہے۔ یہ کلینک میں مریض بھی دیکھتی ہیں اور تحریر بھی کرتی ہیں، یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ ڈاکٹر راحت انور خان (بیٹی) نے کہا کہ میں لندن میں مقیم ہوں مگر آپ کی کتابوں کی خوشبو میرے ساتھ ہے، میرا چھوٹا بھائی بابر انور بھی آئی اسپیشلسٹ ہے اور یہ سب آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ہماری والدہ نے نہ صرف ہماری بلکہ معاشرے کی تربیت کے لیے بھی اپنے حصے کی شمع جلائی ہے۔
افسانہ نگار نجیب عمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریر کا اسلوب منفرد ہے۔ بے ساختہ پن ان کی انفرادیت ہے جو قاری کی دلچسپی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ شاعر علی شاعرؔ نے کہا کہ خواتین افسانہ نگاروں میں ایک خوشگوار اضافہ ہے، میری تنقیدی کتاب میں ان پر مضمون شامل ہے۔ ان کی کہانی ہر گھر کی کہانی ہے۔ تزئین انصاری نے حرا فائونڈیشن کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے تفصیلی مضمون میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک کی افسانہ نگاری کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے۔ 1974ء میں ڈاکٹر بنیں۔ آپ کی کتابوں نے بڑی پذیرائی حاصل کی۔ آپ نے بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔
معروف مبصر ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ ان کے افسانوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں ایک کہانی موجود ہے۔ وہ اپنے مشاہدے کو بہت اچھی طرح پیش کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں رومانیت نظر نہیں آتی بلکہ دیگر عوامل اور رویّے نظر آتے ہیں۔اکرم کنجاہی نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک طبیب ہونے کے ناتے ان کے کردار بہت حقیقی اور جان دار ہیں۔ انہوں نے کہانی پن پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، انہوں نے ایک مٹتی ہوئی تہذیب کو موضوع بنایا ہے۔ معروف افسانہ نگار، صحافی اور ادبی کمیٹی کے روح رواں زیب اذکار حسین نے کہا کہ ان کے افسانے اور ناول خاصے کی چیز ہیں، ان کی تحریر میں بڑی پختگی ہے۔ انہوں نے پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کیا ہے جس سے ان کے مشاہدات کو جِلا ملی ہے، انہوں نے فرداً فرداً ادبی کمیٹی کی جانب سے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر تنویر خان نے ادبی کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 9 سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا، 1968ء میں پورے پاکستان میں کالجز کی سیرت نگاری کے انگریزی میں مضمون کے مقابلے میں دوسرا انعام حاصل کیا۔ انہوں نے شبیر انصاری کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ادبی تقریبات سے دور رہی ہیں مگر اب وہ شرکت کیا کریں گی۔ معروف شاعر غلام علی وفاؔ نے کہا کہ خاندانی تربیت ہی وہ چیز ہے جس سے انسان انسان بنتا ہے، مصنفہ ایک حیرت انگیز شخصیت ہیں، ان کا تحریری عمل ان کا فطری عمل ہے جو یہ بغیر کسی تھکن کے کرلیتی ہیں۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ آج دارالکتاب کے بجائے دارالکباب کو فروغ دیا جارہا ہے، ایسے ماحول میں مصنفہ کا دم غنیمت ہے کہ وہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، ادب معاشرے کا نقاد ہوتا ہے، وہ رہنمائی کرتا ہے اور ان کے یہاں یہ رہنمائی موجود ہے۔ صدرِ محفل ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ آج کی تقریب کی اہمیت دوچند ہے۔ کراچی پریس کلب اور اس کی ادبی کمیٹی ادبی حلقوں میں بڑی اہمیت حاصل کرتی جارہی ہے۔ یہاں تواتر سے ادبی تقاریب کا انعقاد خوش آئند ہے۔ مصنفہ ایک سچی تخلیق کار ہیں، وہ معاشرے کو اپنی نظر سے دیکھتی ہیں اور جو آگہی انہیں حاصل ہوتی ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ اسے اس طرح سے نہیں بلکہ کسی اور طرح سے ہونا چاہیے، اور اس کا اظہار وہ اپنی تخلیق میں کرتی ہیں۔ انہوں نے بڑی بے ساختگی سے اپنی آگاہی کو قلمبند کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں حوصلہ ہے، روشنی ہے جو انہوں نے اپنے قاری کو منتقل کی ہے۔ یہ روشنی ان کے اندر ہر وقت نمایاں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر محمد انور خان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی کتابوں کی اشاعت میں ہر ممکن معاون و مددگار ہوں گے۔ اس موقع پر معروف صحافی سخاوت الوری نے مصنفہ کو تہنیتی شیلڈ پیش کی، تحریک نفاذِ اردو کے نسیم احمد شاہ نے گلدستہ پیش کیا، جبکہ میزبانوں کی جانب سے مقررین کو گلدستے پیش کیے گئے۔ تقریب میں بڑی تعداد میں اہلِ ذوق اصحاب نے شرکت کی۔