بھارت کا فلسطین ماڈل، کشمیر کااسلامی تشخص خطرات کی زد میں

بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 35Aپر فیصلہ سنانے کی تاریخ 27 اگست تک بڑھادی۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بینچ تین رکنی تھا مگر ایک رکن کی غیر حاضری کی وجہ سے فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ اس طرح سپریم کورٹ نے مقررہ دن فیصلہ سنانے سے گریز کیا۔ جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں زوردار ہڑتال چل رہی تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر ہونے والی دو روزہ ہڑتال نے کاروبارِ حیات معطل کرکے رکھ دیا تھا اور عوام چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کررہے تھے۔
’’وی دی سٹیزن‘‘ (ہم شہری) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ رٹ دائر کررکھی ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ35A مقبوضہ کشمیر کو خصوصی شناخت دیتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں و کشمیر میں نہ تو جائداد خرید سکتا ہے اور نہ ووٹ کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کا شہری کشمیر میں ملازمت کا حق بھی نہیں رکھتا۔ یہ دفعہ کشمیر کی الگ شناخت کے حوالے سے بھارت کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کی آخری نشانیوں میں شامل ہے۔ غیر کشمیری باشندوں کے کشمیر میں زمینیں خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے پر پابندی کا قانون جسے عرفِ عام میں اسٹیٹ سبجیکٹ یعنی پشتینی باشندہ ریاست جموں وکشمیر کا تصدیق نامہ کہا جاتا ہے، مہاراجا ہری سنگھ نے نافذ کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پنجاب کے ہندوئوں کا اپنی زیر خرید ریاست کی طرف انخلاء روکنا اور اس کا داخلی تشخص برقرار رکھنا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب کشمیر تقسیم ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں نے اس قانون کو من وعن تسلیم کرکے نافذ رکھا۔ مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو شرنارتھی جموں کے کیمپوں میں مدتوں اس قانون کے خاتمے کی امید پر مقیم رہے۔ وہ کشمیر کی شہریت اور وہاں باشندہ درجہ اوّل کا حق مانگتے رہے، مگر کسی حکومت نے اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کے ساتھ چھیڑخانی کرکے اس مطالبے کو پذیرائی بخشنے کی جرأت نہ کی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک الگ ریاست یا بھارت کے وجود میں ایک نیم خودمختار ریاست کے وعدوں اور خوابوں کے بدلے ہی شیخ محمد عبداللہ کو مہاراجا ہری سنگھ کے الحاق کی توثیق پر آمادہ کیا تھا، مگر مطلب براری کے بعد نہ صرف یہ کہ شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے جیل میں ٹھونس دیا گیا بلکہ ریاست کی خودمختاری کا گلا بھی گھونٹا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ اب ان وعدوں کی بکھری ہوئی کرچیوں کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا۔
بھارت کشمیر میں اِس وقت پوری طرح فلسطین ماڈل اپنائے ہوئے ہے۔ اس کام میں بھارت کو اسرائیل کے تجربے کی ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے، اور اس کا انکشاف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی کشمیر کے حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ بھارت کے ان عزائم اور منصوبوں کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ یہی دفعہ ہے۔ اب بھارت اس دفعہ کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے۔ اس قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر بھارتی سرمایہ دار وادی کی طرف نقل مکانی کریں گے، اونے پونے داموں زمینیں خریدی جائیں گی، اور مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو پناہ گزین پہلے ہی جموں کے علاقوں میں شہریت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پنڈتوں کے لیے الگ بستیاں بسانے کے منصوبے بھی کاغذوں میں تیار ہیں۔ امرناتھ یاتریوں کے لیے وسیع وعریض رہائشی منصوبے اور اس کے لیے الگ سے انتظامیہ کا قیام اور ان کے لیے مکانیت کی سہولت کی فراہمی وادی کے مسلمان اکثریتی کردار کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار ہے، اور یوں کشمیر میں ایک’’اسرائیل‘‘کے خدوخال اُبھرنا شروع ہوجائیں گے۔ کشمیری مسلمان ہمیشہ سے اس خطرے کی بو محسوس کرتے رہے ہیں مگر نریندر مودی کے دورِ حکومت میں یہ خطرہ بہت عیاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ طاقت اور حیلہ جوئی سے کشمیریوں کو رام نہ کیا جا سکا تو اب آخری چارۂ کار آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔ اس کے لیے بھارت کے آئینی اداروں کا سہارا لیا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی اس منظم کوشش کے خلاف حکومتِ پاکستان کو بھرپور سفارتی مہم شروع کرنی چاہیے اور تمام سفارت خانوں کو متحرک کرنا چاہیے، کیونکہ آبادی کے تناسب کا یہ سلسلہ کامیاب ہوگیا تو یہ خطے میں مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگا، اور یوں مسلمانوں کو اپنے لیے کوئی نیا مقام اور ٹھکانہ تلاش کرنا ہوگا۔ بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد کشمیر میں بار بار مزاحمتی تحریکوں کے پیچھے وادی کشمیر کے مسلمانوں میں اقلیت بنائے جانے کا خوف بھی موجود ہے۔