ہماری معیشت بہتر ہو سکتی ہے،ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکالنا ٹیسٹ کیس ہو گا
پاکستان کی معیشت بدستور نہ صرف مشکلات کا شکار ہے بلکہ اسے سنگین چیلنجز اور خطرات کا بھی سامنا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، پیٹرول مہنگا ہوچکا ہے، صورتِ حال حکومت کے قابو میں نہیں ہے۔ یہ باتیں ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے روزنامہ جنگ میں 29اپریل 2008ء کو لکھی تھیں، پھر اس کے 10 برس بعد دوبارہ 2018ء میں لکھا کہ ”معاشی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہوں گی ورنہ ایک کے بعد ایک بحران آتا رہے گا“۔ بدقسمتی سے ان کے یہ خدشات درست ثابت ہوئے اور وطنِ عزیز میں سنگین معاشی بحران آئے اور آرہے ہیں۔ آپ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر ٹیکسوں و توانائی کے شعبے میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہ کی گئیں اور پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو 2023ء میں خدانخواستہ معیشت ایک مرتبہ پھر بحران کی زد میں آسکتی ہے۔ اور آج 2021ء میں بھی صورت حال توقع سے زیادہ خراب ہے۔ جب 2023ءآئے گا تو معیشت کس صورت حال سے دوچار ہوگی، یہ دیوار پر صاف لکھا نظر آرہا ہے۔
ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی نظر صرف معاشی سرگرمیوں پر نہیں ہوتی، بلکہ ان کے تجزیے میں ملک کے سماجی، سیاسی اور عالمی حالات کا گہرا عکس ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کا معاشی صورتِ حال پر اظہار اور تجزیہ منفرد ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے ان کا بینکاری کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے۔ وہ پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اِس وقت آپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس (کراچی) کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب ’’اسلامک بینکنگ‘‘ جیسی قابلِ قدر کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں چار سو سے زائد مقالے و مضامین بھی تحریر کرچکے ہیں۔ فرائیڈے اسپیشل ان سے وقتاً فوقتاً ملکی اور بین الاقوامی خصوصی اور معاشی صورتِ حال پر اپنے قارئین کے لیے تجزیہ لیتا رہتا ہے۔
آج بھی پاکستان معاشی لحاظ سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ نئی حکومت جس کے سامنے کئی چیلنج موجود تھے اور لوگوں کو امید تھی کہ یہ ان سے نمٹ لے گی، لیکن اب واضح ہوگیا ہے کہ یہ پاکستانی عوام کے ساتھ ایک اور فراڈ ہے۔
موجودہ معاشی صورت حال پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اپنے گہرے اور عمیق تجزیے اور ان سوالات کے جواب میں کہ ڈالر قابو میں کیوں نہیں آرہا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر روپے کی قدر کیوں کم ہورہی ہے؟ اور افغانستان کی صورت حال کا اس میں کتنا عمل دخل ہے؟ کہا کہ:
”اسٹیٹ بینک کا کام ہے روپے کی قدر کو کنٹرول کرنا۔ لیکن یہ میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ مئی 2021 ء سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 18 روپےکم ہوئی ہے جبکہ افغانستان کا ایشو تو مئی کے بہت بعد میں ہوا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا دفاع نہ اب اسٹیٹ بینک کرپائے گا، نہ ہی حکومتِ پاکستان کرپائے گی۔یہ بات انتہائی ذمہ داری سے بتا رہا ہوں۔ ہم نے کئی بار پہلے بھی آگاہ کیا تھا کہ جس طرح انہوں نے ڈسکائونٹ ریٹ کو کم کیا ہے اور سستی شرحِ سود پر بے تحاشا قرضے دے رہے ہیں اور کئی لوگوں نے کئی سو ارب کے قرضے بینکوں سے سستی شرحِ سود پر لے لیے اور بعد میں گاڑیاں خریدنی شروع کردیں جس پر وزیراعظم صاحب نے کہا تھا کہ یہ ہماری ترقی کی نشانی ہے۔ ان سستے قرضوں پر امپورٹڈ گاڑیوں کی خریداری سے غیر ضروری درآمدات میں اضافہ ہوا جس کے سبب پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ اس طرح پچھلے سال تیس ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ پاکستان نے اٹھایا، اور ہم نے اُس وقت بھی سوال کیا تھا کہ اسٹیٹ بینک درآمدات کی شرح کو کنٹرول کیوں نہیں کررہا؟ حکومت کیوں کوئی اقدام نہیں اٹھاتی؟ اب گزشتہ تین مہینوں میں 11.7 ڈالر کا مزید اضافہ ہوگیا، یعنی پندرہ مہینوں میں آپ نے 42 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ اٹھالیا، اور اس سے بھی اہم بات کہ اس سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو بنیادی چیز ہے وہ 12ارب ڈالر رہے گا۔ یہ انتہائی خطرناک اور خوفناک حد ہے، لیکن اسٹیٹ بینک کے گورنر نے حلف برداری کے موقع پر کہا تھا کہ یہ رہے گا 2 سے3 فیصد جی ڈی پی، یعنی 6ارب ڈالر یا اس سے کچھ زیادہ۔ تو اگر یہ 12ارب ڈالر پر جارہا ہے اور اس کا اسٹیٹ بینک کو علم بھی ہے اور آپ کے اشاریے خراب ہیں۔ اگر شرحِ نمو خراب ہے،مہنگائی زیادہ ہے،ق رضوں کا حجم زیادہ ہے،بجٹ خسارہ بڑھا ہے،روپے کی قدر کم ہوئی ہے،اسٹاک ایکسچینج کو 11سو ارب روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے اِس حکومت کے آنے کے بعد،فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں مستقل کمی آرہی ہے تو روپے کی قدر جو گری ہے اس کا تو جواز ہے، لیکن آپ نے جانتے بوجھتے درآمدات کو کنٹرول نہیں کیا جس کے بارے میں بتایا جارہا تھا۔ اب اکتوبر میں آکر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ہم درآمدات میں سختی کریں گے، جبکہ اتنی تباہی ہوچکی ہے۔ حالانکہ آپ کو پچھلے سال دسمبر2020ء میں پتا چل گیا تھا کہ تجارتی خسارہ بڑھا ہے، اس لیے اسے کنٹرول کرنا چاہیے تھا۔ حکومت نے اشرافیہ کو سہولت دینے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ایسا کیا جس کا نقصان آج اٹھانا پڑرہا ہے۔“
میں نے پوچھا کہ روپے کی قدر کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ:
”دیکھیے بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے پاس اپنے کوئی ڈالر نہیں ہیں۔ جو ہیں وہ قرضے کے ہیں۔ مارکیٹ بے وقوف نہیں ہے، مارکیٹ کو پتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ روپے کی قدر سابقہ پوزیشن پر جانے والی بات کو تو آپ بھول جائیں، یہ نہیں ہوگا۔ یہ جو چالیس پچاس روپے بڑھ گئے ہیں یہ خواب میں بھی کم نہیں ہوں گے۔ آگے اگر دیکھا جائے تو جس طرح میں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدات کو کنٹرول نہیں کیا، چاہتے تو کرسکتے تھے، اب میں 12ارب ڈالر کی بات کررہا ہوں کہ اس سال جاری حسابات کا خسارہ ہونے جارہا ہے، اور ہمارا اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ 6بلین ڈالر پلس۔ تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسا انٹرنیشنل ایجنسیز نے کہا ہے کہ 2022 ء میں تقریباً 200 سوارب تک پہنچی۔ دنیا کہہ رہی ہے لیکن کسی کو احساس نہیں۔ ہمیں تو تکلیف ہوتی ہے کہ آپ کی 55 ارب ڈالر کی درآمدات ہیں۔ اگر 100ڈالر کی بھی آپ درآمدات کرتے تھے جس وقت عمران خان صاحب نے حلف اٹھایا تھا تو آپ کو 12400 روپے دینے پڑتے تھے، آج 17ہزار دینے پڑرہے ہیں۔ اب حکومت ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس جو لے رہی ہے وہ 100ڈالر کی امپورٹ پر 17 ہزار روپے پر اضافی ٹیکس لے رہی ہے۔
یعنی آپ کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو مہنگائی بھی کنٹرول نہیں ہوگی؟ اس پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ:
”اگر روپے کی قدر کو کنٹرول کر بھی لیا جائے تو مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ اس لیے دیگر فیکٹر بہت زیادہ ہیں۔ ایک اہم بات بتاتا ہوں کہ یہ جو عالمی منڈی ہے اس میں تیل کی قیمت 120ڈالر فی بیرل یا اس سے زیادہ تھی، اُس وقت پاکستان میں پیٹرول کی قیمت کم تھی۔ آج جبکہ عالمی منڈی میں یہ قیمت 85 ڈالر ہے تو پاکستان میں پیٹرول کی قیمت زیادہ ہے۔ تو آپ نے اس وقت پیٹرولیم جیللیوی کو کم رکھا ہے، کیونکہ روپے کی قدر گرائی ہوئی ہےیعنی گری نہیں ہے تو اس سے مہنگائی ہوگئی۔ اب اس کو بڑھانا پڑے گا۔ کیونکہ آپ کا بجٹ خسارہ آسمان پر جارہا ہے۔ میں آپ کو بتارہا ہوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ کنٹرول کر نہیں پائیں گے، لیکن اگر کنٹرول کر بھی لیں تو اب مہنگائی کنٹرول کرنا اس حکومت کے بس کی بات نہیں رہی۔ میں آپ کو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب اِس حکومت کے پانچ سال پورے ہوں گے تو اوسط مہنگائی اُس سے بہت زیادہ ہوگی جو اِن کو ورثے میں ملی تھی، اور شرح نمو جو اِن کو ورثے میں ملی تھی یعنی اوسط 3.2فیصد سالانہ،اس سے بہت کم ہوگی۔ یہ و ہ چیزہے جو ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، اگر کرنا بھی چاہیں تو اب نہیں کرپائیں گے۔“
تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور حکومت کا یہ کہنا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہے، اس پر آپ کا کہنا تھا کہ:
”عالمی منڈی میں جب تیل کی قیمتیں 100ڈالر یا 125ڈالر فی بیرل سے زیادہ تھیں اُس وقت پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم تھیں۔ آج جب کہ عالمی منڈی میں یہ قیمت 85 ڈالر کے قریب ہے تو پاکستان میں پہلے کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں جو اضافہ یا کمی ہوتی ہے اُس سے اتنا اثر نہیں پڑتا جتنا روپے کی قدر میں کمی سے ہوتا ہے۔ تو حکومت کا یہ کہنا بہت زیادہ درست نہیں ہے کہ ہم قیمت اس لیے بڑھا رہے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اصل چیز روپے کی قدر میں کمی ہے جس کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگست 2018 ء میں جب عمران خان وزیراعظم بنے تھے اُس وقت آپ 100ڈالر کی کوئی چیز درآمد کرتے تھے تو پاکستان میں اس کی قیمت بنتی تھی 12400روپے۔ اس کے اوپر ٹیکس لگا کرتے تھے۔ مئی 2021ء میں وہی 100ڈالر کی آپ درآمدات کرتے تھے تو اس کے 15200روپے بنتے تھے، جبکہ اب اکتوبر 2021ء میں پڑرہے ہیں 17200روپے۔ یعنی ایک لاکھ ڈالر کی درآمدات پر اگست 2018ء کے مقابلے میں اکتوبر 2021ء میں 48لاکھ روپے کا اضافہ روپے کی قدر گرنے سے ہوگیا، اور حکومت کے ٹیکس اس پر الگ لگتے ہیں۔ وجہ بنیادی یہی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر پاکستان پر کچھ نہ کچھ تو پڑتا ہے، لیکن اصل اضافہ روپے کی قدر میں کمی کے باعث ہوتا ہے جو اس حکومت اور اسٹیٹ بینک نے گرائی ہے۔ اقدامات نہ اٹھا کر دانستہ طور پر گرائی ہے۔“
ایک اور سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ:
”جب پاکستان بنا تھا اُس وقت ڈالر کی قیمت تین روپے تیس پیسے تھی۔ آہستہ آہستہ روپے کی قدر گرتی چلی گئی۔ 2008 ء میں ڈالر 68 روپے کا ہوا۔ ڈالر کی قیمت تو مسلسل بڑھ ہی رہی ہے اور آج کی صورت حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا ایک ٹکہ ہمارے دو روپے کے برابر ہوگیا۔9/11سے پہلے ہمارا روپیہ بھارت سے زیادہ مستحکم تھا، اب معاملہ الٹا ہوگیا۔ جب تک ہماری پالیسیاں ایسی رہیں گی، وڈیرہ شاہی کلچر کے مطابق پالیسیاں بنتی رہیں گی اور ہم اپنے وسائل پر بھروسا نہیں کریں گے، بجٹ خسارہ بھی بڑھے گا،تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔ 111/4انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ترسیلات بھی آتی ہیں جو بیرون ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں۔ اسی طرح اشرافیہ کی معیشت جاری رہے گی تو روپے کی قدر گرتی رہے گی۔ یہ منحصر ہے کہ کس قدر بربادی کرتی ہے حکومت، اسٹیٹ بینک اور دوسرے ادارے؟ اس سے اس چیز پر فرق پڑتا ہے، ورنہ یہ قدر تو گرتی چلی جائے گی۔“
بے روزگاری سے متعلق سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا:
”وزارتِ خزانہ کے معاشی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اس حکومت کے دور میں پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی جو شرح 30 جون 2018 ء کو تھی جو پچھلی حکومت کا آخری سال تھا اُس کے مقابلے میں آج پاکستان میں بے روزگاری زیادہ ہے۔ یہ کہنا ہے منسٹری آف فنانس کا۔ ڈویژن میں سینیٹ کمیٹی کا ایک اجلاس جاری تھا جنہوں نے بتایا کہ وزارت خزانہ بے روزگاری کے جو اعداد و شمار بتارہی ہے اُس سے کہیں زیادہ بے روزگاری ہے جو تقریباً ڈھائی گنا اضافی بنتی ہے۔ اگر ان دونوں باتوں سے بھی صرفِ نظر کرلیا جائے تو جو اعداد و شمار وزارتِ خزانہ کے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے بھی کہا ہے کہ اس حکومت کے تین سال میں معیشت کی شرح نمو 1.9 فیصد سالانہ بنتی ہے اور اگر اس سال کی پروجیکشن شامل کرلیں جیسا کہ حکومت خود بھی کہہ رہی ہے کہ چار سال میں جو اوسط سالانہ شرح نمو ہوگی وہ 2.6 فیصد ہوگی جبکہ انہیں ورثے میں ملنے والی شرح نمو 5.5فیصد تھی جو اس سے گھٹ کر آدھی رہ گئی ہے۔ یہ اس بات کا واضح نتیجہ ہے کہ پاکستان میں نہ صرف یہ کہ بے روزگاری بڑھی ہے، بلکہ غربت اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور فی کس آمدن میں بھی کمی ہوئی ہے۔ یہ وزارتِ خزانہ کے اپنے اعداد و شمار ہیں۔“
میں نے کہا کہ ”کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار؟“ تو اس پر آپ کا کہنا تھا:
”پاکستان کی معیشت کے بارے میں مَیں ہمیشہ سے یہ کہتا ہوں کہ الحمدللہ پاکستان کے پاس وسائل ہیں… انسانی وسائل بھی ہیں، مادّی وسائل بھی ہیں۔ اگر ہم ان کا صحیح طریقے سے دانش مندانہ استعمال کریں تو ہم خطے میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی ایسی معیشت بن سکتے ہیں جہاں عوام خوشحال ہوں گے۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے اشرافیہ کی معیشت بنادی ہے، بیساکھی کی معیشت بنالی ہے۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عوام پر بوجھ ڈالیں اور اس کا فائدہ طاقتور طبقات کو، ٹیکس چوری کرنے والوں کو، قومی دولت لوٹنے والوں کو دیں۔ اس میں کبھی ایمنسٹی بھی آجاتی ہے، اسی طرح سے آپ قرضے بھی معاف کردیتے ہیں۔ جب بھی باہر سے لوٹی ہوئی دولت کی بات ہوتی ہے تو سپریم کورٹ بھی کہتی ہے کہ ٹھیک ہے ہم نے ایمنسٹی کورٹ کی توثیق کردی۔ یہ 184/3کےتحت ہوا تھا ثاقب نثار کے زمانے میں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کا اختیار ہی نہیں تھا۔ ہماری حکومتیں سیاسی طاقت ور طبقوں کے مفاد میں فیصلے کرتی ہیں، اسٹیٹ بینک بھی کرتا ہے، پارلیمنٹ بھی کرتی ہے تو اگر سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی جو اس کا اختیار نہیں تھا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لوٹی ہوئی دولت بھی واپس لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اب تو اس حکومت نے یہ قانون بنادیا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت جو باہر گئی ہے آف شور میں، چاہے ججوں کی ہو، چاہے حکمرانوں کی ہو، چاہے سول ملٹری بیوروکریسی کی ہو… وہ پیسہ وہیں پر رکھیں اور یہاں پر ٹیکس دے دیں۔ تو اس طرح سے معیشت کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوگی، کیونکہیہ اشرافیہ کی معیشت ہے۔ اور پاکستان میں اگر آپ دیکھیں جو الیکٹرانک میڈیا ہے وہ 85فیصد ٹائم سیاست دانوں کی باتوں پر صرف کرتا ہے اور 10فیصد ٹائم یا اس سے کم معیشت کو دیتا ہے۔“
پاکستان نے 2009ء میں فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اور اس کی تفصیلات غلط بیان کر کے قوم کو بتایا تھا وہ تاریخ کا ایک بڑا دھوکا تھا۔ بدقسمتی سے آج وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ میںوزارت کی سطح پر وہی ٹیم براجمان ہے۔ اس وقت سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ ان غلط بیانیوں کا احتساب ہونا چاہے وگرنہ حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ ان دانستہ غلط بیانیوں کی تفصیلات 2012ء میں شائع ہونے والے ہماری کتاب ’’پاکستان اور امریکہ، دہشت گردی، سیاست، معیشت‘‘ میں دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات جون 2021ء میں ہونے تھے لیکن حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم معیشت کو بہتربنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں تا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی شرائط نہ لگائی جائیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف نے یہ مذاکرات اکتوبر 2021ء تک ملتوی کر دیے۔ اسی دوران معیشت میں زبردست خرابیاں لائی گئیں۔ تجارتی خسارہ بے تحاشا بڑھ گیا اور روپے کی قدر میں زبردست کمی ہوئی اور بجٹ خسارہ بھی تیزی سے بڑھتا نظر آیا اس طرح آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر مزید کڑی شرائط عائد کرنے کا جواز پیدا کر دیا گیا۔
آپ نے جو چشم کشا حقائق بتائے وہ اپنی جگہ، لیکن حکومت اور اُس کے وزرا کہتے ہیں کہ خطے میں ہمارے ہاں مہنگائی کم ہے۔ اس پر آپ نے کہا:
”عوام کو ان باتوں کا پتا ہی نہیں چلتا، کیونکہ عوامی ردِعمل آتا نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ خطے میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مہنگائی ہے اور حکومت اب بھی یہ کہہ رہی ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی کم ہے، دنیا میں پیٹرول کے نرخ زیادہ جبکہ ہمارے ہاں کم ہیں، تو پھر یہ بھی بتانا چاہیے کہ دنیا میں خصوصاً بنگلہ دیش اور بھارت میں گندم کے نرخ کیا ہیں،چینی کے نرخ کیا ہیں،وہ تعلیم اور صحت پر کتنا خرچ کررہے ہیں،جی ڈی پی کا تناسب کیا ہے؟ پھر یہ بھی بتائیں کہ اُن کی فی کس آمدنی کیاہے؟آپ کی کیا ہے؟ یہ چیزیں ٹھیک کرنے کے بجائے لیپا پوتی کی معیشت بنارہے ہیں۔“
پاکستانی معیشت بدترین صورت حال سے دوچار ہے، عوام بدحال ہیں، بے روزگاری نے مزید مسائل پیدا کیے ہیں۔ نہ بجلی سستی،نہ آٹا اور چینی.. تیل بھی پہنچ سے دور ہورہا ہے، پھر بھی پاکستان کے عوام کو غصہ نہیں آتا، کوئی ردعمل نہیں آتا؟ تو اس کے جواب میں آپ کا کہنا تھا:
”عوام یہ سمجھتے ہیں کہ فوجی حکومتوں کو بھی دیکھ لیا، سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کو بھی دیکھ لیا، تو اگر اب کوئی احتجاج کریں، انارکی پھیلائیں، کچھ اور کریں تو اس کا نتیجہ کیا نکلےگا؟ وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ کوئی آئے کوئی جائے ہماری حالت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یونہی اشرافیہ کی معیشت چلتی رہے گی۔ تو جب تک پاکستان میں ایسی چوتھی سیاسی قوت نہیں آتی جو صحیح معنوں میں اُن لوگوں پر مشتمل ہو جن پر عوام کو اعتماد ہو، اور وہ عوام کے سامنے ایسا قابلِ عمل منشور اور بلیو پرنٹ پیش کرے کہ اس طرح سے مہنگائی پر قابو پایا جائے گا، اس طرح سے بے روزگاری کم ہوگی، اس طرح سے عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھے گی، اس طرح سے تعلیم اور صحت بہتر ہوگی۔ اس کا لائحہ عمل بھی بتائے۔ ایسی کوئی چوتھی قوت ابھرتی ہے تب تو کچھ امید کی جاسکتی ہے۔ فی الحال تو عوام یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ جو بھی اگلی حکومت آئے گی چاہے جتنے بھی دعوے کرکے آئے، حرکتیں اُس کو یہی کرنی ہیں یعنی طاقتور طبقوں کو نوازنا اور عوام کو کچلنا۔ اس لیے عوام مایوس اور بددل ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ نفسیاتی مسائل اور گھریلو جھگڑے بڑھ گئے ہیں اور تعلیم کا معیار گر گیا ہے۔ یہ سب ہوتا رہے گا مگر عوام خود اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔“
میں نے کہا: یعنی تلخی ٔایام اور بڑھے گی اور سب یوں ہی چلتا رہے گا؟ اس پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا:
”عوام مایوس ضرور ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ لیکن ظلم حد سے جب بڑھ جاتا ہے تو پھر آدمی یہ کہتا ہے کہ بہت ہوگیا… اور وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔ اگر ایک آدمی خودکشی کرسکتا ہے، اپنے بیوی بچوں کو مار سکتا ہے تو ملک میں بھی وہ ہنگامہ آرائی کرسکتا ہے جس کا کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ کوئی آدمی محفوظ نہیں رہے گا۔ جو لوٹ رہے ہیں دولت کو، وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ ہر طرح کے جرائم میں اضافہ ہوگا جس سے بچنے کے لیے آج حکمرانوں کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیونکہ تنگ آمد بجنگ آمد میں سب کچھ جائز ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس خطرے سے بچنے کے لیے درست قدم اٹھنا بہت ضروری ہے۔