نومنتخب قومی اسمبلی کے ارکان حلف اٹھا چکے ہیں، تحریک انصاف اکثریتی پارٹی ہے، اس نے عمران خان کو وزیراعظم اور اسد قیصر کو اسپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قاف لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور آزاد ارکان کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کی حلیف ہوگی۔ تحریک انصاف اور اس کے حلیفوں کے ارکان کی کُل تعداد180 کے قریب ہے، جب کہ اپوزیشن کے پاس 159 ارکان ہیں، یوں اسمبلی میں اپوزیشن عددی اعتبار سے ایک بھرپور سیاسی قوت ہے، اگر یہ متحد رہی تو حکومت کے لیے سیاسی خوف کی علامت بنی رہے گی، لیکن یہ محض ایک خواب ہی ہوگا کیونکہ اس اسمبلی میں 134 ارکان ایسے ہیں جو پہلی بار اسمبلی میں پہنچے ہیں اور یہ شاید ملکی تاریخ کی واحد اسمبلی ہوگی جس کی، حکمران جماعت کو پروا نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اس کا کلہ مضبوط ہے اور اسے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ سوچ تحریک انصاف کے سیاسی مزاج کے حامل ارکانِ اسمبلی میں نہیں پائی جاتی، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مضبوط کلہ کسی بھی وقت اکھڑ سکتا ہے، لہٰذا پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے بغیر کام چلنے کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ حکومت اپنی عددی قوت کے اعتبار سے قومی اسمبلی میں صرف سادہ قانون سازی کرسکتی ہے، آئین میں اپوزیشن کے بغیر کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر ترمیم نہیں کرسکے گی۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کا اختیار تحریک انصاف کے پاس ہے اور آئین میں ترمیم کے لیے آکسیجن ٹینٹ اپوزیشن کے پاس۔ اسمبلی کی خالق انسانی قوت نے پارلیمنٹ میں ایک ایسی صورت حال بنائی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں آئین میں ترمیم کے لیے ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے پر مجبور ہوںگی۔ انتخابی نتائج کے بعد مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بن گئی ہے بلکہ بنوا دی گئی ہے۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، جی ڈی اے، ایم ایم اے سمیت بہت سی جماعتیں جو انتخابات کے نتائج پر سراپا احتجاج ہیں ان سب کا مؤقف ہے کہ نتائج تبدیل کیے گئے۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہہ رہے ہیں کہ 25جولائی کو بدترین دھاندلی کرکے تمام حلقوں میں انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے، ایک پارٹی کو جعلی اکثریت دی گئی، اتنی بڑی دھاندلی کے بعد پاکستان ایک جمہوری پاکستان نہیں رہا، عدلیہ اور عدلیہ کے نمائندے بھی ناکام ہوچکے ہیں، انہیں ہر سطح پر یرغمال بنایا گیا ہے۔ عام انتخابات سے قبل بھی مسلم لیگ(ن) کی جانب سے پری پول دھاندلی کی شکایت کی جارہی تھی لیکن دیگر سیاسی جماعتیں خاموش تھیں، انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی بھی چیخ اٹھی ہے، حتیٰ کہ جی ڈی اے کی لیڈرشپ نے کہا کہ ’’مسئلہ تو پنجاب میں تھا، سندھ میں نتائج کیوں تبدیل کیے گئے؟‘‘ شکایت کرنے والوں میں خود تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ بہرحال اب شکایات کے حل کے لیے دو ہی راستے ہیں، خاموشی اختیار کی جائے یا قانونی راستہ اپنایا جائے۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر رہ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے، اسی لیے تمام جماعتیں حلف کے لیے اسمبلی پہنچیں، جہاں ان کے منتخب ارکان نے حلف اٹھایا ہے۔ اور اب پارلیمنٹ میں اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے گی، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد متحد رہے، جس کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں اور ان کی سیاسی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کی دُم پھنسی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی کوشش ہے کہ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو رہا کرا لیا جائے، جبکہ پیپلزپارٹی اس کوشش میں ہے کہ مقدمات ختم کرائے جائیں اور نیب سے محفوظ رہا جائے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی مفادات انہیں کسی بڑی احتجاجی تحریک کی جانب قدم اٹھانے سے باز رکھیں گے۔ ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اگرچہ بہت غصے میں ہیں، لیکن وہ کبھی بھی کسی ایسی تحریک کا ایندھن نہیں بنیں گے جس کے نتائج کا پھل خود انہیں ملنے کا یقین نہ ہو۔ آج کی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ اس اپوزیشن اتحاد سے کسی بھی احتجاجی تحریک کی امید رکھنا نامناسب خیال ہوگا، البتہ یہ اتحاد تحریک انصاف کی کوئی سیاسی غلطی معاف کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی میں اگرچہ تحریک انصاف اکثریت میں ہے، لیکن سینیٹ میں اسے قطعی اکثریت حاصل نہیں ہے، یوں حکمران جماعت تحریک انصاف کسی بھی قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کی حمایت کے بدلے اس کی منہ بولی قیمت دینے پر مجبور ہوگی، کیونکہ آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں 228 اور سینیٹ میں 75 ارکان کی حمایت چاہیے ہوگی۔
تحریک انصاف جیسی جماعت کے لیے، ایوان میں جس کی پارلیمانی قوت نئے ارکان پر مشتمل ہے، ناتجربہ کاری ایک بڑا مسئلہ ہے، اور مسلسل تردید کے باوجود آپس کی کھینچا تانی بھی عروج پر ہے۔ اس صورت حال میں اسے ایوان سنبھالنے میں بہت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد جو خطاب کیا تھا، وہ بھی ناتجربہ کاری کا مظہر تھا۔ اس خطاب کے بعد دفتر خارجہ کے پالیسی سازوں نے انہیں خارجہ امور پر مکمل بریفنگ لینے سے قبل بات کرنے سے روک دیا ہے۔ حکومت کے سامنے امورِ خارجہ، معیشت اور اندرونی سلامتی کے تین بڑے ایشوز ہیں، عین ممکن ہے کہ اپوزیشن ان تینوں محاذوں پر جہاں جہاں حمایت فراہم کرے وہاں اپنی حمایت کی قیمت بھی نقد وصول کرتی رہے۔ اگر ایسا ہوا تو کرپشن کے خلاف تحریک انصاف کا مؤقف بہت کمزور ہوجائے گا، بلکہ مؤقف کی یہ کمزوری اور مفاہمت عوامی حلقوں میں اُس کی اخلاقی حمایت کا جواز بھی ختم کردے گی۔ تحریک انصاف کی سیاسی برتری میں بڑا خلاء موجود ہے کہ اس کی صفوں میں اس وقت نصف تعداد اُن ارکان کی ہے جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر حال ہی میں اس میں شامل ہوئے یا شامل کرائے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے یہ ارکان اپنی مقامی سیاست کے ہاتھوں ابھی سے مجبور ہورہے ہیں، اسی لیے ان کی جانب سے صوبہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ بہاولپور کے حلقہ این اے 170سے تحریک انصاف کے رہنما ورکن قومی اسمبلی محمد فاروق اعظم ملک نے باقاعدہ مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ بہاولپور صوبہ بھی الگ سے بنایا جائے۔ یہ مطالبہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے ارکان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ کے موقع پر کیا گیا ہے۔ جواب میں تحریک انصاف فی الحال تو خاموش ہے لیکن اسے ایک روز تو اس معاملے میں لب کشائی کرنا پڑے گی۔
دوسرا اہم معاملہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کو اکاموڈیٹ کرنے سے متعلق ہے۔ میثاقِ جمہوریت کی رو سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ادوار میں قائد حزبِ اختلاف کو قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ دی گئی تھی، اب تحریک انصاف یہ منصب کسے دیتی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کیسے ہوں گے یہی فیصلے سب کچھ بتادیں گے۔ دوسری طرف الیکشن سے قبل عمران خان نے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنا عمران خان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، اور عمران خان کو جلد یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر جیسے تمام دعوے اور وعدے محض سیاسی بیان تھے۔ حکومت سنبھالتے ہی عمران خان کی سمجھ میں آجائے گا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کرنا بہت آسان مگر حکومت چلانا بہت مشکل ہے۔ عمران خان کو جلد ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسی صورت حال میں مستقبل قریب میں محمد میاں سومرو تحریک انصاف کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کیے جاسکتے ہیں جنہیں اپوزیشن جماعتوں میں سے ایک اہم سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہوگی، اور یوں عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرسکے گی۔
تحریک انصاف اگرچہ حکومت میں ہے، اب اسے حکومتی معاملات سنبھالنے ہیں، لیکن وہ تنظیمی انتشار کا بھی شکار ہے۔ عام انتخابات کے بعد حکومتی عہدوں کے لیے پارٹی میں امیدواروں کی ایک طویل قطار تھی، ان میں سے کچھ ایڈجسٹ ہوچکے ہیں اور متعدد ایسے ہیں جنہیں سراب دکھایا گیا ہے، اور باقیوں کے لیے ’’انتظار فرمائیے‘‘ کا بورڈ لگ چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پہلے سو روز تک نومنتخب حکومت کو تنگ نہیں کریں گی، لہٰذا ورثے میں ملنے والے مسائل پر تحریک انصاف صرف پہلے سو روز تک کام کرے گی اور اس کے بعد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اسے طاقت ور اپوزیشن مل سکتی ہے۔ تاہم چونکہ تحریک انصاف کو حکومت دلائی گئی ہے اس لیے اس کے سرپرست ہر قیمت پر اسے اپوزیشن کی گرم ہوائوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن سندھ میں پیپلزپارٹی کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔ نومنتخب حکومت کے لیے خارجہ امور اور معاشی شعبے کے علاوہ اندرونی سلامتی کے حوالے سے دیامیر، اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات بڑے چیلنج ہیں۔ ان واقعات میں بھارتی لابی پوری طرح ملوث ہے۔ ان نئے خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک کے تمام اداروں کی بے مثال یکسوئی چاہیے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے سرحدوں پر پیش آنے والے بدترین حالات کا شکار چلا آرہا ہے، یہ صورتِ حال ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے مسلسل خطرے کی علامت بنی ہوئی ہے۔
نواز شریف کا مقدمہ ایک اہم ایشو
حکومت کے لیے نوازشریف کے خلاف مقدمے کی سماعت بھی ایک بڑا ایشو ہے۔ یہ مقدمہ ابھی احتساب عدالت میں بھی ہے اور ہائی کورٹ میں بھی اپیل کی سماعت ہورہی ہے۔ ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت میں نیب نے، نوازشریف کو جس نکتے پر سزا دی ہے، وہ نکتہ چیلنج ہی نہیں کیا۔ جب کہ نوازشریف کی جانب سے اسی نکتے کو مرکز مان کر بریت کی اپیل کی گئی ہے۔ نوازشریف کی اپیل کے جواب میں نیب اس نکتے کے حوالے سے خاموش ہے۔ ہائی کورٹ ضرور مقدمے کے میرٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ اہم نکتہ اپنے ذہن میں رکھے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’’نیب نے نائن اے فور پر بریت چیلنج نہ کرکے تسلیم کرلیا کہ درخواست گزار کرپٹ نہیں، زیر کفالت یا بے نامی دار ہونا بجائیِ خود کوئی جرم نہیں، تین سال سے کم سزا ہو تو تمام ہائی کورٹس معطلی کی درخواست منظور کرلیتی ہیں‘‘۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے نکتہ اٹھایا کہ نیب نے معلوم ذرائع آمدن اور اثاثے کی مالیت کا پتا نہیں لگایا جس کے بغیر آمدن سے زائد اثاثہ قرار دیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر کا مؤقف ہے کہ سزا نائن اے فائیو کے تحت ہوئی۔ اگر یہی نکتہ تسلیم کرلیا جائے تو نیب نے جب نائن اے فور میں بریت کو چیلنج نہیں کیا، اس کا قانونی مطلب یہی ہے کہ نیب تسلیم کرتا ہے کہ فلیٹس کرپشن یا بدنیتی سے نہیں خریدے گئے، نیب پراسیکیوٹر کے مطابق نائن اے فورمیں ہمارے پاس کافی ثبوت نہیں تھے اسی لیے یہ نکتہ زیرغور نہیں لایا گیا۔ نیب کا بنیادی مؤقف یہ بنتا ہے کہ پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے جائداد بنانا اور چھپانا بھی کرپشن ہے۔ ہائی کورٹ میں اس اپیل کی سماعت کے دوران ان نکات پر بحث نے اس مقدمے میں قانونی لحاظ سے دلچسپی بڑھا دی ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ اپیل سیاسی نہیں بلکہ قانونی نکات کی بنیاد پر چلے گی، لہٰذا نیب کے مؤقف میں تبدیلی یا کمزور دلائل نوازشریف کے لیے روشنی کا سامان بن سکتے ہیں۔ نوازشریف کو مقدمے میں اگر ریلیف مل گیا تو تحریک انصاف اور عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا، اسی لیے تحریک انصاف کے سیاسی دانش ور چاہتے ہیں کہ معاملات ایک حد کے اندر ہی رکھے جائیں اور حکومت احتساب کو سیاسی انتقام کا رنگ چڑھنے سے بچائے رکھے۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ سمجھتی ہے کہ حکومت بنانا، چلانا اور اپنی مدت مکمل کرنا عمران خان کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ قانون سازی اور آئینی ترامیم کے لیے عمران خان کو اپنے اتحادیوں کو راضی کرنا ضروری ہوگا اور مدت مکمل کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
نومنتخب حکومت اور آزاد کشمیر
نومنتخب حکومت کوکشمیر کے علاوہ عالمی سطح پر گرے لسٹ میں پاکستان کے نام کا بھی مسئلہ درپیش ہے۔ کیا نئی حکومت ملک میں تبدیلی لائے گی؟ یا پروفیسر حافظ سعید پراقوام متحدہ کی پابندیوںکو ٹھوکر مارنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ نوازشریف سمیت ہر حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بہت کوشش کی مگر بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی پالیسی پر چل رہا ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اُس کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی اور حکومت دونوں کو مل کر بھارت کی اس پالیسی کے آگے بند باندھنا ہوگا۔ ہائی کمشنر سے ملاقاتیں، اداکاروں اور کھلاڑیوں کا آنا جانا، بیک ڈور چینل سفارت کاری کی کوشش اُس وقت کامیاب ہوگی جب پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ٹوٹے گا، اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملکی ادارے، حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں بھارت کے خلاف ایک صفحے پر آجائیں۔ ماضی میں نوازشریف حکومت کے دوران یہی محاذ متاثر تھا اور ہائوس ان آرڈر نہیں تھا۔ نئی حکومت کو اس محاذ پر پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہوگا اور اقوام عالم سے منوانا بھی ہوگا، ورنہ ملاقاتوں میں مبارک بادیں اور بینڈ باجے سب بیکار ثابت ہوں گے۔ تحریک انصاف کے پاس سیاسی میدان میں خارجہ امور کے شعبے کے لیے تین سابق وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی، آصف احمد علی اور خورشید محمود قصوری کی صورت میں ماہر سفارت کار موجود ہیں، لیکن ان تینوں شخصیات کے کچھ مثبت اور منفی پہلو بھی ہیں۔ خورشید محمود قصوری اپنی کتاب کے باعث کوئی کردار ادا نہیںکرسکیں گے، اور شاہ محمود قریشی اگرچہ ریمنڈ ڈیوس ایشو پر کابینہ سے مستعفی ہوجانے کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن بھارت بھی دھوکا دینے اور کہہ مکرنیوں میں مہارت رکھتا ہے، اس نے کشمیر پر فوجی یلغار کی اور اس کے 90 فیصد حصے پر قبضہ جما رکھا ہے۔ آٹھ لاکھ کے لگ بھگ بھارتی فوج صرف وادی کشمیر میں موجود ہے جس نے کشمیریوں کے سر پہ سنگینیں تان رکھی ہیں، اور جو کوئی سر اٹھاتا ہے، اسے تہِ تیغ کردیا جاتا ہے۔ سید علی گیلانی سمیت حریت کانفرنس کی قیادت ہمہ وقت قید و بند کا شکار ہے، لیکن تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ان حریت رہنمائوں کے لیے ایک لفظ بھی اب تک ادا نہیں کیا گیا۔ کشمیریوں کو سڑکوں پر پاکستان زندہ بادکے نعرے لگانے اور آزادی کا مطالبہ دہرانے پر پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے، سری نگر کے قبرستان میں ایک لاکھ سے زائد نئی قبروں کا اضافہ ہوگیا ہے، یہ کشمیریوں کی نسل کُشی کے مترادف ہے۔ لیکن عمران خان نے اسے سادہ مسئلہ بناکر پیش کیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی تک محدود نہیں ہے۔ ایسا کیا گیا تو یہ کشمیریوں کے ساتھ صریح غداری اور ناانصافی ہوگی۔ عمران خان سے بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے بنی گالہ میں ملاقات کی، جس میں عمران خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے پاکستان بھارت مذاکرات ضروری ہیں، ہمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے، سارک سربراہ کانفرنس اسلام آباد میں ہونی چاہیے۔ جواب میں بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر مثبت دور کے آغاز کی امید ہے، توقع ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ تعلقات مثبت ڈگر پر چل نکلیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعات سمیت مسئلہ کشمیر کا مذاکرات کی میز پر ہی حل ممکن ہے جس کے لیے پاکستان نے کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا، اور وہ مذاکرات کی میز پر بھارت کا ہمیشہ کھلے دل کے ساتھ خیرمقدم کرتا رہا ہے، مگر مذاکرات سے ہمیشہ بھارت ہی بدکتا ہے، جس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بے اثر کرنے کی خاطر 1972ء میں پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا جس کے تحت یہ طے کیا گیا کہ دونوں ملک اپنے باہمی تنارعات کسی عالمی یا علاقائی فورم پر لے جانے کے بجائے صرف دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کریںگے۔ پاکستان آج بھی اس معاہدے پر کاربند ہے مگر بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آج تک دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر نہیں آیا، اور ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات وہ کشمیر کا تذکرہ ہوتے ہی رعونت کے ساتھ سبوتاژ کرچکا ہے۔ عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں اسی تناظر میں بطور خاص مسئلہ کشمیر کے حل کو پاکستان اور بھارت کے مابین قیام امن کی بنیاد بتایا۔ اگر بھارت کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ترک کردیتا ہے اور کشمیری عوام کی رائے کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کردیتا ہے تو پھر پاکستان اور بھارت کے مابین سرے سے کوئی تنازع ہی نہیں رہے گا۔ اس معاملے میں محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا بلکہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عملی پیش رفت کرنا ہوگی۔