ملک کی 15 ویں قومی اسمبلی نے حلف اٹھاکر کام شروع کردیا ہے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے نتائج بھی حسب توقع ہیں۔ پنجاب میں نئی حکمران بننے والی جماعت کو اسپیکر تو مانگے تانگے کا مل گیا لیکن وزیراعلیٰ کی تلاش جاری ہے۔ ایسا وزیراعلیٰ جو عمران خان کو بھی قبول ہو، اسٹیبلشمنٹ کا دستِ شفقت بھی اسے حاصل ہو اور دعوے کی حد تک وہ مسٹر کلین بھی ہو۔ مگر ایسا گھوڑا مل نہیں رہا، کہ عمران خان نے جو کچرا اکٹھا کیا ہے، جلدی میں جو الیکٹ ایبلز میدان میں اتارے، اور جہاز بھیج کر جو آزاد گھوڑے اپنے اصطبل میں لا باندھے ہیں اُن میں سے کوئی اس معیار پر پورا نہیں اتر رہا۔ پنجاب میں تحریک انصاف اندرونی دھڑے بندیوں، ناقص تنظیمی ڈھانچے اور اسٹیبلشمنٹ کے اثر کے باعث مسلسل دبائو میں ہے۔ اُن کے پہلے امیدوار جہانگیر ترین ہوتے جو انتخابات سے قبل ہی نااہل ہوگئے۔ شاہ محمود قریشی کو صوبائی نشست پر ہراکر ایک طرف کردیا گیا۔ علیم خان نیب مقدمات میں ملوث ہیں۔ ملک سلیم اقبال گھوڑوں کی ریس کے بکی بتائے جاتے ہیں۔ ؟؟؟ مسلم لیگ (ن) کے ایک لیڈر کے سالے کہے جاتے ہیں۔ اب چکوال کے راجا یاسر کا نام آیا ہے، وہ نیب کے سزایافتہ ہیں اور اپیل پر چل رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف نے جس امیدوار کو وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کیا ہے وہ سرکاری رقم اپنے ذاتی اکائونٹ میں منتقل کرچکے ہیں جو بعد میں واپس کرنا پڑی۔ انہیں ایک بار کرپشن کے الزام میں وزارت سے نکالا گیا مگر پھر وزیر بنادیا گیا۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی صورتِ حال ایسی ہی ہے۔
لگتا ہے کہ سیاسی کھیل کا الٹا سفر شروع ہوچکا ہے جو جمہوریت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ سفر نئے پاکستان کے تمام تر دعووں کے باوجود ہمیں وہیں لے کر جارہا ہے جہاں سے ہم الزام تراشیاں کرتے ہوئے لوٹے ہیں۔ بظاہر جو سیاسی منظرنامہ بن رہا ہے اس میں حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں شدید مشکلات میں ہیں۔ بہتری کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ عمران خان پر دبائو سب سے زیادہ ہے۔ وہ 25 جولائی کو پولنگ ختم ہونے تک مقبولیت کے نصف النہار پر تھے۔ گنتی شروع ہوئی تو متنازع ہونے لگے، اور نتائج آنے پر انہیں کامیابی اس الزام کے ساتھ ملی کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کرکے کامیابی دلائی ہے۔ عوام نے ان سے بے پناہ توقعات باندھی ہوئی ہیں لیکن مشکلات نے ان کے ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں۔ ان کے لیے سب سے پہلا امتحان ایک اچھی ٹیم کا انتخاب ہے، بدقسمتی سے جس کے لیے ان کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اسپیکر کے لیے اسد قیصر کی نامزدگی اس کی مثال ہے کہ اس سے پہلے کبھی صحافتی یا سیاسی ؟؟؟ کے علاوہ تحریک انصاف کے اندر بھی یہ نام زیر غور نہیں آیا۔ کے پی کے میں وہ ایک نان کلین اور مجبوری کا وزیراعلیٰ لاسکے ہیں۔ پنجاب میں تاحال وہ چراغ لے کر امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہیں اس ٹیم کے ساتھ ملک کی معاشی اور انتظامی مشکلات حل کرنی ہیں، سفارتی میدان میں آگے بڑھنا ہے جو ایک مشکل سفر لگتا ہے۔
عمران خان کا، کرنے کا دوسرا کام اپنے پارٹی منشور پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب پارٹی مضبوط اور جمہوری روایات کی حامل ہو۔ عمران خان پاناما کیس میں کہتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) خود اپنے سربراہ کا احتساب کرے، اُس سے پوچھے کہ اُس نے یہ منی لانڈرنگ کرکے پارٹی کو مشکل میں کیوں پھنسایا ہے؟ اب عمران خان کی باری ہے۔ پارٹی کے اندر سے کسی نے نہیں پوچھا کہ کل تک کے دہشت گرد الطاف حسین اور اُن کی آپ کے اپنے بقول دہشت گرد اور بھتا مافیا تنظیم کے ساتھ آپ نے انتخاب کے اگلے دن ہی اتحاد کیسے کرلیا! سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے جہانگیر ترین کو وفاق اور صوبوں میں حکومت بنانے کے لیے آزاد ارکان کو توڑنے اور خریدنے کی ذمے داری کس نے اور کیوں سونپی؟ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے لیے جام کمال کا نام جہانگیر ترین نے کیسے اور کیوں پیش کردیا؟ اور یہ کام بلوچستان تحریک انصاف کو نظرانداز کرکے کیوں کیا گیا؟ لیکن پارٹی کے اندر سے کسی نے یہ سوالات پوچھنے کی جرأت نہیں کی، کہ پارٹی جمہوری بنیادوں پر استوار ہی نہیں ہے۔ یہ سوالات اُن مخالفین نے اٹھائے جو ماضی میں یہ سب کچھ کرتے رہے تھے۔ عمران خان کو وزراء نامزد کرتے ہوئے زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔ ہوم ورک موجود نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ اور الیکٹ ایبلز کا دبائو زیادہ واضح ہے، اور منتخب ہونے والی لاٹ میں مسٹر کلین شاید ہی کوئی نکل سکے۔
عمران خان کو حکومتیں بنانے کے بعد اگلا چیلنج اپنے منشور پر عمل کرنے کے سلسلے میں درپیش ہوگا، اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ اگلے پانچ سال (اگر اتنے عرصے اقتدار میں رہ گئے تو) منشور کی کاپی پر نظر بھی نہیں ڈال سکیں گے۔ عمران خان کو سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہوگی کہ وہ ماضی میں جن امور پر تنقید کرتے رہے ہیں اور جو دعوے کرتے رہے ہیں اُن پر کتنا عمل درآمد کرتے ہیں۔ اِس وقت تک تو صورتِ حال یہ ہے کہ اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے وزیراعظم ہائوس استعمال نہ کرنے اور چاروں گورنر ہائوس عوام کے لیے کھولنے کا اعلان کیا مگر اب اس معاملے میں لیت و لعل اور بہانہ سازی کررہے ہیں۔ انہوں نے اداروں کی بالادستی کی بات کی اور ملک کے سب سے بڑے انصاف کے ادارے سے نااہل ہونے والا شخص اس تقریر کے دوران اور بعد کے معاملات میں سب سے آگے ہے اور عملاً ڈپٹی وزیراعظم کا کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے اس تقریر میں کہا کہ جہاں جہاں دھاندلی کی شکایت ہے ہم مدد کریں گے، لیکن خود ان کے لاہور کے حلقے کی دوبارہ گنتی شروع ہوئی تو دوڑ کر سپریم کورٹ سے اسے رکوانے کا حکم لے آئے۔ چند روز بعد اقتدار سنبھالنے والی جماعت اور اس کے سربراہ کے لیے ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں سے بچیں، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ایک تو ویژن کی کمی اور کمزور ٹیم کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکے گا، دوسرے اسٹیبلشمنٹ اور اُس کے لائے ہوئے الیکٹ ایبلز ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ اس لیے وہ ایک قدم آگے بڑھنا چاہیں گے تو شاید دو قدم پیچھے آنا پڑے۔
دوسری جانب اپوزیشن ہے جو غیر شفاف انتخابات اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے یک نکاتی مؤثر ایجنڈے کے باوجود منتشر ہے۔ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی قاف لیگ اور عوامی مسلم لیگ کے سوا اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام گنتی کے دوران ہی لگادیا تھا۔ دو دن بعد ایک مؤثر اے پی سی بھی بلالی تھی۔ لیکن اہلِ سیاست ایک دوسرے کے ساتھ اپنے حساب بے باق کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے اس مطالبے کو تمام جماعتوں نے اسی روز مسترد کردیا کہ اپوزیشن کے منتخب ارکان بطور احتجاج حلف نہ اٹھائیں۔ سب نے پارلیمنٹ میں جانے کا راستہ اپنایا۔ اگلی اے پی سی میں فضل الرحمن کے سوا تمام مرکزی قیادت غائب تھی۔ جی ڈی اے اور بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کے ساتھ آچکی ہیں اور اب اپوزیشن پر آخری ہتھوڑا آصف زرداری چلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور اے این پی کے مشترکہ اجلاس میں طے ہوا تھا کہ وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ (ن)، اسپیکر کے لیے پیپلز پارٹی، اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار کو تمام اپوزیشن جماعتیں ووٹ دیں گی، لیکن اب آصف زرداری نے کسی صورت شہبازشریف کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کردیا ہے اور ان سے اپنا امیدوار تبدیل کرنے کے لیے کہا ہے جو مسلم لیگ (ن) کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ ایسی صورت میں باقی عہدوں پر انتخاب میں بھی اپوزیشن منتشر نظر آئے گی اور علامتی طور پر بھی مزاحمت یا متحدہ اپوزیشن کا تاثر نہیں دے سکے گی۔ یہ صورتِ حال اسٹیبلشمنٹ کو تو سوٹ کرتی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کو ہرگز نہیں۔ ابھی تو انتخابی عذرداریوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے جس میں سب سے زیادہ دبائو حکمران جماعت پر ہوگا۔ نیب کی کارروائیاں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو پریشان کریں گی اور ان پر حکومتی سمجھوتا حکومت کی اخلاقی حیثیت کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔ ایسے میں اگر نوازشریف اور مریم ضمانت پر رہا ہوجائیں تو حکومت کو دھرنوں جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے لگتا یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مشکلات میں اپنا وقت گزاریں گی۔ عوام کو کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ملے گی، البتہ اسٹیبلشمنٹ اور الیکٹ ایبلز موجیں کریں گے۔ حکومت مضبوط ہوئی تو اپوزیشن فارورڈ بلاکوں کے نام پر سکڑتی جائے گی، اور اگر ناکام ہوئی تو اس کے ارکان ٹوٹتے جائیں گے۔ کوئی اصولی سیاست اور انتظامی استحکام تو ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘ والا معاملہ نظر آتا ہے۔