انتخابی نتائج خواہ کچھ بھی ہوں۔۔۔ ایوانوں میں نمائندگی ملے یا نہ ملے ۔۔۔ ووٹ تھوڑے ملیںیا زیادہ۔۔۔ یہ بحرحال ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا اعتراف اپنے ہی نہیں غیربھی بارہا کر چکے ہیں کہ جماعت اسلامی اس ملک کی سب سے منظم اور جمہوری جماعت ہے جس میں ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر جمہوری اقدار کو روبہ عمل لایا جاتا ہے اور جمہوریت کا محض راگ ہی نہیں الاپا جاتا بلکہ جمہوری اقدار اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔۔۔ جماعت کے نامزدکردہ امیدواروں کو لوگ منتخب کریں یا نہ کریں تاہم ان کی امانت اور دیانت سے انکار نہیں کرتے اور یہ صلاحیت بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت ہی کے کارکنوں ہی کو عطا کی ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں وہ مایوسی، کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے ۔۔۔ کہ ان کے رب کا یہی حکم ہے کہ لاتقنطو من الرحمۃ اللہ۔۔۔ علامہ اقبالؒ نے ایسے ہی لوگوں میں فرمایا تھا کہ
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے
۔ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے فوری بعد جماعت اسلامی نے پہلے مرکزی مجلس عاملہ اور پھر وسیع تر مشاورت کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد کیا جس میں انتخابی نتائج اور ملک کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تمام امور کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث مباحثہ کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کی گئی۔۔۔ اجلاس میں جو قرار داد منظور کی اس میں غیر مبہم الفاظ میں 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کو غیر شفاف ،غیر جانبدارانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی بہت بڑی ناکامی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ مرکزی شوریٰ کی نظر میں اگرچہ پارلیمانی اصلاحات کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن کو زیادہ با اختیار بنایا گیا، لیکن وسیع اختیارات اور 20ارب روپے کے بھاری بجٹ کے باوجو د الیکشن کمیشن مکمل ناکام رہاہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنی پسند کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاست و انتخابات میں مداخلت تو کسی نہ کسی انداز میں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن انتخابات 2018ء کے مطلوبہ نتائج کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے ان کی واضح اور ہر کسی کو نظر آنے والی مداخلت ہوئی ہے جو ملک و قوم کے لیے ہی نہیں خود اداروں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس الیکشن کمیشن سے وضاحت مانگنے میں حق بجانب ہے کہ وہ بتائے کہ20کروڑ روپے کی بھاری لاگت سے بننے والا آر ٹی ایس کیوں ناکام ہو ا یاکس نے کن مقاصد کے تحت اسے ناکام بنایا۔انتخابی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے آر او ز کی طرف سے رات 4بجے تک انتخابی نتائج کااعلان کیوں نہیں ہوسکااور اگلی رات 4بجے تک انتخابی نتائج کہاں بنتے رہے۔ 16لاکھ 78ہزار ووٹ کیوں مسترد ہوئے۔ اور قومی اسمبلی کے پچاس اور صوبائی اسمبلیوں کی 120نشستوں پر جیتنے والے کے ووٹوں کے فرق سے مسترد شدہ ووٹ زیادہ کیوں تھے۔مہر شدہ بیلٹ پیپرز کچرا کنڈی اور اسکولوں کے ڈیسکوں سے کیوں مل رہے ہیں اور ان مہر شدہ بیلٹ پیپرز پر مہریں بلے پر نہیں بلکہ کتاب دوبارہ گنتی میں ووٹوں کا فرق کیوں نکل رہاہے اور کیوں ہارے ہوئے جیت اور جیتے ہوئے ہاررہے ہیں۔ اسلام آباد،مالاکنڈڈویژن سمیت بعض علاقوں میں انتظامیہ کی طرف سے ایم ایم اے کے اُمیدواران کی انتخابی مہم میں ناروا اور مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اسی طرح انتخابی نتائج سے واضح ہے کہ دینی جماعتوں کی قیادت اور امیدواران کے حلقوں کو خصوصی ہدف بنایاگیا۔ امریکہ اور بھارت کی طرف سے پاکستان میں دینی جماعتوں کی شکست پر جشن کے انداز کے بیانات نے مزید واضح کردیاہے کہ دینی جماعتوں کے خلاف دھاندلی کے اس کھیل میں ملکی کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی ۔ جماعت اسلامی پاکستان ان نتائج پر دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مسلسل احتجاج کرے گی۔ نیز ہم انتخابی قواعد کے مطابق ٹربیونلز الیکشن کمیشن اور عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان او ر پی ٹی آئی کے امتحان کا وقت آگیا ہے ۔ اب ان کی کارکردگی بیانات نہیں عمل کے ترازو میں تولی جائے گی ۔جماعت اسلامی اگرچہ پاکستانی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے اور انجینئرڈانتخابی نتائج کے خلاف جدوجہد کے لیے متحدہ اپوزیشن کاحصہ ہے اور اس سلسلہ میں مثبت اندازمیں احتجاج میں حصہ لیں گے۔ تاہم سیکولر اور لبرل ایجنڈے کو ناکام بنانے ، آئین پاکستان کی اسلامی دفعات اور ختم نبوت و ناموس رسالت کے قوانین او ر آئینی شقوں کے تحفظ اور سود کے خاتمے کے لیے ہم نہ صرف اپنی جماعت اور دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے بلکہ تمام دینی و مذہبی قوتوں کے ساتھ مل کر بھی بھرپور جدوجہد کریں گے۔ برسراقتدار حکومت کے ساتھ جہاں ہم نیکی و تقویٰ اور قومی سلامتی کے کاموں پر تائید و تعاون کریں گے وہیں برائی اور بے حیائی و فحاشی کے ہر کام کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔جماعت اسلامی پاکستان ایک مرتبہ پھر اعلان کرتی ہے کہ کرپشن فری پاکستان کے قیام اور احتساب سب کا کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ او ر ہم پانامہ لیکس میں شامل 436کرپٹ عناصر کے بلاامتیاز ،منصفانہ اور بے لاگ احتساب او ر لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے نیب اور عدلیہ کے دروازوں پر دستک دینے کے علاوہ کرپشن کے خلاف قوانین کی اصلاح اور پارلیمنٹ کے اندر و باہر احتجاج کاراستہ اختیار کریں گے۔۔۔!!!