کتاب : اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو
(ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب Introduction to Islam
کا اردو ترجمہ)
مترجم : انجینئر منور علی قریشی
صفحات : 372
قیمت : 500 روپے
ناشر : کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمد مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور
فون نمبر : 042-37320318
فیکس : 042-37239884
ای میل : kitabsaray@hotmail.com
کراچی میں ملنے کا پتا:فضلی بک سپر مارکیٹ، اردو بازار، نزد ریڈیو پاکستان، کراچی
فون:021-32212991,021-32629724
اللہ جل شانہٗ نے خیر مجسم شخصیتیں بہت کم پیدا کی ہیں اور اسی طرح شرِ مجسم بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ خیر و شر کے مجموعے زیادہ ہوتے ہیں۔ جن پر خیر غالب ہوتا ہے وہ نیک، اور جو شر میں ڈوبے ہوتے ہیں وہ بد اور بدکردار گنے جاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں جو حضرات خیرِ مجسم گنے گئے ہیں اُن میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک نمایاں عالم دین تھے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ ایک ممتاز مجتہد، جید فقیہ اور بلند پایہ عالم دین تھے۔ آپ کی150 کتب، ہزار کے قریب مقالے عالمانہ رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ 22 زبانوں بشمول اردو، فارسی، عربی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، یونانی اور روسی پر عبور رکھتے تھے۔ آپ کا مطالعہ وسیع تھا اور بیان پُرتاثیر تھا۔ شاید اسی وجہ سے مختلف اقوام و ادیان کے تاریخی اور تقابلی مطالعے، مقالات اور تصانیف کا علمی اور تحقیقی معیار نہایت بلند ہے۔
آپ حیدرآباد دکن میں 9 فروری 1908ء کو مفتی ابو محمد خلیل کے گھر پیدا ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی کیا۔ سوبورن یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقوامی قوانین پر تحقیقی مقالہ ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ اگلے سال ہی سوبورن یونیورسٹی پاریس سے ’’عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘‘ پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹرز آف لیٹرز (D.Litt) کی سند پائی۔ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی اور جرمنی، فرانس، ترکی کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریس کی۔ آپ فرانس میں پناہ گزین کے طور پر1948ء سے 1996ء تک رہے، وہاں سے امریکہ چلے گئے اور 17 دسمبر 2002ء کو وفات پا گئے۔ خدمتِ قرآن الحکیم کے حوالے سے آپ نے قرآن مجید کے تراجم تین زبانوں فرانسیسی، انگریزی اور جرمن میں کیے۔ فرانسیسی زبان میں ترجمہ Le Saint Coran فرانسیسی بولے جانے والے ممالک، افریقی ممالک اور فرانس میں کثرت سے پڑھا جانے والا ترجمہ شمار ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ پاریس میں 1959ء میں شائع ہوا اور یہ اب تک 30 مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔ آخری ری پرنٹ 2 ملین (بیس لاکھ) کی تعداد میں شائع ہوا۔ سیرت پر فرانسیسی زبان میں Le Praphete de Islam بہت مشہور ہے جو دو جلدوں میں ہے۔ زیر نظر کتاب اسلامک کلچرل سینٹر پاریس سے ’’خط کتابت کے ذریعے تعلیم دینے کے نصاب‘‘ کی ضرورت کے لیے شائع کی گئی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ اسلامک کلچرل سینٹر پیرس (پاریس) کی یہ عاجزانہ کوشش روز بروز زیادہ توجہ حاصل کررہی ہے۔ نہ صرف دوسری بڑی اشاعت… اور اتنی بڑی ہی بغیر اجازت چھپنے والی پاکستانی اشاعت بھی… ختم ہوگئی ہے، بلکہ بہت سی زبانوں میں ترجمے بھی ہورہے ہیں۔
اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے متن پر نظرثانی کی گئی ہے، اور مزید مواد اور پیراگراف شامل کیے گئے ہیں تاکہ کام کو ممکنہ حد تک مکمل کردیا جائے۔ خاصی بڑی تعداد میں حوالہ جات شامل کیے گئے ہیں کہ بعضوں کے تجسس کو مطمئن کیا جا سکے اور دوسروں کے شکوک کو رفع کیا جا سکے۔
چھپائی یہاں نہیں ہوئی۔ پروف خوانی جانفشانی، کوشش اور احتیاط سے جناب محمد حبیب اللہ نے کی ہے، جن کے ہم انتہائی شکر گزار ہیں۔
خدا… جس کے لیے اولاً، آخراً تمام تعریفیں ہیں… کی خصوصی عطا سے یہ کوشش بار آور ہوئی ہے۔
پہلا ایڈیشن (اشاعت) چند ماہ ہی میں ختم ہوگیا تھا۔ دوسری اشاعت کے موقع پر متن کو بہتر بنانے کے لیے کئی اغلاط کی اصلاح کی گئی، جس کو امید ہے سراہا جائے گا۔ بے شمار دوستانہ آراء جو مختلف حلقوں کی طرف سے موصول ہوئیں، کا شکریے کے ساتھ اعتراف کیا جاتا ہے۔‘‘
پہلی اشاعت کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام پر ’’خط کتابت کے ذریعے تعلیم دینے کے نصاب‘‘ کی وسیع ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی شریکِ کار، خاص طور پر پروفیسر محمد رحیم الدین صاحب کی مدد سے ادنیٰ سی کوشش کی گئی ہے۔ اور پندرہ یک موضوعی، موجودہ سیریز اسلامی کلچرل سینٹر اور مسجد پیرس کی سر پرستی میں تیار کی گئی ہے۔
اسلام کے بارے میں عمومی خدوخال، اس کی تاریخ، ثقافت، مختلف موضوعات اور زندگی کے متنوع امور کو سلجھانے کے طریقے دیے گئے ہیں۔ ہر موضوع یک جہتی ہے اور ہر پہلو سے مکمل ہے۔ پھر بھی کچھ تکرار ناگزیز ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ہے کہ زندگی متنوع ہے اور انسانی سرگرمیاں اکثر ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو ڈھانپ رہی ہوتی ہیں۔
مزید معلومات، رائے یا مفید تنقید کے لیے اسلامک کلچرل سینٹر، معرفت ’’مسجد‘‘ پاریس فرانس سے رابطہ فرمایئے۔‘‘
جس کو ہم اردو میں پیرس لکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب اس کو پاریس لکھتے تھے۔ اس گراں قدر کتاب میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
پیغمبر اسلام… آپؐ کی حیاتِ طیبہ، اسلام کی اصلی تعلیمات کا تحفظ، زندگی کا اسلامی تصور،دین اور عقائد، پرہیز گارانہ زندگی اور اسلام کے مذہبی معمولات، روحانی زندگی کی تربیت، اخلاقیات کا نظام، اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا عدالتی نظام، اسلام کا معاشی نظام، مسلمان عورت، اسلام میں غیر مسلموں کی حیثیت، علوم اور فنون میں مسلمانوں کی شراکت، اسلام کی عمومی تاریخ، مسلمان کی روزہ مرہ کی زندگی، نقشہ مسلم حکومت کے تحت سرزمین… ایک عہد یا کسی دوسرے عہد میں نماز کے مختلف آسن (خاکے)، نقشہ جو قبلہ کی جہت ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں، مختلف حکایتِ فکر (سنی، شیعہ وغیرہ) کے اختلافات، نماز صرف عربی میں کیوں؟، خالص قمری کیلنڈر ہی کیوں؟، ضمیمے، نماز کے لیے دیے گئے نصوص/متن، نماز کے متن کا ترجمہ، اہم اسلامی تہواروں کا جدول، روزانہ نمازوں کا نظام الاوقات… خلافِ معمول خطوں میں، قطبی خطوں کا نظام الاوقات، شخصیات، اشاریہ
نسطوری ایک مسیحی عقیدہ ہے جو اس امر کو باور کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو الگ الگ افراد تھے، ایک انسان اور ایک الٰہی۔ یہ عقیدہ قسطنطیہ کے بشپ نسطویرلس (428-431ء) کے درمیان بشپ رہے کا تھا۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ تحریر فرماتے ہیں (ص 256) ’’ہم اس جز کا اختتام دور حاضر کی ایک عیسائی دستاویز سے کرتے ہیں۔ یہ ایک نسطوری بشپ کے خط کا حوالہ دیتی ہے جو اس نے اپنے دوست کو لکھا جو محفوظ کرلیا گیا ’’یہ طائعی (عرب) جنہیں خدا نے ہمارے زمانے میں غلبہ عطا کیا ہے، ہمارے حاکم ہوگئے ہیں، مگر وہ عیسائی مذہب کی ہرگز مخالفت نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس وہ ہمارے عقیدے کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے پادریوں اور ولیوں کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے گرجائوں اور خانقاہوں کو عطیات بھی دیتے ہیں‘‘۔
(Assesmani Poial Orient, III 2.P.Xc Vi)
یہ اقتباس اس کتاب سے ہم نے منتخب کیا ہے۔ کتاب کا نام قرآنی آیت ادخلوا فی السلم کافہ کا اردو ترجمہ ہے۔‘‘
کتاب مجلّد ہے اور نیوز پرنٹ پر طبع ہوئی ہے۔ اردو کے اسلامی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔
اس کتاب کا ایک اردو ترجمہ اس سے پہلے بھی شائع ہوچکا ہے، جو ’’اسلام کیا ہے‘‘ کے عنوان سے سید خالد جاوید مشہدی صاحب نے کیا، جس کو بیکن بکس گلگشت کالونی ملتان نے طبع کرایا۔ تقابل کے بعد ہماری رائے ہے کہ منور علی قریشی صاحب کا ترجمہ کئی پہلوئوں سے مشہدی صاحب کے ترجمے سے بہت بہتر اور عمدہ ہے۔ اللہ پاک دونوں حضرات کو خیر سے نوازے۔
……ضضض……
کتاب : ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
مغرب اور آزادیٔ اظہار
مصنف : محمد متین خالد حفظہ اللہ
(Mateenkh@gmail.com)
صفحات : 400 قیمت800 روپے
ناشر : علم و عرفان پبلشرز۔ الحمد مارکیٹ 40 اردو بازار لاہور
فون : 042-37223584, 37232336
ای میل : ilmoirfanpublishers@hotmail.com
ویب گاہ : www.ilmoirfanpublishers.com
عاشقِ رسولؐ محمد متین خالد صاحب جنتی شخص ہیں، اللہ پاک نے ان کو سیال قلم عطا کیا ہے، ان کی یہ کتاب ’’ناموسِ رسالتؐ، مغرب اور آزادیٔ اظہار‘‘ اسلام اور ناموسِ رسالتؐ کے خلاف مغرب کے تعصب، دہرے معیار اور بھیانک سازشوں پر مبنی تحقیقی دستاویز ہے جس میں ناقابلِ تردید حقائق، تہلکہ خیز واقعات اور ہوش ربا انکشافات مرتب کردیے گئے ہیں۔
یہ ایک منفرد اور اچھوتے موضوع پر لکھی جانے والی شاہکار کتاب ہے جو اپنے دامن میں سموے ہوئے ہے:
٭ انسانی آزادی، انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کے نام نہاد علَم برداروں کے مکروہ چہروں کی نقاب کشائی۔
٭ بے لگام آزادیٔ اظہار کے خبط میں مبتلا مغرب کی اسلام کے خلاف ناپاک سازشوں کے زہریلے واقعات
٭ دلائل و براہین اور حقائق و انصاف کے میدان میں مغرب کی علمی و اخلاقی شکست کی سبق آموز کہانی
٭ اخلاق، مساوات اور رواداری کا درس دینے والے مغربی تھنک ٹینکس کی ہٹ دھرمی، تنگ نظری، رعونت، عدم برداشت اور دشنام طرازیوں کے قابلِ شرم نمونے
٭ دینِ اسلام کے دنیا بھر میں غیر معمولی پھیلائو سے کلیسا کی پریشانی اور بدحواسی کے قابلِ دید مناظر
اس کتاب کے متعلق یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو مسلمانوں کی بے حسی اور بے بسی کا نوحہ کرتے ہوئے، ان کے خوابیدہ ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے، ان کی دینی غیرت و حمیت کو جگاتے ہوئے، انہیں احساسِ ندامت کے ساتھ رلاتے ہوئے، ان کی ذمے داریوں کا فریضہ یاد دلاتے ہوئے ایک ولولۂ تازہ اور ضربِ کلیمی عطا کرتی ہے۔
جناب عبدالمتین خالد تحریر فرماتے ہیں:
’’دینِ اسلام اپنی آفاقی تعلیمات اور ہمہ گیر سچائیوں کے سبب پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مغرب اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس کے مقابلے میں بہتر خیالات و نظریات پیش کرتا، تاکہ موازنہ کرنے میں سب کو آسانی رہتی، مگر اسلام کے مقابلے میں وہ کوئی بھی ایسا نظریہ پیش نہیں کرسکے جسے انہیں اپنے معاشرے میں دائمی پذیرائی حاصل ہو، بلکہ ان کے ہاں ایسے غیر فطری اور ناقابلِ عمل احکامات کثرت سے موجود ہیں جو کبھی نافذالعمل نہیں رہے۔ ایسے مافوق الفطرت نظریات اُن کے ماتھے پر مستقل کلنک کا ٹیکا ہیں۔ انانیت کے غرور میں مبتلا وہ شدید طور پر دینِ اسلام سے الرجک ہیں، چنانچہ انہوں نے ایک عالمگیر پراپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کے اذہان میں دینِ اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میڈیا کی مدد سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے انہیں رجعت پسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد کا خطاب دیا، مگر انہیں اپنے مذموم مقاصد میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ پھر انہوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں ہرزہ سرائی شروع کردی۔ قرآن مجید اور مساجد کی بے حرمتی کو اپنا معمول بنالیا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں سے تضحیک آمیز اور دل آزار سلوک ہونے لگا۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے ان توہین آمیز اور غیر انسانی اقدامات کو قانونی شکل اور اخلاقی جواز دینے کے لیے مغرب نے ’آزادیٔ اظہار‘ کا سہارا لیا اور اس پر نہایت بودا مؤقف اختیار کیا کہ ہر شخص کو آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق ہے جس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ حقوقِ انسانی کا راگ الاپنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے نہ صرف اخلاق و قانون اور امن و امان سے مشروط ہوتی ہے بلکہ اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ بے لگام ہوجائے تو معاشرے کا امن و سکون تباہ ہوجاتا ہے۔ آزادی اور انارکی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کی توہین کرکے، دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو شدید ترین ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا کہاں کی آزادیٔ اظہارِ رائے ہے؟ اپنے متنازع ترین خیالات پیش کرکے دوسروں کے حقوق پامال کرنا کہاں کی حریت ہے؟ کسی کے جذبات و احساسات پر کچوکے لگاکر عارضی تسکین حاصل کرنا کہاں کا حق ہے؟ کیا نفرت، اشتعال، توہین اور تعصب کو کسی بھی طرح آزادیٔ اظہارِ رائے کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یہ آزادیٔ اظہار نہیں بلکہ آزادیٔ آزار ہے جسے مغرب نے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کررکھا ہے۔ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ من حیث القوم مغرب بدترین منافقت کا شکار ہے۔ ان کے ہاں آزادیٔ اظہارِ رائے کا دہرا معیار ہے۔ ہٹلر کی تعریف یا ہولو کاسٹ کے بارے میں وہ ایک لفظ نہیں بول سکتے۔ کیا وہاں ان کی آزادیٔ اظہار گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسا کرنے پر انہیں فوراً جیل جانا پڑے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین یا ملکہ کی شان میں گستاخی پر وہاں کا قانون معاً حرکت میں آجاتا ہے۔ امریکی پرچم کو جلانے پر سنگین سزا متعین ہے۔ یہاں آزادیٔ اظہارِ رائے کا اعلان کیوں نہیں ہوتا؟ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مغرب اسلام سے مذہبی تعصب میں اندھا ہوچکا ہے!!
یہ کتاب ایسے ہی ہوش ربا اور اکتشافاتی حقائق و واقعات پر مبنی ہے جو نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تنگ نظری، تاریک خیالی، اندھے تعصب اور دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ ان کی نام نہاد روشن خیالی، رواداری اور برداشت کے دعووں کی قلعی بھی کھول رہی ہے۔ میں اپنی اس معمولی کاوش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں، اس کا فیصلہ قارئین اس کتاب کے مطالعے کے بعد کریں گے۔ اہلِ علم حضرات سے گزارش ہے کہ کتاب کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے اپنی قیمتی آرا ضرور ارسال کریں۔ شکریہ!‘‘
جناب جمیل احمد عدیل ایسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور تحریر فرماتے ہیں:
’’مکرم محمد متین خالد کی اس علمی کاوش کو، میں نے ان تناظرات میں دیکھا، تو مجھ پر کھلا کہ یہ سعی واجب نہیں، فرض تھی۔ انہوں نے عرق ریزی کے ساتھ متعلقہ مواد کو اخبارات و جرائد سے تلاش کیا ہے۔ ان اوراق کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد اصولی مباحث کو صداقت سے لبریز بیانیے میں منقلب کرکے ایک تاریخی دستاویز بناکر، انہوں نے گویا فرضِ کفایہ ادا کردیا ہے۔ متین صاحب کے متعلق میرا ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے Has Broad Shoulders، واقعتا وہ غیر معمولی استعداد کے مالک ہیں، دستِ فطرت نے ان کو اعلیٰ سکت سے نوازا ہے، بڑی ذمے داریوں کو اٹھا سکتے ہیں۔ سو ہزاروں صفحات کو Synoptical انداز میں پیش کردینا ان ہی کا کمال ہے… بلاشبہ پوری کتاب آخری سطر تک! سبحان اللہ! برسوں کی فکری ریاضت اور قرنوں سے محبتِ رسولؐ کی حرارت سے تپیدہ قلب کا رشحہ و ماحصل ہے۔ بیسیوں کتابوں سے بے نیاز کردینے والی یہ تصنیف عمر بھر کے مطالعے کا فشردہ ہے۔ دل وجد کی حالت میں ہے۔ یہ ایسی وقیع دستاویز ہے جو ہدایت کے طالب کی دنیا بدل کر رکھ سکتی ہے۔ ایک ایک لفظ نہایت ذمے داری کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ جذبہ و احساس کے وفور کے باوصف معروضی ثروت مندی کی مظہر اس کتاب میں وہ تمام منطقات سمٹ آئے ہیں، جو عالمی سطح پر پھیلائے گئے مخصوص بلکہ مذموم مؤقف کا مکمل اور مسکت جواب ہیں۔
عہدِ رواں اسی طرز اور اسلوب کا متقاضی تھا کہ واقعہ یہی ہے: عصر حاضر میں خاص طور پر نیا علم کلام، اپنی جدید ساحری کے ساتھ مؤثر کردیا گیا ہے۔ میڈیا کا طلسم حسبِ ضرورت ’مائنڈ سیٹ‘ کی تشکیل میں یوں اپنا کردار ادا کرتا ہے کہ اوسط ذہانت کا فرد اس عیاری کی تہ تک نہیں پہنچ پاتا۔
جناب محمد متین خالد دراک ذہن کے مالک ہیں، سو متذکرہ واردات ان کی عقابی نگاہ سے بھلا کہاں چھپ سکتی تھی! چنانچہ انہوں نے براہین کے بھیس میں درآنے والے مؤقف کی حقیقت کو شناخت کرنے میں ایک آن کا توقف اختیار نہیں کیا۔ ان کی فکرِ رسا نے اس عمیق چال کی جملہ جہتوں سے فوری آگہی حاصل کرکے یکسر غیر جذباتی انداز میں ایک ایک دلیل کو، دلیل کی معروضیت کے ساتھ رد کیا ہے۔
محمد متین خالد صاحب نے اس کتاب کے نیر و تاباں منطقات میں دینِ اسلام کی حقانیت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کو ایک مستقل تہذیبی قدر کے طور پر متعارف کیا ہے اور اس سچائی کو پوری قوت سے سامنے لے آئے ہیں کہ اس Permanent Value سے انحراف انسانیت کا سفر معکوس ہوگا۔
کیا کروں میرا دل اس گواہی کو چھپا نہیں سکتا کہ یہ ضخیم تصنیف ایک گلِ سرسبد کی مثال ہے۔ ایسے Gem کی نظیر ہے جس کی چکا چوند سدا کے لیے اپنے محاصرے میں محصور کرلینے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی دنیا و عقبیٰ میں اس سعی پر مصنف کو اجر عطا فرمائیں گے۔ علمی دنیا میں یہ کتاب ایک مستقل اور مستند حوالہ بنے گی ان شاء اللہ‘‘۔
کتاب سفید عمدہ کاغذ پر خوبصورت چھپی ہے۔ مجلّد ہے اور رنگین سرورق سے مزین ہے۔ ایسی کتابوں کی قیمت کم سے کم رکھنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچ سکیں۔