۔2018ء کے انتخابات اور انتخابی دھاندلی کا سوال

پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا سوال ہمیشہ سے نہ صرف زیر بحث رہا ہے بلکہ جب بھی ملک میں انتخابات ہوئے، ان کی شفافیت کوکسی نہ کسی سطح پر چیلنج کیا گیا۔ 2018ء کے انتخابی نتائج کو بھی ہارنے والی جماعتوں سمیت اہلِ دانش کا ایک بڑا طبقہ چیلنج کررہا ہے، اور الزام عاید کر رہا ہے کہ یہ انتخابات بھی غیر منصفانہ اور غیر شفاف تھے۔ ہماری سیاست کے دو بڑے المیے ہیں۔ اول پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی ریاستی، حکومتی اور الیکشن کمیشن کی عدم صلاحیت، اور دوئم، سیاسی جماعتوں کی جانب سے شکست کو قبول نہ کرنے کی روایت۔
2013ء کے انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابی دھاندلی کے خلاف دھرنا سیاست کا آغازکیا تو اس کے نتیجے میں پہلی بار انتخابی دھاندلی سیاست کا بڑا موضوعِ بحث بنی۔ اس کے نتیجے میں دو اہم کام ممکن ہوسکے یعنی انتخابی دھاندلی پر عدالتی کمیشن بنا، اور انتخابی اصلاحات کے نام پر 33 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ عدالتی کمیشن نے اپنے فیصلے میں دھاندلی کے بجائے انتخابی بے ضابطگیوں پر چالیس سے زیادہ تجاویز دیں اور کہا کہ الیکشن کمیشن خود کو مؤثر بناکر مستقبل میں شفاف انتخابات کروا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عدالتی کمیشن نے انتخابی عمل میں سامنے آنے والی ان بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن میں کسی کو بھی جوابدہ نہیں بنایا، اورنہ ہی کسی کو سزا دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں بہت سی خرابیاں حالیہ انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملیں جن سے شفافیت کی نفی ہوتی ہے۔
اسی طرح 2014ء میں انتخابی اصلاحات پر جو کمیٹی بنی اُس کی جانب سے الیکشن کمیشن کی شفافیت، خودمختاری، صلاحیتوں اور دیگر امور میں بھی کوئی بڑی کامیابی دیکھنے کو نہیں ملی۔ سیاست اور الیکشن اب محض دولت والوں کا کھیل بن کر رہ گئے ہیں۔ دولت کی ریل پیل نے ہمارے جمہوری نظام کو نہ صرف کھوکھلا کردیا ہے بلکہ اس نے متوسط طبقے اور غریب سیاسی کارکن کو عملاً انتخابی سیاست سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں جو بھی قوانین بنائے ہیں ان کی حیثیت محض دکھاوے کی ہے، اور اپنے ہی بنائے گئے قوانین پر مکمل عمل درآمد کروانے کی اس میں صلاحیت موجود نہیں۔ اسی طرح ووٹ ڈالنے کے عمل میں ووٹر کو جو سست روی دیکھنے کو ملی وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ اگر ملک میں ووٹ ڈالنے کی شرح 70 سے80 فیصد ہوجائے تو کیا الیکشن کمیشن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو ممکن بناسکے؟ ون ونڈو آپریشن کے تحت ووٹ ڈالنے کا عمل ہونا چاہیے، لیکن یہاں دو دفعہ ووٹر کو انتخابی عملہ کے پاس جانا پڑتا ہے جو وقت کا ضیاع ہے۔
آج ہارنے والی جماعتیں انتخابات کو دھاندلی پر مبنی قرار دے کر اسے چیلنج کررہی ہیں اور الیکشن کمیشن پر الزام لگارہی ہیں کہ اس نے ریاستی اداروں کے ایما پر عوامی مینڈیٹ کو چرایا ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکز میں حکومتیں رہی ہیں، ان دونوں بڑی جماعتوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی مدد سے الیکشن کمیشن کو خودمختاری اور آزادی دینے کے معاملے میں سستی کیوں دکھائی؟کیا وجہ ہے کہ ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں الیکشن کمیشن ایک بے بس ادارہ رہا؟ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ارکان سمیت مرکزی اور صوبائی سطح پر نگران حکومتوں کی تشکیل کا عمل بھی ان ہی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ممکن ہوا تھا۔
اس لیے آج جب سیاسی جماعتیں 2018ء کے انتخابی نتائج کو چیلنج کررہی ہیں تو ان کو سب سے پہلے اپنی ناکامی کو بھی قبول کرنا چاہیے کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے اس اہم ادارے کو یرغمال بنائے رکھا، الیکشن کمیشن کی ناکامی کی ذمے دار دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔جب نظام ہی درست، منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر کھڑا نہ ہو تو انتخابی دھاندلی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اور اس عمل میں نگران حکومتوں کے تجربے سے بھی کوئی مؤثر اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ یہ کام مضبوط حکومتیں ہی کرسکتی ہیں اور اسی پر توجہ ہونی چاہیے۔
حالیہ انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن کے انتظامات بہت برے نہیں تھے۔ ماضی کے مقابلے میں اِس دفعہ پولنگ کا عمل بہت پُرامن رہا۔ فوج کی موجودگی پر بہت تنقید ہوئی لیکن ثابت ہوا کہ فوج کی موجودگی سے پولنگ کا عمل شفاف تھا اور طاقتور طبقات کی جانب سے بے جا مداخلت دیکھنے کو نہیں ملی۔ لیکن اصل مسئلہ یا بدمزگی فارم 45 پر ہوئی، اور انتخابی نتائج کی ترسیل نیا سسٹم جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے، انتخابی نتائج کی شفافیت کو زیادہ مؤثر انداز میں برقرار نہیں رکھ سکا۔ ممکن ہے انتخابی نتائج میں کوئی بڑا ردوبدل نہ ہوا ہو، مگر نتائج میں تاخیر گنتی کے عمل پر اعتراضات اور فارم 45 نہ دینے کے عمل نے شکوک وشبہات پیدا کیے۔ اس عمل نے الیکشن کمیشن کی صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کہ ایک ایسے سسٹم کا تجربہ کیا گیا جسے چلانے کی صلاحیت خود الیکشن کمیشن کے ارکان کے پاس نہیں تھی یا اس میں کچھ افراد نے جان بوجھ کر خرابی پیدا کرکے الیکشن کمیشن کے بہت سے اچھے اقدامات کے باوجود اس کے لیے بدنامی کا ماحول پیدا کیا۔ نئی حکومت اور خود الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ فارم 45 اور جدید ٹیکنالوجی سسٹم کی ناکامی کی باقاعدہ تحقیقات کرے اور جو لوگ بھی اس میں نااہل ثابت ہوئے اُن کا احتساب کیا جائے۔
جہاں تک ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے الزامات ہیں، یہ پہلے بھی لگتے رہے ہیں اور اِس بار زیادہ شدت سے لگائے گئے ہیں۔ ان الزامات سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل طاقت اُن کرداروں کی ہے جو الیکشن کمیشن کو اپنی ڈھال بناکر نتائج تبدیل کرتے ہیں۔پھر بھی یہی سوال پیدا ہوگا کہ وہ کون لوگ یا حکومتیں ہیں جو الیکشن کمیشن کو خودمختاری دینے کے لیے تیار نہیں؟ اصل میں شفاف انتخابات کا انعقاد اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب واقعی الیکشن کمیشن خودمختاری کے ساتھ اپنا کام کرے۔ انتخابی نتائج حق میں ہوں تو ہمیں مختلف اداروں کی مداخلت اچھی لگتی ہے، اور جب ہمارے خلاف ہوں تو یہ مداخلت جمہوریت کے خلاف ہوتی ہے۔ اس سوچ سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔ اس طرزِ عمل سے توملک میں جتنا بھی شفاف الیکشن کروا لیا جائے، اس کے نتائج ہارنے والی جماعتیں کبھی بھی قبول نہیں کریں گی۔
جہاں تک تمام جماعتوں کی طرف سے ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کا معاملہ ہے تو یہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے، مگر اِس میں ہارنے والی جماعتوں کی جانب سے سیاسی مبالغہ آرائی کا پہلو زیادہ نظر آتا ہے۔ پہلی بار فوری ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے عمل میں بہت سے اپوزیشن رہنمائوں کو انتخابی ریلیف ملا اور وہ جیت گئے، جن میں رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، سردار امجد کھوسہ، امیر حیدر خان ہوتی سمیت کئی لوگ ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں تو دوبارہ گنتی کے معاملے میں کئی کئی برس بیت گئے مگر گنتی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا تھا۔ پری پول رگنگ کے حوالے سے بہت سی شکایات جائز بھی نظر آتی ہیں، مگر انتخاب کے دن مجموعی طور پر وہ کچھ نہیں ہوا جس کا بہت زیادہ شور مچایا جارہا ہے۔ جو عالمی مبصرین اور انتخابات کا جائزہ لینے والے ادارے ہیں اُن کی رپورٹوں میں بھی بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے مگر مجموعی طور پر انتخابات کے عمل کو سراہا گیا ہے اور عالمی برادری میں ان انتخابات کو ایک امید کے طور پر بھی قبول کیا گیا ہے۔
مگر اس کے باوجود2018ء کے انتخابات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں واقعی سنجیدگی کے ساتھ اداروں کی مضبوطی کو اپنی ترجیحات میں اوّلیت دینی ہوگی، اب بھی وقت ہے کہ جن جماعتوں کے پاس انتخابی دھاندلی کے واضح شواہد موجود ہیں اور جن اداروں پر مداخلت کے الزامات ہیں اُن کو عدالتوں میں لایا جائے تاکہ شواہد کی بنیاد پر ثابت ہو کہ کہاں، کیسے اورکس نے دھاندلی کی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ پھر ہمیں جوڈیشل کمیشن کی تجاویز اور انتخابی اصلاحات کا جائزہ لینا ہوگا اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے معاملات کو شفاف بنانا ہوگا۔ کیونکہ حالیہ انتخابات میں بھی کئی بڑے جرائم پیشہ افراد آئین کی شق 62۔63کے باوجود انتخابی عمل میں شریک ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے قوانین یا اُن پر عمل درآمد کے نظام میں سیاسی، قانونی اور انتظامی مسائل ہیں۔
پاکستان میں موجود سول سوسائٹی کے ادارے، تھنک ٹینک اور علمی و فکری ادارے جو انتخابی نظام کی شفافیت پر کام کرتے ہیں اُن کی بھی ذمے داری ہے کہ پچھلے انتخابات کے تجربات کو سامنے رکھ کر نئی تجاویز پیش کریں۔ نئی حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ انتخابات کی شفافیت کے تناظر میں جو بھی اہم مسائل یا رکاوٹیں ہیں انہیں ختم کرنے کو اپنی پہلی ترجیحات میں ڈالے، تاکہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف بڑی پیش قدمی ہوسکے اور ہماری سیاست اور انتخابی عمل اپنی حقیقی شفافیت قائم کرسکے۔