افغانستان امریکہ کے گلے میں پھنسی ایسی چھچھوندر بن گیا ہے کہ اسے نہ نگلنا ممکن، نہ اگلنا آسان۔ عسکری ماہرین 2007ء سے ہی افغانستان کو امریکہ کے لیے دلدل قرار دے چکے تھے لیکن صدر بش اس اعتراف کی جرأت نہ کرسکے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی سینیٹ میں اس پہلو پر بات کرتے رہے، لیکن اپنی علالت کی وجہ سے وہ کوئی قرارداد نہ لاسکے۔ 2008ء میں جب بارک اوباما امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اُس وقت سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی شدید علیل بلکہ بستر مرگ پر تھے۔ حلف برداری کے فوراً بعد سینیٹر صاحب نے صدر اوباما کو ملنے کی دعوت دی۔ کینیڈی کے دماغی سرطان کو اُن کے ڈاکٹر لاعلاج قرار دے چکے تھے اور سینیٹر صاحب دردکش دوائوں کے زیراثر اپنے گھر پر موت کا انتظار کررہے تھے۔ جب صدر اوباما اُن سے ملنے آئے تو سینیٹر صاحب کی ملاقات کا ایک نکاتی ایجنڈا افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی تھا۔ جناب کینیڈی نے اعتراف کیا کہ سانحہ نائن الیون کے بعد انھوں نے افغانستان پر امریکی حملے کی حمایت کی تھی، لیکن اب یہ سرزمین امریکہ کے لیے دلدل بن چکی ہے جس سے جلد از جلد نکلنا ضروری ہے۔ صدر اوباما نے اُن کی بات مان لی اور فوجی انخلا کا آغاز ہوا، لیکن امریکی وزارتِ دفاع مکمل واپسی کے حق میں نہ تھی، چنانچہ پینٹاگون (امریکی فوج) نے مکمل انخلا کے بجائے تربیت ونصرت کی غرض سے افغانستان میں امریکی فوج کا علامتی قیام برقرار رکھنے پر صدر اوباما کو راضی کرلیا۔ امریکی فوج کے لیے یہ نیا بندوبست بہت ہی شاندار ہے۔ اب ان کی ذمے داری پُرتعیش چھائونیوں میں بیٹھ کر افغان فوجیوں کی تربیت تک محدود ہے اور یہ لوگ کمپیوٹر کی مدد سے خونیں ڈرون اڑاتے ہیں، تاہم Danger Pay اور ’میدانِ جنگ‘ کی تمام مراعات برقرار ہیں۔ دوسری طرف طالبان نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اور اب افغان فوج کو ان کے مقابلے کے لیے اکیلے نکلنا پڑرہا ہے جس کی وجہ سے کابل فوج کا عملاً جنازہ نکل گیا۔
صدر ٹرمپ نے برسرِاقتدار آتے ہی افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے ایک فیصلہ کن عسکری فتح کی تلاش شروع کردی۔ ستم ظریفی کہ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کی تدوین و تصنیف اُن لوگوں نے کی ہے جو افغانستان میں امریکی فوج کی قیادت کرچکے ہیں۔ یعنی وزیرفاع جنرل میٹس، قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر، وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی، سابق مشیرِ سلامتی جنرل مائیکل فلن، سی آئی اے کے سابق ڈی جی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس وغیرہ۔ انھی سورمائوں کی پالیسیوں اور طرزِعمل نے افغانستان اور وہاں تعینات امریکی فوج کو اس حال تک پہنچایا ہے، گویا ’’میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب‘‘ والا معاملہ ہے۔
ان جرنیلوں نے اپنی ناکامی کا الزام یہ کہہ کر بارک اوباما پر ڈال دیا کہ سابق امریکی صدر نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے، اور اگر انھیں اپنے فیصلوں میں آزادی حاصل ہوتی تو ان اجڈ ملاّئوں کی بیخ کنی تو بس بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جرنیلوں کا مؤقف تھا کہ صدر اوباما نے ان کے مشورے کے علی الرغم افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلالیا جس کی وجہ سے طالبان کو تقویت ملی اور یہ سابق امریکی صدر کی بہت بڑی غلطی تھی۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں اضافی فوجی دستے بھیجنے کے ساتھ عسکری قیادت کو مکمل آزادی عطا کردی۔
جرنیلوں سے مشورے کی روشنی میں گزشتہ برس 21 اگست کو امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے ایک جارحانہ پالیسی کا اعلان کردیا جس کے تحت تازہ دم 3 ہزار اضافی فوجی مشیر، عسکری تربیت کار اور چھاپہ مار جنگ کے ماہر سپاہی افغانستان بھیجے گئے۔ پاکستان پرطالبان کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے کے لیے زبردست دبائو ڈالا گیا۔ اسی کے ساتھ جرنیلوں کو مکمل آزادی عطا کردی گئی۔ اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سورمائوں نے سارے افغانستان پر وحشیانہ بمباری شروع کرادی۔ نیٹو کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں پر 600 فضائی حملے فی ماہ کیے گئے، لیکن گزشتہ ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 6600 سے زیادہ فضائی حملوں کے باوجود افغان حکومت کا کنٹرول ملک کے 52 فی صد علاقے سے آگے نہ بڑھ سکا، بلکہ بے گناہوں کی ہلاکت سے طالبان کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ اب جنوب اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں کے ساتھ شمال میں فارسی بان صوبے بھی ان کی گرفت میں آگئے ہیں۔ نئی افغان پالیسی کے تحت امریکی سپاہیوں کو چھائونیوں اور اڈوں میں سراغ رسانی، ڈرون کی نگہبانی اور مقامی سپاہیوں کی تربیت تک محدود کردیا گیا ہے، جبکہ افغان فوجیوں کو طالبان سے بھڑایا جارہا ہے۔ اس احتیاط سے امریکہ میں تابوتوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا ہے جس کی وجہ سے امریکی قانون سازوں کی طرف سے صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی تنقید سے بچی ہوئی ہے۔ وحشیانہ بمباری کے ساتھ کابل انتظامیہ کی جانب سے بات چیت کا ڈول، اسلام آباد پر الزام تراشی، جکارتہ اور سعودی عرب میں علما کی بیٹھک اور فتووں کے کارتوس بھی چلائے گئے، لیکن بمباری اور سیاسی نوٹنکیوں سے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
امریکی صدر ایک کاروباری آدمی ہیں اور وہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے نیٹو (NATO) اتحادیوں کو دفاع کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نیٹو کے اکثر ارکان دفاع کے حوالے سے اپنی مالی ذمہ داری پوری نہیں کررہے ہیں اور ان سب ملکو ں کا بوجھ بھی امریکی ٹیکس دہندگان کو اٹھانا پڑرہا ہے جو جناب ٹرمپ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ افغانستان کے مسئلے پر صدر ٹرمپ کی فکرمندی کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ انھیں یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ کابل انتظامیہ اور وہاں کامیابی و کامرانی کے بارے میں امریکی فوج کی لن ترانی ایک طرف، بے پناہ اخراجات کے باوجود زمینی صورت حال بدستور طالبان کے حق میں ہے، بلکہ غیر جانب دار عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کا دبائو بڑھنے کے ساتھ افغان فوج کی کارکردگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔
امریکی صدر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ پر مایوسی کے آثار بہت واضح ہیں اور وہ جرنیلوں سے افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اور مجموعی اخراجات کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات کرچکے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک نشست میں انھوں نے براہِ راست سوال کیا کہ اتنی سرمایہ کاری کے بدلے میں ہم نے وہاں کیا حاصل کیا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا 9 جولائی کا کابل کا اچانک دورہ اس اعتبار سے بے حد معنی خیز ہے اور غیر جانب دار صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ زمینی صورت حال کا ناقدانہ جائزہ لینے کے لیے صدر ٹرمپ نے اپنے وزیر باتدبیر کو کابل یاترا کا حکم دیا تھا۔
واشنگٹن میں خبر گرم ہے کہ امریکی صدر بہت جلد اپنے جرنیلوں کو افغانستان کی صورت حال کے ایک تفصیلی جائزے کا حکم دینے والے ہیں، جس میں اور باتوں کے علاوہ طالبان سے براہِ راست بات چیت پر غور کیا جائے گا۔ اس افواہ کی تصدیق امریکہ کی مرکزی کمان یا CENTCOMکے سربراہ جنرل جوزف ووٹل سے منسوب ایک گفتگو سے ہوئی جس کی تفصیل ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) نے 19 جولائی کو جاری کی۔ AP کے مطابق جنرل ووٹل نے کہا کہ امریکی فوج ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی کی اثر پذیری کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔ انھوں نے بتایا تو نہیں لیکن صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جائزے کا حکم صدر ٹرمپ نے دیا ہے۔
جنرل جوزف ووٹل نے کہا کہ جائزے میں جن پہلوؤں پر غور کیا جائے گا اُن میں طالبان پر دبائو اور ملائوں کو مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے پاکستان سے مزید تعاون کی درخواست شامل ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس رپورٹ کے مطابق جنرل ووٹل نے کہا کہ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری نئی حکمت عملی سے کیا نتائج مل رہے ہیں۔ جنرل صاحب نے کہا کہ اس مرحلے پر وہ یہ پیشن گوئی نہیں کرسکتے کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی افغان حکمت عملی میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔ مزے کی بات کہ اپنے بیان کے آخر میں جنرل صاحب نے فرمایا ’’افغان حکمت عملی سے زمینی صورتِ حال بہتر ہوتی نظر آرہی ہے‘‘۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ جملہ امریکی جرنیلوں کی دلجوئی کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔ جنرل جوزف مبالغہ آرائی کے لیے مشہور ہیں۔ 27 فروری کو امریکی ایوانِ نمائندگان کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کے سامنے جنرل صاحب نے انکشاف فرمایا تھا کہ 64 فیصد افغانستان پر کابل حکومت کا کنٹرول ہے، 12 فیصد علاقوں پر طالبان قابض ہیں، جبکہ باقی ماندہ 24 فیصد علاقے پر طالبان کا قبضہ مشکوک ہے۔ جنرل صاحب کے دعوے کے جواب میں کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مک کین نے چند ہفتے پہلے جاری ہونے والی اس رپورٹ کے اقتباسات پیش کیے جس میں امریکی فوج کے اسپیشل انسپیکٹر جنرل یا SIGAR نے کہا تھا کہ 49 سے 54 فیصد افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ سماعت کے دوران سینیٹرز نے مشہور امریکی صحافی محترمہ لارالوگن (Lara Logan) کے اس تجزیے کی طرف بھی اشارہ کیا جو لارا لوگن نے افغانستان کے تفصیلی دورے کے بعد جاری کیا تھا۔ محترمہ لوگن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کابل ائرپورٹ سے اپنے اڈے تک جانے کے لیے بھی امریکی فوج ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے حالانکہ یہ فاصلہ صرف چند کلومیٹر ہے۔ جنرل ووٹل کی طرح امریکہ کی نائب وزیر خارجہ محترمہ ویلز بھی بلند وبانگ دعوے کرنے میں مشہور ہیں جو ہر جگہ کہتی پھر رہی ہیں کہ ’’طالبان میدانِ جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے‘‘۔
باخبر ذرائع کے مطابق کابل سے واپسی پر وزیرخارجہ پومپیو نے اپنے باس کو بتایا کہ ان کے عسکری مقربین کو افغانستان کے زمینی حقائق کا کچھ بھی علم نہیں اور وردی والے اس حقیقت کو نظرانداز کررہے ہیں کہ سیاہ پگڑی والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور انھیں لڑائی ختم کرنے کی کو ئی جلدی نہیں، جبکہ افغانستان میں قیام کا ایک ایک دن امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی نچوڑ رہا ہے۔ امریکی عوام نہ صرف اپنی فوج کا خرچہ اٹھا رہے ہیں بلکہ کابل انتظامیہ کا نان نفقہ بھی غریب امریکیوں کے سر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں بے ضرورت امریکی پڑائو کا خرچہ 19 کروڑ اٹھارہ لاکھ ڈالر یومیہ یا 70 ارب سالانہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے لیکن وسائل کا ایسا زیاں تو قارون کا خزانہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
اس ضمن میں 27 جولائی کو وائس آف امریکہ (VOA) نے انکشاف کیا کہ قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان براہِ راست امن مذاکرات ہوئے ہیں۔ VOA امریکی حکومت کا ترجمان ریڈیو ہے۔ طالبان کے ایک سینئر عہدے دار نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر VOAکی براہِ راست نشریات کے دوران بتایا کہ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کی قیادت میں امریکیوں نے طالبان سے ملاقات کی ہے۔ طالبان کے نمائندے نے بتایا کہ ابتدائی ملاقات کا مقصد امریکہ اور طالبان کے درمیان براہِ راست امن مذاکرات کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔ مولوی صاحب نے مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں اور محض اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ماحول بہت اچھا اور مثبت تھا۔ دوسری طرف امریکی وزارتِ خارجہ نے طالبان سے ملاقات کی خبر پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ وزارتِ خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہا ہے، لیکن ترجمان نے ایک بار پھر امریکہ کے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق کوئی بھی گفت و شنید طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہوگی۔ کابل کے سفارتی و صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ عیدالفطر کی طرح طالبان عیدالاضحی کے دوران بھی عارضی جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں جس سے باہمی اعتماد کے فروغ اور امن کے قیام کے لیے اُن کی دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔
معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار جناب ارشاد حقانی مرحوم نے افغانستان پر امریکہ کے حملے کو Arrogance (تکبر) اور Ignorance (جہالت) کا ٹکرائو قرار دیا تھا۔ حقانی صاحب کا خیال تھا کہ اجڈ و جاہل طالبان امریکی ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے اور شوقِ شہادت و جذبۂ جہاد دراصل قومی خودکشی کی طرف ایک قدم ہے۔ تاہم یہ طویل لڑائی اب اعصاب کی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے، اور 17 سال کے بعد بھی ’’اجڈ و جاہل‘‘ ملاّئوں کے اعصاب میں ضعف کا ہلکا سا شائبہ تک نہیں۔ اپنے ترکش کا ہر تیر آزمانے اور شوقِ کشور کشائی میں ٹیکس دہندگان کے کھربوں ڈالر پھونک دینے کے بعد واشنگٹن کو اندازہ ہوگیا ہے کہ طالبان سے براہِ راست بات چیت کے سوا اس دلدل سے نکلنے کا اور کوئی راستہ موجود نہیں۔ روایتی امریکی تکبر کی بنا پر اب بھی ہچکچاہٹ ہے، لیکن لگتا ہے کہ امریکہ پسپائی کی کڑوی گولی نگلنے کو تیار ہوگیا ہے۔ افغانستان میں امن کے خواہش مندوں کے لیے یہ اشارے خاصے حوصلہ افزا ہیں۔