عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے سے قبل گزشتہ چند برسوں کے دوران جاری کیے گئے میاں شہبازشریف کی تصاویر والے اشتہارات کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کے خزانے کا میاں صاحبان سے زیادہ ہمدرد آج تک کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ قومی معیشت اگرچہ کھربوں روپے کے غیر ملکی قرضوں تلے دبی ہوئی تھی اور اعداد و شمار کے ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساٹھ پینسٹھ برس کی تاریخ میں اتنا قرض نہیں لیا گیا جتنا میاں برادران کے موجودہ پانچ برس کے دورِ اقتدار میں لیا گیا، مگر اس کے باوجود اشتہارات میں عوام کو یہی باور کرایا جا رہا تھا کہ میاں شہبازشریف نے اپنے شاندار ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل نہ صرف مقررہ وقت سے پہلے کی ہے بلکہ ان منصوبوں پر اٹھنے والی لاگت میں اربوں روپے کی بچت بھی کی گئی ہے۔ ذاتی تشہیر کے ان اشتہارات پر عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کے بعد عام انتخابات سے دو روز پہلے تک میاں شہبازشریف اور ان کے ساتھی انتخابی جلسوں میں بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ ہم نے پنجاب میں صرف عظیم الشان ترقیاتی منصوبے مکمل ہی نہیں کیے بلکہ ان منصوبوں پر اخراجات میں بھی اربوں روپے بچاکر قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔
مگر میاں صاحب نے عملاً جس طرح قومی خزانے کو شیرِ مادر کی طرح ہضم کیا اور جس طرح سے اپنے چہیتے لوگوں کو مال ’مفت دل بے رحم‘ سمجھتے ہوئے نوازا اس کا اندازہ ہفتہ وار تعطیل کے روز عدالت عظمیٰ کے منصفِ اعلیٰ میاں ثاقب نثار کی زیر صدارت فل بینچ کے زیر سماعت آنے والے پنجاب کمپنیز اسکینڈل سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس اسکینڈل کو نیب کے سپرد کرتے ہوئے دس روز میں رپورٹ طلب کرلی ہے اور ہدایت کی ہے کہ 3 لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام سی ای اوز نیب میں پیش ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے آئی ڈی پی کے سی ای او پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ آپ کا کیا تجربہ ہے کہ 11 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں؟ فل بینچ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اورنج لائن ٹرین فاسٹ ٹریک اور دیگر منصوبے ایک ہی ٹھیکیدار کو کیسے دیئے گئے۔ کسی کو خیال ہی نہیں کہ یہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے، اگر کوئی پیسے واپس نہیں کرے گا تو ہم نکلوا لیں گے۔ انہوں نے نیب کو ہدایت کی کہ زائد تنخواہیں لینے پر اگر ریفرنس بنتا ہے تو ریفرنس بھی دائر کیا جائے۔
سماعت کے دوران تمام کمپنیوں کے منتظمینِ اعلیٰ (سی ای اوز)، چیف سیکریٹری پنجاب اور ڈی جی نیب بھی عدالت میں موجود تھے۔ اس طرح عدالت کو براہِ راست احکام جاری کرنے اور ملزمان کا مؤقف سننے میں سہولت رہی۔ اس موقع پر کمپنیوں کے منتظمینِ اعلیٰ نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا تقرر میرٹ پر کیا گیا۔ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سپرد کردیا اور رپورٹ دس روز میں طلب کرلی۔
پنجاب کمپنیز اسکینڈل کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں سرفہرست پہلے سے نیب کے زیر تفتیش احد چیمہ نامی بیورو کریٹ رہے جو میاں شہبازشریف کے منہ بولے بیٹے کے طور پر جانے جاتے ہیں، اور جن کی نیب کی جانب سے گرفتاری پر میاں شہبازشریف کی صوبائی حکومت کی سرپرستی میں پنجاب کی بیوروکریسی نے اپنی روایات سے ہٹ کر احتجاج اور ہڑتال کا راستہ بھی اختیار کیا، مگر جب نیب نے اس احتجاج کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تو چند روز ہی میں یہ احتجاج اپنی موت آپ مر گیا۔ احد چیمہ نامی یہ صاحب اپنے بے پناہ اختیار کے بل پر نہ جانے کس کس طرح مال بناتے رہے اور بدعنوانی و اقربا پروری کی کیا کیا داستانیں رقم کرتے رہے… تاہم اگر صرف کمپنیز اسکینڈل کو ہی سامنے رکھا جائے تو یہ لوٹ مار کی حدوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ گریڈ 19 کے اس افسر احد چیمہ کو عالی شان گھر، گاڑیوں، ملازمین کی فوجِ ظفر موج اور دیگر مراعات کے علاوہ قائداعظم تھرمل پاور کمپنی کے منتظم اعلیٰ کے طور پر 19 لاکھ 74 ہزار 152 روپے صرف تنخواہ کی مد میں ادا کیے جاتے رہے، جب کہ اسی کمپنی کے گریڈ 17 کے خالد پرویز 5 لاکھ 52 ہزار 422 روپے ماہانہ بطور تنخواہ وصول کرتے رہے۔ اس طرح کے درجنوں افسران ہر کمپنی میں غریب عوام کے ٹیکسوں اور بھاری شرح سود سے بیرونی ممالک سے حاصل کردہ قرضے کی رقوم پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔ میاں صاحب ہی کی جماعت کے ایک اہم رہنما سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایوان میں کھڑے ہوکر اپنے مخالفین کو سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘… کاش وہ اپنی پارٹی کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیتے۔
عدالتِ عظمیٰ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق بھاری تنخواہیں لینے والے افسروں میں پنجاب ہیلتھ فیسٹلز مینجمنٹ کمپنی کے گریڈ 19 کے علی عامر 6 لاکھ روپے وصول کر رہے ہیں، جب کہ پی ایچ ایف ایم سی کے گریڈ 18 کے ذوالقرنین ساڑھے 4 لاکھ، گریڈ 20 کے ڈاکٹر ندیم سہیل 3 لاکھ، گریڈ 19 کے جواد قریشی 7 لاکھ، پنجاب اسکلز ڈویلپمنٹ فنڈ کے علی سرفراز 4 لاکھ 29 ہزار 250 روپے تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ اسی طرح اربن سیکٹر پلاننگ کمپنی کے گریڈ 20 کے ڈاکٹر ناصر جاوید سی ای او کی حیثیت سے 2012ء سے 8 لاکھ 80 ہزار تنخواہ وصول کررہے ہیں، اور اسی کمپنی کے رفاقت علی بھنگو آڈٹ آفیسر کی حیثیت سے 4 لاکھ 10 ہزار تنخواہ لے رہے ہیں۔ اربن سیکٹر پلاننگ کمپنی سے عون عباس بخاری 3 لاکھ 80 ہزار، عبدالرزاق 4 لاکھ 95 ہزار، فیصل فرید 3 لاکھ 76 ہزار 250 روپے تنخواہ وصول کرتے رہے، جب کہ ڈاکٹر طاہر علی اکبر 5 لاکھ 32 ہزار 750 روپے، بابر چوہان 3 لاکھ 85 ہزار، سلیم خان رانا 3 لاکھ روپے تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے گریڈ 19 کے طاہر رضا ہمدانی 4 لاکھ34 ہزار 500 روپے، وقار عظیم 3 لاکھ 93 ہزار، شاہدہ فرخ نوید 3 لاکھ 2 ہزار 500، نورالرحمن 3 لاکھ 25 ہزار، سہیل ٹیپو 3 لاکھ 35 ہزار اور مرزا نصیر عنایت 3 لاکھ 35 ہزار تنخواہ وصول کرتے رہے ہیں۔ نیب لاہور نے 56 کمپنیوں کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے تاکہ اس کی مدد سے قومی خزانے سے چمٹی ان جونکوں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کی ہدایات کی روشنی میں کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکے۔