عمران خان اور انتخابی منشور

محمد انور
پاکستان تحریک انصاف عام انتخابات میں 114 نشستیں حاصل کرکے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ جلد ہی صدر مملکت ممنون حسین قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے نومنتخب اراکین سے حلف لیں گے۔ اس کے بعد قائدِ ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ قائدِ ایوان کے انتخاب کے بعد اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا چنائو کیا جائے گا۔ پھر طے شدہ پروگرام کے تحت منتخب قائدِ ایوان وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے، جس کے بعد وزیراعظم اپنی کابینہ کے وزراء کا اعلان کریں گے۔ اس طرح ملک میں یوم آزادی14 اگست سے پہلے نئی حکومت تشکیل پا جائے گی۔
قوم کو گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی حکومت سے غیر معمولی توقعات ہیں۔ لوگ کپتان عمران خان کی حکومت کے سو دن میں ہی وہ سب وعدے وفا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں جو انہوں نے انتخابات سے قبل اپنے انتخابی منشور میں کیے تھے۔ یہ منشور صرف 11 نکات پر مشتمل ہے۔ اس سو دن کے پروگرام میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنا، نئے آبی ذخائر بنانا، سی پیک کے جاری منصوبے پر کام تیز کرنا، خارجہ پالیسی دینا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ مستقبل قریب کے وزیراعظم عمران خان اپنے سو دن کے پروگرام بلکہ پورے پانچ سالہ دور میں کرپشن کے سدباب کے لیے کیا اقدامات کریں گے۔ کیا اپنے درمیان سے بدعنوان افراد کو اسی طرح فارغ کرتے رہیں گے جس طرح کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی جماعت کے اُن لوگوں کو فارغ کردیا تھا جنہوں نے سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر انتخابی کرپشن کی تھی۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت قومی احتساب بیورو کو مزید آزادانہ کارروائیاں کرنے کے لیے آزاد ادارہ ہی رہنے دے گی، یا اس کے اختیارات مسدود کرنے کے لیے اقدامات کرے گی؟
پی ٹی آئی اور عمران خان کا اصل امتحان تو یہی ہوگا کہ وہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایسے کیا اقدامات کریں گے کہ قوم کو یقین ہونے لگے کہ آئندہ پانچ سال میں ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوئی تو اس کے خاتمے کی ابتدا ہوجائے گی۔
پی ٹی آئی کے رہنما عبدالعلیم خان پر کرپشن کا الزام ہے اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں 8 اگست کی صبح گیارہ بجے نیب لاہور کے دفتر طلب بھی کر لیا ہے۔ اُن پر الزام ثابت ہونے پر کیا عمران خان اُن کے خلاف پارٹی قوانین کے مطابق کارروائی کریں گے، یا اُن کی مدد کے لیے اُن کی حمایت کریں گے؟
نیب نے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کو بھی 16 اگست کو طلب کیا ہے۔ اگر عمران خان یا ان کی جماعت یا حکومت کی طرف سے علیم خان، چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی کی مدد کی گئی تو یہ بات قوم کو ناگوار گزرے گی اور اس کے نتائج ان کی حکومت اور ان کے لیے منفی ہوں گے۔ یاد رہے کہ علیم خان پر آمدن سے زائد اثاثہ جات پر تحقیقات کی جارہی ہے، ان کے برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں متعدد فلیٹ ہیں۔ علیم خان اس سے قبل بھی دو مرتبہ نیب حکام کے سامنے پیش ہوچکے ہیں، تاہم ان سے مزید ریکارڈ کی طلبی جاری ہے۔
خیال رہے کہ نوازشریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر کے خلاف دائر ایون فیلڈ بلڈنگ کیس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ کرپشن کے خلاف کارروائی ان کی تحریک کے باعث شروع ہوئی تھی۔ حالانکہ سچ تو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف مہم چلائی تھی جس کے بعد نیب بھی فعال ہوا۔ جماعت اسلامی تو آئندہ بھی کرپشن کے خلاف جدوجہد کرتی رہے گی، مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت بنانے کے بعد پی ٹی آئی اور عمران خان کی کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر کے سدباب کے لیے کیا حکمت عملی ہوتی ہے؟