موجودہ دور جس میں انسان کو سکون سے کھانے کا وقت بھی میسر نہیں، یہ مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عام طور پر معدہ کا زخم/ معدہ کا السر PEPTIC ULCER کہلاتا ہے، اور انتڑیوں کا زخمINTESTINAL ULCER یا انتڑیوں کا السر کہلاتا ہے۔
مرض کی ابتدا میں مریض شکایت کرتا ہے کہ کھانے کے بعد معدہ میں بوجھ ہوجاتا ہے، کچھ عرصے کے بعد معدہ میں جلن ہوتی ہے اور غذا کی نالی اور معدہ کے منہ پر زیادہ جلن ہوتی ہے۔ مرض جب بڑھتا ہے تو جلن کے ساتھ ڈکار بھی آتے ہیں۔ اگر مریض کو قبض ہو اور اجابت یا فراغت نہ ہو تو یہ مرض زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے۔ عام طور پر مریض کہتا ہے کہ معدہ میں تیزابیت بڑھ گئی ہے، اور وہ محسوس کرتا ہے کہ معدہ یا انتڑیوں کے اندر چھلتی ہوئی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ اگر مریض کو قبض نہ ہو تو آغاز میں یہ مرض زیادہ پریشان نہیں کرتا۔
اسبابِ مرض: عام طور پر یہ مرض ہوٹلوں کے ناقص کھانے اور شادی بیاہ اور گھروں کے چٹ پٹے اور مسالہ دار کھانے سے شروع ہوتا ہے۔ ایسے محنت کش جن کو گھر سے دور مزدوری کرنا پڑتی ہے مجبوراً بازار سے سستا اور غیر معیاری کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ زیادہ مرچ اور مسالہ ڈال کر سالن کو کرارا اور وقتی طور پر مزیدار بنانے کی وجہ سے بھی ایسی غذائیں اس مرض کا سبب بنتی ہیں۔ اکثر طلبہ و طالبات جو ہوٹلوں کا غیر معیاری کھانا کھاتے ہیں دورانِ تعلیم بے احتیاطی سے اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً کھانے کے معیار کو چیک کیا جاتا رہے، یا طلبہ کی طرف سے شکایت پر گرفت کی جائے تو بہت حد تک نئی نسل اس مرض سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ نئی نسل اور اونچی سوسائٹی میں شراب نوشی بھی اس کا سبب ہے۔ اس مرض کو پیدا کرنے میں کھانے کے اوقات اور کھانے کے آداب بھی ایک حد تک اثرانداز ہوتے ہیں۔ کھانے سے پہلے سنتِ نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے اگر ہاتھ اچھی طرح صاف کرلیے جائیں، دھولیے جائیں تو اس مرض کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ ورکشاپوں میں کام کرنے والے مکینک، ہوٹلوں میں کام کرنے والے بیرے اس مرض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں کھانے کے اوقات کا گہرا دخل ہے۔ رات گئے نصف شب کے نزدیک مرغن اور چٹ پٹی غذائوں کباب، برگر، پیزا، شوارما، اور کھانے کے فوری بعد کسی مشروب کا ہضم کرنے کے نام سے بے جا استعمال، کھاتے ہی سوجانا اس مرض کو پیدا کرنے میں معاون ہیں۔ کھانے کے بارے میں ایک اور طبی اصول جس کی طرف شیخ الرئیس ابن سیناؒ نے اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ جب انسان کسی شدید اضطراب، پریشانی، غم یا غصے کی حالت میں ہو، یا کھانے کا معمول کا وقت گزر چکا ہو تو کھانا ہرگز نہ کھایا جائے، کھانے کے وقت ذہن اور جسم صرف کھانے کی طرف مائل ہوں، اور بنیادی اصول یہ کہ بھوک نہ ہو تو ہرگز کھانا نہ کھائیں، محض مزیدار کھانا ہونے کی وجہ سے بسیار خوری نہ کی جائے، اور بھوک سے کم کھایاجائے۔ اگر ان اصولوں کو اپنایا جائے تو اَلسر کا امکان باقی نہیں رہتا۔ کھانا اچھی طرح چبا کر اور آہستہ آہستہ یکسوئی کے ساتھ کھایا جائے تو یہ مرض لاحق نہیں ہوتا۔ مسلسل غذائی بے احتیاطی سے معدہ اور بعض اوقات انتڑیوں دونوں میں زخم ہوجاتے ہیں۔
مرض کی تشخیص: اینڈواسکوپی (ENDOSCOPY) کے ذریعے معدہ اور آنتوں کے اَلسر کی فوری تشخیص ممکن ہے، مگر یہ طریقہ مہنگا اور قدرے تکلیف دہ ہے۔ معدہ میں مستقل جلن اور گھبراہٹ رہے تو معدہ کے اندرونی حصے کے چھلنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ زخم ہوجاتے ہیں، جب معدہ کا اَلسر ہوگا تو ناف کے اوپر ایسے معلوم ہوگا جیسے چھریاں چل رہی ہیں۔ شدید درد، جلن، گھبراہٹ ہوگی۔ خالی معدہ میں درد ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ مرض کی شدت کی صورت میں جب گندا خون معدہ کے زخموں میں بھرا جاتا ہے تو شدید درد کے بعد خون آلود قے آتی ہے۔ ابتدا میں یہ خون سیاہی مائل ہوتا ہے جو گندا ہوتا ہے، بعد میں تازہ اور سرخی مائل خون آتا ہے۔ خون کے اخراج کے بعد وقتی طور پر مرض کی شدت میں افاقہ محسوس ہوتا ہے، معدہ پر بوجھ کم ہوجاتا ہے، بھوک بھی لگتی ہے، تاہم دو تین ماہ کے بعد پھر یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔
آنتوں کے اَلسر کی علامات: جب آنتوں کا اَلسر ہو تو ناف کے نیچے آنتوں کے حصے میں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے چھریاں چل رہی ہوں، ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہے، مرض کی انتہائی صورت میں مروڑ کے ساتھ خون آلود پاخانہ آتا ہے، پاخانہ میں جلن بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات تارکول کی طرح سیاہ ہوتا ہے۔ جب زیادہ دفعہ خون خارج ہو تو تازہ خون آتا ہے جس سے کمزوری تو بڑھتی ہے مگر آنتوں میں جلن کم ہوکر مریض قدرے سکون محسوس کرتا ہے۔
اکثر اوقات خون کی قے یا خون آلود پاخانہ کا حملہ سونے کے دوران ہوتا ہے، دونوں قسم کا اَلسر تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتا ہے، مریض کی خوراک زہرآلود ہوجاتی ہے، جلن اور پیاس نڈھال کردیتی ہے، کمزوری تیزی سے بڑھتی ہے، اکثر اوقات خون آلود قے یا خون آلود پاخانہ موت تک جان نہیں چھوڑتا۔
علاج: اس مرض کا آغاز ہی میں علاج کیا جائے تو جلد ازالہ ہوجاتا ہے، بصورتِ دیگر مریض کے لیے بتدریج جان لیوا ثابت ہوتا ہے غذائی علاج: مربہ سفرجل (بہی کا مربہ) اچھی طرح دھوکر ناشتا کیا جائے۔
جو کا دلیہ: اب بازار میں عام ملتا ہے۔ طب نبویؐ میں یہ تلبینہ کہلاتا ہے۔ بطور ناشتا اس مرض کے ازالے میں مفید ہے۔
ہوالشافی: بیخ انجبار، گوند کیکر، رال برابر وزن لے کر سفوف تیار کرلیا جائے، اسی مقدار میں چھلکا اسپغول ملالیا جائے۔ صبح، دوپہر، شام 4 رتی شربت انجبار یا شربت انار کے ساتھ دیں۔ اگر مریض کو شوگر ہو تو عرق گائوزبان اور عرق کاسنی کے ساتھ صبح و شام بعد از غذا کھلائیں۔
غذا میں چھلکا اسپغول، چارتخم، (تخم بالنگو، تخم ریحاں، تخم بارننگ، تخم کنوچہ)، مربہ بہی، شربت انار، شربت فالسہ، شربت انجبار مسلسل استعمال کرائیں۔
پرہیز اور احتیاط: مریض کو سرخ مرچ، مسالہ دار غذائیں بالکل بند کردیں۔ قبض کشا تیز دوا ہرگز نہ دیں، ورنہ زخم بھرنے کے بجائے بڑھ جائے گا۔ کدو، ٹینڈے، شلجم، ابلی سبزی دیں۔ بینگن، مسور، بڑاگوشت، مچھلی، انڈہ بند کردیں۔
بازار میں تیار شدہ ادویہ میں جوارش مصطگی، جوارش انارین نصف چمچی بعد غذا۔
اس مرض میں مبتلا مریض خالی معدہ کے وقت زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ مریض تھوڑے تھوڑے وقفے سے کوئی سیال غذا مثلاً دودھ، دہی، انار کا تازہ جوس، مربہ بہی، شربت انجبار، انناس کا جوس، ناریل کا پانی استعمال کرتا رہے۔ اس احتیاط سے مرض کی شدت میں اضافہ نہیں ہوتا۔
اَلسر کے مریض کو اگر قبض ہو تو تیز قبض کشا ادویہ جن میں جمال گوٹہ، سقمونیا اور میگنیشا سالٹ شامل ہیں، ہرگز نہ دیں۔ جلاب مہلک ہوسکتا ہے۔ البتہ چھلکا اسپغول (قدرے زیادہ مقدار میں)، کدو، ٹینڈے، شلجم ابال کر، پھلوں کی چاٹ مثلاً امرود، کیلا، ناشپاتی، آلو بخارہ کا استعمال کرایا جائے۔ روغن زیتون دو تین چمچی بھی استعمال کرایا جاسکتا ہے۔
غذا میں پرہیز اور احتیاطی تدابیر سے مریض زیادہ عرصے تک اس مرض کا مقابلہ کرسکتا ہے۔