تاریخی غار سعودی عرب میں سیاحت کا دلفریب مرکز بن گئیں

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

سعودی عرب کے جنوبی پہاڑی علاقوں میں پائی جانے والی پہاڑی غاریں صدیوں سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز چلی آرہی ہیں۔ سرسبزو شاداب وادیوں میں گھری یہ غاریں سطح سمندر سے 1700 میٹر بلند ہیں اور آج کے دور میں یہ غاریں دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ غاریں الباحہ گورنری کے ’جبل شدا‘ میں واقع ہیں۔ سعودی مؤرخ ناصر الشدوی نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جبل شدا زمین پر قدرت کا ایک حسین شاہ کار اور ارضیاتی فن پارہ ہے۔ یہ جگہ وسیع گرینائٹ غاروں کی وجہ سے پورے خطے میں شہرت رکھتی ہے اور لوگ ہزاروں سال سے انہیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ غاروں کے اندرونی اور بیرونی مقامات پر صدیوں پرانی تحریریں، نقوش ان کی عظمتِ رفتہ کی گواہی دیتے ہیں۔ غاریں ایک اعتبار سے بنے بنائے گھر ہیں جن میں تھوڑی بہت مرمت کے بعد انہیں رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں مقامی قبائل انہیں گھروں کی جگہ استعمال کرتے رہے ہیں‘‘۔ سعودی مؤرخ الشدوی نے کہا کہ ماضی میں ان غاروں کو عارضی رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے مگرہمارے آج کے دور میں انہیں زیادہ سہولیات سے آراستہ کرکے سیاحت کے لیے مزید پرکشش بنایا گیا ہے۔ ان کے اندرونی مقامات کی صفائی کے ساتھ انھیں کشادہ اور روشنی کی سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے تاکہ دنیا بھر سے آئے سیاحوں کو وہاں پر کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ غاروں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لیے ان کے اندر راستے بنائے گئے ہیں۔ پانی کے فوارے اور حوض ان کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا دیتے ہیں۔ یہ پہاڑ اور غاریں خدا کی صنعت اور اس کی کاریگری کے شاہ کار اور گراں قیمت نمونے ہیں۔ ان کی بناوٹ سے ایسے لگتا ہے کہ جیسے انہیں کسی نے خاص اہتمام کے ساتھ تیار کیا ہو۔ جو بھی ان غاروں کا تذکرہ سنتا ہے وہ ان کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔ نہ صرف سعودی عرب بلکہ کرۂ ارض پر یہ غاریں سیاحت کا حسین ارضیاتی نمونہ ہیں۔ الباحہ کے علاقے میں واقع جبل شدا کا تذکرہ تاریخی کتب اور قدیم عرب شاعری میں بھی ملتا ہے۔ ہمدانی اور الحموری کی کتب میں اس جگہ کا تفصیلی احوال موجود ہے۔

امریکہ ایران میں مظاہرین کی حمایت کرتا ہے: ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد سے ایران میں احتجاج اور ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آرہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ امریکہ مظاہرین کی حمایت کرتا ہے۔ امریکی چینل ’فوکس نیوز‘ کے ساتھ انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے یہاں ہر شہر میں ہنگامہ آرائی ہورہی ہے اور مہنگائی نے پر پھیلا رکھے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو ہلسنکی میں اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کے ساتھ سربراہ ملاقات کے بعد گفتگو کررہے تھے، کہا کہ ’’یہ (ایرانی) نظام نہیں چاہتا کہ لوگوں کو اس بات کا معلوم ہو کہ ہم 100فیصد ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔‘‘
گزشتہ ماہ جون میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اُن ایرانیوں کے لیے اپنی حمایت کو باور کرایا تھا جو اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ رواں برس مئی میں ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی اور ایران پر امریکی اقتصادی پابندیاں سخت کرنے کے اعلان کے بعد سے تہران حکومت کو اقتصادی بدانتظامی کے سبب عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کا سامنا ہے۔

پاکستان اور فٹبال

پاکستان فٹبال میں کھیل کی درجہ بندی کے اعتبار سے206 ملکوں کی فہرست میں 201 ویں نمبر پر ہے۔ قابل ذکر ملکوں میں صرف صومالیہ اور اریٹیریا پاکستان سے نیچے ہیں لیکن حالیہ فٹبال ورلڈ کپ میں تقریباً ہر گیند پر ’ساختہ پاکستان‘ (Made in Pakistan) لکھا ہوا تھا۔ اس بار FIFAنے عالمی مقابلے کے لیے فٹبال کی فراہمی کا ٹھیکہ امریکہ میں کھیلوں کا سامان، جرسیاں، جرابیں اور جوتے بنانے والے امریکی ادارے Adidasکو دیا تھا۔ کمپنی نے گیند کو Telstar 18 کا نام دیا اور اسے بنانے کا کام سیالکوٹ کے کارخانوں کو سونپ دیا۔ اس سے پہلے برازیل کے FIFA-2014 مقابلوں میں استعمال ہونے والی Brazuca نامی گیندیں بھی سیالکوٹ میں تیار ہوئی تھیں۔ میچوں کے علاوہ مشق کے لیے بھی سیالکوٹ کی بنی لاکھوں گیندیں استعمال ہوئیں۔پاکستان کی بنی فٹبال اتنی مقبول کیوں ہیں؟ بنگلہ دیش، ہندوستان، ویت نام اور چین بھی نہ صرف فٹبال بناتے ہیں بلکہ یہ ممالک عالمی مقابلوں میں اپنی گیندوں کی فروخت کے لیے FIFA قیادت کی ترغیب کاری یا Lobbying پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ فیفا کی مطلوبہ گیند میں باہر کی سلائی ہاتھوں سے ہوتی ہے جس کے لیے بڑی تعداد میں ہنرمند درکار ہیں۔ فیفاکے مطابق سیالکوٹ کی بنی ہوئی گیندیں معیار کے اعتبار سے دنیا میں سب سے بہتر ہیں اور کسی بھی کارخانے میں بچوں سے مشقت نہیں لی جاتی، اور عالمی قوانین کے تحت یہاں مزدور ہفتے میں صرف 40 گھنٹے کام کرتے ہیں، اس سے زیادہ مصروفیت کی صورت میں کاریگر کو اوورٹائم دیا جاتا ہے۔ کام کی جگہوں پر صحت و صفائی کا انتظام ہے۔(مسعود ابدالی )

امریکہ سے طالبان کے خفیہ مذاکرات

امریکہ نے طالبان سے براہِ راست امن مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے سپہ سالار جنرل جان نکلسن نے پیر کو انکشاف کیا کہ ’’ہمارے وزیرخارجہ پومپیو طالبان سے براہِ راست مذاکرات کے لیے تیار ہیں تاکہ مسئلے کے حل میں نیٹو کے کردار کا تعین کیا جاسکے‘‘۔
امریکہ کی مذاکرات پر آمادگی طالبان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کا اصرار تھا کہ افغان مسئلے میں اس کا کوئی کردار نہیں اور طالبان کو اشرف غنی کے ساتھ بیٹھ کر تنازعے کا باوقار حل تلاش کرنا چاہیے۔ تاہم طالبان نے کابل انتظامیہ کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔ اس ضمن میں طالبان نے ان فتووں کو بھی نظرانداز کردیا جو جکارتہ اور اب گزشتہ ہفتے سعودی عرب سے جاری ہوئے تھے۔ مذاکرات کی دعوت پر طالبان کی قیادت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن قطر میں تعینات طالبان کے نمائندے ملا سہیل شاہین نے کہا کہ انھوں نے اب تک صرف خبر سنی ہے اور امریکہ نے ہم سے باضابطہ رابطہ نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان سے غیر ملکی فوج کی واپسی کے لیے امریکہ سے بات چیت پر راضی ہیں۔

نوازشریف کے سفر کی اندرونی کہانی…

جہاز کی ابوظہبی لینڈنگ کا اعلان ہوتے ہی اکانومی کلاس میں موجود صحافی چوکنا ہوکر جہاز کے رکنے کا انتظار کرنے لگے۔ جونہی جہاز نے اپنے انجن آف کیے، جہاز میں موجود صحافیوں نے بیرونی دروازے کی طرف دوڑ لگادی، چند ہی لمحوں کے بعد میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز طیارے سے باہر آگئے اور ائیرپورٹ کی عمارت میں پہلے سے موجود ابوظہبی گورنمنٹ کے حکام کے ساتھ ایک کالے رنگ کی مرسڈیز میں بیٹھ کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔ مریم نوازشریف کچھ دیر بعد واپس آگئیں جبکہ میاں نوازشریف کئی گھنٹے غائب رہے اور جہاز کی روانگی سے کچھ دیر پہلے واپس ائیرپورٹ آئے، جبکہ جہاز پہلے ہی تاخیر کا شکار ہوچکا تھا۔ صبح کے 6:45 پر ابوظہبی لینڈ کرنے والی پرواز EY243کا اہم مسافر تقریباً 7گھنٹے کہاں گیا، کس کس سے ملاقاتیں کیں؟ کہاں رابطے ہوئے؟ذرائع کے مطابق نوازشریف اپنی گرفتاری کے لیے پاکستان روانگی سے قبل ابوظہبی ائیرپورٹ کے خصوصی لائونج میں چلے گئے جہاں وہ دبئی کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرکے انہیں اپنی گرفتاری کے متعلق آگاہ کرکے ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔جہاز میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک موقع پر میاں نوازشریف خاصے گھبرائے ہوئے نظر آئے، شاید وہ اس سے پہلے اپنے ’’رابطوں‘‘ اور بہی خواہوں پر اعتمادکیے ہوئے تھے کہ وہ انہیں بچالیں گے، اور بعدازاں جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب ان کو ہر صورت گرفتار کرنے کا پروگرام بنالیا گیا ہے تو گھبراہٹ سے ان کو پسینے آنے شروع ہوگئے اور جہاز میں اے سی چلنے کے باوجود ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے موجود تھے۔ذرائع کے مطابق میاں نوازشریف نے جب دبئی اور ابوظہبی کے حکمرانوں سے بات چیت کرکے ان کی رائے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے میاں نوازشریف کو کسی قسم کی حمایت یا مدد دینے کے بجائے گرفتاری دینے پر آمادہ کرنے پر زور دیا، اور اس سلسلے میں ان کی کوئی بھی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ابوظہبی ائیرپورٹ پر میاں نوازشریف کے کئی عالمی رہنمائوں سے رابطے بھی ہوئے جن سے میاں نوازشریف نے مدد کرنے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔میاں نوازشریف ابوظہبی ائیرپورٹ پر کن سرکردہ اور بااثر شخصیات سے رابطہ کرتے رہے؟ اور ان سے کیا کیا بات ہوئی؟ یہ ابھی تک ایک راز ہے جس کے جوابات آنا ابھی باقی ہیں۔
(امداد حسین شہزاد۔ خبریں،16جولائی 2018ء)

سیاست مذہب پر مقدم کیوں…؟

دین کو دنیا سے الگ نہ سمجھا جائے بلکہ سیاست کو بھی دنیا کا وہ حصہ سمجھا جائے جس پر آخرت میں بخشش کا دارو مدار ہے۔ ہم اپنی زندگی میں سیاست کا جو کام کرتے ہیں اس کے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ یہ ان معنوں میں سیکولر ہے کہ ہماری بخشش اور نجات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آخرت میں اس پر جواب دہی ہوگی اور ہماری پکڑ بھی۔ اس معاملے میں ایک زمانے میں مجھ میں اتنی تلخی آگئی تھی کہ میں پوچھا کرتا تھا کہ آیا ان علماء سے قیامت کے دن اس بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہوگی جنہوں نے امت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور مملکت کے قیام کے اجتماعی فیصلے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ پھر میں نے اپنی اس رائے میں قدرے نرمی پیدا کرلی تھی۔ نرمی سے مطلب کسی طرح کا رجوع نہیں، بلکہ اس کے اظہار میں احتیاط کرنا شروع کردی تھی، کیونکہ اس کی زد میں بڑے بڑے پارسا اور نیک نام افراد بھی آرہے تھے۔ یہ سب مجھے اس لیے یاد آرہا ہے کہ ہمیں دن رات اپنے قلم، اپنی زبان اور اپنے عمل سے ایسی باتوں کا اظہار کرنا پڑتا ہے جنہیں ہم سیاسی سمجھ کر اس لیے اہمیت نہیں دیتے کہ ان سے عذاب و ثواب کا کوئی تعلق ہے۔ صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض اوقات میرے سیاسی نظریات میرے مذہبی نظریات پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ امریکہ میں ایک اسٹڈی ہوئی ہے۔ ان دنوں ٹرمپ کے عہد میں خاص طور پر اس پر غور کیا جارہا ہے کہ پہلے اگر مذہب میرے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہورہا تھا تو اب سیاست میرے مذہبی عقائد اور میری مذہبی وابستگی کا تعین کرتی ہے۔ میں ری پبلکن ہوں تو لامحالہ آہستہ آہستہ مذہب کی طرف کھنچتا جائوں گا اور امریکی معیار کے مطابق میرے ہفتہ وار چرچ جانے میں بھی بہتری آئے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں اپنے کلیسا کے انتخاب میں (اپنے حوالے سے کہہ لیجیے کہ اپنے فرقے کے انتخاب میں) بھی اس بات کا خیال رکھوں گا کہ کون سا چرچ کس کی حمایت کررہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پارٹی میں شمولیت سے پہلے میرا بھی مذہبی رویہ مختلف ہو۔ اس طرح اگر میں ڈیمو کریٹ ہوں تو مجھ پر مذہب کا اثر کم ہوگا، اتوار کے اتوار گرجے جانا بھی ضرور ی نہیں سمجھوں گا۔ مذہبی اجتماعات میں بھی اگر کوئی کلچر شو ہوگا تو ٹھیک، وگرنہ اس سے دور رہوں گا۔ پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا، سیاست مذہب پر مقدم نہیں ہوتی تھی۔ یہ تبدیلی کیوں آئی؟ امریکہ والے اس کا تجزیہ اور مطالعہ کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی۔ شاید اس لیے کہ ابھی ہمارے ہاں کسی ٹرمپ یا مودی کی پیدائش نہیں ہوئی۔ خدا ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
(سجاد میر۔ روزنامہ 92 نیوز، 16جولائی 2018ء)

پاکستان ایک اسٹرے ٹیجک سازش کی زد میں

پاکستان میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ ہفتہ عشرہ کے بعد پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے والا ہے۔ پرانے کھلاڑی (نون لیگ اور پی پی پی) الیکشن میں شاید وہ اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گے جو ان کو 2008ء اور پھر 2013ء کے الیکشنوں میں ملی تھی۔ اندریں حالات پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا ممکن نظر آنے لگا ہے۔ اس لیے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے جو تعلقات اور اسٹیک غیر ملکوں کے ساتھ تھے، ان کی جگہ ایک نئی پارٹی جب اقتدار میں آئے گی تو اس کو پرانی روشوں کا اسیر بنانا بہت مشکل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا، امریکہ اور اسرائیل ہماری مغربی سرحد کے اُس پار افغانستان میں بیٹھ کر داعش کے ذریعے الیکشن کو سبوتاژ یا ملتوی کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں کوئی نئی پارٹی عنانِ اقتدار سنبھالے اور پاکستان اُس راہ پر چل پڑے جو ان عناصرِ اربعہ کا متبادل نظر آرہا ہے۔ اس متبادل سے میری مراد چین، روس اور ایران ہے۔
گزشتہ ہفتے (منگل وار کو ) اسلام آباد میں روس، چین، ایران اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس اتنا اچانک ہوا اور اتنا خفیہ رکھا گیا کہ پاکستان کے فارن آفس کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔ اور پھر اتنی بڑی سطح پر ان چاروں ممالک کے جاسوسی محکموں کے سربراہوں کا اکٹھے مل بیٹھنا ایک بالکل انہونی سی بات لگتی ہے۔ لیکن اس کانفرنس کی خبر خود روس نے بریک کی۔روس، چین اور ایران کو معلوم ہورہا تھا کہ امریکی بلاک نے افغانستان میں داعش کو اکٹھا کرکے ان کو زیر خطر (Vulnerable) کردیا ہے۔ خدانخواستہ پشاور، بنوں اور مستونگ کے ان خودکش حملوں کا تسلسل بند نہ ہوا تو یہ روس، چین اور ایران کی سرحدوں کے اندر تک پھیل سکتے ہیں۔
10 جولائی کو واشنگٹن سے بھی خبر آئی کہ اسلام آباد میں روس، چین اور ایران کے انٹیلی جنس چیفس سرجوڑ کر اکٹھے بیٹھ گئے تھے اور ان چاروں نے داعش (ISIS) کے اس خطرے پر ازبس تشویش ظاہر کی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر داعش نے آکر ڈیرے جما لیے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ روس کی طرف سے اس کے فارن انٹیلی جنس ڈائریکٹر، سرگئی ناریشکن (Sergei Naryshkin) نے اسلام آباد کے اس خفیہ اجلاس میں شرکت کی۔ اس روسی انٹیلی جنس آفیسر نے اجلاس کو بتایا کہ روس ایک طویل عرصے سے امریکہ سے یہ شکایت کرتا آرہا ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کو سپورٹ کررہا ہے۔ یہ موضوع گزشتہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) میں بھی چینی اور روسی نمائندوں کے درمیان تفصیل سے ڈسکس کیا گیا تھا اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ’’داعش کا یہ تخریبی رول مستقبل میں زیادہ وسیع علاقوں تک پھیل سکتا ہے‘‘۔ اس کانفرنس میں یہ بات بھی کھل کر بیان کی گئی کہ داعش کا یہ کردار، امریکی مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دے رہا ہے۔
(لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان۔ روزنامہ پاکستان، 16 جولائی 2018ء)