دہشت گردی کے واقعات اور انتخابات

انتخابات 2018ء کی انتخابی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ خونریزی اور دہشت گردی کے واقعات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کو جاری رکھا ہوا ہے۔ پشاور اور مستونگ کے واقعات نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ المناک پہلو یہ ہے کہ بلور خاندان ہو یا رئیسانی خاندان، دونوں اس سے قبل بھی سفاکانہ دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کی کامیاب جنگ کے باوجود دہشت گرد جہاں چاہیں، جس کو چاہیں نشانہ بناسکتے ہیں۔ ایسے پراسرار پسِ پردہ گروہ اب بھی موجود ہیں جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے دہشت گردی کے جرم کو قبول بھی کرلیتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد پر اوّل دن سے سیاسی حلقوں میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا لیکن کسی بھی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون سی اندرونی و بیرونی قوت ہے جو پاکستان میں انتخابات کے التوا کی خواہش مند ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے واقعات کو انتخابات ملتوی کرانے کی خفیہ سازش بھی قرار دیا گیا۔ جہاں تک دہشت گردی کے واقعات کا تعلق ہے، یہ کسی کے لیے بھی غیر متوقع نہیں ہیں۔ خود سرکاری ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ انتخابی مہم کو بدامنی اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کی جانب سے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کو مطلع کیا گیا تھا کہ بعض بیرونی طاقتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کو بند کمرے کے اجلاس میں تفصیلات فراہم کرسکتے ہیں، لیکن اس سلسلے میں کسی قسم کے اجلاس کی خبر ہمارے سامنے نہیں آئی۔ اسی طرح وزارتِ داخلہ کے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نے اطلاع دی تھی کہ مختلف سیاسی رہنماؤں کو انتخابی مہم کے دوران میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ خوف کے ماحول کے باوجود سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم جاری رکھی اور ماضی کی طرح قوم عزم اور حوصلے کے ساتھ ہر قسم کی بدامنی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرتی رہی۔ اس سلسلے میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں قومی اتفاقِ رائے پایا گیا۔ بعض سیاسی جماعتوں کو جن میں سابق حکمراں جماعت بھی شامل ہے، یہ شکایت ہے کہ انہیں آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور ’’حقیقی‘‘ مقتدر طاقتیں انتخابات کی ’’انجینئری‘‘ کررہی ہیں۔ ان جماعتوں کی جانب سے بعض حلقوں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتی ہیں جس کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ بھی مجروح ہوسکتی ہے اور اس بہانے انتخابات ملتوی بھی ہوسکتے ہیں، لیکن کسی بھی جماعت نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کیا اور سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی سے براہِ راست متاثر ہونے والے اے این پی کے بلور خاندان اور بلوچستان کے رئیسانی خاندان نے بھی انتخابی عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ سانحہ مستونگ اور سانحہ پشاور کی سنگینی کا جو دکھ پورے ملک کو محسوس کرنا چاہیے تھا اور اس میں قوم کو جس طرح شرکت کرنی چاہیے تھی اس کا اظہار نہیں ہوسکا۔ اس تاثر کی اہمیت یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی قوتوں نے عملاً ملک کو صوبائی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کردیا ہے، صرف مذہبی جماعتیں ہیں جو ملّی بنیادوں پر قوم کو یکجا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی وجہ سے مظلومیت کا احساس موجود ہے، اس تناظر میں جو لوگ پاکستان کے وفاق کے دائرے میں مزاحمتی جدوجہد کررہے ہیں اور اپنی جان پر کھیل کر جرأت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ پوری قوم کو بھرپور اظہارِ یک جہتی کرنا چاہیے۔ خاص طور پر مستونگ میں پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ان معنوں میں ہے کہ ایک دن میں ڈیڑھ سو سے زائد پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ یہ سب عام مزدور شہری ہیں جو ایک انتخابی جلسے میں شریک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد سب سے زیادہ توجہ اسی مسئلے پر دی جانی چاہیے تھی۔ بلوچستان کے عوام کے پاس یہ پیغام نہیں پہنچنا چاہیے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
پشاور، بنوں اور مستونگ کے واقعات نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی کامیابی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور سوال اٹھانے والوں میں پیپلزپارٹی کے قائد بلاول زرداری بھی شامل ہیں۔ قوم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انسانی حقوق کی پامالی کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ اس بارے میں عدلیہ بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکی۔ ہزاروں افراد مشتبہ دہشت گردی کے الزام میں ریاستی اداروں کے پاس ماورائے عدالت زیر حراست ہیں۔ اس کے باوجود دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں کارروائی کر ڈالتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ احساس ہوا تھا کہ حکومت اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی پر قابو پالیا ہے، لیکن مستونگ اور پشاور کے سانحے نے بتایا ہے کہ منزل ابھی دور ہے۔ اس سلسلے میں بیرونی ممالک کی سازشوں کو ذمے دار ٹھیرایا جاتا ہے جو کہ درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات روکنے میں ناکامی کی ذمے داری کس پر ہے؟ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ جن پراسرار تنظیموں کی جانب سے ذمے داری قبول کرنے کے اعترافی بیانات دیتے ہیں وہ بھی اب محلِ نظر ثابت ہوگئے ہیں۔ ہارون بلور پر دہشت گرد حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبول کی گئی تھی لیکن بلور خاندان کے سربراہ جناب غلام احمد بلور نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے میں ہمارے اپنے لوگ شامل ہیں اور ہمارے پاس اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیکورٹی کے ادارے انسداد دہشت گردی کے لیے اپنے کردار کو مزید بہتر کریں۔ اس پس منظر میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کا فرض ہے کہ وہ قوم کو بحران کے حقیقی اسباب اور علاج سے آگاہ کریں۔ اس وقت پاکستان میں قیادت کا بحران ہے، تمام بڑی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کی ناکامی قوم کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کیا بہتر قیادت کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوسکیں گے؟