بلوچستان۔۔۔ خون ریزی انتخابی مہم

دہشت گردی کی وبا نے بلوچستان کے معروف قبائلی سیاسی گھرانے کے اہم فرد نواب زادہ سراج رئیسانی کو بھی نگل لیا۔ سراج رئیسانی چیف آف سراوان نواب غوث بخش رئیسانی کے صاحبزادے تھے۔ نواب غوث بخش رئیسانی 1970ء کی دہائی میں بلوچستان کے گورنر تھے جو 1980ء کی دہائی میں بولان میں ایک قبائلی حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے، جس کے بعد قبیلے کا نواب اور سراوان کا چیف نواب محمد اسلم خان رئیسانی کو بنایا گیا۔ سراج رئیسانی نواب اسلم رئیسانی اور نواب زادہ لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کررہے تھے اور اپنی جماعت ’’بلوچستان متحدہ محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم سے سیاسی طور پر فعال تھے۔ چنانچہ جب بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) بنائی گئی تو نواب زادہ سراج رئیسانی نے اپنی تنظیم اسٹیبلشمنٹ کی منظورِ نظر اس جماعت میں ضم کردی۔ یوں سراج رئیسانی نے ’’باپ‘‘ کے ٹکٹ پر پی بی 35 سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس حلقے پر اُن کے بڑے بھائی نواب محمد اسلم رئیسانی بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے تھے۔ سراج رئیسانی کا بڑے بھائی اور قبیلے کے نواب کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ گویا انتہائی اقدام اور خاندان کے اندر سیاسی اختلافات کا عملی اظہار تھا۔ سراج رئیسانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران نواب اسلم رئیسانی پر تنقید سے بھی گریز نہ کیا۔ لکھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ سراج رئیسانی انتخابی مہم میں صبح و شام مصروف تھے۔ مہم کے سلسلے میں ایک جلسہ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں ہورہا تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ یہ 13جولائی کا دن تھا۔ کئی مقررین کے بعد سراج رئیسانی کو خطاب کے لیے بلایا گیا۔ وہ ڈائس پر آئے، بسم اللہ الرحمن الرحیم سے تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ پہلے سے موجود خودکش بمبار نے اسٹیج کے قر یب ہی دھماکا کردیا۔ شرکاء سراج رئیسانی کے استقبال کے لیے ابھی کھڑے ہی تھے کہ دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں بھرے جلسے میں ہر طرف لاشیں بکھر گئیں۔ لوگ زخموں سے چور اور کراہ رہے تھے۔ یہ دور دراز کا علاقہ ہے جہاں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ بہرحال مستونگ اور کوئٹہ کے ہسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کو منتقل کیا گیا۔ سراج رئیسانی کو زخمی حالت میں سی ایم ایچ لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس واقعے میں 149افراد جاں بحق اور تقریباً 180افراد زخمی ہوئے۔ دیکھا جائے تو انسانی جانوں کے ضیاع کے اعتبار سے یہ ملک کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس سے ملک میں امن و تحفظ پر مزید سوالات اٹھ گئے ہیں۔ اس دہشت گرد حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کرلی ہے، جبکہ سیکورٹی ذرائع کے مطابق دھماکا لشکر جھنگوی کے دہشت گرد نے کیا، اور اب تک چار شریک دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن کو خفیہ مقام پر تفتیش کی غرض سے لے جایا گیا ہے۔
سراج رئیسانی کی نمازِ جنازہ دھماکے کے اگلے روز کوئٹہ چھائونی کے موسیٰ اسٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔ سراج رئیسانی کی نمازِ جنازہ میں تاخیر اُن کی اہلیہ اور بیٹے کی تھائی لینڈ سے واپسی کے سبب ہوئی۔ نماز جنازہ کے بعد میت مستونگ میں ان کے آبائی گائوں’’کانک‘‘ لے جائی گئی جہاں آبائی قبرستان میں والد نواب غوث بخش رئیسانی، بھائی نواب زادہ اسماعیل رئیسانی اور بیٹے نواب زادہ حقمل رئیسانی کے پہلو میں انہیں سپردِ خاک کردیا گیا۔
سراج رئیسانی پر جولائی2011ء میں بھی حملہ ہوچکا تھا۔ یہ حملہ مستونگ شہر کے فٹبال اسٹیڈیم میں ہوا جہاں وہ فائنل میچ کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ان کے ہمراہ بیٹا حقمل رئیسانی بھی تھا کہ وہاں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کردیا۔ اس حملے میں سراج رئیسانی تو محفوظ رہے لیکن اُن کے نوجوان بیٹے حقمل رئیسانی نے ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیا، یعنی بیٹا قوم پرست دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور اب والد مذہب پرستوں کی دہشت گردی کا شکار ہوا۔ نوابزادہ سراج رئیسانی کی فاتحہ خوانی کوئٹہ کے سراوان ہائوس میں ہوئی۔ نگران وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، نگران وزیراعلیٰ علاء الدین مری، پشتون خوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی، بی این پی کے صدر سردار اخترمینگل، نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو، جے یو آئی کے مرکزی جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، ’’باپ‘‘ پارٹی کے سربراہ جام کمال، سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ، سابق کرکٹر شاہد آفریدی، کوئٹہ میں تعینات افغان اور ایرانی قونصل جنرل اور کئی دوسری اہم شخصیات تعزیت کے لیے کوئٹہ آئیں۔ بلاشبہ شہر کوئٹہ اور صوبے میں سوگ کا سماں تھا، اگرچہ حکومتی سطح پر بھی سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے سانحے کی تحقیقات کے لیے ٹروتھ کمیشن کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس سانحے پر عالمی برادری کا ردعمل بھی سامنے آیا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، سعودی عرب، قطر، اٹلی سمیت عالمی برادری نے سانحہ مستونگ کی مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں اور حکومتِ پاکستان سے افسوس کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیوگوئٹرس نے مستونگ دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہدا کے خاندانوں کے ساتھ گہری ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا اور زخمیوں کی مکمل اور جلد صحت یابی کی خواہش ظاہر کی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی پاکستان میں دہشت گردی کے گھنائونے حملوں کی مذمت کی۔ سلامتی کونسل نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہر طرح کی دہشت گردی عالمی امن اور سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ سلامتی کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد، تنظیموں اور ان کے مددگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے صدر ممنون حسین کو تعزیتی پیغام میں مستونگ دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہارِ افسوس کیا۔ جرمن چانسلر انجلا مرکل نے نگران وزیراعظم ناصرالملک کے نام تعزیتی پیغام میں مستونگ خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انتخابی مہم میں دہشت گرد حملے پر شدید دکھ ہوا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حملہ پاکستانی عوام کو جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے، خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں۔ یورپی یونین نے کہا کہ حالیہ حملوں کی مکمل تفتیش کی اشد ضرورت ہے اور توقع ہے کہ پاکستانی حکام انتخابی سرگرمیوں کی سیکورٹی یقینی بنائیں گے۔ پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کسی کو بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ افغان صدر اشرف غنی نے نگران وزیراعظم ناصر الملک اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کرکے سانحہ مستونگ پر تعزیت کی اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کا یقین دلایا۔