نام کتاب: ان سے بھی ملیے
(لطیف الزماں خاں کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ خاکے)
صفحات: 104 قیمت: 200 روپے
نام کتاب: لطیف الزماں خاں کی تنقید نگاری
(انشائے لطیف کے تناظر میں)
صفحات: 208 قیمت: 300 روپے
نام کتاب: تجھے ہم ولی سمجھتے
(لطیف الزماں خاں پر لکھے گئے خاکوں/ یادداشتوں کا مجموعہ)
صفحات:212 قیمت: 400 روپے
ان تینوں کتابوں کی ترتیب و تہذیب:ڈاکٹر ابرار عبدالسلام، صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان
بیکن بکس: غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور فون: 042-37320030
گلگشت ملتان۔ فون: 061-6520790, 6520791
ای میل:beaconbooks786@gmai.com
ڈاکٹر ابرار عبدالسلام کمال کے آدمی ہیں، ہر وقت کسی بامقصد کام میں مصروف رہتے ہیں، اب ان کی یہ تین کتابیں ہماری دسترس میں آئی ہیں جن کا تعارف پیش خدمت ہے۔ ان میں پہلی کتاب ’’ان سے بھی ملیے‘‘ لطیف الزماں خاں کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ خاکوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’امروز اخبار ملتان کا اجرا 14 جولائی 1959ء کو ہوا۔ ’امروز‘ میں ملکی اور غیر ملکی خبروں کے علاوہ علمی اور ادبی خبریں، مضامین، تجزیے، رپورٹنگ، تخلیقات اور خاکے بھی شائع ہوتے تھے۔ اس کے لیے صفحہ نمبر چار مختص ہوتا تھا۔ مشہور ادیب اور صحافی مسعود اشعر اکتوبر 1959ء سے 1978ء تک ’امروز‘ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ ان کے دورِ ادارت میں ’امروز‘ علمی اور ادبی حوالے سے خاص اہمیت حاصل کر گیا تھا۔ اس زمانے میں ’امروز‘ میں علمی اور ادبی خبریں، کالم، ادبی اجلاسوں کی کارروائیاں، شعری تخلیقات، اور دیگر ادبی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ اسی زمانے میں لطیف الزماں خاں نے مسعود اشعر کے اصرار پر ’’ان سے ملیے‘‘ کے عنوان سے لطیف عارف کے قلمی نام سے ملتان کے شعرا اور ادبا کے خاکے تحریر کیے۔ صرف 1978ء میں کم و بیش 19 خاکے شائع ہوئے۔ امروز میں شائع ہونے والے خاکوں میں سے کچھ لطیف صاحب کی کتاب ’’ان سے ملیے‘‘ کی پہلی اور دوسری اشاعت میں شائع ہوگئے تھے۔ بعض خاکے کتابی صورت میں شائع نہ ہوسکے تھے۔ دو خاکے غیر مطبوعہ بھی تھے۔ ان تمام خاکوں کو اس کتاب میں شائع کیا جا رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ابرار عبدالسلام نے لطیف الزماں خاں کی خاکہ نگاری پر مبسوط مقدمہ لکھا ہے۔ جن حضرات کے خاکے اس کتاب میں شامل ہیں ان کے اسمائے گرامی ہیں:
حُسَینا (کالی داس گپتا رضا)، خالدی خانم، حزیں صدیقی، عابد صدیق، اسلم ادیب، سلطان صدیقی، تابش صمدانی، ایاز صدیقی، ذکی پانی پتی، عاصی کرنالی، غضنفر مہدی، عزیز حاصل پوری، ثمر بانو ہاشمی، طاہر تونسوی، ظہیر عباس۔
کتاب نیوز پرنٹ پر چھپی ہے، مجلّد ہے۔
دوسری کتاب ’’لطیف الزماں خاں کی تنقید نگاری‘‘ (انشائے لطیف کے تناظر میں)
ڈاکٹر ابرار عبدالسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’لطیف صاحب کو تحقیق و تنقید سے خاص شغف تھا۔ دنیا بھر میں اردو تحقیق سے وابستہ محققین سے اُن کا براہِ راست تعلق رہا۔ اس تعلق کی نشوونما کی آبیاری وہ خطوط سے ہی کیا کرتے تھے۔ لطیف صاحب نے ہزاروں کی تعداد میں خطوط تحریر کیے۔ یہ خطوط انشائے لطیف کے نام سے ان کی زندگی ہی میں پانچ ضخیم جلدوں میں زیورِ طباعت سے آراستہ بھی ہوئے۔ ان خطوط میں تاریخ، تہذیب، ادب، سیاست، مذہب، تنقید، تحقیق اور متنوع موضوعات بکھرے ہوئے موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ جھلکیاں ادب کی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنے خطوط میں ادب، ادبی اصناف، ادبی شخصیات، ادبی افکار اور نظریات پر بے لاگ آراء دی ہیں۔ ان کی یہ آراء ان کے تنقیدی رویوں، تنقیدی روش اور تنقیدی نہج کی غماز ہیں۔ یہ آراء بعض اوقات نہایت مختصر اور بعض اوقات طویل طویل مضامین کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ ان کے خطوط میں موجود بعض تنقیدی نمونے بہت معیاری اور دلچسپ ہیں۔ ان کے خطوط میں موجود تنقید کے حوالے میں سب سے اہم وہ حصہ ہے جو انہوں نے فکشن پر تحریر کیا ہے۔ انشائے لطیف کو پڑھ کر لطیف صاحب کے خطوط کی ادبی اور تحقیقی اہمیت اور تنقیدی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’لطیف الزماں خاں ایک محقق، نقاد، مترجم، خاکہ نگار، مدون اور انشا پرداز تھے۔ غالب شناسی اور رشید شناسی میں انہیں تخصیصی امتیاز حاصل تھا۔ ان کی زندگی کا کم و بیش نصف صدی سے زائد عرصہ غالب سے عشق اور رشید احمد صدیقی سے عقیدت نبھانے میں صرف ہوا، اور یہی دونوں موضوعات اردو دنیا میں ان کی شناخت کا ذریعہ بنے۔ لطیف صاحب کی ادبی شخصیت کا ایک پہلو جو بالعموم اردو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہا وہ تنقید نگاری ہے۔ انہوں نے باقاعدہ تنقیدی مضامین یا کتب تحریر نہیں کیں، ان کے تنقیدی خیالات کی عکاسی ان کے تحقیقی مقالات میں کہیں کم اور کہیں بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہیں کہ ان کی تحقیق کا خمیر ان کی تنقید کی آنچ پر ہی تیار ہوا ہے۔ بعض اوقات ان کی تنقید ان کے شخصی عنصر سے گھل مل کر نت نئے ذائقوں کے ساتھ جلوہ گر بھی ہوتی ہے، جو ان کی تنقید کے ذائقے کو بدمزا بھی کرنے لگتی ہے۔ تاہم جہاں کہیں بھی ان کی تنقید نے ان کی شخصیت سے فرار حاصل کیا ہے وہاں انہوں نے تنقید کے خوبصورت نمونے پیش کیے ہیں۔‘‘
تیسری کتاب ’’تجھے ہم ولی سمجھتے‘‘ (لطیف الزماں خاں پر لکھے خاکوں/یادداشتوں کا مجموعہ) ہے۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام لکھتے ہیں:
’’لطیف الزماں خاں اردو کی وہ ادبی شخصیت ہیں جنہوں نے غالب اور رشید احمد صدیقی کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ ان کی انفرادیت کے دیگر حوالوں میں خاکہ نگاری، تنقید نگاری، تحقیق، تدوین، ترجمہ نگاری اور کالم نگاری بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کے خطوط کے پانچ مجموعے ’’انشائے لطیف‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگی ہی میں میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ ان کی منفرد اور دلچسپ شخصیت پر خاکہ لکھا جائے۔ اس حوالے سے راقم الحروف نے ان سے کہا تھا: آپ میرا خاکہ لکھ دیں۔ کہنے لگے: اب خاکہ لکھنے کی ہمت نہیں۔ میں نے کہا: اگر آپ میرا خاکہ نہیں لکھیں گے تو میں آپ کا خاکہ لکھوں گا اور بے کم و کاست لکھوں گا۔ انہوں نے کہا: ضرور لکھیے۔ ان کی زندگی میں تو میں خاکہ نہ لکھ سکا لیکن ان کے انتقال کے بعد یکے بعد دیگرے دو خاکے تحریر کیے۔ پھر راقم الحروف کو یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں ناں خاں صاحب پر لکھے ہوئے تمام خاکوں کو اکٹھا کرکے شائع کیا جائے۔ ان خاکوں سے خاں صاحب کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی بھی پڑے گی اور بکھرے ہوئے یہ تمام خاکے بھی یکجا ہوجائیں گے۔ لیکن وہ تمام خاکے اتنے نہیں تھے جن کی مدد سے ایک بھرپور کتاب تیار کی جا سکتی، چنانچہ خاں صاحب کے ملنے والوں سے اصرار کرکے کچھ خاکے لکھوائے۔ اب ان تمام خاکوں کو اکٹھا کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ابرار مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’خاکہ کسی انسان کی ایسی قلمی تصویر ہوتی ہے جسے اس کا لکھنے والا بے جان الفاظ کی مدد سے صفحۂ قرطاس پر اس انداز سے منتقل کرتا ہے کہ اس کی چلتی پھرتی اور بولتی تصویر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پڑھنے والے کے سامنے آموجود ہوتی ہے۔ مصور بھی خاکہ نگار کی طرح رنگوں کی مدد سے تصویرکشی کرتا ہے، لیکن دونوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مصور اپنے رنگوں اور لکیروں کی مدد سے انسان کے خدوخال، چہرے مہرے اور لباس کا جو نقشہ کھینچتا ہے وہ بالعموم فرد کے ظاہر کی عکاسی کرتا ہے (اگرچہ بعض فن کاروں نے اپنے مصورانہ شاہکار کے ذریعے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی کیفیات کو بھی خوب ابھارا ہے۔ ماہر مصور اپنی تصویر میں موجود فرد کے احساسات و جذبات کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں ضرور دکھا دیتا ہے، لیکن وہ خاکہ نگار کی طرح فرد کو چلتا پھرتا، ہنستا بولتا دکھانے پر قادر نہیں ہوتا)، جب کہ خاکہ نگار کردار کے ظاہر اور باطن دونوں کو اس طور پر پیش کرتا ہے کہ فرد اپنے پورے وجود کے ساتھ پڑھنے والے کے سامنے سانس لیتا نظر آتا ہے۔‘‘
اس کتاب میں جو خاکے یا یادداشتیں شامل کی گئی ہیں ان کی فہرست ذیل میں درج ہے:
’’خاکہ نگاری: فن اور روایت‘‘، ابرار عبدالسلام۔ ’’تجھے ہم ولی سمجھتے…‘‘، ابرار عبدالسلام۔ ’’ذکر ایک شجر سایہ دار کا‘‘، اجمل صدیقی۔ ’’لطیف الزماں کی یاد میں‘‘، ڈاکٹر اسلم فرخی۔ ’’لطیف الزماں خاں… ایک منفرد انسان‘‘، ڈاکٹر اطہر صدیقی۔ ’’خط‘‘، ڈاکٹر انوار احمد۔ ’’حقیقتِ بے پردہ کو دیکھنے کی جرأت‘‘، خالد سعید۔ ’’لطیف الزماں خاں‘‘، سردار زیدی۔ ’’لطیف الزماں خاں: حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا‘‘، شاکر حسین شاکر۔ ’’خانِ اعظم‘‘، شمیم ترمذی۔ ’’غالب نما کا مکیں‘‘، ڈاکٹر صلاح الدین حیدر۔ ’’پروفیسر لطیف الزماں غالب نما‘‘، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔ ’’کس زمانے کے آدمی تم ہو‘‘، ڈاکٹر عارف ثاقب۔ ’’استاد‘‘، عبدالعزیز بلوچ۔ ’’فش فرائی‘‘، مبشر مہدی۔ ’’خط‘‘، محمد شفیع۔ ’’پوسٹ کارڈ لکھنے والے اور اردو زبان‘‘، مسعود اشعر۔ ’’لطیف الزماں خاں کے ساتھ چوتھی ملاقات‘‘، ڈاکٹر مظہر عباس۔ ’’بھائی لطیف الزماں… چند یادیں‘‘، مہر الٰہی ندیم۔ ’’لطیف الزماں خاں کی کہانی کچھ میری، کچھ اُن کی زبانی‘‘، ابرار عبدالسلام۔
کتاب نیوز پرنٹ پر چھپی ہے، مجلّد ہے، رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔