ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کا آبائی اور پیدائشی تعلق پشاور کے مضافاتی گائوں پائوکہ سے ہے۔ آپ کے والدِ بزرگوار اجمل خان خلیل مرحوم ایک معروف بینکار تھے ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کے خاندان کا شمار علاقے کے معروف سیاسی اور سماجی خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ان کے ایک چچا حسن خان خلیل مرحوم سول سروس سے وابستہ رہے ، جبکہ ایک اور چچا محمداعظم چشتی مرحوم نے نوجوانی میں نہ صرف تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملکی اور علاقائی سیاست میں ایک بے باک اور مخلص لیڈر کے طور پر بھی خوب شہرت حاصل کی۔ یہ وہی اعظم چشتی صاحب ہیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی مسلم لیگ کے جھنڈے تلے گزاری لیکن 1990ء کی دہائی کے شروع میں جب وہ مسلم لیگ کی سیاست سے دل برداشتہ ہوئے توجماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ اعظم چشتی کی جماعت اسلامی میں شمولیت کا تمام تر سہرا ان کے بھتیجے ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کوجاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے 1980ء کی دہائی میں ڈائومیڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور زمانۂ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے طلبہ وابستہ رہے۔ آپ نے کراچی جمعیت کی نظامت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کچھ عرصے تک ڈائو میڈیکل کالج میں بطور ڈیمانسٹریٹر اور بعدازاں خیبر میڈیکل کالج پشاور کے ریسرچ سینٹر میں خدمات انجام دیتے رہے، لیکن آپ کو چونکہ سرکاری ملازمت کی بندشیں راس نہیں آئیں اس لیے آپ نے ملازمت پر پرائیویٹ پریکٹس کو ترجیح دی اور اس طرح عملی زندگی کے آغاز کے ساتھ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ تحریک اسلامی چونکہ آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے اس لیے جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد آپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ دن اورآج کا دن، آپ مختلف ذمے داریوں پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔ جماعت اسلامی پشاورکی امارت کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے پشاور میں جماعت کا کام زیادہ تر بعض شہری علاقوں تک محدود تھا، لیکن جب آپ پشاورکے امیر بنے تو آپ نے ایک واضح حکمت عملی اور وژن کے تحت پشاور کے مضافاتی دیہاتی علاقوں میں جماعت کی دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ انتہائی مختصر عرصے میں جماعت اسلامی کو پشاور کی مقبول عام جماعتوں میں بھی شامل کروا دیا، جس کا واضح ثبوت2001ء، 2004ء اور 2015ء کے بلدیاتی اور2002ء اور2013ء کے عام انتخابات میں جماعت کی بہتر کارکردگی ہے۔ ڈاکٹر اقبال خلیل جماعت اسلامی کے پہلے سیاسی راہنما ہیں جنہیں پشاور کی سیاست میں پہلی دفعہ کسی بڑے عوامی عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ 2001ء سے 2004ء تک ضلعی نائب ناظم کی حیثیت سے ایک فعال سیاسی کردار ادا کیا آپ کا شمار نہ صرف الخدمت فائونڈیشن کے بانیوں میں ہوتا ہے بلکہ آپ چار سال تک اس کے صوبائی صدر بھی رہے، جس کے دوران آپ نے تعلیم وصحت اور رفاہ عامہ کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ الخدمت کے پلیٹ فارم سے 2005ء کے تباہ کن زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کے دوران آپ نے ریلیف اور بحالی کے کاموں میںاہم کردار ادا کیا۔ پچھلے کئی برسوں سے جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر ہیں۔
آپ کو تحریکِ اسلامی کے پختون خطے بشمول افغانستان، قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خوا پر تحقیق کے لیے بنائے گئے تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کی بحالی اور دوبارہ فعالیت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ کی ان بے شمار خدمات اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی آپ کو متحدہ مجلس عمل خیبر پختون خوا کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ یہ آپ کی شب وروز محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ صوبے میں نہ صرف ایم ایم اے کی تنظیم سازی کا مرحلہ بخیروخوبی طے پاچکا ہے بلکہ ٹکٹوں کی تقسیم کے جاں گسل اور سخت ترین مرحلے کو بھی سر کرلیا گیا ہے، جس کے بعد ایم ایم اے کے امیدواران اورکارکنان ایک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں آئندہ انتخابات میں بہتر نتائج کے لیے ایم ایم اے کی انتخابی حکمت عملی کیا ہے، نیز مستقبل میں حکومت سازی کا موقع ملنے پر ممکنہ لائحہ عمل کیا ہوگا، اس حوالے سے نمائندہ فرائیڈے اسپیشل کی ایم ایم اے کے صوبائی جنرل سیکریٹری اور جماعت اسلامی کے نائب صوبائی ڈاکٹرمحمد اقبال خلیل سے کی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
……٭٭٭……
فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب 2007ء میں ایم ایم اے کی پانچ سالہ رفاقت اور شراکت داری کے بعد جس بھونڈے اور تلخ انداز میں اس کا خاتمہ ہوا تھا اس پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ کیا عوامل ہیں جنھوں نے ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے قائدین کو دس سال بعد ایک بار پھر ایک دسترخوان پر جمع کردیا ہے؟
ڈاکٹر اقبال خلیل: پہلے توآپ اس بات کی تصحیح کرلیں کہ ایم ایم اے ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ بعض ایشوز پر وقتی دبائو کے تحت غیر فعال ہوگئی تھی، جس کا خمیازہ اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو 2013ء کے انتخابات کے تلخ نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ یہی جماعتیں جب 2002ء میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے متحد تھیں تو انہیں ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص زبردست پذیرائی ملی تھی۔ لیکن جب ان جماعتوں نے 2013ء کے انتخابات میں تنہا پرواز کا فیصلہ کیا تو اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ہمارے ہاں انتخابی اتحاد کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے۔ ویسے بھی سیاست میں آپ نہ تو اپنے دروازے دوسری جماعتوں پر بند کرسکتے ہیں اور نہ ہی تن تنہا کوئی بڑا معرکہ سر کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاںایک مضبوط مذہبی ووٹ بینک ہمیشہ موجود رہا ہے، لیکن یہ ووٹ چونکہ منتشر رہا ہے اس لیے اس انتشار کا فائدہ سیکولر لبرل جماعتیں اٹھاتی رہی ہیں، لیکن ہمارے ہاں جب بھی مذہب کی بنیاد پر کوئی اتحاد بنا ہے تو اسے ہمیشہ بھرپور پذیرائی ملتی رہی ہے، جس کی واضح مثالیں 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد، 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد، اور2002ء میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی ہے۔ اسی احساس اور سوچ نے ملک کی مذہبی جماعتوں کو ایم ایم اے کی بحالی پر آمادہ کیا اور اس کے مثبت اثرات آپ کو نظر آرہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ایم ایم اے کے دوسرے جنم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ بنیادی طور پر دو جماعتوں جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کا اتحاد ہے، جبکہ اس میں دیگر تین چھوٹی جماعتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے، اور شاید اسی دلیل کی بنیاد پر جمعیت (س) اس اتحاد میں دوبارہ شامل نہیں ہوئی، جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی کے حلقوں میں بھی یہ تاثر ہے کہ مرکز اور تین صوبوں کی صدارت کے علاوہ دو تہائی نشستوں کے حصول کے بعد ایم ایم اے عملاً جمعیت (ف) کا اتحاد ہے جس میں جماعت اسلامی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اس تاثر کے بارے میں آپ کیا وضاحت فرمائیں گے؟
ڈاکٹر اقبال خلیل: دیکھیے آفریدی صاحب جیسا کہ آپ نے خود کہا کہ یہ محض ایک تاثر ہے جو ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ ہمیں تمام معاملات اور صورت حال کو من حیث المجموع دیکھنا ہوگا۔ سیاست ایک سائنسی عمل ہے، اس میں دو جمع دو چار نہیں ہوتے۔ ہر سیاسی جماعت میدانِِ سیاست میں اترتے وقت تمام تر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نفع اور نقصان کے حساب کتاب کے ذریعے کوئی قدم اٹھاتی ہے۔ ایم ایم اے دراصل اس میں شامل پانچ مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد ہے جس میں یہ تمام جماعتیں اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے وسیع تر مقاصد کے حصول کے لیے شامل ہوئی ہیں۔ ان میں مذہبی ہم آہنگی اور وطنِ عزیز کو ’’پاکستان کا مطلب کیا…لاالٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کے تحت ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے پائی جانے والی یکسانیت نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشترکہ جدوجہد پر آمادہ کیا ہے۔ لہٰذا اس اعلیٰ و ارفع مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے چھوٹی اور بڑی جماعت کی بحث لاحاصل ہے۔ دوسری جانب ہمیں اس تلخ زمینی انتخابی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک واضح حکمت عملی کے تحت ایسے امیدواران کو میدان میں اتارنا تھا جو نہ صرف ماضی کے انتخابات کے تناظر میں ایک واضح ووٹ بینک اور عوامی مقبولیت رکھتے ہیں، بلکہ جو لبرل، سیکولر اور قوم پرست جماعتوں کے اربوں کھربوں کے مالک امیدواران کی دولت کی چمک اور طاقت کا مقابلہ بھی کرسکیں۔ لہٰذا ہم نے ایک واضح فارمولے کے تحت باہمی مشاورت سے ان ہی دو اصولوں کی بنیاد پر ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اپنے امیدواران میدان میں اتارے ہیں۔ ہمارا منشور، جھنڈا اور انتخابی نشان چونکہ ایک ہے لہٰذا اس مرحلے پر ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کس جماعت کو کون سا عہدہ اورکتنی نشستیں ملی ہیں۔ اصل معاملہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستوں کا حصول ہے جس کی بنیاد پر مستقبل کی حکومت سازی ہوگی، اور ہمارا اصل ہدف یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے کم از کم خیبرپختون خوا میں حکومت سازی کے قابل ہوسکیں۔ جہاں تک ایم ایم اے کی فیصلہ سازی اور قیادت کا تعلق ہے، اس کے دستور کے مطابق اس کا سب سے اہم اور طاقتور فورم سپریم کونسل ہے جس میں تمام رکن جماعتوں کے سربراہان نہ صرف شامل ہیں بلکہ انہیں کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرنے کا مساوی اختیار بھی حاصل ہے۔ لہٰذا یہ کہنا نامناسب بلکہ غلط ہوگا کہ ایم ایم اے پر ایک پارٹی کی اجارہ داری ہے۔ اب تک جتنے بھی فیصلے ہوئے ہیں وہ اتفاقِ رائے اور باہمی مشاورت سے ہوئے ہیں، بعض معاملات پر جو تھوڑے بہت اختلافات ہیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ وہ بھی جلد دور ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک گھر کے افراد اور ایک جماعت میں اندرونی طور پر اختلافات قابلِ برداشت ہوسکتے ہیں تو پانچ جماعتوں کے اتحاد میں بعض معمولی اختلافات کو ہوا دینے یا پھر ان پر اتنا شور مچانے کی کیا تُک ہے؟
فرائیڈے اسپیشل:ڈاکٹرصاحب! قبائلی علاقے صوبے میں آئینی طور پر ضم ہونے کے باوجود ان علاقوں میں قومی اسمبلی کی 12 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں ایم ایم اے کی دونوں بڑی جماعتوں جمعیت(ف) اور جماعت اسلامی کے درمیان اختلافات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ یہاں سے دونوں جماعتیں ایم ایم اے کے بجائے الگ الگ نشانات کے تحت الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈاکٹر محمد اقبال: قبائلی علاقہ جات کی صورت حال چونکہ اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ملک کے دوسرے حصوں سے مختلف ہے، اور فاٹا انضمام پر چونکہ جمعیت(ف) اور جماعت اسلامی کے مؤقف میں واضح فرق پایا جاتا ہے، اس لیے ہماری تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود یہاں سے ٹکٹوں کی تقسیم پر وہ بریک تھرو نہیں ہوسکا ہے جوکہ ہونا چاہیے تھا، تاکہ دونوں جماعتوں کے امیدواران کا ووٹ بڑے پیمانے پر تقسیم اور ضائع ہونے سے بچ جاتا، کیونکہ اس کا فائدہ مخالف جماعتوں کو پہنچے گا۔ البتہ مولانا فضل الرحمن صاحب سے ہماری گزشتہ روز بنوں میں ہونے والی ایک خصوصی ہنگامی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کرلیا گیا ہے کہ سابقہ فاٹا کی بارہ میں سے چار نشستیں جن میں دو باجوڑ اور ایک ایک مہمند اور خیبرایجنسی باڑہ سے تعلق رکھتی ہیں، سے جماعت اسلامی کے امیدواران ہی ایم ایم اے کے امیدوار تصور ہوں گے، جبکہ باقی آٹھ میں سے سات نشستوں پر جمعیت(ف) کے امیدواران ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹرصاحب! اگر ایم ایم اے خیبر پختون خوا میں 30 تا 40 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو ایسی صورت میں مستقبل کی حکومت سازی کے حوالے سے ایم ایم اے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ ایم ایم اے حکومت سازی کے لیے کسی دوسری جماعت سے شراکتِ اقتدار کرے گی یا پھر اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے گی؟
ڈاکٹر اقبال خلیل:ہر سیاسی جماعت انتخابات میں کامیابی کے لیے میدان میں نکلتی ہے، ایم ایم اے کا اصل ہدف بھی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے کم از کم خیبر پختون خوا کی حد تک تنِ تنہا حکومت بنانا ہے۔ اسی مقصد کے تحت ہم نے ایک دو نشستوں کے سوا صوبے کی تقریباً تمام نشستوں پر اپنے امیدواران کھڑے کیے ہیں، جن میں جمعیت(ف) اور جماعت اسلامی کے علاوہ جمعیت العلماء پاکستان، اسلامی تحریک اور جمعیت اہلحدیث کے امیدواران بھی شامل ہیں جو بھرپور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ ہمارا کم از کم ہدف حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت کا حصول ہے، اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہمیں حکومت سازی کے لیے کسی دوسری جماعت کے دبائو اور بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہونا پڑے گا، بصورتِ دیگر ہم کسی بھی ہم خیال جماعت یا گروپ سے مل کر حکومت بنانے کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ حکومت کے بغیر آپ نہ تو عوام کی کوئی خاص خدمت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ایجنڈے اور منشور کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، اس لیے ہماری اوّلین کوشش تو یہی ہوگی کہ ہم خیبر پختون خوا میں حکومت بنائیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو ہمارے پاس اپوزیشن میں بیٹھنے اور اپوزیشن بینچوں پر مؤثر کردار ادا کرنے، اور صوبے کے عوام کی بہتر انداز میں زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کا آپشن کھلا ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب! آپ اس انٹرویوکی وساطت سے پاکستان کے ووٹرز کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر اقبال خلیل:میں اپنے بھائیوں، بزرگوں اور خاص کر اپنی بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ وہ 25 جولائی کو علی الصبح نہ صرف اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کرآئندہ عام انتخابات میں خوانین، جاگیرداروں اور سرمایہ داروںکو دوبارہ آزمانے سے گریز کریں گے بلکہ کتاب جو علم وحکمت اور دانائی کی نشانی ہے، کے نشان پر مہر لگاکر اپنی قسمت خود بدلنے کی فکر بھی کریں گے۔ میں اپنا ایک خصوصی پیغام الگ سے اُن نوجوانوں کے نام بھی دینا چاہوں گا جو25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پہلی دفعہ اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔یہ نوجوان ہی دراصل ہمارا سرمایۂ افتخارہیں، ہماری ان سے بے پناہ امیدیں وابستہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں آگے جاکر ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ نوجوان 25 جولائی کو نہ صرف ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں گے بلکہ انتہائی پُرامن اور منظم انداز میں کتاب کے نشان پر مہر لگا کر وطنِ عزیز سے جہالت، غربت، ظلم وزیادتی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور ناانصافی کے خاتمے میں اپنا بھرپور اور مؤثر کردار بھی ادا کریں گے۔