بلوچ سیاسی جماعتیں اور مسلح گروہ

گزشتہ تین عشروں میں بلوچستان اور یہاں کے عوام کو خوف اور عدم تحفظ کا احساس دامن گیر رہا ہے۔ وہ مردم کُشی و بربادی کے ہولناک سانحات کا سامنا کرچکے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ نامعلوم انتقام کا نشانہ بنے۔ بلوچ سیاست میں تشدد اور شدت پسندی کا عنصر شامل ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے اس رجحان کو سنجیدہ نہ لیا، بلکہ بعض جماعتوں اور شخصیات کی خاموشی و مبہم طرزِعمل سیاست میں ان رویوں کے شامل ہونے پر ان کی رضامندی ظاہر کرتا تھا۔ انہیں یقین ہوچلا تھا کہ اب ریاست پاکستان کی شامت آہی گئی۔ اس خاموش حمایت کے تحت بلوچ طلبہ، سیاسی کارکن، وکلا، اساتذہ اور دانشور شدت پسندی کے رنگ میں رنگتے رہے اور پھر بازی پلٹ گئی۔ ریاست نے ہاتھ ڈالا اور مضبوط گرفت کرلی۔ ادھر شدت پسند تنظیمیں سوویت یونین کے سفاک حکمران اسٹالن کے اس قول کو اپنا چکی تھیں کہ انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا صفایا کیا جائے۔ چنانچہ ان گروہوں نے بلوچ سیاسی جماعتوں اور قبائلی و سیاسی شخصیات پر وار شروع کردیے۔ ان کے ہاتھوں کئی سیاسی رہنماء و کارکن قتل ہوئے۔ نواب ثناء اللہ زہری کے بیٹے، بھائی اور بھتیجے کو بم دھماکا کرکے قتل کردیا گیا۔ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی کے بیٹے حقمل رئیسانی کو مستونگ میں فٹ بال میچ کے دوران بم سے نشانہ بنایا گیا۔ والد کے سامنے لختِ جگر خون میں لت پت پڑا رہا۔ یہی دردناک و ناقابلِ برداشت منظر نواب ثناء اللہ زہری کی نظروںکے سامنے تھا۔ سیاست نفرت، انتقام اور تشدد کی انتہائوں پر پہنچ گئی۔ کوئی بے رحم ہوکر اپنوں کے خون کا پیاسا بن گیا، اور کسی نے ان کی ضد میں اخلاقیات اور سیاسی معیارات کو پائوں تلے روند ڈالا۔ رازق بگٹی ایک معروف بلوچ نیشنلسٹ تھے جو افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار چکے تھے۔ ان کی جلاوطنی پاکستان کے بغض اور آزاد بلوچستان کے قیام کی جدوجہد کے سلسلے میں تھی۔ بہرحال وہ پاکستان آئے اور پھر سے سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ انہوں نے علیحدگی، اور ریاست مخالف سیاست ترک کردی۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد صوبے میں قاف لیگ کی حکومت بنی اور جام یوسف وزیراعلیٰ بن گئے۔ رازق بگٹی کو حکومت کا ترجمان مقرر کیا گیا۔ رازق بگٹی بڑے دانشور تھے، ان کی بلوچ سیاسی جماعتوں اور بڑوں پر تنقید نوک دار ہوا کرتی تھی۔ بڑے بڑے ان سے خائف دکھائی دیتے تھے۔ پھر ہوا یوں کہ ایک دن زرغون روڈ پر بلوچستان اسمبلی کے قریب انہیں کلاشنکوف کے برسٹ مار کر چھلنی کردیا گیا۔ یہ حملہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے کیا۔ رازق بگٹی کی موت پر گویا بلوچ سیاسی حلقوں میں خوشی کا سماں بندھ گیا۔ اس بلوچ دانشور کی نمازِ جنازہ اور تدفین پر ایسا تاثر دیا گیا جیسے کسی غدار کو سپردِ خاک کیا گیا ہو۔ گویا یہ قتل اپنی رائے بندوق کی نوک پر مسلط کرانے کی روایت کا تسلسل تھا۔ آج جب بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے کسی معتبر اور عہدیدار پر حملہ ہوتا ہے، ان کی رہائش گاہ بموں سے تباہ کردی جاتی ہے، یا کسی کا ہدفی قتل ہوتا ہے تو میر حاصل بزنجو اور سردار اختر مینگل کی جماعتیں مسلح گروہوںکو مخاطب کرکے بول اُٹھتی ہیں کہ ’’کسی پر اپنی رائے اور سوچ بزور طاقت مسلط نہیں کی جاسکتی‘‘۔ جبکہ یہی بات رازق بگٹی اور اُن جیسے دوراندیش زعماء اور دانشور بہت پہلے کہا کرتے تھے۔ مسلح جتھوں کے لیے اندرونی دشمن یقینا نیشنل پارٹی، بی این پی، بی این پی عوامی اور وہ سیاسی لوگ ہیں جو دوسری جماعتوں کا حصہ ہیں اور فیڈریشن پر یقین رکھتے ہیں۔ نواب بگٹی جب فورسز کے حصار میں تھے تو صوبے کے کئی سیاست دان دلی طور پر اُن کی سلامتی کے متمنی نہیں تھے۔ آخر نواب بگٹی موت کے منہ میں چلے گئے۔ کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں غائبانہ نمازِ جنازہ ہوئی۔ ان کے صاحبزادے جمیل بگٹی اور طلال بگٹی مرحوم موجود تھے۔ نمازِ جنازہ کے بعد سینکڑوں نوجوانوں نے توڑپھوڑ شروع کردی۔ مجھ سمیت کئی صحافی پھنس گئے۔ اس وقت نیشنل پارٹی کے کچکول علی ایڈووکیٹ نے جو صوبائی اسمبلی میں اُس وقت قائدِ حزبِ اختلاف تھے، ہمیںاپنی گاڑی میں سوار کرلیا۔ ہمارے ساتھ بلوچ قوم پرست رہنماء سابق سینیٹر مہیم بلوچ بھی بیٹھ گئے، کیونکہ وہ خود اس صورت حال میں محفوظ نہ تھے۔ ایک نوجوان نے مہیم بلوچ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مہیم بلوچ کچکول علی کی گاڑی کی ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے، چنانچہ کچکول علی انہیں پچھلی نشست پر لے آئے اور آگے خود بیٹھ گئے تاکہ کوئی انہیں نقصان نہ پہنچائے۔ پُرتشدد احتجاج میں آدھا بلوچستان جل گیا تھا۔ کہیں فورسز پر حملہ، تو کہیں دستی بم پھینکے جارہے تھے۔ اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے کچکول علی ایڈووکیٹ محظوظ ہورہے تھے۔ آخرکار وہ خود بھی یورپ پہنچ کر سیاسی پناہ گزین بن گئے۔ بعد کے برسوں میں بھی تباہی و بربادی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔
مسلح گروہ اب بھی موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ بلوچ سیاسی جماعتیں پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ بنیں۔ اس بُرائی سے کئی دوسری برائیاں پیدا ہوئیں۔ بلوچستان کے ایک سابق نگراں وزیراعلیٰ میر نصیر مینگل جو وفاقی وزیر بھی رہے ہیں، کا خاندان طاقت کے ذریعے سوچ مسلط کرنے کے خلاف تھا۔ یہ خاندان علیحدگی کی سیاست کرنے والوں کے سامنے ڈٹ گیا۔ علیحدگی کا نعرہ لگانے والے یہ نوجوان غداری اور سرکار کی مخبری کا فتویٰ لگاکر لوگوں کو قتل کردیتے۔ اس طرح میرنصیر مینگل کے بیٹے ان کے خلاف اُٹھے جن میں میر شفیق مینگل نمایاں ہیں۔ شفیق مینگل 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل وڈھ کے ناظم منتخب ہوئے۔ میری ان سے غالباً 2003ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری ملک اشرف اعوان کے ہمراہ خضدار شہر میں ملاقات ہوئی۔ تعلیم یافتہ، ذہین اور دلیر شخص ہیں۔ ایک اچھے سیاست دان کے طور پر اُبھر سکتے تھے۔ مگر نجانے کیوں اپنے لیے مشکل و قطعی غلط راستے کا انتخاب کیا۔ چنانچہ شفیق مینگل حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکل بن گئے۔ ان پر ہدفی قتل، اجتماعی قبروں، اغوا برائے تاوان، لیویز فورس پر حملوں جیسے کئی سنگین الزامات لگنے لگے۔ میں نے اہم منصب پر بیٹھے ذمے دار اشخاص کو اس پہلو پر شرمندگی اور پریشانی کا اظہار کرتے سُنا ہے۔ یقینا اس کے لیے ریاست کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ بہرحال بلوچ شدت پسند اگر اپنی سوچ اور رائے بندوق کی نوک پر مسلط کرنے کی ناروا سیاست نہ کرتے تو کئی فتنوں کا ظہور ہی نہ ہوتا۔ ایک لمبے عرصے تک صوبے کے کئی علاقوں میں حکومت کی عمل داری برائے نام ہوکر رہ گئی تھی۔ لشکر جھنگوی جیسی تنظیوں نے بھی اس کا فائدہ اُٹھایا، اور اس آڑ میں اپنا نیٹ ورک مضبوط کرتی رہیں۔ میں عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف فاٹا کے دہشت گردوں کی کارروائیاں مکافاتِ عمل کے تناظر میں دیکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی بھی ہوش کے ناخن لے، اور علاقے اور یہاں کے عوام کو کسی آزمائش میں مبتلا کرنے سے گریز کرے۔