امریکہ کے دفتر خارجہ نے ایران پر سیاسی و سفارتی دبائو کے لیے ایک منظم مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ ماہ سنگاپور میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ سے ملاقات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ ایران پر جو پابندیاں عائد کی جائیں گی وہ دنیا دیکھے گی۔ گزشتہ ہفتے امریکی دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر منصوبہ بندی برائن ہک (Brian Hook) نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ایران کوئی ’عام‘ یا Normal ملک نہیں کہ عام ملک دہشت گردی کو فروغ نہیں دیتا اور نہ مہلک میزائل دنیا بھر میں بانٹتا پھرتا ہے، چنانچہ اس غیر معمولی ملک پر غیر معمولی دبائو ضروری ہے۔ ایران پر دبائو کو انھوں نے Snap- back حکمت عملی کہا جو فٹ بال میں گیند کو جھپٹ کر چھیننے اور پیچھے موجود کھلاڑی کی طرف پھینکنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر نے وضاحت کی کہ امریکہ کو تہران میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ ایرانی حکمرانوں کا رویہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
مسٹر برائن ہک کے مطابق اس نئی حکمت عملی کا آغاز 4 اگست کو ہوگا جب ایران سے باہر بھیجی جانے والی ہلکی کاروں، موٹر سائیکلوں، سونا اور دوسری برآمدات کو ہدف بنایا جائے گا جس کے بعد دوسرے Snap- backحملے میں نومبر تک اس کی تیل کی برآمدات کو صفر کردینے کے ساتھ عبرت ناک قدغنیں عائد کرکے بینک ملی ایران (اسٹیٹ بینک) کو مفلوج کردیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ تیل کی خریداری روکنے کے لیے صدر ٹرمپ اپنے اتحادیوں سے رابطے میں ہیں اور وہ اگلے ہفتے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سربراہوں سے خود ملاقات کریں گے۔ دوسری طرف امریکی وزارتِ خزانہ کے حکام اپنے خلیجی حلیفوں سے مل کر ایرانی تیل کے خریداروں کو تہران سے تجارتی تعلقات توڑلینے پر آمادہ کررہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ساتھ ایشیا اور افریقی ممالک کو بھی اس ’’کارِخیر‘‘ میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مسٹر ہک کو یقین ہے کہ پابندیوں کا شکنجہ کس جانے پر ایران کے لیے نئے جوہری معاہدے پر آمادگی کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔
صدر ٹرمپ کو ایران کے جوہری و میزائل پروگرام پر سخت اعتراض ہے اور وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ایرانیوں نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر 2015ء میں جوہری پروگرام ختم کرنے کا ایک جعلی معاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں ایران پر عائد معاشی پابندیاں ختم کردی گئیں۔
2015ء میں ہونے والا یہ معاہدہJoint Comprehensive Plan of Action یا JCPOA کہلاتا ہے جو ایرانی جوہری معاہدے کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے پر سلامتی کونسل کے مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی اور یورپی یونین نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے کو عالمی جوہری کمیشن (IAEC)کی سہ ماہی تصدیق سے مشروط کیا گیا ہے۔ IAEC اب تک ایرانی جوہری تنصیبات کے 10 معائنے کرچکا ہے اور ہر بار اس کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ایران جوہری معاہدے پر مخلصانہ عمل درآمد کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو ماہ پہلے تک امریکہ سمیت تمام فریق اس معاہدے کی توثیق کرتے چلے آئے ہیں، تاہم 8 مئی کو اپنی نشری تقریر میں صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا، اور اب وہ اس بات پر مُصر ہیں کہ ایران پر دوبارہ وہی پابندیاں عائد کردی جائیں جو Roll-backکے اس معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایک آمرانہ حکومت ایرانی عوام کے سروں پر مسلط ہے جو 1979ء کے شدت پسند اسلامی انقلاب کا تسلسل ہے۔ ملاّئوں کی یہ حکومت مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کی راہ پر گامزن ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران یمن میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے۔ ایران حزب اللہ، حماس اور القاعدہ کا پشتی بان ہے اور ’مرگ بر امریکہ و مرگ بر اسرائیل‘ ایران کا قومی نعرہ ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کی مدد کے علاوہ ایران عراق اور افغانستان میں بھی شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ ایران درپردہ (proxy) لڑائیوں کی سرپرستی کے ذریعے علاقے میں عدم استحکام پھیلارہا ہے جس کی وجہ سے تہران علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب شمالی کوریا سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عشق کا آغاز نہیں ہوا تھا، چنانچہ انھوں نے تہران کے خلاف فردِ جرم میں یہ الزام بھی درج کردیا کہ ایرانی حکومت شمالی کوریا کو مالی مدد فراہم کررہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار یا حاصل نہ کرسکے تہران پر عبرت ناک پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
امریکہ کی جانب سے ایران جوہری معاہدے کی عدم توثیق پر اُس کے یورپی اتحادیوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ ان رہنمائوں کا خیال ہے کہ معاہدہ جوہری عدم پھیلائو کا ایک ستون ہے جسے ختم کرنے سے عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حلیفوں کے مؤقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا کہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے، لیکن امریکی قانون سازوں نے اُن کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جان کیری نے کہا کہ صدر ٹرمپ جوہری معاہدے کی عدم تصدیق سے بین الاقوامی بحران پیدا کررہے ہیں جس سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
امریکی کانگریس کی جانب سے مایوس ہوکر صدر ٹرمپ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں عائد کررہے ہیں اور دفتر خارجہ کی جانب سے Snap- back حکمت عملی کا اعلان اسی جانب ایک قدم ہے۔ گزشتہ دنوں صدر ٹرمپ نے یورپی یونین، نیٹو اور اپنے دوسرے حلیفوں کے نام اپنے خط میں اُن سے درخواست کی کہ ایران سے خام تیل کی خریداری روک دی جائے، اور اس سلسلے میں 4 نومبر کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہندوستان ہے، لہٰذا مودی جی کو منانے کے لیے اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر شریمتی نمرتا رندھاوا المعروف نکی ہیلی دِلّی آئیں جہاں انھوں نے ہندی وزیراعظم کے علاوہ لوک سبھا کے پارلیمانی قائدین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ سفیر صاحبہ کے والدین کا تعلق ہندوستانی پنجاب کے سکھ گھرانے سے ہے۔ اب شریمتی جی مسیحی مذہب اختیار کرچکی ہیں۔ امریکی صحافتی ذرائع کے مطابق ہندوستان اس شرط پر ایرانی تیل کی خریداری منسوخ کرنے پر راضی ہوگیا ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پر جاری ہندوستانی منصوبوں پر امریکہ کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ دوسری طرف ترک حکومت نے ایران کے بائیکاٹ کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی کہ مطالبہ ترکی کے مفاد میں نہیں، اور اس قسم کے یک طرفہ و من مانے فیصلوں سے علاقے میں کشیدگی بڑھے گی۔ فی الوقت امریکہ و اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً ساری دنیا تہران کی پشت پر ہے اور صدر ٹرمپ اور اُن کے اسرائیلی دوستوں کو تنہائی کا سامنا ہے۔
امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے بعد ایران نے جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے گزشتہ ہفتے امریکہ کے سوا JCPOAکے دوسرے دستخط کنندگان سے فون پر گفتگو کی اور کہا کہ تہران کو توقع ہے کہ امریکہ کی بدعہدی سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔ 6 جون کو ایران کے وزیرخارجہ جاوید ظریف کی دعوت پر برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، روس اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا جائزہ لینے کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جمع ہوئے۔ اجلاس کی صدارت یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور فیڈریکا موغیرینی نے کی۔ محترمہ موغیرنی کی درخواست پر IAECکے ترجمان نے آخری جوہری معائنے کا خلاصہ پیش کیا جس کے مطابق ایران کی جانب سے معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اجلاس میں ایرانی وزیرخارجہ نے مطالبہ کیا کہ امریکی پابندیوں کے توڑ کے لیے معاہدے کے دوسرے فریق ایرانی تیل اور دوسری مصنوعات پر درآمدی محصولات میں خصوصی چھوٹ کا اعلان کریں اور ایران میں قومی سرمایہ کاری کے حجم کو بڑھائیں۔ ایرانی وزیرخارجہ کا مطالبہ تھا کہ ان منصوبوں کا اعلان صدر ٹرمپ کی جانب سے پابندیاں سخت کردینے کے 4 نومبر کے ہدف سے پہلے کیا جائے۔ وزراء کے اجلاس میں ایرانی وزیرخارجہ نے دھمکی دی کہ اگر امریکہ کے بائیکاٹ سے پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ نہ کیا گیا تو تہران کے پاس JCPOA سے دست بردار ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ویانا اجلاس میں شریک تمام ممالک نے امریکی بائیکاٹ کے ازالے کے لیے ایران کو مدد کی یقین دہائی کرائی، تاہم نومبر سے پہلے کسی ٹھوس پیکیج کے اعلان کو قبل ازوقت قراردیا۔ فرانس کے وزیرخارجہ جین ڈیرین (Jean- Yves Le Drian)نے کہا کہ 4 اگست سے پہلے کچھ مراعات کا اعلان کیا جائے گا اور امریکی پابندیوں کو دیکھتے ہوئے نومبر تک ترغیبات میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ فرانسیسی وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے درخواست کی کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدے سے دست برداری کی دھمکی نہ دیں کہ کوئی بھی ملک کسی بھی قسم کے بلیک میل کو پسند نہیں کرتا۔ جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس (Heiko Maas) نے کہا کہ امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا مکمل ازالہ یورپی اقوام کے لیے ممکن نہیں، تاہم ایران کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
ایران کے لیے یورپی ممالک کی یقین دہانیاں حوصلہ افزا ہیں، تاہم ڈالر کی حکمرانی کی بنا پر بین الاقوامی تجارت امریکی بینکوں اور وزارتِ خزانہ کے زیراثر ہے۔ واشنگٹن کثیرالقومی کمپنیوں کو ڈرا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی اداروں نے ایران سے اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کا آغاز کردیا ہے۔ امریکی کمپنی GE نے گیس ٹربائن کے منصوبے منسوخ کردیئے ہیں، جبکہ اس کے ذیلی ادارے بیکر ہیوز نے بھی ایران سے اپنی دکان بڑھا دینے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا میں تیل و گیس کی سب سے بڑی خدمت رساں کمپنی شلمبرڑے (Schlumberger)نے ایران میں اپنا کاروبار لپیٹنا شروع کردیا ہے۔ تہران کو سب سے بڑا دھچکہ فرانسیسی تیل کمپنی ٹوٹل (TOTAL) کے اس فیصلے سے پہنچا جس کے مطابق وہ ایران کی جنوبی پارس گیس فیلڈ میں نئی سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔ خلیج فارس کی تہ میں ابلتے گیس کے یہ چشمے اپنے حجم کے اعتبار سے دنیا کے چند عظیم ترین ذخائر میں شمار ہوتے ہیں، اور ایرانی حکومت نے انتہائی پُرکشش شرائط پر ان میدانوں سے گیس نکالنے کا ٹھیکہ ’ٹوٹل‘ کو دیا تھا۔
امریکہ کی جانب سے ایرانی معیشت کی مکمل بربادی کے عزم کی بنا پر سفارتی کوششوں کے ساتھ تہران عسکری پنجہ آزمائی پر بھی تیار نظر آرہا ہے۔ گزشتہ دنوں صدر روحانی نے کہا کہ اگر ہمارے تیل پر پابندی لگائی گئی تو آبنائے ہرمز محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ 29 میل چوڑی آبنائے ہرمز، خلیجِ فارس کو خلیج اومان کے راستے بحرعرب سے ملاتی ہے۔ خلیج فارس سے کھلے سمندروں کی طرف آنے کا واحد راستہ اسی آبی شاہراہ سے گزرتا ہے جسے فارسی میں تنگہِ ہرمز کہتے ہیں۔ روزانہ 1کروڑ 70 لاکھ بیرل خلیجی تیل سے لدے دیوقامت ٹینکر آبنائے ہرمز عبور کرکے کھلے سمندر میں داخل ہوتے ہیں جو دنیا بھر کے تیل کا 20 فیصد ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا ہے کہ اگر بازار کے دروازے ایرانی تیل پر بند ہوئے تو پھر آبنائے ہرمز سے ایک بوند تیل نہیں گزر سکے گا۔ اس دھمکی پر امریکہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور امریکی فوج کی مرکزی کمان (CENTCOM) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکی فوج آبنائے ہرمز کو کھلا رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کلیدی اہمیت کی اس آبی گزرگاہ کوکسی قیمت پر بند نہیں کرنے دیا جائے گا۔ امریکہ کی مضبوط بحریہ کا مقابلہ ایران کے بس کی بات نہیں لیکن فائرنگ اور چھاپہ مار بحری جنگ کے ذریعے ایران یہاں سے گزرنے والے جہازوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے، جس سے نہ صرف ٹینکروں کی انشورنس اور دوسرے مواصلاتی اخراجات میں بھاری اضافہ ہوجائے گا بلکہ گزرگاہ میں ایک آدھ ٹینکر کے غرقاب ہونے سے جہازوں کی نقل و حمل میں عارضی تعطل بھی خارج از امکان نہیں۔ ایران عراق جنگ کے دوران یہاں ٹینکروں پر خوفناک حملے ہوچکے ہیں۔
آبنائے ہرمز کی ممکنہ مخدوش صورتِ حال کی بنا پر سعودی عرب نے اپنے تیل کی بحر احمر کے ذریعے جزوی ترسیل کا بندوبست کررکھا ہے، لیکن بحراحمر کا راستہ یمن کے ساحلوں کو چھوتا آبنائے باب المندب سے گزرتا ہے، اور اس بحری گزرگاہ کو یمن کے ایران نواز حوثی چھاپہ مار نشانہ بناسکتے ہیں۔ انھی خدشات کی بنا پر پیداوار بڑھنے کے باوجود تیل کی قیمتوں میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں میں تیل کی قیمتیں 62 سے بڑھ کر 74 ڈالر فی بیرل ہوگئیں۔ کشیدگی جاری رہی تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان برقرار رہے گا۔ تیل کے متوقع بحران سے پاکستان جیسے ملکوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جنھیں کرنسی کی قدر میں زوال کی بنا پر پہلے ہی مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے۔