سید مودودیؒ کے معتمد ساتھی، جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے امیر اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن مولانا عبدالعزیز12اپریل 1973ء کو تقریباً 50سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا ایک جید عالم دین، مؤثر مبلغِ اسلام، مستند محقق اور دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ مولانا کو لوگ ’’مولانا عبدالعزیز کوئٹہ والے‘‘ کے طور پر جانتے تھے، اس لیے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کوئٹہ میں گزارا۔ مولانا دراصل ہزارہ کے سنگلاخ مگر مردم خیز خطے میں پیدا ہوئے۔ بالاکوٹ کا تاریخی مقام مولانا کے آبائی گائوں ملوکڑہ سے تقریباً پندرہ کلومیٹر دور ہے۔ مولانا نے ایک دینی اور علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والدِ گرامی مولوی صدیق اللہ بہت بڑے عالم تھے اور اسلاف کی روایات کے پوری طرح امین۔ علم کے ساتھ ساتھ زہد و تقویٰ ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔ مولانا صدیق اللہ جوانی ہی میں فوت ہوگئے۔ ان کی وفات کے وقت مولانا عبدالعزیز کی عمر چند ماہ تھی، جب کہ ان کے بڑے بھائی فقیر محمد دو سال کے تھے۔
مولانا کے دادا مولوی کریم اللہ اُس وقت بقیدِ حیات تھے، انھوں نے اپنے یتیم پوتوں کے سر پر دستِ شفقت رکھا۔ مگر وہ بھی جلد ہی داغِ مفارقت دے گئے۔ مولانا کے چچائوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب ابوطالب کی طرح بھتیجوں کی سرپرستی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مولانا کی والدہ بڑی عظیم خاتون تھیں۔ صبر و شکر اور عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتیں۔ انہی کی کاوشوں اور دعائوں کا نتیجہ ہے کہ مولانا عبدالعزیز علم و عرفان کے افق پر چاند بن کر طلوع ہوئے اور زندگی بھر شبِ تار میں روشنی بکھیرتے رہے۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی، جب کہ اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے رامپور تشریف لے گئے۔ مولانا مرحوم کئی مرتبہ اپنے اس تعلیمی سفر اور دورِ طالب علمی کے دلچسپ واقعات سناتے رہتے تھے۔
مولانا عبدالعزیز محض قدیم علوم کے ماہر ہی نہیں تھے بلکہ جدید علوم پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ مولانا مرحوم نے الٰہ آباد اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی عالم اور مولوی فاضل کی بھی سندیں حاصل کی تھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے علم کے مقابلے میں ان سندات کی کوئی حیثیت اور وقعت نہ تھی۔ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد مولانا عبدالعزیز مرحوم رامپور ہی میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ رامپور جہاں مولانا نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا تھا مولانا کو بہت محبوب تھا۔ مولانا اپنے اخلاقِ عالیہ، گہرے مطالعے اور پُرکشش شخصیت کی وجہ سے رامپور کی ہردلعزیز شخصیت تھے۔ مولانا 1936ء میں رامپور گئے اور چھ سال کی مختصر مدت میں سندِ فراغت بھی حاصل کی اور بطور معلم بھی خدمات سرانجام دیں۔ 1942ء میں مولانا رامپور کو خیرباد کہہ کر اپنے وطن مالوف واپس آگئے۔ اسی دور میں مولانا کی والدہ کی وفات ہوئی۔ شفیق ماں کی جدائی سے مولانا بہت غمزدہ ہوئے مگر انھوں نے اس صدمے کو بھی حوصلے اور صبر سے برداشت کیا۔
والدہ کی وفات کے بعد مولانا ایک بار پھر اپنے گائوں سے نکل کھڑے ہوئے۔ کوئی منزل متعین نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے کوئٹہ کی قسمت کو چار چاند لگانے کا فیصلہ کررکھا تھا۔ مولانا جواں سالی میں کوئٹہ پہنچے اور پھر زندگی بھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ جماعت اسلامی بلوچستان کا ذکر ہو یا جامع مسجد چمن پھاٹک کا تذکرہ، تعمیرنو پبلک ہائی اسکول کا خیال آئے یا جامعہ اسلامیہ مطلع العلوم کی تاریخ کریدی جائے، ہر جگہ مولانا عبدالعزیز کا نامِ نامی مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔
مولانا عبدالعزیز مرحوم دبلے پتلے، نحیف و نزار اور چھوٹے قد کے انسان تھے، مگر اس کمزور جسم میں نہایت اعلیٰ درجے کا دماغ، بلا کی جرأت رکھنے والا دل اور مسحور کردینے والی زبان خود خالقِ کائنات نے ودیعت کررکھی تھی۔ مولانا کو کئی بیماریاں لاحق تھیں۔ مولانا علاج کے سلسلے میں اکثر کراچی تشریف لے جاتے تھے۔ وہ بیماری کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔ ڈاکٹرں سے مشورے بھی جاری رہتے اور دعوت و تبلیغ کا فرض بھی ادا کرتے رہتے۔ مولانا کو ہمیشہ خوش و خرم اورمسکراتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ اپنے مخاطب کو پتا تک نہ چلنے دیتے کہ ان کو بیماری نے کس قدر نڈھال کررکھا ہے۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم سے جن لوگوں کو قریبی تعارف حاصل ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مرحوم ہر وقت اسی فکر میں گھلتے رہتے تھے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے در پر کیسے جھکایا جائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی بنیاد ہی اسلام ہے، اگر یہاں اسلام نافذ نہ ہوا تو پاکستان کے وجود کا کیا جواز باقی رہ جائے گا۔ وہ یہ بات اتنے دردِ دل کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
مولانا عبدالعزیز مرحوم زمانۂ طالب علمی سے ہی مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے روشناس ہوچکے تھے۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں چھپنے والے مولانا مودودیؒ کے بعض مضامین انھیں مکمل یاد ہوجاتے تھے۔ مولانا عبدالعزیز جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن 1945ء میں بنے۔ چند ہی سال بعد مولانا کو امیر جماعت اسلامی بلوچستان مقرر کردیا گیا۔ انھوں نے بلوچستان کے سماجی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات کا گہرا مطالعہ کیا۔ مختلف علاقوں کے جغرافیے اور تاریخ سے مکمل واقفیت حاصل کی۔ قبائلی نظام اور اس کے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھا۔ صوبہ بلوچستان کے متعلق مولانا کی رائے بڑی جچی تلی اور اعدادوشمار کی روشنی میں دلائل سے مزین ہوتی تھی۔ مولانا عبدالعزیز کو سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ اس کا کئی مرتبہ برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔
میں نے پہلے پہل مولانا عبدالعزیز مرحوم کو 1963ء میں دیکھا۔ ان کا نام سن رکھا تھا اور ذہن میں ان کا جو نقشہ تھا وہ لمبے تڑنگے، بھاری بھرکم، مضبوط و توانا پٹھان کا تھا، مگر مولانا اس سے بالکل مختلف تھے۔ جب میں نے انھیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی مسکراہٹ اور اندازِ گفتگو نے مجھے مسحور کرلیا۔ مجھے یاد ہے کہ مولانا نے اُس وقت پگڑی باندھ رکھی تھی اور شیروانی اور شلوار زیب تن تھی۔ وہ عموماً اسی لباس میں لاہور آیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو اتنی مدلل اور زبان اتنی میٹھی تھی کہ تقریر کررہے ہوں یا ٹیبل ٹاک، اپنی بات کو مخاطب کے دل میں اتارنے کا بہترین فن جانتے تھے۔ پٹھان ہونے کے باوجود نہایت شستہ اور رواں اردو بولتے تھے، جس میں رامپور کی ادبیت کا بھرپور عکس ہوتا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک کارکن ہونے کی حیثیت سے مجھے تربیت گاہوں اور شب بیداریوں میں مولانا کے خطابات سننے کا شرف حاصل ہوا۔ لاہور جمعیت کی نظامت کے دوران مولانا سے بہت قریبی ذاتی تعلق قائم ہوگیا۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ مولانا عبدالعزیز جب بھی لاہور تشریف لائیں تو ان سے استفادہ کیا جائے۔ اس عرصے میں مجھے مولانا عبدالعزیز کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ ایک عالمِ ربانی کی جو صفات قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہیں مولانا اس کا بہترین نمونہ تھے۔ مجھے مولانا کا شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اگرچہ معروف معنوں میں شاگرد استاد کا یہ تعلق تسلیم نہیں کیا جا سکتا، مگر آگے بیان کیے جانے والے واقعے کی روشنی میں اسے بالکل بے وزن بھی نہیں کہا جا سکتا۔ آئیے یہ واقعہ آپ کی خدمت میں عرض کردوں۔
1971ء کی بات ہے، محترم سید اسعد گیلانی (مرحوم) جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر تھے۔ صوبائی جماعت نے ماموں کانجن ضلع فیصل آباد میں منتخب کارکنان کی ایک ہفت روزہ صوبائی تربیت گاہ منعقد کی۔ میں اُن دنوں جمعیت سے فارغ ہونے کے بعد جماعت کا رکن بن چکا تھا۔ صوبائی نظم نے اس تربیت گاہ میں مجھے مربی کے طور پر مدعو کیا۔ مجھے موضوع دیا گیا ’’حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا تجدیدی کارنامہ‘‘۔ میں پروگرام کے مطابق تربیت گاہ میں پہنچا۔ وہاں پر جماعت کے اکابر موجود تھے۔ مربی حضرات میں مولانا عبدالعزیز بھی شامل تھے جو صوبائی نظم کی درخواست پر تربیت گاہ کے دوران مستقل طور پر وہیں مقیم رہے۔ میں اپنا پروگرام پیش کرچکا تو اسعد صاحب مرحوم اور بعض دیگر بزرگوں نے میری حوصلہ افزائی کے لیے کچھ تعریفی کلمات ارشاد فرمائے۔ جب میں واپسی کی تیاری کررہا تھا تو اسعد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ رک جائیں اور ایک مزید پروگرام پیش کریں۔ اس دوسرے پروگرام کا موضوع تھا ’’حضرت شاہ ولی اللہؒ کا تجدیدی کارنامہ‘‘۔
یہ موضوع دراصل رحیم یار خان کے امیر ضلع جناب میاں محمد نواز صاحب کو دیا گیا تھا مگر وہ کسی وجہ سے نہ پہنچ سکے اور اُن کی معذرت کی اطلاع آگئی۔ امیر صوبہ نے مجھ سے فرمایا کہ اس موضوع پر بھی تقریر کردیں۔ میں نے عرض کیا ’’میں اس موضوع پر تقریر نہیں کرسکتا کیوںکہ میں نے کوئی تیاری نہیں کی اور میری معلومات بہت ہی ناقص ہیں‘‘۔ وہ اصرار کررہے تھے اور میں انکار کررہا تھا۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم پاس بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ آخر انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا: ’’حافظ صاحب! آپ اسعد صاحب کی فرمائش پوری کردیں ناں‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’مولانا! مجھے جو موضوع دیا گیا تھا اُس پر میں نے کئی دن کئی کتابیں دیکھیں، نوٹس تیار کیے، تب کہیں جاکر پروگرام پیش کرنے کے قابل ہوا‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’تو بات یہ ہوئی کہ اس نئے موضوع پر آپ کو تیاری کرنا ہے… آپ اس کی کوئی فکر نہ کریں، بس آپ ہامی بھر لیں اور شام سے پہلے آپ کی تیاری ہوجائے گی‘‘۔ میں نے کہا: ’’مولانا کتابوں کے بغیر مجھ جیسا بے علم آدمی کیسے تیاری کرے گا؟‘‘ اس پر مولانا نے اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے بڑے پیارے انداز میں کہا: ’’ہم دونوں تیاری کریں گے ناں‘‘۔ اب پوری بات سمجھ میں آئی۔
چائے سے فارغ ہونے کے بعد مولانا اپنے کمرے میں جانے لگے تو مجھ سے فرمایا: ’’قلم اور کاغذ لے کے آجائو‘‘۔ مولانا ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام فرما تھے جو بالا خانے کی طرز پر تھا اورآہنی سیڑھیوں پر چڑھ کر وہاں پہنچا جاتا تھا۔ میرے پاس لیل و نہار ڈائری تھی۔ میں ڈائری اور قلم لے کر مولانا کے کمرے میں حاضر ہوگیا۔ مولانا مرحوم نے اورنگ زیب عالمگیر کے فتاویٰ عالمگیریہ کی تربیت و تدوین سے بات کا آغاز کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والدِ گرامی قدر اور دیگر چھے علما کا تذکرہ کیا جو فتاویٰ کی ترتیب و تدوین میں اورنگ زیب کے حکم سے شریک تھے۔ پھر شاہ ولی اللہؒ کے پورے خاندان کا تعارف، حضرتِ موصوف کی ولادت، تعلیم اور صلاحیتوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کی علمی و عملی خدمات، اصلاحی جدوجہد، سیاسی و عسکری حالات اور ان میں شاہ صاحب کی عظیم الشان خدمات کی ایمان افروز تفصیلات بیان فرمائیں۔ وہ یوں بولتے جارہے تھے جیسے کوئی کتاب ان کے سامنے کھلی پڑی ہو۔ ساتھ ساتھ باقاعدہ حوالے بھی نوٹ کراتے رہے۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں انھوں نے مجھے اتنی معلومات دے دیں کہ ان کی مدد سے میں ایک گھنٹے کی بہترین تقریر تیار کرسکتا تھا۔ میں نے نکات نوٹ کرلیے اور مولانا کا شکریہ ادا کیا۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ’’بس تم آج سے ہمارے شاگرد بن گئے ہو‘‘۔ ان کے یہ الفاظ میرے لیے باعثِ افتخار بھی تھے اور موجبِ امتنان بھی۔ میں نے عرض کیا: ’’مولانا ایسی بات ہے تو پھر آپ میری دستار بندی تو فرمائیں‘‘۔ مولانا کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور ارشاد فرمایا: ’’تم جمعیت والے ٹوپی بھی نہیں پہنتے تو دستار کہاں باندھو گے۔‘‘
مولانا نے یہ الفاظ ادا کرکے ہلکا سا قہقہہ لگایا، اور میں بھی اُن کی اس بزرگانہ سرزنش پر ہنس دیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بھی بیان کرتا چلوں کہ پہلی تقریر بھی لوگوں نے پسند کی تھی مگر مولانا مرحوم کی تیار کرائی ہوئی دوسری تقریر پہلی سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئی۔ مولانا کے لکھوائے ہوئے نوٹس اور ڈائری محفوظ نہ رہ سکی۔ اے کاش مولانا کے ملفوظات کو مضمون کی شکل میں محفوظ کرسکتا۔ یہ بھی تحدیثِ نعمت ہی کے طور پر عرض ہے کہ مولانا کی اس محبت بھری سرزنش یا بزرگانہ نصیحت کے بعد راقم نے باقاعدگی کے ساتھ سر پہ ٹوپی (عموماً جناح کیپ، شدید سردیوں میں چترالی ٹوپی اور شدید گرمیوں میں سواحلی علاقوں کی مخصوص ٹوپی) پہننا شروع کردی۔
مولانا عبدالعزیز مرحوم علم کا سمندر تھے۔ مطالعہ بھی بہت کرتے تھے اور حافظہ بھی بلا کا تھا۔ مختلف تفاسیر پر ان کی گہری نظر تھی۔ احادیث کے موضوع پر گفتگو کرتے تو ہر حدیث کو جرح و تعدیل کے اصولوں کے مطابق پرکھتے۔ بہت بڑے فقیہ تھے اور تاریخ پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ اس کے علاوہ ہم عصر نظریات و رجحانات کے بارے میں بھی ان کی معلومات بڑی مکمل اور اَپ ٹو ڈیٹ ہوتی تھیں۔ سیرتِ نبویؐ ان کا خاص موضوع تھا اور سیرت پر ان کے لیکچرز اور خطابات اپنی مثال آپ ہوتے تھے۔ ماہ ربیع الاول میں وہ کئی کئی ہفتے کراچی میں مقیم رہتے اور مسلسل سیرت النبیؐ پر جلسوں میں خطاب فرماتے رہتے۔ مولانا سے آخری ملاقات بھی کراچی ہی میں ہوئی۔ یہ غالباً 1972ء کا ماہ ربیع الاول تھا۔ مولانا بڑی محبت سے ملے اور فرمایا: ’’میرے ساتھ قیام کرو‘‘۔ میں نے اپنی مصروفیات کی تفصیل بتائی تو فرمایا ’’اچھا آپ کی مرضی ہے، ہماری طرف سے تو آپ کو دعوتِ عام ہے‘‘۔
اس آخری ملاقات میں مجھے احساس ہوا کہ مولانا بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ وہ شمع کی مانند مسلسل پگھلتے جارہے تھے۔ بالآخر اپریل 1973ء میں یہ شمع ہمیشہ کے لیے گل ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے، مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مولانا نے اپنے پیچھے کوئی تحریری کارنامہ چھوڑا ہے یا نہیں۔ وہ مولانا مودودیؒ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور نوجوانوں کو اکثر تلقین فرمایا کرتے تھے کہ وہ مولانا مودودیؒ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ اگر کبھی ان کی کسی تقریر کے حوالے سے درخواست کی جاتی کہ وہ اس خاص موضوع پر لکھیں تو مسکرا کر ٹال دیتے اور بعض اوقات فرماتے ’’مولانا مودودیؒ کی کتابوں کے بعد اب اردو زبان میں مزید کچھ لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
مولانا عبدالعزیز مرحوم زندگی بھر مشکلات کا مقابلہ کرتے رہے۔ معاشی مشکلات ہوں یا صحت کی کمزوری، گھریلو پریشانیاں ہوں یا رفقاء کی زیادتیاں، نظامِ باطل کی پابندیاں ہوں یا حکومتی جبر و قہر… مولانا ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ وہ نہ کسی کے سامنے کبھی جھکے، نہ مداہنت برتی۔ انھیں نہ کوئی خرید سکا، نہ ورغلا سکا۔ وہ نہایت قناعت پسند اور صابر انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا سے مستغنی کر دیا تھا۔ وہ دنیا پر آخرت کو ہمیشہ ترجیح دیا کرتے تھے۔ اپنی بیماری کے باوجود قیدوبند کی مشقتیں بڑی پامردی کے ساتھ جھیلیں۔
مولانا مرحوم کے کئی بیٹے ہیں اور سب کے سب تعلیم یافتہ ہیں۔ میں سبھی سے متعارف ہوں مگر مولانا کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر جمیل الرحمن اور ڈاکٹر عطاالرحمن سے زمانہ طالب علمی سے دوستانہ تعلقِ خاطر اور بے تکلفی رہی ہے۔ ڈاکٹر جمیل الرحمن تو اپنے والد کی طرح فرشتہ صفت انسان تھے۔ محترم قاضی حسین احمد کے داماد تھے۔ جوانی میں (جولائی 1999ء) اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مرحوم کا تذکرہ ہماری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد دوم میں صفحہ 44 تا 50 دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم نے بھی بہت لمبی عمر نہیں پائی مگر مختصر زندگی میں بڑے قابلِ قدر کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ اب تک ان کا سراپا آنکھوں کے سامنے ہے اور ان کی محبت بھری یادیں دل میں موجزن۔ ’’رفتید ولے نہ از دلِ ما!‘‘