حکمراں خوشحال، عوام بدحال

پاکستان میں جو بھی حکمران آئے، وہ فوجی آمر ہو، سیاسی و جمہوری ہو، یا عبوری، عارضی اور نگران… وہ عوام کی ہمدردی کے جیسے بھی دعوے کرے، ان کے مسائل و مصائب پر جتنے بھی دکھ درد کا اظہار کرے، وہ بہرحال یہ سبق پڑھ کر اقتدار کی مسند تک پہنچتا ہے اور اس پر پوری سنجیدگی سے عمل پیرا بھی رہتا ہے کہ ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ یعنی قیمتیں بڑھائو کہ چیزیں ابھی تک سستی ہیں۔ اپنے اس سبق کو روبہ عمل تو سبھی حکمران لاتے ہیں مگر ہمارے موجودہ نگران حکمران کچھ زیادہ ہی متحرک اور تیزی میں دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کا اقتدار نہایت مختصر یعنی آئینی طور پر صرف ساٹھ دن تک محدود ہے اور وہ تمام تر ارمان اسی مختصر و محدود مدت میں پورے کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ ان کے اقتدار کا ابھی ایک ماہ مکمل نہیں ہوا اور انہوں نے پہلے امریکی ڈالر کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے، اور اب اپنے اقتدار کے محض اٹھارہ دن کے اندر دوسری بار عوام پر ’’آئل بم‘‘ گراکر کئی نئے ریکارڈ قائم کردیئے ہیں۔ پہلا ریکارڈ تو یہی ہے کہ اتنی کم مدت میں عوام پر مہنگائی کے اتنے شدید حملے پہلے کبھی کسی حکمران نے نہیں کیے۔ ان حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے تین ہفتے سے بھی کم عرصے میں دوبار تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ماضی کے تمام حکمرانوں کو مات دے دی ہے۔ حالانکہ ان کے مینڈیٹ کا مرکزی نکتہ پُرامن ماحول میں مقررہ مدت کے اندر صاف، شفاف، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کرواکر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کرکے سبکدوش ہوجانا ہے۔ اپنے اس اہم اور بنیادی فرض کو نگران حکمران کس حد تک کامیابی سے نبھاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر انہوں نے ملک میں مہنگائی میں اضافے کے لیے اقدامات میں ماضی کی تمام حکومتوں کو بہرحال مات دے دی ہے۔
نگران وفاقی حکومت نے 30 جون کو رات گئے ایک حکم نامے کے ذریعے پیٹرول کے نرخوں میں 7 روپے 54 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 14 روپے، لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے 92 پیسے، اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے 36 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے، جس کے بعد پیٹرول 99.96 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 119.31 روپے، لائٹ ڈیزل 80.91 روپے اور مٹی کا تیل 87.70 روپے فی لیٹر صارفین کو خریدنا پڑ رہا ہے۔ نئے نرخ اعلامیے کے اجراء کے فوری بعد یعنی 30 جون رات بارہ بجے کے فوری بعد لاگو ہوگئے ہیں اور 31 جولائی 2018ء تک نافذ رہیں گے۔ اس کے بعد یہ نرخ مزید کتنے بلند کیے جائیںگے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے صرف دو یوم قبل نگران حکومت فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی ایک روپے 25 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دے چکی ہے، جب کہ قبل ازیں پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرکے صارفین کو عیدالفطر کا تحفہ دیا جا چکا ہے۔ جہاں تک خام تیل کی قیمتوں کا تعلق ہے، عالمی منڈی میں یہ قیمتیں کم ہوئی ہیں، جو واحد جواز پاکستان میں ان کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا پیش کیا گیا ہے وہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس اضافے میں عوام کا کیا قصور ہے جس کی سزا عام آدمی کو دی گئی ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ڈالر کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے ذمے دار مافیا کو لگام دے اور ڈالر کو اونچا اُڑنے سے روکنے کے لیے مؤثر اور ٹھوس اقدامات کرے، کیونکہ اس کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں جس کے باعث عوام کا جینا پہلے ہی دوبھر ہوچکا ہے اور پوری ملکی معیشت کی بنیادیں ہل گئی ہیں، مگر حکمران ڈالر مافیا پر قابو پانے کے بجائے عام آدمی کو ناکردہ گناہوں کی سزا دے رہے ہیں اور اپنی نااہلی اور کوتاہیوں کا سارا بوجھ غریب لوگوں کی کمر پر لاد دیا گیا ہے۔
یہ بھی ایک ریکارڈ اور اب تک کی ملکی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ آئل اینڈگیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا) نے حکومت کو تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں جس قدر اضافے کی سفارش کی، حکومت نے اُس سے کہیں زیادہ اضافہ کردیا۔ ورنہ گزشتہ سالہاسال سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اوگرا جس قدر اضافے کی سفارش کرتی رہی ہے وزیراعظم ہمیشہ اُس سے قدرے کم اضافے کی اجازت دیتے ہیں، اور بعض اوقات اضافہ بالکل نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی رہی ہے۔ اوگرا کی سفارش کی روشنی میں پیٹرول کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان تھا، مگر جب حکومت کا اعلامیہ جاری کیا گیا تو اس میں پیٹرول کی قیمت 7 روپے 54 پیسے فی لیٹر بڑھا دی گئی۔ یہی حال ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ہے۔ یوں نگران حکومت نے قیمتوں میں اوگرا کے مطالبے سے زیادہ اضافے کا ریکارڈ قائم کردیا۔
یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سبب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کو بتایا ہے، مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے صرف قیمتیں ہی نہیں بڑھائیں بلکہ ان مصنوعات پر سیلزٹیکس میں بھی بے تحاشا اضافہ کردیا ہے۔ اس ضمن میں ایف بی آر نے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے جس کے مطابق پیٹرول پر سیلزٹیکس 17 فیصد اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 24 فیصد کی پہلی شرح سے بڑھاکر 31 فیصد کردیا گیا ہے، جبکہ لائٹ ڈیزل پر 9 فیصد کی موجودہ شرحِ ٹیکس کو بڑھاکر 17 فیصد کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر حکمران تیل کی قیمتوں میں اضافے کو محض عالمی حالات کا نتیجہ قرار دے کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کریں تو کون ان کی بات پر اعتبار کرے گا؟
حکومت کی جانب سے تیل مصنوعات کی قیمتوں اور ان پر مختلف ٹیکسوں کی وصولی کے ظالمانہ نظام کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کے مصنفِ اعلیٰ نے ازخود نوٹس لے رکھا ہے اور تازہ ترین اضافے سے چند دن قبل کی سماعت کے دوران عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے حکومتی اقدامات کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دس دن میں تیل کی قیمتوں کے تعین اور ان پر عائد مختلف ٹیکسوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی، مگر حکمرانوں کی ڈھٹائی کی حد ہے کہ منصنفِ اعلیٰ کے حکم کی ذرہ برابر پروا کیے بغیر ایک بار پھر تیل کی مختلف مصنوعات پر ٹیکس کی شرح میں ظالمانہ اضافہ کرکے جہاں ایک جانب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا تمسخر اڑایا ہے، وہیں عام آدمی کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محترم منصفِ اعلیٰ اس حکومتی طرزعمل پر کس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، اور عوام کو حکومتی ظلم سے نجات دلانے کے لیے ماضیٔ قریب کی اپنی روایات کے مطابق مؤثر احکام و ہدایات جاری کرکے عوام کے لیے ریلیف کا کیا اہتمام کرتے ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فوری اثر تمام اشیائے ضروریہ خصوصاً خور و نوش کی چیزوں پر دیکھنے میں آیا۔ ٹرانسپورٹرز نے کرائے اور فلور ملز مالکان نے آٹے کی قیمتیں بڑھانے کا عندیہ بھی دے دیا، جس سے براہِ راست معاشرے کا غریب ترین طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا، جس کی زندگی پہلے ہی اجیرن ہے اور اس کے لیے تعلیم و صحت جیسی بنیادی اہمیت کی حامل سہولیات تو بہت دور کی بات ہے، اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں اور اُن کے چھوٹے بڑے قائدین نے اس صورتِ حال پر صدائے احتجاج بلند کی ہے جو صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ہے، کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں 25 جولائی کے عام انتخابات کی مہم میں مصروف ہیں اور ان کے رہنما عوام کے اس بنیادی مسئلے پر محض بیانات جاری کرکے آگے بڑھ گئے ہیں، حالانکہ ضرورت ہے کہ تیل کے نرخوں میں اس بلاجواز اور انتہائی ظالمانہ اضافے کے خلاف زوردار مہم منظم کی جائے اور حکمرانوں کو یہ اضافہ واپس لینے پر مجبور کیا جائے۔ کاش کوئی سیاسی جماعت اسے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنائے اور جارحانہ انداز میں اس معاملے کے حقائق قوم کے سامنے پیش کرے اور ایسا زوردار عوامی احتجاج اس ظلم کے خلاف منظم کرے کہ حکمرانوں کو اپنا یہ سراسر بلاجواز، غلط اور ظالمانہ اقدام واپس لینا پڑے اور عوام کو قدرے سُکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اس جانب توجہ دے سکے تو یقینا انتخابی مہم اور نتائج پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہونے کی توقع بے جا نہ ہوگی۔