سارے جہاں میں دھوم ہمارے شہر کی تھی، جسے پیرس بنادیئے جانے کے دعوے کیے جا رہے تھے۔ ہمارے خادم اعلیٰ مختلف شہروں میں اپنی انتخابی مہم کے دوران وہاں کے لوگوں کے سامنے لاہور کو ترقی کے ماڈل کے طور پر پیش کرتے اور ان کے شہر میں بھی لاہور ہی کی طرح زبردست ترقیاتی کام کروانے کے وعدے پر نواز لیگ کے لیے ووٹ مانگتے۔ مگر لگتا ہے اس شہرِ بے مثال کو کسی کی نظر لگ گئی اور محض ایک ہی بارش سے سارے سہانے سپنے دھندلا گئے۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب بارہ بج کر پچپن منٹ پر شروع ہونے والی بارش کچھ اس قدر جم کر برسی کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیا۔ پورا شہر پانی میں ڈوب گیا، ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ صرف محاورے کی حد تک نہیں، شہر میں واقعی کشتیاں تیرتی دکھائی دیں۔ صوبائی دارالحکومت کا کوئی حصہ نہیں جو بارش کے اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ صرف ایک روز کی اس بارش نے 38 برس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ مجموعی طور پر لاہور میں 240 ملی میٹر اوسط بارش ریکارڈ کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ قبل ازیں 1980ء میں اس قدر شدید بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ منگل کی بارش نے جہاں بے پناہ مالی نقصان کیا، وہیں صرف صوبائی دارالحکومت میں دیواریں اور چھتیں گرنے، کرنٹ لگنے اور مختلف حادثات میں دو پولیس اہلکاروں سمیت دس قیمتی جانیں تلف ہوگئیں۔ پورے صوبے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب بتائی جاتی ہے، جب کہ مختلف واقعات میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد سو سے زائد ہے۔
یوں تو بارش نے پورے صوبے خصوصاً صوبائی دارالحکومت کو بری طرح متاثر کیا، اور اس کے اثرات کم و بیش ہر گھر میں محسوس کیے گئے، شہر کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جس میں جمع ہونے والے پانی کے باعث اس کی گلیاں اور سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل نہ ہوگئی ہوں اور ان پر آمدو رفت محال نہ ہوگئی ہو، اور مختلف مقامات پر شگاف نہ پڑے ہوں۔ مگر اس بارش کے دوران شہر کی سب سے اہم سڑک شاہراہِ قائداعظم کے اہم ترین جی پی او چوک میں پڑنے والے شگاف نے پوری قوم کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ شگاف معمولی نہیں، پورے دو سو فٹ پر محیط اور بیس فٹ گہرائی کا حامل تھا۔ پورے دو سو فٹ کی طوالت میں شاہراہ قائداعظم جیسی اہم ترین سڑک تھوڑی بہت نہیں پورے بیس فٹ گہرائی تک بیٹھ گئی تھی، یہ تو شکر ہے کہ وقت ایسا تھا کہ اس سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا، ورنہ جس قدر ازدحام اس سڑک پر ٹریفک کا ہوا کرتا ہے، سینکڑوں گاڑیاں بلامبالغہ اس گڑھے کی نذر ہوجاتیں اور جانی نقصان کس قدر ہوتا اس کا اندازہ بھی زیادہ مشکل نہیں، مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کی خصوصی رحمت سے کوئی ایک بھی گاڑی اس گڑھے کی نذر نہیں ہوئی، اور متعلقہ اداروں کے کارکنوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بالکل ابتدائی مرحلے ہی پر ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب موڑ کر زبردست جانی و مالی نقصان سے اہلِ لاہور کو بچا لیا۔
نگران صوبائی حکومت نے جی پی او چوک میں پڑنے والے اس شگاف کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی ہے جسے 48 گھنٹے میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ واقعے کے تفصیلی حقائق اور اسباب تو کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکیں گے، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ بارش کے باعث پڑنے والے صرف ایک شگاف نے صوبائی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور اس کا بنیادی سبب اس جگہ بنایا گیا اورنج لائن ٹرین کا زیر زمین اسٹیشن ہے۔ گویا یہ شگاف عالمگیر شہرت کی حامل اورنج لائن ٹرین کا ایک تحفہ ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس زیر زمین اسٹیشن پر جاری تعمیراتی کام کا کوئی نقشہ اور ڈرائنگ موقع پر موجود ہی نہیں تھا اور بغیر نقشے کے ہی تمام کام تکمیل پذیر ہورہا تھا۔ حادثے کے بعد صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت اور ایم ڈی نیسپاک نے جب جی پی او چوک کا دورہ کیا اور وہاں کام کرنے والے تعمیراتی ٹھیکیدار سے جب تعمیراتی کام کی ڈرائنگ دکھانے کے لیے کہا تو اُس کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی چیز سائٹ آفس میں موجود نہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اورنج لائن ٹرین کو ہر حال میں جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے کس قدر افراتفری اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔
حسبِ معمول بارش کے اس سانحے پر بھی سیاست دانوں نے سیاست چمکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خود کو مستقبل کا وزیراعظم تصور کیے بیٹھے جناب عمران خان نے کراچی میں جلسے سے خطاب کے لیے روانہ ہونے سے قبل ہنگامی طور پر جی پی او چوک کا دورہ کیا اور شہبازشریف کو ساری صورتِ حال کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہی بارش نے ساری ترقی کو دھو دیا ہے اور لاہور کو پیرس بنانے کے دعووں کو جھوٹ ثابت کردیا ہے، شہبازشریف اب لوگوں کے خوف سے گھر سے نہیں نکل رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کو بے دریغ استعمال کرنے اور غیر ضروری منصوبوں پر اربوں روپے ضائع کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، قاف لیگ کے مرکزی رہنما چودھری پرویزالٰہی نے بھی قریباً اسی طرح کے الزام میاں شہبازشریف پر عائد کیے اور کہا کہ شہبازشریف کی ناقص منصوبہ بندی نے لاہور کو ڈبو دیا، حالیہ بارش نے نمائشی منصوبوں اور عوام کی فلاح کے حقیقی کاموں میں فرق واضح کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی بارش سے ہونے والی تباہی پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق حکمران شریف خاندان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ایک بارش نے ان کی کارکردگی بے نقاب کردی ہے۔ سابق حکمران نواز لیگ کی کیفیت اس صورت حال پر ’’بھیگی بلی کھمبا نوچے‘‘ والی ہے جس کے صدر پنجاب کے خادم اعلیٰ شہبازشریف نے نہایت ڈھٹائی سے خود کو تمام صورتِ حال سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے حکومت چھوڑے ایک ماہ ہوچکا ہے، بارش سے پیدا ہونے والے حالات کی ذمے دار نگران حکومت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے دس سال کے ترقیاتی کاموں پر نگران حکومت نے کیا محض ایک ماہ میں پانی پھیر دیا؟ جس شہر کو آپ نے ’’پیرس‘‘ بنا دیا تھا اس کا نکاسیٔ آب کا نظام کیا نگران حکومت نے ایک ماہ میں تباہ کردیا؟ اور جی پی او چوک میں زیر زمین تعمیر ہونے والے اورنج لائن ٹرین اسٹیشن کی ناقص اور غیر معیاری تعمیر کی ذمے دار بھی کیا بیچاری نگران حکومت ہی ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ بارش سے پیدا شدہ صورت حال اور اس سے ہونے والے تمام تر نقصانات کی ذمے داری سے میاں شہبازشریف کو کسی بھی صورت بری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بارش کے منفی اثرات پنجاب اور خصوصاً لاہور میں نواز لیگ کی انتخابی مہم اور انتخابی نتائج پر ضرور اثرانداز ہوں گے۔