نام کتاب …… ’’تایا ناتواں کے کارنامے‘‘
مصنف …… محمد شعیب مرزا
صفحات …… اٹھاسی (88)
قیمت …… دو سو روپے (200/=)
ناشر …… اکادمی ادبیات اطفال
تقسیم کار …… فائن پبلی کیشنر کمرہ نمبر 16 دوسری منزل ڈیوس ہائٹس -38 ڈیوس روڈ لاہور
ای میل:academyadbiyateatfal@gmail.com
محمدشعیب مرزا بچوں کے لکھاری ہیں، کم و بیش پندرہ برس سے بچوں کے مقبول اور مشہور ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے مدیر، پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے صدر اور حکومتِ پاکستان کے بک ایمبیسیڈرہیں، حالاتِ حاضرہ پر ان کے کالم بھی گاہے بگاہے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت زیادہ تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہیں، ’’اکادمی ادبیات اطفال‘‘ کا وجود بھی ان کی اسی تڑپ اور نیک مقصد کی خاطر ایک ٹھوس عملی کاوش ہے جس کے تحت وہ اب تک بچوں کے ادیبوں کی قومی سطح کی کئی کانفرنسیں بھی منعقد کروا چکے ہیں جن کی ملک گیر پذیرائی ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔’’تایا ناتواں کے کارنامے‘‘، بچوں کے لیے محمد شعیب مرزا کی ہلکی پھلکی، ہنستی مسکراتی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ ذاتی حیثیت میں شعیب مرزا صاحب کی شخصیت سے واقف لوگ بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ ایک سنجیدہ مزاج انسان ہیں اور بظاہر ان کی گفتگو اور بات چیت سے قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے اندر ایک نہایت عمدہ مزاح نگار چھپا بیٹھا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ’’مزاح نگاری‘‘ کے نام سے اپنے ابتدائیہ میں اس راز سے پردہ کشائی کرتے ہوئے وہ خود رقم طراز ہیں کہ:
’’مزاح نگاری ایک سنجیدہ کام ہے لیکن لوگ اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب میرے جیسا سنجیدہ آدمی مزاح لکھتا ہے تو لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔ سنجیدہ مزاجی کے ساتھ مزاح میری ذات کا حصہ رہا ہے۔ میں فطرتاً خاموش طبع بھی ہوں لیکن محفلوں میں لوگوں کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے دل ہی دل میں مزاح کشید کرتا اور خود ہی خوش ہوتا رہتا تھا…!!‘‘
شعیب مرزا کی کم گو اور سنجیدہ شخصیت کے اندر چھپے بیٹھے مزاح نگار نے جب روبہ عمل آنے کے لیے بہت زیادہ بے تابی کا مظاہرہ کیا تو اکثر دیگر مزاح نگاروں کی طرح مرزا صاحب نے بھی اپنی مزاحیہ تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ’’تایا ناتواں‘‘ کے نام سے ایک فرضی کردار تخلیق کیا اور اسی کردار کے گرد گھومتی ہلکی پھلکی تحریروں کے سلسلے کا آغاز کیا۔ یہ تحریریں ابتداً ماہنامہ ’’پھول‘‘ میں شائع ہوتی رہیں، اور جب ان کی تعداد قدرے معقول ہوگئی تو انہیں باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کردیا گیا ہے۔’’تایا ناتواں کے کارنامے‘‘ میں مجموعی طور پر گیارہ کہانیاں شامل ہیں، جو ہمارے معاشرے میں گھومتے پھرتے کرداروں اور روزمرہ حالات و واقعات سے کشید کی گئی ہیں۔ پہلی کہانی کا عنوان ’’تایا ناتواں نے ڈینگی پالا‘‘، اور دوسری کا ’’تایا ناتواں نے ووٹ ڈالا‘‘ ہے۔ اس کے بعد کی کہانیوں میں تایا ناتواں کو نائی، قصائی، صحافی، سپاہی، ملازم اور صداکار کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ آخری تین کہانیاں ’’تایا ناتواں‘‘ کے فضائی سفر کی روداد پر مشتمل میں۔ ہر کہانی کا اختتام ’’تایا، ناتواں تو پہلے ہی تھے، اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلے گھبرائے، پھر لڑکھڑائے، دھم سے زمین پر گرے اور بے ہوش ہوگئے‘‘ سے ملتے جلتے جملے پر ہوتا ہے۔
کتاب میں شامل کہانیوں میں ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ ساتھ معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں اور غیر محسوس انداز میں غلط کاموں کے برے انجام کا سبق بھی بچوں کے ذہن نشین کرایا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی تحریر میں بچوں کی ذہنی سطح کو بھی مدنظر رکھا ہے اور بھاری بھرکم الفاظ اور مشکل تراکیب کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے آسان، سادہ اور عام فہم زبان لکھی ہے، جس میں قاری کو جبراً ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی بناوٹی جملوں کے ذریعے مصنوعی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بلکہ رواں دواں سادہ اور سلیس تحریر میں مزاح از خود ٹپکااور لپکا چلا آتا ہے اور کہانی کو پڑھتے ہوئے قاری ازخود زیر لب مسکرانے لگتا ہے۔
بہتر ہوتا کہ کتاب کے آغاز میں کہانیوں کے عنوانات کی ایک صفحے پر مشتمل فہرست بھی شائع کردی جاتی۔ اس طرح بچوں کو اپنی پسند کی کہانی تلاش کرنے میں آسانی رہتی اور ساری کتاب کی ورق گردانی کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔ اسی طرح یہ پہلو شاید مصنف سے زیادہ ناشر کی توجہ کا طالب ہے کہ بچوں کی کتابوں کی قیمتیں اتنی رکھی جائیں کہ وہ آسانی سے انہیں خرید سکیں۔ بلاشبہ کتاب عمدہ دبیز کاغذ پر، خوبصورت رنگین سرورق کے ساتھ نہایت اعلیٰ طباعتی معیار کے مطابق شائع کی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود دو سو روپے قیمت کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے اور وسیع پیمانے پر عام بچوں میں کتاب کی اشاعت میں رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ کتاب کو زیادہ سے زیادہ اسکولوں کی لائبریریوں تک پہنچایا جائے تاکہ بچوں کی بڑی تعداد کو اس سے استفادے اور مطالعے کی سہولت میسر آسکے۔