مولانا سید جلال الدین عمر
قرآن مجید کی ابتدائی تعلیمات میں تین باتیں بہت نمایاں ہیں: ایک ہے توحید، آخرت اور رسالت جیسے عقائد کا اثبات اور زندگی پر اس کے اثرات کا بیان۔ دوسری ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق، اس کی طرف رجوع، نماز اور اس کی راہ میں انفاق کا ذکر۔ تیسری چیز جس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، وہ ہے اخلاق۔ اسے وہ اللہ کے ماننے والوں کی ایک امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بااخلاق ہوتے ہیں، ان کے اندر دیانت اور امانت ہوتی ہے، وہ باعفت ہوتے ہیں، کسی کو نقصان یا تکلیف نہیں پہنچاتے، سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ ہے جو اس کے نزول کے ابتدائی دور ہی سے ملتا ہے۔ مثال کے طور پرآپ دیکھیں کہ سورۃ المومنون کا آغاز اس طرح ہوا ہے:
(ترجمہ) ’’ بے شک اہلِ ایمان کامیاب ہوگئے‘‘۔(المومنون:1)
مطلب یہ کہ اہلِ ایمان اپنی مراد کو پہنچ گئے، انہوں نے اپنی منزل پالی، ان کی کامیابی میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ یہ بات اس پس منظر میں کہی گئی ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کے بارے میں مخالفین کہتے تھے کہ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں تباہ کرلی ہیں، نقصان اٹھارہے ہیں، رشتے داروں سے کٹ رہے ہیں، قبیلے کی حمایت سے محروم ہورہے ہیں اور ایک نامعلوم منزل کی طرف جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں قرآن نے کہا کہ نہیں، یہ لوگ کامیاب ہیں۔ جن کو تم ناکام سمجھتے ہو، ان کی کامیابی میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ یہ ایمان والے کون ہیں؟ ضروری نہیں کہ کامیاب شخص مال ودولت والا ہو، عزت اور شہرت رکھتا ہو، دبدبے اور کرّوفر والا ہو، اسے خاندان اور قبیلے کی حمایت حاصل ہو، حریفوں کا مقابلہ کرسکتا ہو۔ نہیں۔ کامیاب تو وہ لوگ ہیں جن کے اندر ایمان ہے، جو اللہ، رسول اور آخرت کو مانتے ہیں۔ ظاہر ہے، ایمان قلبی کیفیت کا نام ہے، البتہ اس کا اظہار انسان کی عملی زندگی سے ہوتا ہے۔
اہلِ ایمان کے اوصاف
آگے کی آیات میں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ اہلِ ایمان کا پہلا وصف یہ ہے:
(ترجمہ) ’’جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں ان کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کے سامنے صرف اپنی پیشانی ہی نہیں ٹیکتے، بلکہ ان کا دل بھی جھکا رہتا ہے۔ ’’خشوع‘‘دل کی کیفیت کا نام ہے اور ظاہر اس کی دلیل ہے۔ ظاہر اور باطن دونوں کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے رہتے ہیں۔
ان کا دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا:
(ترجمہ) ’’جو لغو سے اعراض کرتے ہیں‘‘۔
جن کی پہچان یہ ہے کہ سوسائٹی جن بے معنی کاموں کی دل دادہ ہے اور جن لغویات میں پھنسی ہوئی ہے، وہ اس سے دور رہتے ہیں۔ کہیں گندگی ہے اور کوئی اس میں دلچسپی لے تو یہ خود اس کے بدذوق اور گندے ہونے کی دلیل ہے۔ شریف اور مہذب آدمی وہاں نہیں رکے گا، بلکہ اپنا رُخ پھیر لے گا۔ جو آدمی بامقصد ہوگا وہ بے کار، بے ہودہ اور بے مقصد کاموں میں دلچسپی نہیں لے گا۔
ادائے زکوٰۃ ۔ اہلِ ایمان کا ایک نمایاں وصف
اہلِ ایمان کا تیسرا وصف قرآن نے یہ بیان کیا ہے:
(ترجمہ) ’’جو زکوٰۃ پر عمل کرتے ہیں‘‘۔
اس کا مطلب ہے، اللہ کے بندے مسلسل اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کبھی جوش میں آگئے، یا وقتی تحریک ہوئی تو کچھ خرچ کردیا، بلکہ وہ اللہ کی راہ میں مسلسل اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ ہمارا مال پاک ہوجائے اور ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو۔
زکوٰۃ کے اندر پاکی صفائی کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ اس سے اعلیٰ کردار ابھرتا ہے۔ اہلِ ایمان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ بااخلاق ہوتے ہیں اور خاص طور پر اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ بات مکہ میں بتائی گئی تھی۔ وہاں حکومت نہیں تھی، افراد تھے۔ پھرہجرت کے بعد جب مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو بہت ساری چیزوں کو قانونی شکل دی گئی، چناں چہ ’زکوٰۃ‘ کو بھی قانونی شکل دی گئی۔
مکہ میں اللہ کے نیک بندوں کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی تھی:
(ترجمہ) ’’جن کے اموال میں حق ہے، مانگنے والے کے لیے اور نہ مانگنے والے کے لیے‘‘۔ (المعارج:25)
ان آیات میں ’اموال‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مال کئی طرح کے ہوتے ہیں: کسی کے پاس روپیہ پیسہ ہے،کسی کے پاس زمین ہے، کسی کے پاس مویشی اور پالتو جانور ہیں، کسی کا کاروبار ہے۔ ’اموال‘ کا لفظ ان سب پر حاوی ہے۔ کہا گیا کہ ان کے مالوں میں ایک متعین حق ہوتا ہے۔ یہ ’متعین حق‘ مکی دور میں شریعت نے صاف الفاظ میں نہیں بتایا تھا، بلکہ اسے ان کے اختیار پر چھوڑ دیا تھا۔ ارشاد ہوا: ان کے مال میں ایک ’متعین حصہ‘ ہے۔ کس کے لیے؟ فرمایا گیا: ’سائل‘(مانگنے والے)کے لیے اور ’محروم‘ کے لیے۔ ’سائل‘وہ ہے جو اپنی ضرورت بیان کرتا ہے۔ بعض حالات میں اس کی گنجائش ہے کہ آدمی اپنی پریشانی کا اظہار کرے کہ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، میری صحت خراب ہے، میرے بچے کا یہ مسئلہ ہے۔ اس کے لیے وہ دوسروں سے مدد طلب کرسکتا ہے۔ ’محروم‘ وہ ہے جو سوال نہیں کرتا، خواہ وہ تنگ دست اور پریشان حال ہی کیوں نہ ہو۔ بہت سے لوگ اتنے خوددار ہوتے ہیں کہ اپنی ضروریات کا اظہار نہیں کرتے۔ یہاں ان ہی کا ذکر ہے۔ وہ وسائلِ معیشت سے محروم ہوتے ہیں، لیکن دستِ طلب دراز نہیں کرتے۔ یہاں ان لوگوں کا ذکر نہیں ہے جو کاسۂ گدائی لیے گھومتے پھرتے ہیں۔
قرآن نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ کسی کے پیچھے پڑ کر نہیں مانگتے۔اہلِ ایمان کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حصہ ہے۔ یہ حصہ قانون نے مقرر نہیں کیا ہے، بلکہ وہ خود مقرر کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ہمیں اپنے اندر بھی پیدا کرنی چاہیے اور اپنے رفقاء میں بھی۔
اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کی کفالت کرے اور ان کی معاشی ذمے داری لے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دور میں لی تھی۔
آپؐ نے فرمایا:
’’جو شخص کچھ مال چھوڑ کر دنیا سے گیا ہے تو وہ اس کے ورثاء کا ہے، اور جو شخص بے سہارا اولاد چھوڑ کر فوت ہوا ہے، اس کی کفالت میرے ذمے ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)
لیکن جہاں اسلامی ریاست نہیں ہے، وہاں اہلِ ایمان کو خود ہی اختیاری طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان کے مالوں میں سائل ومحروم کا متعین حصہ ہو، سورۂ معارج مکہ میں نازل ہوئی، جہاں اسلامی ریاست نہیں تھی۔ اسی میں کہا گیا: انسان تھڑدلا اور بے صبر واقع ہوا ہے۔ وہ حالات سے بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے۔ خوشحال زندگی ہو تو اسے بڑا اطمینان ہونے لگتا ہے، لیکن جیسے ہی حالات بدلتے ہیں، وہ فوراً گھبرا جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے وہ باعزم اور باحوصلہ ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حالات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر آج اچھے ہیں تو کل خراب ہوسکتے ہیں، آج خراب ہیں تو کل ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔ ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے۔ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔ مگر وہ لوگ (اس عیب سے بچے ہوئے ہیں) جو نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ (المعارج:19۔22)
آگے ان نمازیوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا متعین حق ہے۔ وہ روزِ جزا کو برحق مانتے ہیں اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ (آیات 23۔27)