مظفر ہاشمی۔ عجز و انکسار اور وضع داری کا پیکر

ہمایوں نقوی
مظفر ہاشمی مرحوم 1968ء میں بلاک A نارتھ ناظم آباد میں اورنگ آباد کے ایک کمرے کے کوارٹر سے منتقل ہوئے۔ بقول سید منور حسن صاحب کے، وہ اس کوارٹر کی چھت پر خوب اچھی پتنگ بازی بھی کیا کرتے تھے۔ معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش بھی اورنگ آباد میں تھی۔
آپ کے والد مولانا رفیع ہاشمی ؒ نے بلاک A میں مسجد ابراہیمی کی بنیاد ڈالی اور وہ اس مسجد کے پہلے صدر بھی ہوئے۔ مولانا مسجد ابراہیمی میں جمعہ اور دیگر نمازیں بھی پڑھایا کرتے تھے۔
مظفر ہاشمی سے تفصیلی ملاقات 1979ء کے بلدیاتی الیکشن سے ہوئی۔ آپ انصار برنی کو ہرا کر کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ ان بلدیاتی انتخابات سے پہلے مظفر ہاشمی کسی خاص سماجی یا عوامی سرگرمی میں شریک نہیں رہے، لیکن کونسلر منتخب ہونے کے بعد آپ نے بہت جلد بلدیاتی اور شہری امور میں کمال حاصل کرلیا، یہاں تک کہ جب بھی عبدالستار افغانی مرحوم کی کارکردگی کا تذکرہ ہوتا، مظفر احمد ہاشمی اس تذکرے میں لازم وملزوم کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے۔
آپ، عبدالستار افغانیؒ کی اکثر بلدیاتی کمیٹیوں اور ڈویژنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے چیئرمین رہے، جس کے ارکان میں خود میئر کراچی، کمشنر کراچی، چیئرمین KESC، چیئرمین اور ایم ڈی KDA اور پولیس سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسران شامل تھے۔
مظفر ہاشمی مرحوم کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ اور افغانی صاحب کی انتھک محنت سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور اس کا پہلا دفتر موجودہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں قائم ہوا۔
آپ نے افغانی صاحب کے ساتھ مل کر اس ادارے کو اتنا مضبوط اور فعال بنایا کہ ورلڈ بینک جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قرضہ فراہم کرنے سے کتراتا تھا، اسی ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے غیر مشروط قرضے کی فراہمی کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے رابطہ کیا۔
مظفر احمد ہاشمی KDA کی گورننگ باڈی کے رکن بھی رہے۔ آپ انڈسٹریل پلاٹ کمیٹی کراچی کے چیئرمین منتخب ہوئے، اس کے علاوہ KDA کی Low Cost Housing فنانس کمیٹی اور ایمنسٹی پلاٹ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔
بحیثیت چیئرمین انڈسٹریل پلاٹ کمیٹی آپ نے فیکٹریاں لگانے کے خواہش مند افراد کو میرٹ پر 1000 گز کے انڈسٹریل پلاٹ 50 ہزار روپیہ میں مہیا کیے۔ آج نارتھ کراچی اور فیڈرل بی ایریا انڈسٹریل ایریا مظفر ہاشمی مرحوم کی انتھک محنت اور خلوص سے قائم ودائم ہیں۔
بحیثیت رکن KDA گورننگ باڈی آپ نے بفرزون اور نارتھ کراچی جیسے بڑے علاقوں میں ترقیاتی کام کروائے۔ یہ کراچی کے اُن واحد علاقوں میں سے ہیں جو ایک سال کی مختصر ترین مدت میں بنائے گئے۔ تمام علاقے میں سڑکیں، پانی، سیوریج کی لائنیں بچھائی گئیں۔ اسی لیے آپ کو بابائے نارتھ کراچی، بفرزون اور شادمان ٹائون کے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔ مظفر صاحب نے بلاک A میں ایک بہت بڑا پارک بارہ دری کے نام سے بنوایا۔ یہ اربوں روپے مالیت کا پلاٹ KDA کی ملکیت میں تھا اور اس کا رقبہ تقریباً 7.9 ایکڑ تھا۔ اس پارک میں آج ایم کیو ایم والے کچرا گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد پاکستان کا واحد ٹائون ہے جس میں عبدالستار افغانی سابق میئر کراچی اور ہاشمی صاحب کے دور میں 26 بڑے پارک بنائے گئے جن میں سے 17 پارکوں میںایم کیو ایم والوں نے فلیٹ بناکر بیچ دیئے۔
میری ہی درخواست پر آپ عبدالستار افغانی صاحبؒ کے ساتھ جامعہ کراچی تشریف لائے اور اسے پہلی بار دو بسوں کا تحفہ دیا، اور جامعہ کراچی کو بلدیہ کی طرف سے ہمیشہ دو بسوں کی سالانہ فراہمی روایت بن گئی۔ آپ 1985ء اور 1993ء میں اتفاقیہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں بنے بلکہ عوام نے ان کی بے شمار بلدیاتی خدمات کے عوض انہیں دو بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب کیا۔
مظفر ہاشمی بلدیہ کی زیر نگرانی چلنے والے ہسپتالوں پر بھی خاص توجہ دیتے تھے۔ آپ نے خالص میرٹ پر سینکڑوں ڈاکٹروں کو ملازمتیں دیں۔ عباسی شہید، سوبھراج، اسپنسر آئی ہسپتال آپ ہی کی کوششوں سے پاکستان کے معیاری ہسپتالوں کا درجہ رکھتے تھے۔
اپنی دور اندیشی کے باعث آپ نے بورڈ آفس سے سخی حسن کی سڑک کو مزید تیس تیس فٹ چوڑا کرایا جو بہت عرصے تک ایشیا کی چوڑی ترین سڑک کہلاتی رہی۔
اتنی کمیٹیوں میں شرکت اور سینکڑوں کاموں کے نگراں ہونے کے باوجود آپ ہر خوشی اور غم میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اگر آپ کو دن میں دس تقریبات میں بھی جانا ہو، تو کبھی معذرت نہیں کی اور ہمیشہ تادم مرگ شریک ہوتے رہے۔ انتقال سے چند منٹ پہلے میرے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی جو اُن کی زندگی کی آخری نماز ثابت ہوئی۔ مسجد سے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی آپ کو دل کا دورہ پڑا اور راستے میں گاڑی ہی میں آپ نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا کہ ’’اب ہم جا رہے ہیں، اللہ حاٖفظ، اپنا خیال رکھنا‘‘… اور کلمۂ شہادت پڑھا اور ہمیشہ کے لیے اِس دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔ اس طرح عجزو انکسار، خاندانی شرافت، وضع داری کا یہ پیکر ہم سے جدا ہوگیا۔ لیکن اپنے کاموں میں جو صدقۂ جاریہ آپ نے چھوڑا وہ ہم سب کے لیے قابلِ تقلید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور آپ کے والدین کی قبروں کو اپنے نور سے روشن رکھے۔ آمین