مشتاق احمد یوسفی مرحوم خاکم بدہن کے دیباچے ’’دستِ زلیخا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ حسِ مزاح ہی دراصل انسان کی چھٹی حس ہے، یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔‘‘
…………………
انسانی شعور میں اظہار کے متنوع پیرائے موجود ہیں، ان میں ایک انتہائی مؤثر اسلوب ظرافت اور مزاح کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کسی زبان کا ادب طنز و مزاح کے اسلوب سے خالی نہیں دکھائی دیتا۔ اردو زبان و ادب کے ارتقائی ادوار میں بھی طنز و مزاح کے حوالے سے عمدہ اور کامیاب نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو نظم و نثر کی کوئی صنف بھی ان کیفیات سے مبرّا نظر نہیں آتی، البتہ طنز و مزاح (Satire) کی نوعیت اور کیفیت کبھی زیرلب تبسم، تو کبھی ہنسنے اور کبھی فلک شگاف قہقہہ لگانے پر مجبور کرتی ہے۔
ہر خاص و عام اس بات پر متفق ہے کہ یہ دنیا غم و آلام اور دکھوں کا گہوارہ ہے۔غم و الم سے نجات کے لیے انسانی ذہن نے ایک مثبت، مستقل اور اجتماعی ادبی حل بھی ایجاد کرلیا جسے مزاح کا نام دیا گیا، جو بتدریج ہر زمانے میں ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آج ایک مستند اور باقاعدہ فن اور تہذیب کا مرتبہ حاصل کرچکا ہے۔
ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی اپنی تحقیقی کتاب ’’فارسی شاعری میں طنز و مزاح‘‘ کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’میری نظر میں مزاح کی حیثیت ایسی فضا میں جہاں سانس لینا ضروری ہے آکسیجن کی سی ہے۔ اگر ہنسی، شگفتگی، مسکراہٹ، قہقہے دنیا سے یکدم عنقا ہوجائیں، ایسی صورت میں دنیاکا ایسا تصور ہمارے سامنے آتا ہے کہ تمام دنیا میں ترش روئی، بدمزاجی، بددماغی اور غیظ و غضب کا دور دورہ ہوتا ہے اور خودکشی کا رجحان اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ مُردوں کو دفنانے کے لیے جگہ تنگ پڑجاتی ہے‘‘۔
معروف انگریز مزاح نگار اسٹیفن لی کاک (Stephen leacock) اپنی کتاب “Humour and Humanity” میں لکھتے ہیں کہ ’’دنیا میں آنسوئوں کی فراوانی ہے، اگر یہاں آنسوئوں اور دکھوں کے سوا کچھ نہ ہوتا تو یہ دنیا کتنی خوفناک جگہ ہوتی‘‘۔
معروف افسانہ نگار رام لعل، مزاح کی اہمیت اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’زندگی محض درد و غم ہے، ناموزوں، نامکمل، بے ڈھب اور غیرمتناسب… لیکن انسان فطری طور پر خوشی کا طالب ہے جو زندگی میں بہت کم ہے۔ ہنسی، غم غلط کرنے کا ہی دوسرا نام ہے۔ خوشی حاصل کرنے کے لیے انسان زندگی کی تلخیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا ہے کہ ’’احساسِ مزاح کے مظہر تبسم، ہنسی اور قہقہہ ہی ہمیں اس سنجیدہ کائنات میں زندہ رکھتے ہیں، اور ان ہی کے سہارے ہم زندگی سے سمجھوتا کرنے اور غموں کو بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
معروف نقاد نثار احمد فاروقی اپنے مضمون ’’اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’طنز و مزاح کا تعلق معاشرتی مسائل سے ہے۔ جب تک انسان کا شعور اتنا بالغ نہ ہو کہ وہ نہ صرف گرد و پیش کی بے ہنگم باتوں پر ہنس سکے بلکہ خود اپنا بھی خاکہ اڑا سکے وہ اُس وقت تک طنز و مزاح کی روح کو نہیں سمجھ سکتا۔ طنز یا مزاح بے معنی ہنسی کا نام نہیں ہے۔ یہ گہرے عرفانِ ذات یا معاشرے کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی نے اپنی مختلف کتابوں کے دیباچوں میں مزاح اور مزاح کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بڑے پُرمغز اور دلچسپ انداز میں تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ اپنی اولین کتاب ’’چراغ تلے‘‘ کے دیباچے ’’پہلا پتھر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’عملِ مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے، لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئی راکھ، لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ، باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا، ہیرا بن جاتا ہے‘‘۔
پھر اپنی ’’سوانح نوعمری‘‘ ’’زرگزشت‘‘ کے ابتدایئے ’’تزکِ یوسفی‘‘ میں مزاح کی تاثیر اور ثمرات کے بارے میں یوں نکتہ آفرینی کرتے ہیں:
’’اپنے وسیلۂ اظہار ’’مزاح‘‘ کے بارے میں کسی خوش گمانی میں مبتلا نہیں۔ قہقہوں سے قلعوں کی دیواریں شق نہیں ہوا کرتیں۔ چٹنی اور اچار لاکھ چٹخارے دار سہی لیکن ان سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا، نہ سراب سے مسافروں کی پیاس بجھتی ہے۔ ہاں! ریگستان کے شدائد کم ہوجاتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز، اندوہ و انبساط، کرب و لذت کی منزلوں سے بے نیازانہ گزر جانا بڑے حوصلے کی بات ہے۔
بارِ الم اٹھایا، رنگِ نشاط دیکھا
آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے‘‘
آپ بیتیوں میں بھی شگفتگی کے پھول تاحدِّ نظر کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علمی و ادبی حلقوں میں ’’زرگزشت‘‘ طنز و مزاح کے ایک شاہکار کی حیثیت، اور اپنی غیر معمولی پہچان اور شناخت رکھتی ہے۔ سالک اور زیڈ اے بخاری کی آپ بیتیوں بعنوان ’’سرگزشت‘‘ سے مختلف اور الگ مقام کی حامل ہے۔ اردو زبان کی نظم و نثر میں طنز و مزاح کے ادب کے آغاز میں ہی میر جعفر زٹلی (۱۶۵۹ء تا ۱۷۱۳ء) نے تہری، ہجو، یادم گوئی اور فحش نگاری کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس کی بدقسمتی کہ اُس وقت برصغیر میں فرخ سیر جیسا ظالم حکمراں برسراقتدار تھا جس نے بے شمار لوگوں کو سرکشی اور بغاوت کے الزامات میں سمہ کشی (پھانسی) کے ذریعے مروا دیا۔ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے نام کا سکہ جاری کیا جس پر یہ شعر کندہ تھا:
سکہ زوار فضلِ حق بر سیم و زر
بادشاہ بحر و بر فرخ سیر
جعفر زٹلی کی رگِ ظرافت پھڑکی اور اس نے اس کی پیروڈی کرڈالی:
سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر
بادشاہ سمہ کش فرخ سیر
جعفر کی اس جرأتِ رندانہ پر فرخ سیر نے اسے قتل کرادیا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جعفر زٹلی مزاحیہ نظم و نثر دونوں کا بانی ہے۔ اس کے ڈیڑھ سو سال بعد ہمیں خطوطِ غالب کی شکل میں معیاری شگفتہ نثر ملتی ہے۔ اس سے پہلے انشاء اللہ خان انشاء (۱۷۵۲ء تا ۱۸۱۷ء)، سعادت یار خاں رنگین (۱۷۵۷ء تا ۱۸۳۵ء) کے کلام قابلِ ذکر ہیں۔
مرزا غالب اور ان کے پیش رو مزاح نگاروں میں سب سے نمایاں فرق یہ ہے کہ انہوں نے مزاح کو غیرسنجیدہ فعل سمجھا جبکہ غالب نے سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے مزاح تخلیق کرنے کا کٹھن کام سرانجام دیا، جس کی وجہ سے انہیں اس شعبے میں عظمت، انفرادیت اور اولیت عطا ہوگئی۔
اردو نثر میں باقاعدہ تحریکی انداز میں مزاح کی تخلیق کے حوالے سے لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے منشی سجاد حسین (۱۸۵۶ء تا ۱۹۱۵ء) کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’’اودھ پنچ‘‘ کا اجرا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
برعظیم ہندوستان کی تقسیم سے پہلے
خواجہ حسن نظامی (۱۸۷۸ء تا ۱۹۲۱ء)، منشی پریم چند (۱۸۸۰ء تا ۱۹۳۶ء)، سید سجاد حیدر یلدرم (۱۸۸۰ء تا ۱۹۴۳ء)، مرزا فرحت اللہ بیگ (۱۸۸۲ء تا ۱۹۴۷ء)، قاضی عبدالغفار (۱۸۸۶ء تا ۱۹۵۶ء)، رشید احمد صدیقی (۱۸۹۲ء تا ۱۹۷۷ء)، مرزا عظیم بیگ چغتائی (۱۸۹۵ء تا ۱۹۴۱ء)، سید احمد شاہ پطرس بخاری (۱۸۹۸ء تا ۱۹۵۸ء)، حاجی لق لق (۱۸۹۸ء تا ۱۹۶۱ء)، شوکت تھانوی (۱۹۰۵ء تا ۱۹۶۳ء)، کنہیا لال کپور (۱۹۱۰ء تا ۱۹۸۰ء)، ابراہیم جلیس (۱۹۲۴ تا ۱۹۷۷ء) ، نعیم صدیقی (۴ جون ۱۹۱۶ء تا ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ء) قابل ذکر طنز و مزاح نگار ہیں۔
شفیق الرحمن کو ان کے ’’تفریحی ادب‘‘ کی بنا پر بعض ناقدین اردو کا اسٹیفن لی کاک بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے لکھنے کی ابتدا نیم رومانوی افسانوں سے کی تھی اور آزادی سے پہلے ان کی تحریریں خاصی مقبولیت حاصل کرچکی تھیں۔ ان کے مجموعے ’’کرنیں‘‘ (۱۹۴۲ء)، ’’شگوفے‘‘ (۱۹۴۳ء)، ’’لہریں‘‘ (۱۹۴۴ء)، ’’پرواز‘‘ (۱۹۴۵ء) ’’مدوجزر‘‘ (۱۹۴۶ء) تقسیم سے پہلے چھپ چکے تھے۔
مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں اردو ادب کے معروف مصنفوں، نقادوں اور مزاح نگاروں کی رائے:
۱۔ اردو کے معروف اور مستند نقاد اور دانشور مجنوں گورکھپوری نے یوسفی صاحب کی پہلی دو کتابیں ’’چراغ تلے‘‘ اور ’’خاکم بدہن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ادنیٰ سے ادنیٰ بات کے کسی نئے پہلو یا زاویے پر ہلکی سی روشنی ڈال کر اس کی طرف ہم کو متوجہ کرکے چونکا دینا اور پھر خود معصومانہ انداز میں آگے بڑھ جانا یوسفی کے فن کی وہ نزاکت ہے جو انہی کا خاصہ ہے۔ یوسفی کا قلم جس چیز کو بھی چُھوتا ہے اس میں نئی روئیدگی (Growth) اور تازہ بالیدگی (Sublimity) یا Loftiness پیدا کردیتا ہے۔ ان کی کوئی معطر یا لفظی ترکیب ایسی نہیں ہوتی جو پڑھنے والے کی فکر و نظر کو نئی روشنی نہ دے جاتی ہو۔ یوسفی ایک ظرافت نگار کی حیثیت سے ایک نیا دبستان ہیں اور ان کے یہ دونوں مجموعے فن ظرافت میں ایک نیا عنوان ہیں‘‘۔
۲۔ اردو ادب کے ایک مستند مزاح نگار، ادیب اور نقاد رشید احمد صدیقی، یوسفی کی تحریروں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ظرافت کے فن اور اس کے صحیفۂ اخلاق کا یوسفی کے ہاں بڑا قابل تعریف رکھ رکھائو ملتا ہے۔ طنز و ظرافت میں جتنے Pitfalls (یعنی چور گڑھے، جال یا پھندے، پوشیدہ خطرہ، چھپا جال، ٹریپ) ہوتے ہیں، شعر و ادب کی شاید ہی کسی اور صنف میں ملتے ہوں، ان سے بغیر کسی داغ دھبے یا چوٹ چپیٹ کے محفوظ نکل جانا آسان نہیں ہے۔ یوسفی اس منزل سے آسان اور کامیاب گزرے ہیں، خدا ان کو اپنی ہی نظر بد سے محفوظ رکھے۔‘‘
۳۔ دورِ جدید کے مزاحیہ ادب کے سرخیل کرنل ڈاکٹر شفیق الرحمن جو ’’حماقتیں‘‘، ’’مزید حماقتیں‘‘، ’’پچھتاوے‘‘، ’’کرنیں‘‘ اور دیگر کئی مقبول اور معروف کتابوں کے مصنف ہیں یوسفی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’رابرٹ لوئی اسٹیونسن (Robert Louis Stevensen) نے ولیم ہیزلٹ (William Hezlet) کے مضامین کے بارے میں کہا تھا ’’ہم سب باکمال ہیں لیکن ولیم ہیزلٹ کی طرح کوئی نہیں لکھ سکتا‘‘۔ مشتاق احمد یوسفی کی لطیف و نفیس تحریریں پڑھتے وقت اسٹیونسن کا مقولہ یاد آجاتا ہے اور یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ سب باکمال ہیں لیکن مشتاق احمد یوسفی کی طرح کوئی نہیں لکھ سکتا۔‘‘
۴۔ ابن انشا لکھتے ہیں: ’’اگر جدید مزاحی ادب کو ہم کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی کا نام ہے‘‘۔
۵۔ ڈاکٹر محمد حسن کے بقول: ’’طنز و مزاح نے تو مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انتہائی عروج کی منزل طے کرلی جو شاید اردو ادب کو میسر ہوسکتی تھی۔ یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے اور یہ معراج نثر نگاری کی معراج بھی ہے اور طنز و مزاح کی بھی، کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر و انبساط سے پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔
۶۔ ڈاکٹر نورالحسن نقوی لکھتے ہیں: ’’یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چپ ہوجاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔‘‘
۷۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کہتے ہیں کہ’’اردو طنز و مزاح میں ایک ایسی نئی اور بھرپور آواز کا اضافہ ہوا ہے جو الگ سے پہچانی جاسکتی ہے، جس کی طنازی اور دلفریبی دونوں قابل ذکر ہیں۔ یوسفی کا طرزِ بیان سرتا سر ادبیت، ذہانت اور برجستگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ بات میں سے بات پیدا نہیں کرتے، بلکہ بات خود کو اُن سے کہلوا کر ایک طرح کی طمانیت اور افتخار محسوس کرتی ہے‘‘۔
۸۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں: ’’معلوم ہوتا ہے کہ ایک دریا بہہ رہا ہے جس کی لہریں مذاق کی چمک سے روشن ہیں اور جس کا منظر دل کی کلی کوکھلا دیتا ہے۔ کہیں مسکراہٹ پیدا کرتا ہے اور کہیں زور سے ہنسادیتا ہے‘‘۔
۹۔ معروف کالم نگار حسن نثار کے خیال میں: ’’جیسے اردو شاعری میں دوسرا مرزا غالب پیدا نہیں ہوسکتا اسی طرح نثری مزاح میں دوسرا یوسفی پیدا نہیں ہوسکتا‘‘۔
یوسفی صاحب کی تحریروں میں طنز اور مزاح اصلاحِ معاشرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وہ پچھلے کئی برسوں سے اس عرق ریزی کے ذریعے اپنے قارئین و سامعین کو زمانے کی تلخیوں سے روشناس کروا رہے تھے۔ ان کے جملوں کی کاٹ دو دھاری تلوار کا کام کیا کرتی ہے۔ اب تک یوسفی صاحب ہی وہ واحد زندہ جاوید ہستی تھے جو بلاتامل اچھا اور مثبت مزاح تخلیق کرتے رہے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی (صحیح تاریخ پیدائش ۴ اگست ۱۹۲۱ء)
مشتاق احمد یوسفی کی ادبی زندگی کا آغاز اُن کے پہلے مضمون ’’صنفِ لاغر‘‘ کی مجلہ ’’سویرا‘‘ میں طباعت سے ہوا۔ بعد میں یہ سلسلہ افکار، ادبی دنیا، فنون اور نصرت میں بھی چلتا رہا۔ پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ ۱۹۶۱ء میں منصۂ شہود پر آئی۔ مشتاق احمد یوسفی بھی اگرچہ اپنے مزاج اور عادات کے اعتبار سے گوشہ نشینوں کے سرخیل ہیں، اس لیے ان کو بھی توجہ ذرا دیر سے ملی، لیکن ان کی انفرادیت یہ ہے کہ جب ایک بار نظروں میں آگئے تو پھر کیا ادیب، کیا نقاد اور کیا قارئین… سب کی نظریں اس آفتابِ سخن کے سامنے چندھیا گئیں۔ دنیائے ادب میں ایسے ادیب بہت کم ملیں گے جنہیں ایسی فتح نصیب ہوئی ہو کہ جس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناقابلِ شکست کی مہر لگی ہوئی ہو۔ اور پھر اردو ادب میں ایسے ادیبوں کو گننے کے لیے تو شاید ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی زیادہ لگنے لگیں۔ مشتاق احمد یوسفی کا شمار ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی زندگی ہی میں لیجنڈ کا درجہ اختیار کرلیتی ہیں۔
ان کی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ ہے جو ان کے کھٹے میٹھے ۱۲ مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جو ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی، دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ ۱۹۶۹ء میں، تیسری کتاب ’’زرگزشت‘‘ جو ان کی طویل بینکاری زندگی کے واقعات و حالات سے ماخوذ ہے اور ان کی ادبی معراج ہے، ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ’’آبِ گم‘‘ ۱۹۹۰ء میں اور آخری تازہ ترین ’’شام شعرِ یاراں‘‘ ۲۰۱۴ء میں منظر عام پر آئی۔
ان کی کتابوں سے چند نمونے پیش خدمت ہیں:
’’بیشتر صفحات کے کونے کتے کے کانوں کی طرح مڑ گئے تھے‘‘۔
’’چال، جیسے قرۃ العین کی کہانی پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی‘‘۔
’’بھری جوانی میں میاں بیوی اردو کے ۶۲ (باسٹھ) کے ہندسے کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیرے ہوئے رہے‘‘۔
’’جوش ملیح آبادی کے یہاں اردو زبان گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں‘‘۔
’’مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر کا مطالعہ ایسا ہی ہے جیسے دلدل میں تیرنا‘‘۔
’’اختر شیرانی وصل کی اس طور فرمائش کرتے ہیں گویا بچہ ٹافی مانگ رہا ہے‘‘۔
یوسفی طنز و ظرافت نگار کی حیثیت سے ایک ایسا دبستان ہیں کہ لگتا ہے ایک زم زم بہ رہا ہے۔ ان کے مضامین، طنز و مزاح کی نشاۃِ ثانیہ کا نقطہ عروج ہیں۔ ان کا طرزِ نگارش اور اسلوب اردو نثر کے شگفتہ ادب کی معراج ہے جسے ہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے پیش کرسکتے ہیں۔ ان کے سحرِ بیان کی مار چومکھی ہے۔ ان کے جملے ترشے ترشائے ہوئے ہیرے ہیں۔
’’شام شعرِ یاراں‘‘ سے خاکسار ایک اقتباس پیش کررہا ہے جس میں مشتاق احمد یوسفی نے کراچی کے ساحل کی صورتِ حال کا الم ناک اور غریب مچھیروں کی بے بسی اور تکالیف کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:
’’میں نے ساحل ساحل دس بارہ میل کا چکر لگایا ہے۔ کہیں کوئی درخت نہیں دیکھا، نہ کوئی مرغابی یا کوئی اور آبی پرند۔ مرزا کہتے ہیں کہ ایسی آب و ہوا اور حالات میں صرف تاجر، مہاجر، مچھر اور مگرمچھ ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ خیر پیڑ پودے، پنچھی پکھیرو تو نہ ملنا تھے نہ ملے، مگر دو سندھی مچھیروں سے ہماری دوستی ہوگئی۔ اسّی پچاسی سالہ ابراہیم اور ساٹھ سالہ موسیٰ سے۔ ابراہیم کہتا ہے کہ ’’بوٹنگ بیسن میں جہاں آپ لوگ تکّے اور کباب کھاتے ہیں، وہاں انگریز کے جانے اور آپ کے آنے سے پہلے ہم کشتی میں آیا جایا کرتے تھے۔ جال ڈالنے کے بعد بس نکالنے کی دیر تھی۔ سائیں، سب انگریز کا اقبال تھا۔ آدھ گھنٹے میں چاندی جیسے پیٹ والی اتنی مچھلیاں پکڑ لیتے تھے کہ دو تین دن کا خرچ نکل آتا تھا‘‘۔ ایک دن وہ اپنا پھٹا جال دکھا کر کہنے لگا کہ ’’اسے دیکھو، اسے کھینچنے کے لیے بائولے اونٹ کی طاقت چاہیے!‘‘ میں نے دیکھا کہ جال میں مذہبی کتابوں کے اوراق، کانچ کی ٹوٹی بوتلیں، Diet Coke کی نمکین سمندری پانی سے بھری بوتلیں، پھٹے پرانے بے جوڑ جوتے اور چپلیں، خربوزے کے چھلکے اور ڈیڑھ دو کلو انگلی برابر مچھلیاں تھیں۔ جال روز پھٹ جاتا تھا۔ دو گھنٹے اس سے مچھلی پکڑتے اور بارہ گھنٹے اس کی مرمت کرتے۔ میں نے پوچھا کہ بابا، یہ کتنے میں بکیں گی؟ بولا: سائیں بیس تیس روپے میں۔ اس علاقے میں اتنے ہی دام لگتے ہیں۔ ان بیمار مچھلیوں کو آپ لوگ نہیں کھاتے۔ بڑی مچھلیوں کو تو فشنگ ٹرالر اور گندگی کھاگئی۔ باقی مچھلیاں پلاسٹک کے تھیلوں سے دم گھٹنے سے مرگئیں۔‘‘
٭ غریب مچھیروں کی بے بسی اور تکالیف کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں:
’’وہ دونوں ضعیف مچھیرے اپنا تازہ پھٹا اور بھیگا جال اور ٹوکریاں سمیٹ کر جانے لگے تو میں نے حیرت سے پوچھا کہ اس عمر میں تم یہ سارا سامان لاد کر سات آٹھ میل دور اپنے گوٹھ پیدل کیسے جائو گے؟ موسیٰ کہنے لگا ’’سائیں، ہمیں کوئی بس کی چھت پر بھی نہیں بیٹھنے دیتا‘‘۔ میں نے کہا: تعجب ہے، لوگ مچھلی گپاگپ کھاتے ہیں اور مچھلی کی بو پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں! وہ بولا: ’’نہیں جی، کنڈیکٹر کہتے ہیں تمہارے بدن سے بدبو آتی ہے۔ ساری بس کا محول خراب کردیتے ہو‘‘۔
چلنے لگے تو ابراہیم بولا ’’گوٹھ کے لوگ کہتے ہیں میں اسّی سے اوپر ہوں۔ سب کچھ دیکھا بھالا، بھوگا، بھگتا۔ بس ایک ہی فکر ستاتی ہے، اگر آپ کی کسی وزیر یا ممبر اسمبلی تک پہنچ ہو تو ہماری طرف سے ہاتھ جوڑ کے اس سے عرض کریں کہ ہمارے گوٹھ کے لیے قبرستان کا بندوبست کریں۔ شہر والوں کے قبرستانوں میں ہمارے جنازے کو گھسنے نہیں دیتے۔ ہم اپنی میت کو ایک قبرستان سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے، چوتھے کاندھوں پر اٹھائے اٹھائے بے عزتی کراتے پھرتے ہیں۔ دن بھر سخت دھوپ میں پڑے رہنے کے بعد ہماری میت سے خوشبو تو آنے سے رہی۔ مُردے کی مٹی خراب ہوتی ہے، ماحول الگ خراب ہوتا ہے۔ سائیں، کچھ کرو۔ رات کو فکر سے نیند نہیں آتی۔ اسّی سے اوپر ہوں۔‘‘