عام انتخابات 2018ء کا معرکہ شروع ہوچکا ہے اور پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ کراچی میں انتخابات کی ماضی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ہے، اور پورے ملک اور دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان، شہبازشریف اور بلاول بھٹو یہاں سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس انتخابی معرکے کے لیے متحدہ مجلس عمل نے کراچی کی تمام قومی و صوبائی نشستوں پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جائے گا۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں کراچی میں ایک خصوصی تقریب ہوئی جس سے جماعت اسلامی پاکستان و متحدہ مجلس عمل کے سیکریٹری لیاقت بلوچ، جماعت اسلامی کراچی کے امیر و متحدہ مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن، جمعیت علمائے اسلام کے سید حماد اللہ، جمعیت علمائے پاکستان کے محمد مستقیم نورانی، اسلامی تحریک کے رہنما سرور علی اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر متحدہ مجلس عمل کے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے امیدواران، اور خواتین کی مخصوص نشستوں کی نامزد امیدواران بھی موجود تھیں۔
متحدہ مجلس عمل کے اعلان کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ 236 سے سوماربرفت جن کا حلقہ گڈاپ، ملیر پر مشتمل ہے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ہوں گے۔ اسی طرح این اے 237 سے محمد اسلام (ائرپورٹ سب ڈویژن، ملیر کینٹ، فلک ناز، ٹی اینڈ ٹی، شرافی گوٹھ، دارالعلوم پر مشتمل علاقہ) ، این اے238 سے بھی محمد اسلام (ابراہیم حیدری سب ڈویژن، ریڑھی گوٹھ، مشین ٹول فیکٹری، کیٹل کالونی، جمعہ گوٹھ پر مشتمل علاقہ)، این اے239 سے محمد حلیم خان غوری (شاہ فیصل کالونی، عظیم پورہ، ملت ٹائون، شادمان، ماڈل کالونی، فیصل کینٹ کا باقی حصہ)، این اے240 سے عبدالجمیل خان (کورنگی، لانڈھی)، این اے 242 سے اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ (نیو سبزی منڈی، الاظہر گارڈن، چیپل سن سٹی، کرن اسپتال، سچل گوٹھ، پی سی ایس آئی آر، کے ڈی اے سوسائٹی، الآصف اسکوائر، مچھر کالونی، کوئٹہ ٹائون، لاسی گوٹھ، احسن آباد، اسکیم 33 پر مشتمل علاقہ) این اے243 سے اسامہ رضی (بہادرآباد، شرف آباد، لیاقت نیشنل اسپتال، آغا خان اسپتال، فیضانِ مدینہ، ایکسپو سینٹر، حسن اسکوائر، پاناما سینٹر، بیت المکرم مسجد، شانتی نگر، مجاہد کالونی، الٰہ دین پارک، گلشن اقبال تمام بلاکس، میٹروول تھری، کراچی یونی ورسٹی، گلستان جوہرپر مشتمل علاقہ)، این اے244 سے زاہد سعید (ڈیفنس ویو، اختر کالونی، منظور کالونی، اعظم بستی، چنیسر گوٹھ، محمود آباد، بلوچ کالونی، ہل پارک، محمد علی سوسائٹی، کارساز، فیصل کینٹ، پہلوان گوٹھ، گلشن جمال، کے ڈی اے اسکیم، دھوراجی پر مشتمل علاقہ)، این اے 245 سے سیف الدین ایڈووکیٹ (پی ای سی ایچ ایس، نرسری، طارق روڈ، ایبی سینیا لائن، جٹ لائن، جیکب لائنز، نشتر پارک، چڑیا گھر، پاکستان کوارٹرز، سولجر بازار، مزار قائد، نیوٹائون، لسبیلہ چوک، پٹیل پاڑہ، گارڈن ویسٹ، مارٹن کوارٹرز، تین ہٹی، سینٹرل جیل، پی آئی بی کالونی پر مشتمل علاقہ)، این اے 246 سے مولانا نورالحق (لیاری، چاکی واڑہ، بہار کالونی، آگرہ تاج، بنگال آئل مل، بھیم پورہ، لی مارکیٹ پر مشتمل علاقہ)، این اے247 سے محمد حسین محنتی (ڈیفنس، کلفٹن، صدر، سندھ اسمبلی، کراچی کینٹ، سول لائنز، کھارادر، لائٹ ہائوس، کالاپل، گورا قبرستان پر مشتمل علاقہ)، این اے 248 سے قاری محمد عثمان (ماڑی پور، گابوپٹ، ہاکس بے، مشرف کالونی، بدھنی گوٹھ، کسٹم ہائوس، پی اے ایف بیس مسرور، مواچھ گوٹھ پر مشتمل علاقہ)، این اے249 سے سید عطا اللہ شاہ (بلدیہ ٹائون کا علاقہ)، این اے250 سے حافظ نعیم الرحمن (سائٹ سب ڈویژن، اورنگی ٹائون پر مشتمل علاقہ)، این اے251 سے محمد لئیق خان (مومن آباد سب ڈویژن)، این اے 252 سے عبدالمجید خاصخیلی (گلشن معمار، تیسر ٹائون، منگھوپیر، سرجانی ٹائون، بند مراد)، این اے 253 سے منعم ظفرخان (نیو کراچی، خواجہ اجمیر نگری، ILA,11,B سیکٹر 8، سیکٹر)، این اے 254 سے راشد نسیم (گودھرا کیمپ، ٹمبر مارکیٹ، شریف آباد، الاعظم اسکوائر، بندھانی کالونی)، این اے 255 سے محمد مستقیم قریشی (لیاقت آباد، ناظم آباد، بڑا میدان، جہانگیر آباد، کھجی گرائونڈ)، این اے 256 سے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی (ضیاء الدین اسپتال، پاپوش نگر، عبداللہ کالج، پہاڑگنج، کٹی پہاڑی، فائیو اسٹار چورنگی، نصرت بھٹو کالونی، ناگن چورنگی، سرسید ٹائون سے) امیدوار ہوں گے۔
اسی طرح متحدہ مجلس عمل کراچی کے اعلان کے مطابق صوبائی اسمبلی کے لیے پی ایس87 سے حافظ حمداللہ حقانی، پی ایس 88 سے محمد الطاف پٹنی، پی ایس89 سے ممتاز حسین سہتو، پی ایس90سے پیر احسان اللہ، پی ایس91 سے مولانا احسان اللہ ٹکروی، پی ایس 92 سے فاروق خلیل، پی ایس93 سے توفیق الدین صدیقی، پی ایس 94 سے محمد اسلم پرویزعباسی، پی ایس 95 سے محمد ایوب عباسی، پی ایس96سے رجب علی عباسی، پی ایس 97 سے منصور فیروز، پی ایس98 سے مولانا عبدالحق عثمانی، پی ایس99 سے مولانا محمد غیاث خان، پی ایس 100سے محمد یونس بارائی، پی ایس101 سے بابر قمر عالم، پی ایس 102سے سید محمد قطب، پی ایس 103سے محمد جنید مکاتی، پی ایس 104سے ظہوراحمد جدون، پی ایس105سے سرور علی، پی ایس 106سے محمداسلم غوری، پی ایس107سے فضل الرحمن، پی ایس108سے سید عبدالرشید، پی ایس109سے فیصل عبدالغفار، پی ایس110سے عبدالقادر، پی ایس111سے محمد سفیان دلاور، پی ایس112سے نیک امان اللہ خان، پی ایس 113سے سجاد احمد، پی ایس114سے قاری محمد عثمان/اکبر شاہ ہاشمی، پی ایس115سے حافظ محمد نعیم، پی ایس 116 سے مولانا عمر صادق، پی ایس117سے مدثر حسین انصاری، پی ایس118سے سید حیدر شاہ، پی ایس119سے عطاربی، پی ایس120سے عبدالرزاق، پی ایس121سے حبیب الرزاق، پی ایس 122 سے سید محمد رضوان شاہ، پی ایس 123سے محمد یوسف، پی ایس124سے خالد صدیقی، پی ایس125سے عبدالباقی، پی ایس126 سے فاروق نعمت اللہ، پی ایس127سے محمد صدیق راٹھور، پی ایس 128سے سید وجیہ حسن، پی ایس129سے حافظ نعیم الرحمن، اور پی ایس130سے محمد نسیم صدیقی متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ہوں گے۔ جب کہ اُم عطیہ، کوثر ناصر، ڈاکٹر عزیزہ انجم، افشاں نوید، ذکیہ اورنگزیب، پروین خان اور مسفرہ جمال قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی امیدوار ہوں گی۔ علاوہ ازیں سیموئیل نذیر، سونیا کمارکھتری، کاشف پرویز، دلیپ کمار، ڈاکٹر شنکر لعل متحدہ مجلس عمل کی طرف سے صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے امیدوار ہوں گے۔
بعد ازاں خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہاکہ 2018ء کا انتخاب یقینی ہے، سیاسی جماعتیں بے یقینی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے، مگر انتخابات اب نوشتۂ دیوار ہے۔ بروقت انتخابات کے لیے تمام جماعتیں ایک صفحے پر ہیں۔ انتخاب پاکستان کے عوام کا جمہوری اور سیاسی حق ہے، اب کوئی اس سے محروم نہیں کرسکتا۔ کراچی میں پورے عزم و یقین سے انتخابات کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، دینی جماعتیں اب متحد ہوچکی ہیں، حالات اب بدلنے والے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ماضی میں بھی متحدہ مجلس عمل نے ایک ویژن کے ساتھ کام کیا اور اب بھی کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ مجلس عمل نے مختصر مدت میں اتفاق پیدا کیا۔ مرکزی، صوبائی اور ضلعی قیادت کا انتخاب کیا، منشور تشکیل دیا گیا۔ مجلس عمل نے کم وقت اور کم وسائل کے ساتھ مینارِ پاکستان میں تاریخی جلسہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 24 جون کو پشاور میں جلسہ ہوگا، 28 جون کو کراچی میں علماء کنونشن، 29 جون کو ملتان میں جلسہ ہوگا، یکم جولائی کو مولانا شاہ احمد نورانی کی برسی پر جلسہ ہوگا، اور 8جولائی کو کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا جائے گا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ایم ایم اے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جہاں ہر طرف ٹکٹوں کے حصول کے لیے مظاہرے اور دھرنے کیے جارہے ہیں وہاں متحدہ مجلس عمل اپنے قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کا پورے اعتماد کے ساتھ نام پیش کررہی ہے، یہی اتحاد ہے کہ جس کے نتیجے میں کراچی کے عوام جو تذبذب کا شکار ہیں وہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو کامیاب کرائیں گے۔ سید حماد اللہ نے کہا کہ مجلس عمل حیران کن نتائج دے گی۔ محمد مستقیم نورانی نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل نے سنجیدہ فکر کی حامل دینی و مذہبی قیادت قوم کو دی ہے۔ ہم عزم و ہمت کے ساتھ انتخابات لڑیں گے اور کامیابی حاصل کریں گے تاکہ مذہبی شناخت رکھنے والے عظیم شہر کراچی پر دہشت گردی، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کے داغ دھل سکیں۔ سرور علی نے کہاکہ آج کا یہ اتحاد متحدہ مجلس عمل کی صورت میں خوبصورت گلدستہ کی صورت میں موجود ہے جس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
جماعت اسلامی کراچی اور کراچی کے لوگوں کے حقوق کے لیے تاریخی طور پر متحرک ہے۔ حالیہ دنوں میں ’کے الیکٹرک‘ کا مسئلہ ہو، پانی کا مسئلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ… جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ، اقتدار میں رہے بغیر بھی، کھڑی رہی ہے۔ اسی تقریب میں امیر جماعت اسلامی کراچی اور متحدہ مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن نے متحدہ مجلس عمل کراچی کا منشور پیش کرتے ہوئے اعلان کیا اور بتایا کہ اگر کراچی کے عوام نے مجلس عمل کو مینڈیت دیا تو وہ اس شہر کو تبدیل کردیں گے۔
کراچی کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی کسی بھی طور سوا دو کروڑ سے کم نہیں، نظرثانی کراکے مردم شماری کو درست کرائیں گے، انتخابی فہرستوں میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں موجود ہیں، ووٹر لسٹوں کو درست کرایا جائے گا، تاکہ عوام کے مقدس ووٹ پر کوئی ڈاکا نہ ڈال سکے۔کراچی کے موجودہ اور آئندہ کے تخمینوں کی بنیاد پر 20 سے 40 سال کا ماسٹر پلان تیار کرائیں گے۔ حافظ نعیم الرحمن نے منشور کے حوالے سے اپنی پریزنٹیشن میں مزید کہا کہ وہ کراچی کو میگا میٹرو پولیٹن حیثیت دلائیں گے۔ کے ڈی اے، کے بی سی اے، کراچی واٹر بورڈ، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے جیسے شہری ادارے اور تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام شہری حکومت کے ماتحت لائیں گے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، بجلی، گیس اور دیگر سروسز دینے والے ادارے شہری حکومت کو جواب دہ ہوں گے۔ کراچی کے بنیادی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پانی کا ہے، اس حوالے سے اپنا پروگرام بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پانی کے حوالے سے پانچ سال کے دوران 100 ارب روپے مختص کرائیں گے اور K-4 منصوبے کا پہلا تا تیسرا مرحلہ (650 ملین گیلن یومیہ) اورڈی سیلینیشن پلانٹ (100 ملین گیلن یومیہ) کا منصوبہ تین سال میں مکمل ہوگا۔پانی کی تقسیم کا موجودہ سسٹم مکمل طور پر بدل دیا جائے گا (جو اگلے 30 سال کے لیے کارآمد ہوگا)۔ اس وقت کراچی گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے، سیوریج کا نظام تباہ و برباد ہے۔ سیوریج نظام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سیوریج سسٹم کی بحالی اور بہتری کے لیے ہر سال 10 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ صنعتی فضلے کی ری سائیکلنگ اور ٹریٹمنٹ کی جائے گی (200 ملین گیلن یومیہ)۔ اس کے ساتھ S-3 منصوبہ ایک سال میں مکمل کیا جائے گا۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے پس منظر میں ان کا کہنا تھا کہ انفرا اسٹرکچر کی تیاری، گاربیج اسٹیشن، گاڑیاں اور مشینری، نئی landfill سائٹ پر کام ہوگا اور موجودہ سسٹم کے لیے بجٹ مختص کریں گے،کچرے سے بجلی بنائیں گے، کراچی کے شہریوں کا ایک بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے جسے ماضی میں جماعت اسلامی کی سٹی گورنمنٹ نے بہتر کرنے کی کوشش بھی کی تھی اور اس کے لیے منصوبے بھی بنائے تھے جو نئے آنے والے آگے نہیں بڑھا سکے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عمل کریں گے، اگلے پانچ سال میں 4 کوریڈور مکمل کریں گے، سرکلر ٹرین سسٹم کو ان کوریڈورز سے منسلک کیا جائے گا، سٹی ٹرانسپورٹ اتھارٹی بنائی جائے گی، ہر سال 500 سے 1000بسیں سڑک پر لائی جائیں گی۔ موجودہ نجی ٹرانسپورٹ میں 30 فیصد تک کمی لائیں گے۔ منشور میں صحت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دو نئے اور جدید ترین ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال تعمیر کیے جائیں گے۔ اعصابی اور نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے ایک خصوصی اسپتال بنایا جائے گا۔ سول اسپتال، سندھ گورنمنٹ اسپتالوں اور دیگر متعلقہ اداروں کو ترقی دی جائے گی۔ صحتِ عامہ کا باہم مربوط (integrated) ماڈل ہوگا۔ سستی دوائیں، رعایتی نرخ پر فراہم کی جائیں گی اور یہ کام الخدمت کے تحت ہو بھی رہا ہے۔ اس کے ساتھ صحت کے لیے سالانہ 50 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ تعلیم کے شعبے میں منفرد مقام رکھنے والا کراچی اب زبوں حال ہے اور اس کی تعلیمی شناخت مٹ چکی ہے، اس کو بحال کرنے کے لیے ان کا کہنا تھا کہ تعلیم سب کے لیے ہوگی اور ایک تعلیمی نظام کے ساتھ ہوگی۔ ہم ماڈل اسکولوں کا قیام (مفت معیاری تعلیم کے لیے) عمل میں لائیں گے اور تمام سرکاری اسکولوں کو پانچ سال کے اندر ترقی دیں گے۔ اس کے ساتھ ایک نیا انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اور ایک نئی جنرل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آئے گا، خواتین کی تعلیم، فنّی تربیت اور یونیورسٹی کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ نجی اسکولوں، کالجوں، کوچنگ سینٹروں، یونیورسٹیوں کی نگرانی اور سپورٹ کا طریقہ کار بنایا جائے گا۔
اساتذہ کا معاشرے میں اہم کردار ہے، اُن کے لیے ٹیچرز ٹریننگ پروگرام ہوگا۔ رہائشی علاقوں میں سہولیات کے حوالے سے مجلس عمل کے منشور میں بتایا گیا کہ تمام رجسٹرڈ پسماندہ بستیوں (slums) میں انفرا اسٹرکچر کی ترقی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی، غیر رجسٹرڈ پسماندہ بستیوں کو لیزنگ کی سہولت ہوگی۔ نئے شہر اور سستی ہائوسنگ اسکیمیں انفرا اسٹرکچر کے ساتھ متعارف کرائی جائیں گی۔ بجلی اور گیس ان کا اہم موضوع تھا اور جماعت اسلامی نے کراچی میں کراچی کے لوگوں کو ’کے الیکٹرک‘ کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے اور یہ جاری ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’کے الیکٹرک‘ کو شہری حکومت/ صوبائی حکام کے آگے جواب دہ بنایا جائے گا۔ نیپرا میں شہری حکومت اور کراچی چیمبر آف کامرس کو نمائندگی دی جائے گی۔ کے الیکٹرک سے پختہ عزم کرایا جائے گا کہ وہ پیداوار بڑھائے گی اور لوڈشیڈنگ میں کمی کرے گی۔ صنعتی علاقے، اسپتال، تعلیمی ادارے لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کیے جائیں گے۔ شمسی توانائی اور پن بجلی (Wind Energy ) کو فروغ دیاجائے گا۔
کراچی میں کھیل اور تفریح کے مواقع ناپید ہوتے جارہے ہیں، اس حوالے سے منشور میں بتایا گیا کہ بین الاقوامی معیار کا ایک جدید اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا جائے گا۔ کرکٹ اور فٹبال کے موجودہ اسٹیڈیم ترقی دے کر بین الاقوامی معیار پر لائے جائیں گے۔ ہر یونین کونسل میں ماڈل پارک اور کھیل کا میدان ہوگا۔ خواتین کے لیے کھیلوں کی سہولتیں ہوں گی۔ سٹی اولمپکس ہوں گے۔ تمام سطحوں پر ٹیلنٹ کی تلاش کا پروگرام ہوگا اور اہل لوگوں کو سامنے لایا جائے گا۔ نوجوانوں کی ترقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ نوجوانوں کو ملازمتوں اور کاروبار کے نئے مواقع دیے جائیں گے۔ نوجوان کاروباری افراد کو تربیت اور چھوٹے قرضے دیے جائیں گے۔ طلبہ اور نوجوان ریسرچرز کو وظائف دیے جائیں گے۔ بے روزگاری الائونس دیا جائے گا۔ کیریئر کے انتخاب میں رہنمائی دی جائے گی۔
کراچی معاشی حب ہے اور ملک کا پہیہ کراچی کی معاشی سرگرمیوں کی ہی مرہونِ منت چلتا ہے۔ معاشی ترقی کے حوالے سے منشور میں بتایا گیا کہ ماہی گیری/ سی فوڈ کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا، ایک نئی بین الاقوامی معیار کی فشری بنائی جائے گی جہاں بحری تحقیق کا مرکز بھی ہوگا، گہرے سمندر میں ماہی گیری کے لیے فشنگ ٹرالر اور سازوسامان لایا جائے گا، ماہی گیروں کو قرضے دیے جائیں گے۔ آٹھ ہزار ایکڑ پر زرعی اور گلّہ بانی کی سرگرمیوں کے لیے فارم بنائے جائیں گے۔ نئے ٹیکس فری صنعتی زون بنائے جائیں گے۔ دوا ساز اداروں، ٹیکسٹائل صنعت کے لیے خصوصی پیکیج اور سہولتیں ہوں گی۔ انٹر سٹی بس ٹرمینلز بنائے جائیں گے۔ ریلوے اسٹیشنوں کو ترقی دینے کے لیے وہاں شاپنگ مال اور ریسٹورنٹ بنائے جائیں گے۔ فوڈ انڈسٹری کو فروغ دیا جائے گا۔ مجلس عمل کا منشور ایک بھرپور منشور ہے، اس میں معذور افراد کے لیے بھی پروگرام موجود ہے۔ منشور کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد بہرے، گونگے، نابینا، ذہنی پسماندہ افراد، اپاہج افراد، حادثات میں زخمی اور معذور ہونے والے افراد کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ ان کے لیے اسپیشل ایجوکیشن سینٹر بنائے جائیں گے۔ معذوروں کے لیے قرضے اور ملازمتوں میں کوٹہ رکھا جائے گا۔ معذوروں کے لیے معاون ماحول بنایا جائے گا، انہیں بااختیار بنایا جائے گا۔ مساجد اور مدارس کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کے تمام بلوں پر 50 فیصد اعانت زر (سبسڈی) ہوگا۔ امام حضرات، علما اور اساتذہ کے لیے تکافل اسکیمیں متعارف کرائی جائیں گی۔ کمیونٹی ڈیولپمنٹ، سماجی انصاف اور تعلیم کے لیے مراکز قائم ہوں گے۔
کراچی میں آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے، درخت ختم ہوچکے ہیں، ماحولیات کا تحفظ اور آلودگی میں کمی کے لیے بھی کئی سطحوں پر اقدامات کرنے کا اعلان کیاگیا۔ اس حوالے سے نہ صرف لوگوں کو تعلیم اور آگاہی دی جائے گی بلکہ قانون سازی کرکے اس پر عمل کرایا جائے گا۔ کچرا جلانے کی سخت روک تھام کی جائے گی، کچرا ضائع کرنے کے خصوصی مراکز بنائے جائیں گے۔ ’’گرین کراچی‘‘ کے لیے مہم / جنگلات کو ترقی دی جائے گی۔ کراچی کے عوام نادرا کے بھی ستائے ہوئے ہیں، شناختی کارڈ اور نادرا کے حوالے سے سادہ اور صارف دوست سسٹم بنایا جائے گا، نادرا کے عملے کا رویہ بہتر بنایا جائے گا، نگرانی اور سہولت کاری دی جائے گی۔ شناختی کارڈوں کی بلا وجہ بلاکنگ کا سلسلہ روکا جائے گا۔ ہر ضلع میں نادرا کے 24 گھنٹے چلنے والے میگا سینٹرز، ہر ضلع میں دو مراکز ہوں گے۔ شکایات کا آن لائن سسٹم فعال ہوگا۔
متحدہ مجلس عمل نے حالیہ انتخابات کے لیے اپنے منشور میں کراچی کے لیے ایک واضح عوامی ایجنڈا پیش کردیا ہے۔ یہ شہر کی تعمیر و ترقی اور اس کی روشنیوں کی بحالی کے لیے ایک خاکہ ہے، جس میں رنگ عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے بھرنا ہے۔ یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ متحدہ مجلس عمل کے انتخاب میں کھڑے ہونے والے امیدوار جہاں دیانت دار اور امین ہیں اور جو کراچی کے لوگوں کے درمیان بھی رہتے ہیں وہاں اس کا منشور بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے منشور کے برعکس منفرد ہے اور اس کے اندر کراچی کے عوام کی بھرپور ترجمانی بھی موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے عوام اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسل کے لیے کن لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنا ووٹ کس کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ اس کا فیصلہ 25 جولائی کو ہوگا۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مجلس عمل کی لہر کراچی میں موجود ہے اور لوگوں کا رجحان بھی موجود ہے۔