فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے (22 تا 28 جون) میں پروفیسر آسی ضیائی مرحوم کی کتاب ’’درست اردو‘‘ پر ملک نواز احمد اعوان کا تبصرہ شائع ہوا ہے۔ آسی ضیائی کے صاحبزادے نے لکھا ہے کہ وہ اردو زبان کی صحت کے حوالے سے بہت فکرمند رہتے تھے جس کی وجہ سے وہ تقریباً ہر ملنے والے (خصوصاً اپنے گھر کے افراد) کی زبان کی اصلاح کرتے رہتے تھے۔
یہ بڑے حوصلے کی بات ہے خاص طور پر اپنے گھر والوں کی زبان درست کرنا۔ ہم تو گھر والی کے طعنوں سے سہم کر باز آگئے۔ رہے بچے، تو وہ اپنی ہی زبان بولتے ہیں۔ آسی ضیائی لکھتے ہیں کہ ’’38 سال… ایک نسل… کی طویل مدت گزر جانے کے بعد کی صورتِ حال یہ ہے کہ میں صحتِ زبان کی طرف سے بے پروا بلکہ افسردہ اور مایوس ہو گیا ہوں اور لکھنے والے غلطی کرنے پر زیادہ دلیر اور پُراعتماد‘‘۔ لیکن ہمیں یہ کام کرتے ہوئے ابھی 38 سال نہیں گزرے، اس لیے مایوس ہوئے ہیں نہ افسردہ، خواہ لکھنے والے کتنے ہی دلیر ہوں۔ یہ بات بس یونہی یاد آگئی۔ اتوار کے دن زیادہ فرصت تھی تو کچہری لگا کر بیٹھ گئے یعنی اس مستقل عنوان کے تحت ایک مضمون پورا پڑھ ڈالا۔ ایک اچھے قلم کار نے اپنے مضمون میں دو جگہ حامی کو ہامی لکھا ہے مثلاً ’’نوازشریف کے ہامیوں، بھٹو کے ہامیوں‘‘۔ اطمینان ہوا کہ لکھنے والے پڑھنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ ان کا اسلوب متاثر نہ ہو۔ ’حامی‘ اور ’ہامی‘ میں کیا فرق ہے اس کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ ہامی بھری جاتی ہے اور حامی اپنے ممدوح کو بھرتے ہیں۔ ہامی کا مطلب ’ہاں‘ کرنا، اور حامی کا مطلب حمایت کرنے والا۔ جسارت میں بروقت ایک سرخی پکڑ میں آگئی کہ ’’ساڑھے تین لاکھ فوجی اہلکار دینے کی حامی بھرلی‘‘۔ لیکن ’بقیہ‘ میں یہ حامی بھری ہوئی ہے۔ اچھا، حامی سے تو حمایت (غالباً اسم کیفیت) ہے، تو کیا ہامی سے ہمایت ہو گا؟ خوردبرد آج تک صحیح نہیں ہوسکا اور منگل کے جسارت میں بھی بشکل خردبرد موجود ہے۔ تو کیا آسی ضیائی کی طرح ہمیں بھی بے پروا ہوجانا چاہیے جسے ستم گر ’بے پرواہ‘ لکھنے پر مُصر ہیں!
ہمارے قلم کار اتنے دلیر ہیں کہ سمجھانے کے باوجود دو جمع یکجا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مثلاً 22 جون کے جسارت میں ایک مضمون میں ’’آئی ہوئیں تھیں۔ پہنچ گئیں ہوں گی‘‘۔ وغیرہ تھا۔ ان جملوں میں ’ہوئی تھیں‘ اور ’گئی ہوں گی‘ لکھنے میں کیا قباحت تھی! رشید حسن خان (مرحوم) نے انشا کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’اچھی عبارت کے لیے ضروری ہے کہ جملے بے عیب ہوں۔ میں (رشید حسن خان) نے ایک بار ایک جملہ اس طرح لکھا تھا: سب عورتیں وہاں بیٹھیں ہوئیں تھیں۔ میرے استادِ محترم نے سمجھایا تھا کہ اس جملے میں فعل صحیح صورت میں نہیں آیا۔ یوں لکھنا چاہیے تھا: سب عورتیں وہاں بیٹھی ہوئی تھیں‘‘۔ ہم رشید احمد خان یا اُن کے استاد تو نہیں بلکہ شاگرد ہیں، اور استادوں سے سیکھ کر ہی ’’ہوئیں تھیں‘‘ اور ’’گئیں ہوں گی‘‘ کی تصحیح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بات تو یوں بھی سمجھ میں آجاتی ہے لیکن اچھی اردو لکھنے میں کیا حرج ہے۔ اب تو ’حرج‘ اور ’ہرج‘ میں فرق بھی مٹتا جا رہا ہے۔
آسی ضیائی (مرحوم) کا ذکر آیا ہے تو اُن کی کتاب سے کچھ استفادہ ہی کرلیا جائے۔ وہ ’نے‘ کے دو غلط استعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے مثالیں دیتے ہیں (1) میں نے تم سے کچھ کہنا ہے۔ (2) آپ نے ایسا نہ کرنا تھا۔ (3) اس نے لاہور تو جانا ہی ہوا۔ (4) اب ہم نے تم سے بھلا کیا لینا ہے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے جملے جن میں ’نے‘ کے ساتھ فعل مصدری آتا ہے، پنجابی روزمرہ میں داخل ہیں، بلکہ پنجابی قواعد کی رو سے بھی درست ہیں۔ البتہ اردو قواعد اور روزمرہ دونوں کی رو سے ان کو کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے تمام مواقع پر ’نے‘ کے بجائے ’کو‘ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ان جملوں کی صححح شکل یہ ہوگی: (1) مجھ کو (مجھے) تم سے کچھ کہنا ہے۔ (2) آپ کو ایسا نہ کرنا تھا۔ (3) اس کو لاہور تو جانا ہی ہے (’’جانا ہی ہوا‘‘ خلافِ محاورہ ہے)۔ (4) اب ہم کو (یا ہمیں) تم سے کیا لینا ہے؟ آخری جملے کو اس طرح بھی لکھ سکتے ہیں ’’اب ہم بھلا تم سے کیا لیں؟ ’نے‘ کا مذکورہ استعمال اب اردو میں بھی عام ہوگیا ہے۔ کراچی سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی خبروں اور مضامین میں یہ عام ہے۔
اخبارات میں ایک عجیب لفظ دیکھا ’’گھنونے‘‘۔ ایک ٹی وی چینل کے نیوز ریڈر بھی ’’گھنونے کام‘‘ کررہے تھے۔ بقول آسی ضیائی یہ بھی سہل پسندی ہے۔ اب ’گھنائونے‘ کہنے کا تکلف کون کرے، شاید گھن آتی ہو۔ اسی طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والی اردو خبر ایجنسیوں نے ’’اس کے بارے میں‘‘ کو مختصر کرکے ’’اس بارے‘‘ کردیا۔ اس طرح دو حرف تو کم ہوئے۔ فرائیڈے اسپیشل کے شمارے 15 تا 21 جون میں امریکہ سے محسن نقوی کا مراسلہ شائع ہوا تھا۔ اس کے آغاز میں وضاحت کردی تھی کہ یہ کس کی عنایت ہے۔ تاہم پیج میکر کو یہ تعارف پسند نہیں آیا چنانچہ سر قلم کردیا گیا جس سے یہ تحریر ہماری سمجھ لی گئی۔ ہم سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں پہلے بھی وضاحت سے لکھ چکے تھے چنانچہ ایک دوسرا نقطہ فکر جوں کا توں شائع کردیا۔ اس پر اسلام آباد کے افق سے شفق ہاشمی نے خوب خبر لی اور ’’بھیانک غلطیاں‘‘ ہم تک پہنچا دیں۔ ان کا خط قارئین خود ہی پڑھ لیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں’’املا درست کرنے‘‘ کے حوالے سے جو بھیانک غلطیاں ہوئی ہیں انھیں تحریری طور پر آپ تک پہنچانا ضروری محسوس کرتا ہوں۔سب سے پہلے تو اس حقیقت کو اہلِ زبان و بیان فراموش نہ کریں کہ اردو میں مستعمل دوسری زبانوں بالخصوص عربی کے الفاظ خصوصی سلوک کے مستحق ہیں۔ عربی امّ اللغات ہے اور اس کے الفاظ Romanمیں استعمال ہوں یا مشرقی زبانوں میں، ان کی انفرادیت کے کچھ تقاضے ہیں۔ مثلا خود ’’املا‘‘کو لیجیے جسے اگر بغیر ہمزہ لکھا جائے تو غلط متصور ہوگا یعنی ’’املاء ‘‘۔ آپ نے ’’بکرا‘‘کی جمع ’’ابکار‘‘لکھی ہے، جبکہ ’’بکرا‘‘تو صرف ہماری زبان میں ہوتا ہے۔۔ عربی میں آئندہ کل کے لیے لفظ ’’بُکرہ‘‘مستعمل ہے۔، باء پر پیش اور آخر میں ھائے ھوز کے ساتھ۔ اس کی جمع ’’بُکر‘‘ہے نہ کہ ’’ابکار‘‘۔ دوسری وحشت ناک غلطی ’’بِکر‘‘کے حوالے سے ہے۔ ’’بِکر‘‘عربی میں First-born اور Virginیعنی نوزائیدہ اور پاک دامن کے معنوں میں مستعمل ہے۔ اردو میں ’’کنواری‘‘کے لیے عربی اصطلاح ’’باکِرہ‘‘ہے نہ کہ ’’بِکر‘‘۔اس غلطی کو جناب نے ایک عجیب و غریب مفروضہ سے مزید بھیانک اور افسوسناک بنا دیا۔ فرماتے ہیں: ’’اس اعتبار سے حضرت ابوبکرؓ کو ان کے القاب بھی ملے یعنی وہ رسولؐ کی اس بی بی کے والد تھے جو شادی سے پہلے کنواری تھیں اور اس رشتے سے حضرت ابوبکرؓ کو یہ نام دیا گیا۔‘‘
کیا حضرت ابوبکرؓ باء پر زیر کے ساتھ ’’ابوبِکر‘‘تھے؟ حضرت ابوبکرؓ کا لقب ’’الصّدیق‘‘تھا یعنی سراپا سچائی، انتہائی راست گو، صدق و صفا کا پیکر۔ ابوبکر آپ کا نام نامی اسم گرامی تھا، نہ کہ ’’القاب‘‘۔ ’’بَکر‘‘عربی میں باء پر زبر کے ساتھ خوب صورت اور نوخیز اونٹ کو کہتے ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس مقدس رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے میں آپ کے والد گرامی کا کوئی عمل دخل نہ تھا، بلکہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں اس کی بشارت دی گئی تھی جس کو انھوں نے عملی جامہ پہنایا، اور اس مصلحتِ خداوندی کو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سیدہ صدیقہؓ کی ذاتِ اطہر سے امتِ مسلمہ کو نصف دین تک رہنمائی حاصل ہوئی۔ بالخصوص اُن مسائل میں جن کا تعلق خواتین سے ہے۔
براہ کرم ’’بُکرہ‘‘، ’’بَکر‘‘، ’’بِکر‘‘اور ’’ابوبکر‘‘کے حوالے سے اس بھیانک تسامح کا تدارک کیجیے۔ آپ کی عبارت کا کچھ حصہ قوسین میں ہے۔ نہ معلوم کس دانشور کی یہ اپج ہے۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ خبر لیجیے، چلن بگڑا…!‘‘
والسلام…شفق ہاشمی