حقیقی ایشو سے محروم انتخابی مہم

انتخابات کے انعقاد میں اب ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ انتخابات کا عمل جاری ہے، اس کے باوجود شکوک و شبہات کے سائے بھی موجود ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مستحکم ضمانت عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے آئی تھی جس کے مطابق انتخابی التوا کو قانونی جواز نہیں دیا جائے گا۔ وقت پر انتخابات کے بارے میں قومی اتفاقِ رائے موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے نہ ہونے کی وجہ سے جو سیاسی و آئینی بحران پیدا ہوگا اُس کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسی تناظر میں سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کی معزولی ہوئی اور یہ بات طے ہوگئی کہ منتخب سیاسی جماعتوں کو ہی ایوانِ اقتدار میں فیصلہ کن مقام حاصل ہوگا۔ اس عرصے کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی کارکردگی سے عوام وخواص سب کو مایوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن جس تناظر میں منعقد ہورہے ہیں اس میں کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے والوں کی آنکھیں ایقان سے محروم ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انتخابی مہم ملک کو درپیش داخلی و خارجی خطرات اور حقیقی موضوعات سے محروم ہے۔ سیاسی قیادت انتخابی مہم کے ذریعے اجتماعی امور پر قوم کی رہنمائی کرسکتی ہے، لیکن اس اجتماعی سرگرمی نے اجتماعی زندگی میں قوم کی رہنمائی کرنے کے بجائے اسے اعصابی تشنج میں مبتلا کردیا ہے۔ نظریاتی سیاست کے خاتمے نے قوم کو علاقائی، صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کردیا ہے۔ اس وقت بہت بڑا مسئلہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ہے جس سے سیاسی کلچر آلودہ ہورہا ہے۔ اصلاح و تعمیر کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوچکا ہے کہ اس وقت سیاسی و اجتماعی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اقتدار پر فائز رہنے والے سیاست دانوں اور افسر شاہی کی بدعنوانی ہے۔ عملاً اسی پس منظر میں ایک زمانے میں احتساب سب سے بڑا نعرہ تھا، لیکن شفاف اور بلا امتیاز احتساب کا نعرہ بھی پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ساتھ ہی احتساب کے نام پر جو کام ہورہا ہے وہ بھی اعتبار اور ساکھ سے محروم ہوچکا ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی اب ہماری اجتماعی زندگی کی شناخت اور پہچان بن گئی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی مفاد پرستی کے انڈے بچے ہیں اور مفاد پرستی کی سیاست دورِ غلامی کا تحفہ ہے، جس کا تسلسل عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں جاری ہے۔ اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور بگڑنے میں عالمی سامراج امریکہ کی برہنہ مداخلت جاری رہی ہے، مارشل لا ہمیشہ امریکی اشارے پر نافذ کیے گئے اور جمہوریت کا تماشا بھی امریکی فرمائش پر سجایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے جبر و استبداد کے خاتمے کے نتیجے میں جس منصفانہ سیاسی نظام کا خواب دیکھا گیا تھا اس کی تعبیر بھیانک ثابت ہوئی ہے۔ اجتماعی زندگی میں مفاد پرستی اور بدعنوانی کے فروغ کا سبب یہ ہے کہ ملک سے اصولی اور نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اگر آج بھی بدعنوانی اور کرپشن کی غلاظت اور گندگی سے قومی و ملّی زندگی کو پاک اور صاف کرنا ہے تو اس کے لیے اصولی اور نظریاتی سیاست کو بحال کرنا ہوگا۔ قومی سیاست میں مفاد پرستی کی جو آلودگی آئی ہے اس کا ایک مظہر ’’لوٹا کریسی‘‘ ہے۔ آج اس کی شکایت وہ لوگ کررہے ہیں جو خود اس میں مبتلا رہے ہیں۔ اسی عمل نے پاکستان کی سیاست میں قیادت کا بحران پیدا کردیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قوم بانجھ ہوگئی ہے اور وہ اہل اور دیانت دار قیادت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ جو قوم کو متبادل قیادت فراہم کرسکتے ہیں، اُن کے راستے میں طاقتور اور مفاد پرست طبقات حائل ہوچکے ہیں۔ اس تناظر میں جبکہ انتخابی عمل آئندہ ماہ مکمل ہوجائے گا، اس بات کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی کہ انتخابات کے نتائج اور نئی حکومت کا قیام ملک میں سیاسی استحکام کا سبب بن سکے گا۔
آج ہماری مجلسوں میں سب سے زیادہ رونا مہنگائی اور بے روزگاری کا رویا جاتا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کے منشور اور انتخابی جلسوں میں سیاسی قیادت کے خطاب میں مہنگائی اور بے روزگاری کے اسباب اور اس کے علاج کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ معیشت کو قومی زندگی میں مرکزیت عطا کردی گئی ہے، لیکن عوام کی زندگی جہنم کیوں بنا دی گئی ہے اور ایک فلاحی معاشرہ کیسے قائم کیا جائے گا، اس کا کوئی وژن مقبولِ عوام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس نظر نہیں آتا۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں رسمی طور پر بھی منشور تیار کرنے کی زحمت نہیں کررہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کیے ہیں، لیکن کہیں بھی اس بات کا تجزیہ نہیں کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم میں کیا منشور پیش کیا تھا اور اس پر اپنے عہدِ اقتدار میں کتنا عمل کیا؟ غربت و افلاس کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، اس کے ساتھ ہی ایک طاقتور اور اقلیتی طبقے کی دولت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں عدالت میں پیش ہونے والی ایک خبر انتہائی چشم کشا ہے جس کے مطابق ایک سال میں پاکستان سے 15 ارب ڈالر کی رقم روایتی بینکاری ذریعے سے ملک سے باہر منتقل ہوگئی۔ اس کے علاوہ بے قاعدہ اور غیر قانونی طریقوں سے جو رقوم منتقل ہوئی ہیں وہ الگ ہیں۔ اگر ہم 15 ارب ڈالر کو روپے میں منتقل کریں تو یہ رقم 18 کھرب 60 ارب روپے بنتی ہے۔ ملک دیوالیہ ہورہا ہے، ڈالر کے نرخ بڑھ رہے ہیں، پاکستانی روپے کی قیمت مسلسل گررہی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پاکستانی تاجر، صنعت کار، بااثر طبقات اپنی رقم پاکستان میں رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ صرف یہ ایک مسئلہ ایسا ہے جسے انتخابی مہم کا موضوع بننا چاہیے، لیکن اس کے مقابلے میں سب سے مقبول حکمران خاندان کے طرزعمل کو دیکھیں جو ایک حساس فرد کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہے۔