سیاست اور صحافت کا اخلاقی بحران

شاہنواز فاروقی
اس بات پر تمام مذاہب اور عالمی مدبرین کے درمیان اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ معاشرہ کیا، تہذیب کی بقا کا اظہار بھی روحانی و اخلاقی اقدار کی پاسداری میں ہے۔ معاشرے اور تہذیبیں جب روحانی و اخلاقی تصورات سے انحراف کرنے لگتی ہیں تو وہ بیمار پڑ جاتی ہیں۔ بحران میں مبتلا ہوجاتی ہیں، اور اگر بحران کا حل تلاش نہ کیا جائے تو معاشرے کیا تہذیبیں بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔
اسلام، قرآنِ مجیدو فرقانِ حمید کے ذریعے مسلمانوں سے صاف کہتا ہے کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائو اور اللہ کے رنگ کو اختیار کرو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشرہ اور جو ریاست قائم کی اُس کی بنیاد تقویٰ، علم اور اخلاقیات پر تھی۔ حضرت عائشہؓ سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے، تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ مسلمان خلافتِ راشدہ کا ذکر تو بہت کرتے ہیں مگر اب انہیں ’’خلیفۂ راشد‘‘ کے معنی تک یاد نہیں ہیں۔ راشد ہدایت یافتہ یا The guided one کو کہتے ہیں، اور خدا صرف اُس کی رہنمائی کرتا ہے جو تقویٰ، کتاب و حکمت کی تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل ہو۔ یہاں ہمیں اقبال کے دو شعر یاد آگئے۔ اقبال نے کہا ہے ؎

ولایت، پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

اقبال کہہ رہے ہیں کہ خدا جب کسی کو اپنا ولی یا اپنا دوست بناتا ہے اور اُسے اقتدار عطا کرتا ہے یا علمِ اشیاء کی جہانگیری سے نوازتا ہے تو اس کی بنیاد صرف ’’ایمان‘‘ ہوتا ہے۔ اُس کی نسل، جغرافیہ، رنگ یا مال و دولت نہیں۔ اقبال نے ایک اور جگہ اس سلسلے میں اہم بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے ؎

آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طائوس و رباب آخر

اقبال کے اس شعر میں ابنِ خلدون کے مقدمے کا گہرا اثر ہے اور اسلامی تاریخ کے تناظر میں اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کی روحانی و اخلاقی قوت زندہ رہی وہ دنیا کے فاتح بنے رہے، اور جب وہ عیش و عشرت میں مبتلا ہوگئے تو زوال آمادہ ہوگئے۔ اقبال کے اس شعر کا اطلاق صرف اسلامی تاریخ پر نہیں ہوتا، ہر قوم کی تاریخ پر ہوتا ہے۔ مگر دوسری اقوام کی تاریخ کے معاملے پر پھر کبھی بات ہوگی۔
ہندوئوں کے عظیم رہنما موہن داس کرم چند گاندھی کہا کرتے تھے کہ ہمیں اقتدار ملا تو ہم ہندوستان میں ’’رام راج‘‘ قائم کریں گے۔ رام ہندو تاریخ اور تہذیب کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ رام حاکم ہونے کے باوجود روحانی اور اخلاقی اصول کی علامت تھے۔ اُن کے والد نے اُن کی سوتیلی ماں کیکئی سے ایک کمزور لمحے میں وعدہ کرلیا تھا کہ وہ رام کو چودہ سال کے لیے جنگل میں رہنے کے لیے بھیج دیں گے اور حکومت کیکئی کے بیٹے اور رام کے سوتیلے بھائی بھرت کے حوالے کردیں گے۔ رام کے والد نے وعدہ تو کرلیا مگر وہ وعدے کی تکمیل سے قبل انتقال کرگئے۔ رام چاہتے تو وہ والد کے وعدے کو پھلانگ کر کھڑے ہوجاتے۔ اس لیے کہ وعدہ رام نے نہیں رام کے والد نے کیا تھا، اور اس وعدے کا کوئی اخلاقی جواز بھی نہ تھا۔ مگر رام نے اپنے والد کے وعدے کو نبھایا اور چودہ سال کا بن باس قبول کیا۔ ان کا سوتیلا بھائی بھی روحانی اور اخلاقی اقدار کا پاسدار تھا۔ رام جنگل کی طرف جارہے تھے تو اس نے رام کے جوتے مانگ لیے، اور جب تک رام لوٹ کر نہ آئے اُس نے اقتدار کی کرسی پر رام کے جوتے آراستہ کیے رکھے اور خود عام کرسی پر بیٹھ کر حکومت چلاتا رہا۔
یونان کے عظیم فلسفی سقراط نے معاشرے کو اخلاقی اور علمی اصولوں پر مرتب اور منظم کیا۔ اسے سوفسطائیوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ فلسفہ یا علم فروخت کرتے ہیں اور علم و عمل کی یکجائی کے قائل نہیں۔ سقراط کے عظیم شاگرد افلاطون نے صاف کہا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادیا جائے یا حکمران فلسفی بن جائے۔
جدید مغرب کی بعض بہت بڑی شخصیات نے معاشرے کیا، تہذیب کے زوال تک کو روحانیت اور اخلاقیات سے منسلک کیا ہے۔ ٹوائن بی 20 ویں صدی کا سب سے بڑا مغربی مؤرخ ہے۔ اُس نے جاپانی دانش ور اکیدا کے ساتھ ایک مکالمے میں صاف کہا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کو مرنے سے صرف دو ہی چیزیں بچا سکتی ہیں، ایک یہ کہ جدید مغربی تہذیب میں کسی نہ کسی قسم کی روحانیت کو داخل کردیا جائے، دوسری چیز یہ کہ جدید مغربی تہذیب کو ٹیکنالوجی کے عشق سے نجات دلائی جائے۔ ٹی ایس ایلیٹ جدید مغربی ادب کے چند بڑے ناموں میں سے ایک ہے۔ اسے اس کی شعری تصنیف Waste land پر ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ویسٹ لینڈ کا ترجمہ ’’بنجر زمین‘‘ ہے، اور ایلیٹ نے مغربی تہذیب کو بنجر زمین اس لیے کہا ہے کہ وہ روحانی یا مذہبی تصورات سے محروم ہوگئی ہے۔ کیتھولک فرقے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ فرانسس نے کچھ عرصہ قبل یورپ کی نئی نسلوں کو ’’گمشدہ نسلیں‘‘ یا Lost Generations قرار دیا تھا۔ ظاہر ہے اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ یورپ کی نئی نسلیں مذہب، روحانیت یا اخلاقیات سے بے نیاز ہوگئی ہیں۔
ہم گزشتہ 27 سال سے یہ بات لکھ رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کا بحران اپنی اصل میں سیاسی، معاشی یا معاشرتی نہیں ہے، بلکہ یہ بحران روحانی اور اخلاقی ہے۔ مگر سیاست زدگی اور اقتصادیات پرستی کی فضا میں کوئی بھی یہ بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ آصف علی زرداری اور نوازشریف کی مالی بدعنوانی اپنی اصل میں روحانی اور اخلاقی مسئلہ ہے۔ ہمارا سیاسی نظام قوم کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے چلانے والوں کی کوئی روحانیت اور کوئی اخلاقیات ہی نہیں۔ یہاں تک کہ ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہوا چاہتے ہیں جب عمران خان کے وزیراعظم بننے کا ’’اندیشہ‘‘ ایک ’’حقیقی خطرہ‘‘ بن کر ہمارے سامنے آچکا ہے۔
ہمیں کالم لکھتے ہوئے اب 27 سال ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں ہم نے عمران خان کی کرکٹ اور سیاست پر تو بات کی، مگر اُن کی شخصیت کے روحانی، تہذیبی اور اخلاقی پہلوئوں پر کبھی بات نہیں کی۔ یہ ایک شعوری روش تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا مذہب انسانوں کی ذاتی زندگی پر گفتگو کو پسند نہیں کرتا۔ مگر چونکہ اب عمران خان کو مستقبل کے وزیراعظم کا پروٹوکول ملنا شروع ہوگیا ہے تو اب اُن کی ذاتی زندگی ذاتی زندگی نہیں رہ گئی، اب ایک ریاست اور ایک قوم کی اجتماعی تقدیر اُن کے ہاتھ لگ سکتی ہے۔ چنانچہ اب اُن کی فکر اور کردار و عمل کے کسی بھی پہلو کو نظرانداز کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک و قوم کی اجتماعی تقدیر مذاق نہیں۔ ایک شخص ذاتی زندگی میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، مگر جیسے ہی اس کی شخصیت اجتماعی شخصیت میں تبدیل ہوتی ہے اس پر پوری سختی کے ساتھ روحانی، مذہبی، تہذیبی اور اخلاقی اصولوں کا اطلاق ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے سے اجتماعی زندگی برباد ہوجاتی ہے جیسا کہ ہماری اجتماعی زندگی کی بربادی سے ظاہر و ثابت ہے۔
عمران ایک پلے بوائے کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں، مگر انہوں نے سیاسی زندگی میں قدم رکھا تو کئی بار اپنی ماضی کی زندگی پر معذرت کی اور یہ تاثر دیا کہ ان کے ماضی کو ان کے حال سے منسلک نہ کیا جائے کیونکہ وہ اپنے ماضی کو ’’ترک‘‘ کرچکے ہیں۔ ایک مسلم معاشرے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ معذرت کو قبول کرنے والا ہوتا ہے، اور پاکستانی معاشرے نے عمران کے حوالے سے معذرت کو قبول کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ مگر انہوں نے جس طرح ریحام خان سے شادی کی، پھر اسے طلاق دی، اور اب جس طرح ریحام خان کی ممکنہ کتاب کے حوالے سے ہنگامہ برپا ہوا ہے اُسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ عمران اپنی معذرت خواہی میں سچے نہ تھے اور اُن کا ’’ماضی‘‘ اُن کے ’’حال‘‘ میں زندہ ہے، بلکہ اس نے کئی نئی ’’اہلیتیں‘‘ بھی پیدا کرکے دکھا دی ہیں۔
عمران خان کے ماضیٔ قریب اور حال کا بیان ہم اپنی معلومات، علم اور تجزیے کی بنیاد پر بھی کرسکتے ہیں، لیکن ہم نے ایسا کرنے کے لیے اُن کالم نگاروں کی تحریروں پر انحصار کیا ہے جو عمران خان کو پسند بھی کرتے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے اُن کی حمایت بھی فرماتے ہیں۔ جاوید چودھری عمران کے حامی و پرستار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم ’’ریحام خان کی کتاب‘‘ میں عمران اور ریحام کے حوالے سے لکھا:
’’پاکستان میں شہبازشریف اور عمران خان ریحام خان کے ٹارگٹ تھے… (ریحام نے پاکستان آکر) نیوز ون ٹی وی میں پروگرام شروع کیا۔ پھر وہ نیوز ون سے آج ٹی وی میں آگئی۔ یہ ہر صورت میں عمران کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی۔ یہ مسئلہ نعیم الحق نے حل کردیا۔ ریحام انٹرویو کرنے کے لیے عمران کے سامنے بیٹھی تو یہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انٹرویو ختم اور کیمرے بند ہوئے تو عمران نے اس سے کہا ’’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘۔
(5جون 2018ء۔ روزنامہ ایکسپریس)
اس اقتباس سے عمران کی جنسی بھوک اور ان کی شخصیت کی سطحیت پوری طرح آشکار ہے۔ ایک خاتون باہر سے آئی ہے اور اس نے عمران کا صرف انٹرویو کیا ہے، معلوم نہیں وہ کون ہے؟ ممکن ہے وہ کسی غیر ملکی ایجنسی کی جاسوس ہو اور عمران کے پیچھے لگائی گئی ہو۔ عمران کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ انہیں جو بات سمجھ میں آئی وہ صرف یہ کہ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ریحام کی جگہ کوئی اور بھی ہوتی تو شاید اُس کو بھی وہ وہی کچھ کہتے جو ریحام سے کہا۔ جاوید چودھری کے بقول ریحام میں تین برائیاں تھیں: وہ عمران کا بلیک بیری فون چیک کرتی رہتی تھی۔ وہ پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں بغیر بلائے بیٹھ جاتی تھی، اور وہ پارٹی کے لوگوں کو ہدایات دینے لگی تھی۔ چنانچہ دونوں میں جھگڑے ہونے لگے اور ایک ہی سال میں نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد جاوید چودھری نے کیا لکھا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’ریحام خان کی کتاب تیار ہے۔ یہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں آئے گی۔ کیا اس کتاب میں عمران خان کے ’’بلیک بیری‘‘ کے پیغامات، تصویریں، فوٹیج اور ای میلز بھی شامل ہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس سوال کا جواب کتاب ہی دے سکتی ہے۔ اگر بلیک بیری کا مواد کتاب میں شامل ہے تو پھر عمران کی ساکھ کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچے گا‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 5 جون 2018ء)
جب ریحام خان کی عمران سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، عمران کی عمر 64 سال تھی۔ اب ان کی عمر 66 سال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عمر کے انسان کے موبائل میں ایسا کیا ہوگا جس سے اُس کی ساکھ کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچے گا؟
ڈاکٹر صفدر محمود ملک کے معروف مؤرخ، سابق بیوروکریٹ اور روزنامہ جنگ کے کالم نویس ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے ایک حالیہ کالم میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ریحام ایک منصوبے کے تحت پاکستان آئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے:
’’وہ دو ٹارگٹ لے کر آئی تھی کہ ان میں سے کوئی ایک ٹارگٹ جال میں پھنس جائے، اوّل عمران خان، دوم شہباز شریف… اپنی اپنی قسمت کی بات ہے، عمران خان آسانی سے پھنس گیا اور شہبازشریف کو آزمانے کی نوبت نہ آئی، ورنہ شہبازشریف بھی ایک نکاح اور کرلیتے‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 12 جون 2018ء)
لیجیے ابھی ہم عمران کو رو رہے تھے، ڈاکٹر صفدر محمود بتا رہے ہیں کہ شہبازشریف کا معاملہ بھی مختلف نہ ہوتا۔ خیر یہاں مسئلہ عمران کا ہے۔ جاوید چودھری کی طرح رئوف کلاسرا بھی عمران کے دشمن صحافیوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ عمران کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اتفاق سے وہ عمران اور ریحام کے تعلق کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہوں نے اب تک عمران اور ریحام کے حوالے سے 7 کالم لکھ ڈالے ہیں۔ ان کالموں میں عمران کی فکر، شخصیت، تہذیب اور اخلاقیات کی رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیلات موجود ہیں۔ آئیے اس دیگ کے چند چاول تناول کرتے ہیں۔
رئوف کلاسرا نے پہلے کالم میں لکھا کہ انہیں 2005ء میں ایک فون موصول ہوا۔ فون کرنے والے نے کہا کہ عمران خان بنی گالا میں رئوف کلاسرا سے ملنا چاہتے ہیں۔ رئوف کلاسرا کے بقول وہ بنی گالا پہنچے تو ان کی ملاقات ریحام سے ہوئی، مگر وہ اُن سے اس طرح ملیں جیسے انہیں جانتی ہی نہ ہوں، حالانکہ وہ رئوف کلاسرا سے اسلام آباد میں ہونے والی پارٹیز میں ملتی رہی تھیں (دنیا نیوز۔ 7 جون 2017ء)۔ رئوف کلاسرا کے بقول جس زمانے میں ریحام نے عمران سے شادی کی اُس زمانے میں کئی خواتین اینکرز کے بارے میں خبریں گرم تھیں کہ وہ مختلف وزیروں سے شادیاں کرنے والی ہیں۔ رئوف کلاسرا کے بقول ریحام نواز لیگ کے رہنما دانیال عزیز کی پارٹیوں میں شریک ہوتی تھیں، مگر جب عمران نے اس بارے میں اُن سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ دانیال عزیز کو جانتی ہی نہیں۔ رئوف کلاسرا کے بقول اُس وقت عمران خان ریحام خان کو نیک اور تہجد گزار خاتون سمجھتے تھے۔ (دنیا نیوز۔7 جون 2018ء)
اس کالم سے ریحام خان کی شخصیت کے کئی پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کالم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری خواتین اینکرز کے حوالے سے صحافت کی دنیا میں کیا کچھ زیر بحث آتا رہتا ہے۔ اس کالم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریحام خان کو نیک اور تہجد گزار سمجھنے والے عمران خان کے علم اور فہم کا کیا عالم ہے۔
رئوف کلاسرا کے بقول وہ عمران خان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے، عمران خان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آنے والا اُن کا کتا شیرو بیتاب ہوا۔ عمران نے شیرو کو قابو کرنے کی کوشش کی اور اپنا پائوں اُس میز پر رکھ دیا جس پر کھانے پینے کی چیزیں رکھی تھیں۔ عمران خان کے اس پائوں میں جوگر بھی تھا۔ رئوف کلاسرا کے بقول عمران کے پائوں کا رُخ ان کے منہ کی جانب تھا۔ ریحام نے محسوس کیا کہ یہ صورتِ حال ادب کے خلاف ہے، چنانچہ انہوں نے عمران کو اشارہ کیا اور عمران نے اپنا پائوں میز سے ہٹا لیا۔ (دنیا نیوز۔ 10 جون 2018ء)
ہماری تہذیب اور اخلاقیات میں کھانے کے ادب کی بڑی اہمیت ہے اور کوئی بدتہذیب سے بدتہذیب شخص بھی اُس میز پر جوتے سمیت پائوں نہیں رکھ سکتا جس پر کھانے پینے کی چیزیں رکھی ہوئی ہوں، خاص طور پر اس صورت میں جب وہاں ایک ’’مہمان‘‘ موجود ہو۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے عمران خان کو اس تہذیب کی ہوا بھی نہیں لگی۔ رئوف کلاسرا کے بقول ریحام نے چار پانچ بار عمران سے کہا کہ وہ اپنے کتے شیرو کو ڈرائنگ روم سے باہر کردے، مگر عمران نے ہر بار اُس کی بات رد کردی۔ چنانچہ بالآخر ریحام خان خود اُٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئیں۔ عمران خان نے ریحام کو طلاق کیوں دی، اس پہلو کا تجزیہ کرتے ہوئے رئوف کلاسرا نے لکھا:
’’اب پچاس ساٹھ برس جس بندے نے ایک کھلی ڈلی، رات گئے تک دوستوں کے ساتھ محفلیں اور پارٹیاں جمائی ہوں اور دوست جس کے ایک اشارے پر کچھ بھی حاضر کرنے کے لیے تیار ہوں اُسے اچانک ایک دن کہا جائے کہ آج کے بعد سب کھیل تماشے بند۔ آج کے بعد روایتی پاکستانی شوہر جیسی زندگی گزارنی ہے۔ تمام عیاشیاں ختم، کوئی خاتون ملنے نہیں آسکتی۔ کوئی محفل، پارٹی نہیں ہوگی۔ نہ میسیج نہ فون… اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس شخص کی حالت کیا ہوگی۔ اگر عمران خان نے ایک مؤدب شوہر اور گھریلو زندگی گزارنی تھی تو پھر جمائما میں کیا برائی تھی‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 11 جون 2018ء)
ریحام خان کے گھٹیا ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں، مگر رئوف کلاسرا کے کالم کے مذکورہ بالا اقتباس میں عمران کی زندگی کی جو تفصیلات موجود ہیں انہیں نرم سے نرم الفاظ میں ’’شرمناک‘‘ اور ’’ہولناک‘‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران نے جمائما کو کیوں طلاق دی ہوگی؟ لیکن رئوف کلاسرا کے کالم میں کئی اور ہولناک باتیں ہیں۔ مثلاً عمران کے جس بلیک بیری کا ذکر جاوید چودھری نے کیا ہے اُس کا ’’ذکرِ خیر‘‘ رئوف کلاسرا کے کالم میں بھی موجود ہے۔ رئوف کلاسرا نے اس سلسلے میں لکھا:
’’ریحام کے ہاتھ عمران کا بلیک بیری لگ گیا تھا۔ عمران (یہ) فون تکیے کے اندر رکھ کر سوتا تھا۔ ریحام نے عمران کے سوتے وقت یہ فون نکال لیا۔ عمران کے بقول اس نے لڑ کر ریحام سے فون لے تو لیا مگر ریحام فون کا ڈیٹا پہلے ہی ٹرانسفر کرچکی تھی‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 11 جون 2018ء)
یہاں پھر وہی سوال کہ بلیک بیری میں ایسا کیا تھا کہ اسے تکیے کے اندر رکھ کر سویا جائے؟ خیر جب عمران کو معلوم ہوگیا کہ اس کے بلیک بیری کا ڈیٹا ریحام کے ہاتھ لگ چکا ہے تو انہوں نے کیا کیا؟ اس سوال کا جواب رئوف کلاسرا سے سنیے:
’’اب عمران کو بھی ریحام کے خلاف ویسے ہی ثبوتوں کی ضرورت تھی جیسے عمران کے ریحام کے پاس تھے۔ عمران کو بتایا گیا کہ ریحام کے خلاف ثبوت عمران کے ایک شدید دشمن کے فون میں موجود ہیں۔ سوال یہ تھا کہ اس سیاسی مخالف سے کیسے اسکرین شاٹس لیں۔ عمران کو ہر صورت میں وہ ثبوت درکار تھے۔ عمران اس سلسلے میں کشتیاں جلانے پر تُل گیا تھا‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 11 جون 2018ء)
آپ غور تو کیجیے ان باتوں سے عمران اور ریحام ہی کی نہیں، ہماری قومی سیاسی زندگی کی کیسی تصویر اُبھرتی نظر آرہی ہے؟ کیا یہ تصویر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی الف کے بھی قابل ہے؟ تاہم یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کو ریحام خان کے حوالے سے جن ’’ثبوتوں‘‘ کی ضرورت تھی وہ ثبوت بالآخر عمران خان کو مل گئے۔ ان ثبوتوں کو جنہیں رئوف کلاسرا نے ایک کالم میں اسکرین شاٹس قرار دیا ہے، ایک گھر میں خفیہ آپریشن کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ اس کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس تھری میں واقع مکان کے اندر صبح چار بجے تک کارروائی کی گئی۔
(روزنامہ دنیا۔ 12 جون 2018ء)
یہ ہمارے معاشرے میں برپا اخلاقی بحران کے کچھ مناظر تھے۔ لیکن اب ہم ان مناظر سے بھی زیادہ افسوس ناک مناظر کا ذکر کریں گے۔ قائداعظم نے کہا ہے کہ قوموں اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ اگرچہ مسلم معاشرے کا ہر طبقہ معاشرے کی اخلاقی حالت کے دفاع اور اسے فروغ دینے کا مکلف ہے، مگر دانش ور اور صحافی اس حوالے سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، اس لیے کہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔
ریحام خان کی مبینہ کتاب کے اقتباسات عام ہوئے تو تحریک انصاف کے رہنمائوں اور شیخ رشید نے اسے نون لیگ کی سازش قرار دیا۔ شیخ رشید نے کہا کہ شہبازشریف نے کتاب تحریر کرنے کے لیے ریحام کو ایک لاکھ پائونڈ دیے ہیں۔ شریف خاندان رکیک النفس لوگوں کا گروہ ہے، یہی حال ان کی جماعت کا ہے۔ مگر ریحام کی کتاب کے حوالے سے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کتاب کس نے لکھوائی ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریحام کی کتاب سے جو اطلاعات منسوب ہوئی ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط؟ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے کسی رہنما نے اپنے بیانات اور انٹرویوز میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن سیاست دان تو سیاست دان ہوتے ہیں، وہ ہر صورت میں اپنے رہنما کا دفاع کرتے ہیں خواہ ان کا رہنما کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو۔ ساری پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ آصف علی زرداری کرپٹ ہیں، مگر سب آصف زرداری کو ’’نیک سیرت‘‘ ثابت کرنے پر لگے رہتے ہیں۔ نون لیگ کا ہر رہنما جانتا ہے کہ میاں نوازشریف اور اُن کا خاندان بدعنوانی میں ڈوبا ہوا ہے مگر وہ نوازشریف اور اُن کے بچوں کو فرشتہ ثابت کرنے پر لگے رہتے ہیں۔ یہی کام تحریک انصاف کے رہنمائوں نے ریحام کی کتاب کے حوالے سے کیا ہے۔ مگر یہ صرف تحریک انصاف کے رہنمائوں کا المیہ نہیں ہے، بلکہ ملک کے بعض معروف کالم نگاروں نے بھی یہی کیا ہے۔ اس سلسلے میں جاوید چودھری کے حالیہ کالم کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ جاوید چودھری لکھتے ہیں:
’’آپ اگر اپنی ذاتی زندگی کو نہیں چھپا سکتے، آپ اگر اپنے الفاظ کو کنٹرول نہیں کرسکتے، اور آپ اگر پارٹی کے مختلف دھڑوں کو اکٹھا نہیں رکھ سکتے تو پھر آپ لیڈر کس بات کے ہیں!‘‘ (روزنامہ ایکسپریس۔ 7 جون 2018ء)
جاوید چودھری کے کالم کے اس اقتباس کا فقرہ غور سے پڑھیے۔ جاوید چودھری کو اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ عمران کتنی غیر اخلاقی زندگی بسر کررہے ہیں، بلکہ ان کو اعتراض اس بات پر ہے کہ عمران خان ذاتی زندگی کو چھپانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یعنی جاوید چودھری کا تصورِ رہنما یہ ہے کہ رہنما خواہ کچھ بھی کرے مگر دنیا کو اُس کے ’’کارناموں‘‘ کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ واہ کیا تصورِ رہنما ہے؟ واہ کیا تصورِ اخلاق ہے۔ اتفاق سے جاوید چودھری پچیس تیس سال کے نوجوان نہیں ہیں بلکہ اُن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہی ہوگی، مگر اس عمر میں بھی وہ یہ کہنے کو تیار نہیں کہ ملک کے رہنمائوں کی اخلاقی زندگی کو صاف ستھرا ہونا چاہیے۔
حسن نثار ملک کے ایک اور معروف کالم نگار ہیں۔ وہ جیو کے ایک پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ میں طلوع ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے Promo میں حسن نثار پوری دنیا سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ فقرہ کہتے ہیں:
’’اس ملک کا Problem اقتصادیات کا نہیں، اخلاقیات کا ہے‘‘۔
یہ فقرہ سن کر کوئی بھی اس خیال سے خوش ہوسکتا ہے کہ اس ملک میں ایک کالم نگار تو ایسا ہے جو اخلاقیات کو اقتصادیات سے بھی اہم سمجھتا ہے۔ مگر حسن نثار نے ریحام کی کتاب کے حوالے سے روزنامہ جنگ میں جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ حسن نثار کے بقول معروف صحافی ضیاء شاہد نے اپنی کتاب ’’باتیں سیاست دانوں کی‘‘ میں لکھا ہے کہ جنرل حمیدگل نے ضیاء شاہد سے کئی بار کہا کہ تم عمران سے ملو اور کہو کہ وہ ریحام سے شادی نہ کرے۔ ضیاء شاہد کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل حمیدگل ریحام سے مل چکے تھے اور وہ جان چکے تھے کہ ریحام کو بعض لوگوں نے عمران کے پیچھے لگایا ہے۔ بعد میں جنرل حمیدگل کے بیٹے عبداللہ گل نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ (حسن نثار کے کالم کا مفہوم۔ بحوالہ روزنامہ جنگ۔ 5 جون 2018ء)
حسن نثار کا یہ تجزیہ سو فیصد درست ہے کہ ریحام کسی کی ایجنٹ ہیں اور ان کا مقصد عمران کو نقصان پہچانا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ریحام عمران کو نقصان پہنچانے کے لیے ان سے جو چیزیں، جو سرگرمیاں منسوب کررہی ہیں وہ درست ہیں یا غلط؟ اخلاقیات، اخلاقیات کرنے والے حسن نثار نے بھی سازش کے عنصر پر توجہ مرکوز کی اور اخلاقیات کے پہلو کو اس طرح نظرانداز کردیا جیسے وہ موجود ہی نہ ہو۔
ہارون الرشید بھی ملک کے معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالموں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے بیشتر کالموں میں قرآن مجید کی آیات اور احادیثِ مبارکہ کے حوالے ہوتے ہیں۔ صوفیہ کا ذکرِ خیر ہوتا ہے۔ رہے اقبال، تو ہارون الرشید اقبال کے عاشق ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو زندگی کا روحانی اور اخلاقی پہلو اُن سے زیادہ کس کے لیے اہم ہوسکتا ہے! مگر ریحام کی کتاب کے ’’انکشافات‘‘ نے ملک میں جو ہنگامہ برپا کیا اُس کے حوالے سے ہارون صاحب نے لکھا تو یہ لکھا:
پہلا اقتباس:۔ ’’اگر وہ متن درست ہے انٹرنیٹ پر جو گردش کررہا ہے اور بظاہر درست ہے تو مصنفہ کی ایک نہایت ہی بھیانک تصویر اُبھرتی ہے۔ خوئے انتقام کی پاگل کردینے والی شدت ہی نہیں بلکہ ایک بھیڑیے کی سی وحشت کے ساتھ مخالف کو، اُس کے تمام عزیز واقربا اور جاننے والوں کو پھاڑ دینے کی خواہش‘‘۔
دوسرا اقتباس:۔ ’’اتنی بڑی پارٹی (تحریک انصاف) میں کوئی ایک شخص نہ تھا، کوئی ہنگامہ جسے سوجھتا۔ توجہ ہٹانے کی تدبیر جس کے ذہن میں آتی‘‘۔
تیسرا اقتباس:۔ ’’ممکن ہے کہ کوئی نکتہ کسی کو سوجھے اور بساط الٹ جائے۔ ممکن ہے میاں نوازشریف، شہبازشریف اور حمزہ شریف کے علاوہ دامادوں کے کارنامے منظرعام پر آجائیں تو کپتان کے خلاف مہم کا زور ٹوٹ جائے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 6 جون 2018ء)
ہارون الرشید صاحب کا خیال بجا۔ ریحام واقعتا بھیڑیا بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگی۔ لیکن اس بھیڑیے نے جو کچھ مبینہ طور پر کہا ہے اُس سے عمران کی بھی تو ایک تصویر اُبھرتی ہے۔ ہارون صاحب کو اس تصویر پر کوئی بھی اخلاقی اعتراض کیوں نہیں ہے؟ تحریک انصاف یقینا احمقوں کی پارٹی ہوگی اسی لیے وہ ریحام کی اچھالی ہوئی گندگی سے قوم کی توجہ ہٹانے میں ناکام رہی ہوگی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اچھالی گئی گندگی کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں؟ گندگی کی بنیاد ہے تو گندگی سے توجہ ہٹانے کا مشورہ دینے کا کیا مفہوم ہے؟ گندگی تخلیق کرنے والا نہ ہوتا تو کسی کو گندگی اچھالنے کی جرأت کہاں سے ہوتی؟ ہارون الرشید نے کہا نہیں مگر اُن کے کالم کے تیسرے اقتباس کا مفہوم یہ ہے کہ شریف خاندان ریحام کی کتاب کے پیچھے ہے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہوگا۔ شریف خاندان کی تاریخ بڑی بھیانک ہے۔ ہارون الرشید کے کالم کے تیسرے اقتباس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جیسے کارنامے ریحام نے عمران سے منسوب کیے ہیں ویسے ہی کارنامے شریف خاندان کے اراکین بھی انجام دے چکے ہیں اور ان کی شہادتیں بھی شاید کسی کے پاس موجود ہیں۔ چنانچہ ہارون صاحب کا مشورہ یہ ہے کہ شریف خاندان کے ’’کارنامے‘‘ اچھلیں گے تو کپتان کے خلاف مہم کا زور ٹوٹ جائے گا۔ بہت اچھا۔ مگر ان تمام باتوں سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ عمران سے منسوب کیے جانے والے قصے غلط ہیں؟ قرآن و حدیث، صوفیہ اور اقبال کو کوٹ کرنے والے ہارون الرشید کو ایک بار بھی یہ کیوں نہ یاد آیا کہ وہ عمران سے بھی کہیں کہ بھائی کیا 66 سال کی عمر میں بھی ’’کارناموں‘‘ سے تمہارا دل نہیں بھرا۔ اب تم وزیراعظم بنائے جانے والے ہو، اب تو بس کردو۔
عبدالقادر حسن ہمارے بزرگ کالم نگاروں میں سے ہیں۔ ان کی عمرِ عزیز اس وقت 80 سال سے زیادہ ہی ہوگی۔ اس عمر میں سبھی کو خدا یاد آجاتا ہے اور روحانی و اخلاقی زندگی سب ہی کو عزیز ہوجاتی ہے۔ یقینا عبدالقادر حسن صاحب کو بھی ہوگی، مگر عمران خان کے حوالے سے انہوں نے بھی ایک عجیب بات لکھ دی۔ ایسی عجیب بات کہ آدمی پڑھے اور صدمے سے بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ لکھتے ہیں:
’’عمران خان کے ساتھ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ چونکہ وہ کرکٹ کے ہیرو تھے اس لیے اُن کا مزاج ابھی تک کھلنڈرا اور ہیرو والا ہی ہے، وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں اور وہی کرتے ہیں جو اُن کے دل کو بھاتا ہے۔ اس عادت نے کئی دفعہ انہیں مشکلات سے بھی دوچار کیا، اور خاص طور پر اہلِ سیاست اُن کی اس کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہر الیکشن سے پہلے اُن کے خلاف ایسا مواد تیار رکھتے ہیں جو کہ عمران خان کو اصل مقصد سے ہٹاکر ایک نئی بحث یا ایک نئے معاملے میں اُلجھا دیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اُن کو اِس دفعہ بھی الیکشن سے پہلے درپیش ہے، لیکن چونکہ اب اُن کی پارٹی بہت بڑی پارٹی بن چکی ہے اس لیے اُن کے خلاف پروپیگنڈہ بے اثر ہوتا جارہا ہے۔‘‘
(روزنامہ ایکسپریس۔ 9 جون 2018ء)
عبدالقادر حسن صاحب کے کالم کے اس اقتباس کو دیکھا جائے تو اس سے تین باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان چونکہ ’’ہیرو‘‘ ہیں اس لیے وہ ’’کچھ بھی‘‘ کرسکتے ہیں۔ عمران تو خود کچھ کرتے نہیں اُن کے حریف اُن کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ مگر اب عمران کو کسی بات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کی پارٹی بہت بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ مذکورہ بالا اقتباس اور اس سے نمودار ہونے والے ان تین نکات کو دیکھا جائے تو عبدالقادر حسن نے عمران کو کچھ بھی کرنے کا لائسنس دے کر اسلام کے تمام روحانی اور اخلاقی تصورات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرے کا روحانی اور اخلاقی بحران بہت ہمہ جہت اور گہرا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کے وہ طبقات بھی روحانی اور اخلاقی اقدار سے لاتعلق ہوچکے ہیں جو روحانی اور اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اُن کے سلسلے میں کالم نگاروں کی ’’کشادہ دلی‘‘ کا ایک سبب یہ ہے کہ عمران خان ’’اسٹیبلشمنٹ کے آدمی‘‘ ہیں۔ عام خیال تھا کہ شاید اِس بار احتساب سے ملک و قوم کے لیے کوئی بہتری رونما ہوگی، لیکن جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ ملک و قوم کو میاں نوازشریف کی مالی بدعنوانی کے کنویں سے نکال کر عمران خان کی اخلاقی کھائی میں گرائے دے رہی ہے۔ واہ کیا تبدیلی ہے۔ ریحام خان کی ممکنہ کتاب میں موجود عمران کے ’’رازوں‘‘ کا ذکر ہوا تو عمران خان نے ننگے پائوں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دے ڈالی۔ ایسی جعلی روحانیت ملک کے بعض طبقوں اور بعض حلقوں میں بڑی مقبول ہے۔ افسوس کہ عمران کے مشیروں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو عمران کو بتائے کہ جن لوگوں کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت اور عقیدت ہوتی ہے وہ اپنی حاضری کو ’’اشتہار‘‘ نہیں بناتے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عمران، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر اعشاریہ ایک فیصد بھی عمل کرنے لگیں گے تو ایسا عمل روضۂ رسولؐ پر ننگے پائوں دس ہزار حاضریوں سے زیادہ قیمتی ہوگا۔

عہدِ یوسفی تمام ہوا، مشتاق احمد یوسفی انتقال کرگئے

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی 94 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ مزاح کا عہدِ یوسفی کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے نمونیے میں مبتلا تھے اور کلفٹن کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923ء کو ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔ انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ وہ تقسیم کے بعد کراچی آئے تھے اور بینکنگ کے شعبے سے وابستہ ہوئے، ان کی مزاح پر 5کتابیں شائع ہوکر مقبولِ عام ہوچکی ہیں جن میں چراغ تلے (1961ء)، خاکم بدہن (1969ء)،زرگزشت (1976ء)،آبِ گم (1990ء)،شامِ شعرِ یاراں (2014ء)شامل ہیں۔انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم-اے کیا جس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔تقسیم ہند کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی۔

مظفر احمد ہاشمی انتقال کرگئے

جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر و سابق رکن قومی اسمبلی مظفر احمد ہاشمی منگل کے روز 80برس کی عمر میں دل کے دورے کے باعث انتقال کرگئے۔ مظفر احمد ہاشمی1938ء میں بھارت کے شہر اندور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا رفیع ہاشمی جماعت اسلامی کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے، جنہوں نے بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالی۔ مظفر احمد ہاشمی نے زمانۂ طالب علمی میں اپنے بھائی غیور ہاشمی کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ جمعیت الفلاح، ادارہ تعمیر ادب، اور فلسطین فائونڈیشن کے صدر اور نارتھ ناظم آباد میں بے سہارا خواتین کے لیے قائم گوشۂ عافیت کے سرپرست بھی تھے۔ وہ 1979ء اور 1983ء میں نارتھ ناظم آباد بلاک A اور C سے کونسلر منتخب ہوئے۔ کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے رکن اور سابق میئر عبدالستار افغانی مرحوم کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیے۔ انہوں نے کراچی میں فراہمیٔ آب کے لیے واٹر بورڈ جیسے ادارے کے قیام میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ مظفر احمد ہاشمی 1985ء اور 1993ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے حلقے کے عوام، کراچی کے حقوق اور کراچی کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے بھرپور آواز بلند کی۔ وہ کشمیر کمیٹی میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی مختلف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض سرانجام دیے۔ ان دنوں وہ ایک پرائیویٹ صنعتی ادارے سے بحیثیت جنرل منیجر منسلک تھے۔ مظفر احمد ہاشمی جماعت اسلامی کراچی کے فارن افیئرڈیسک کے انچارج بھی رہے۔ وہ جماعت اسلامی کے شعبہ تاریخ و تحقیق کے بھی نگراں تھے۔