امریکہ ۔شمالی کوریا سربراہی ملاقات

سنگاپو ر کے سیاحتی جزیرے سنتوسا (Sentosa)میں ہونے والی شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سربراہ کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تاریخ کی پہلی سربراہ ملاقات تھی۔ تخلیے اور اس کے بعد وفود کے ساتھ یہ دونوں رہنما مجموعی طور پر 5 گھنٹے گفت و شنید میں مصروف رہے۔
اس ملاقات کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ شمالی کوریا نے ہر مرحلے پر برابری اور وقار کا مظاہرہ کیا اور کہیں بھی جھک کر ملنے یا مرعوب ہونے کا تاثر نہیں ملا، مثلاً:
٭کم جونگ اتوار کو صدر ٹرمپ سے چند گھنٹہ پہلے سنگاپور پہنچے تو اسے برابر کرنے کے لیے وہ ملاقات کی غرض سے کپیلا ہوٹل (Capella Hotel) صدر ٹرمپ کی آمد کے دس منٹ بعد آئے۔ اسی طرح وہ صدر ٹرمپ سے پہلے ہی وطن واپس چلے گئے۔
٭دونوں طرف کی مذاکراتی ٹیم تعداد اور منصب میں بالکل برابر تھی۔
٭ابتدائی ملاقات کے دوران پس منظر میں دونوں ممالک کے جھنڈے مساوی تعداد میں تھے۔
٭جب صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کے سامنے آئے تو کم جونگ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے ہاتھ بڑھانے کے بعد مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا۔
٭صدر ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ کے بازو تھپتھپانے کے جواب میں شمالی کوریا کے سربراہ محض باوقار انداز میں مسکرائے اور بڑھ کر معانقے سے گریز کیا۔
٭حتیٰ کہ ظہرانے میں امریکی اور کوریائی ڈشیں بھی مساوی تھیں۔ یعنی ابتدا (Starter) میں ابلے ہوئے امریکی جھینگوں کے ساتھ کوریا کے بھرے ہوئے کھیرے بھی تھے جسے Oiseonکہتے ہیں۔ کھانے میں امریکیوں کو مرغوب گائے کی چانپ (short rib) اور سور کے بھنے گوشت کے ساتھ مچھلی کا مخصوص کوریائی سالن بھی تھا جسے daegu jorimکہتے ہیں۔ حتیٰ کہ میٹھے میں امریکہ کی ونیلا آئسکریم کے ساتھ کوریائی پیسٹری رکھی گئی۔ میزبان ملک سنگاپور نے بھی دونوں رہنمائوں کو ایک جیسا برتائو یا Protocol فراہم کیا۔ میزبان وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تو کم جونگ کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سنگاپور کی سیر کرائی گئی۔
سربراہ ملاقات کے بعد دونوں رہنمائوں نے ایک چار نکاتی معاہدے یا یادداشت پر دستخط کیے جس کے مطابق:
1۔ امریکہ اور شمالی کوریا اپنے عوام کی امنگوں اور امن و خوشحالی کے لیے باہمی تعلقات کا نیا باب رقم کریں گے۔
2۔ امریکہ اور شمالی کوریا جزیرہ نمائے کوریا میں دیرپا امن کے لیے مل کر کوشش کریں گے۔
3۔ اعلانِ پنمونجوم (Panmunjom Declaration)کی تجدید، توثیق و تصدیق کرتے ہوئے جزیرہ نمائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ کم جونگ اُن اور جنوبی کوریا کے صدر کے درمیان اپریل میں طے پایا تھا۔
4۔ واشنگٹن اور پیانگ یانگ جنگِ کوریا کے دوران لاپتا اور گرفتار ہونے والے امریکیوں کی باقیات کی تلاش کے لیے مل کر کام کریں گے، اور اُن باقیات کو فوری طور پر (امریکہ) منتقل کرنے کا اہتمام کیا جائے گا جن کا سراغ لگالیا گیا ہے۔
اَنا کے قتیل اور اپنی تعریف کے خوگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع کو اپنی قائدانہ صلاحیت اور سیاسی بصیرت کے اظہار کے لیے خوب استعمال کیا، بلکہ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی یہ کمزوری ہی کم جونگ کا ہدف تھی۔ شمالی کوریا کے رہنما نے صحافیوں کے سامنے خاموش رہ کر صدر ٹرمپ کو شیخی بگھارنے کا کھلا موقع دیا۔ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اور اس کے بعد کم جونگ نے بس اتنا کہا کہ ’’ہم نے ماضی کو پسِ پشت ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہم کئی رکاوٹوں کو عبور کرکے یہاں پہنچے ہیں اور دنیا اب بڑی تبدیلیاں دیکھے گی‘‘۔ کم گو اور کسی حد تک شرمیلے کم جونگ نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ تبدیلی سے اُن کی کیا مراد ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی کوششوں سے یہ ملاقات ممکن ہوسکی۔ معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد کم جونگ اپنے ہوٹل اور وہاں سے واپس وطن روانہ ہوگئے اور اختتامی پریس کانفرنس ’’ٹرمپ شو‘‘ بن گئی۔ امریکی صدر کو بھی اس موقع کی تلاش تھی، کہ G-7 سربراہ کانفرنس میں انھیں تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ اپنے بارے میں ’’غصیلے بڈھے‘‘ یا Angry Old Man کا تاثر ختم کرکے ایک مدبر اور امن کے پیامبر کے طور پر دنیا کے سامنے آنا چاہتے تھے۔ اس دوران انھوں نے امریکہ کے سابق صدور پر تنقید کی اور کہا کہ جو مسئلہ یہ لوگ دس پندرہ سال میں حل نہ کرسکے وہ ہم نے چند ماہ میں پُرامن طور پر حل کرلیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں رہنمائوں کی ملاقاتیں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی اور وہ مناسب وقت پر ’’اپنے دوست‘‘ کو وائٹ ہائوس آنے کی دعوت دیں گے۔ امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکہ جنوبی کوریا میں فوجی مشقیں غیر معینہ مدت کے لیے معطل کررہا ہے۔ اس موقع پر وہ یہ شکایت کیے بنا نہ رہ سکے کہ واشنگٹن ان مشقوں کے اخراجات برداشت کررہا ہے حالانکہ خرچ کا بڑا حصہ جنوبی کوریا کو ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف ان مشقوں سے شمالی کوریا مشتعل ہورہا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے ٹیکس دہندگان اس کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں، اور اس لحاظ سے فوجی مشق یا عسکری کھیلوں (War Games)کی معطلی امریکہ کے اپنے مفاد ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی کوریا میں تعینات امریکی فوج کی تعداد میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، اور مزید یہ کہ شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیاں اُس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک شمالی کوریا کی جانب سے Denuclearization کے لیے ٹھوس اقدامات کی آزادانہ تصدیق و توثیق نہیں ہوجاتی۔ امریکی صدر نے کہا کہ کم جونگ نے ملاقات میں انھیں بتایا کہ وہ میزائل انجن جانچنے کی تنصیبات (Engine Testing Site)کو فوری طور پر منہدم کرنے کا حکم جاری کررہے ہیں۔ پریس کانفرنس میں زیادہ تر وقت صدر ٹرمپ اپنی اور کم جونگ کی تعریف کرتے رہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے شمالی کوریائی ہم منصب کو ’’بہت ذہین مذاکرات کار‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ کم جونگ ’’بہترین شخصیت‘‘ کے مالک اور ’’انتہائی ذہین‘‘ انسان ہیں جو اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے کم جونگ ایک ایسے جنگجو اور بے رحم ڈکٹیٹر کی حیثیت سے مشہور تھے جنھوں نے اقتدار کے لیے اپنے چچا اور سوتیلے بھائیوں کو قتل کرایا۔ لیکن امریکی صدر کے پُرجوش مصافحے، داد اور تعریف نے کم جونگ کے بھیانک چہرے کو کسی حد تک ملائم کردیا۔ شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق صحافیوں کے سوالات کو بھی امریکی صدر نے مبہم وضاحتوں پر ٹرخادیا۔
ملاقات اور یادداشت پر دستخط کے بعد کم جونگ سے زیادہ صدر ٹرمپ مطمئن نظر آرہے ہیں۔ وطن واپس پہنچنے پر امریکی صدر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’میرے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہر شخص خود کو محفوظ محسوس کررہا ہے۔ اب شمالی کوریا کی جانب سے جوہری جنگ کاکوئی خطرہ نہیں‘‘۔ ان کے وزیر خارجہ مائک پومپیو سنگاپور سے سیدھا جنوبی کوریا گئے اور صدر مون کو سربراہ کانفرنس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
تاہم اس ’’تاریخی‘‘ معاہدے میں دونوں اہم ترین نکات یعنی شمالی کوریا کی طرف سے جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے اتلاف سمیت جوہری پروگرام سے مکمل اجتناب اور پیانگ یانگ پر سے معاشی پابندیوں کے خاتمے کو مبہم لیکن خوشنما الفاظ کا جامہ پہناکر عملاً کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔ یادداشت میں شمالی کوریا پر سے پابندیاں ہٹا لینے کا کوئی ذکر نہیں، اور صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں بہت صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ پابندیاں اس توثیق و تصدیق کے بعد ہی ہٹائی جائیں گی کہ شمالی کوریا اب ایٹمی اسلحہ بنانے کے قابل نہیں رہا۔
دوسری طرف شمالی کوریا نے سارے جزیرہ نمائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن معاہدے میں کہیں بھی جوہری ہتھیار اور میزائل تلف کرنے، تابکاری مواد کی افزودگی ختم کرنے اور ملک کو جوہری توانائی کے عالمی کمیشن یا IAEC کے لیے کھولنے کی شرط شامل نہیں ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں بہت سے سیاسی و سفارتی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر شمالی کوریا پابندیاں ہٹوانے میں ناکام رہا تو اس نے بھی امریکہ کو وعدۂ فردا سے زیادہ کچھ نہیں دیا۔ مزے کی بات کہ جس دستاویز کو صدر ٹرمپ ایک عظیم الشان کامیابی قرار دے رہے ہیں اُس سے کہیں غیر مبہم اور تفصیلی جوہری معاہدہ 2005ء میں شمالی کوریا اور روس، چین، جاپان، امریکہ و جنوبی کوریا کے مابین ہوچکا ہے۔ اس معاہدے میں شمالی کوریا نے تمام جوہری ہتھیار تلف کرنے، جوہری پروگرام بالکل ختم کردینے، اور جوہری پھیلائو سے متعلق بین الاقوامی جوہری ایجنسی IAEAکے ضابطوں کی تعمیل کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس پر عمل درآمد کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ جب ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تو انھوں نے بے نیازی سے فرمایا ’’حالات بدل چکے ہیں اوراب میں امریکہ کا صدر ہوں‘‘۔ فوجی مشقوں پر پابندی بھی کم جونگ کی بڑی کامیابی ہے۔ امریکی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ملک میں تعینات فوج اگر مشقیں نہ کرے تو کچھ ہی عرصے میں وہ تھکے ہوئے مسلح افراد کا اجتماع بن کر رہ جاتی ہے، یعنی امریکی فوج کی جنوبی کوریا سے واپسی اب خود پینٹاگون کے مفاد میں ہے۔ جنوبی کوریا میں اپنی سرحدوں کے قریب امریکی فوج کا اجتماع اور بری، فضائی و آبی سرحدوں کے قریب جنگی مشقوں پر چین کو بھی سخت تشویش ہے۔ چنانچہ فوجی مشقوں کی معطلی کا بیجنگ نے بھی پُرجوش خیر مقدم کیا ہے۔
حسبِ توقع امریکی صدرکے حامیوں کے خیال میں یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کے تدبر و قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے، اور ایک بھیانک مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کرلینے پر انھیں نوبیل امن انعام کا حق دار قرار دیا جارہا ہے، لیکن سیاسی مبصرین کے خیال میں صدر ٹرمپ شمالی کوریا سے ٹھوس ضمانتیں لینے میں ناکام رہے، اور وہ مذاکرات کی کامیابی کے ہونکے میں ایک مبہم سی دستاویز پر راضی ہوگئے۔ معاہدے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ شمالی کوریا میں موجود جوہری ہتھیاروں کو کیسے اور کتنے عرصے میں تلف کیا جائے گا، اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پیانگ یانگ مستقبل میں جوہری ہتھیار کے حصول کی کوشش نہیں کرے گا؟
یادداشت میں اعلان پنمونجوم (Panmunjom Declaration) کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ اس سال 27 اپریل کو جنوبی کوریا کے شہر پنمونجوم میں کم جونگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان (Moon Jae-In)کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت جزیرہ نمائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا، جس کا مطلب ہوا کہ صرف شمالی کوریا سے جوہری ہتھیار کا اتلاف کافی نہیں ہے بلکہ معاہدے کے تحت امریکہ کو جنوبی کوریا اور جاپان میں نصب جوہری میزائل بھی ہٹانے ہوں گے اور بحر جاپان، بحر زرد (Yellow Sea) اور آبنائے کوریا سے اپنی جوہری کشتیوں کے گشت پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔ اس معاہدے کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اس میں مختلف اقدامات کے لیے مدت کا تعین نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تشریح میں شدید ابہام نظر آرہا ہے۔ شمالی کوریا کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں کو جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے مکمل اتلاف سے وابستہ کردیا گیا ہے جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں، جبکہ پیانگ یانگ کے لیے ایک ایک دن عذاب بنا ہوا ہے۔
غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریا اگر معقولیت کی طرف مائل نظر آرہا ہے تو اس میں مائک پومپیو کی سفارت کاری اور صدر ٹرمپ کی بصیرت و بصارت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اقتصادی پابندیوں نے شمالی کوریا کو فاقے میں مبتلا کردیا ہے جس کی وجہ سے کم جونگ امریکی رہنمائوں کے توہین آمیز بیانات کے باوجود سنگاپور چلے آئے، لیکن اگر پابندیاں ختم نہ کی گئیں تو پیانگ یانگ کی طرف سے شاخِ زیتون لہرانے کی توقع فضول ہوگی۔ یہ معاشی پابندیاں بھی چین کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہیں کہ صدر ژی نے امریکہ سے وابستہ تجارتی مفادات کے لیے اپنے دوست شمالی کوریا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کم جونگ نے معصومیت اور تسلیم و رضا کا کارڈ کھیلا ہے۔ وہ صدر ٹرمپ کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شمالی کوریا کے رہنما ان کی ہر بات ماننے کو تیار ہیں بس ان کے اقتدار کو دوام بخش دیا جائے، جس کے لیے اقتصادی پابندی کا اٹھنا ضروری ہے تاکہ عوام کی پریشانی ختم ہو۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ خود کو ایک مدبر سیاست دان ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس کوشش میں وہ مذاکرات کی کامیابی کا اتنا ڈھنڈورا پیٹ چکے ہیں کہ اب ان کے لیے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ کم جونگ صدرٹرمپ کی اسی مجبوری اور خوشامد پسند طبیعت کو سمجھتے ہوئے اپنے اخلاص اور نیک نیتی کے انعام کے طور پر پابندیوں کے خاتمے کی ’فدویانہ التجا‘ کررہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا صدر ٹرمپ خود ہی کہہ چکے ہیں کہ شمالی کوریا کی جانب سے اب جوہری جنگ کا خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس لیے انکار کی بہت زیادہ گنجائش بھی نہیں۔ چین سے شدید تجارتی جنگ کے تناظر میں بیجنگ بھی چچا سام کو نیچا دکھانے کی تاک میں ہے۔
مزے کی بات کہ ابھی سنگاپور معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ شمالی کوریا نے مبینہ طور پر امریکہ کی حساس معلومات اڑا لینے کے لیے الیکٹرانک نقب زنی (Hacking)کی نئی واردات کا آغاز کردیا۔ امریکہ کی وزارتِ داخلی سلامتی (DHS)کے مطابق 14 جون کو بعض سرکاری کمپیوٹر بدنامِ زمانہ وائرس Trojan malware variantsکے ’جراثیم‘ سے آلودہ پائے گئے۔ امریکی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت نے Hidden Cobra کے عنوان سے ایک شعبہ قائم کررکھا ہے جو ساری دنیا اور بالخصوص امریکہ میں الیکٹرانک نقب زنی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اس بار Trojan کے جو جراثیم پھیلائے گئے ہیں انھیں TYPEFRAMEکا نام دیا گیا ہے۔ جوہری ہتھیار تلف کرنے کے وعدے کے دوسرے ہی دن سائبر حملے سے کم جونگ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کے ترکش میں ابھی بہت سے اور تیر بھی موجود ہیں۔
شمالی کوریا اور امریکہ چوٹی کانفرنس کے تناظر میں پاکستان کے روشن خیال اور ہند و اسرائیل نواز تجزیہ نگار ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کاش پاکستان کی قیادت بھی بصیرت کا مظاہرہ کرکے ہندوستان سے تعلقات کو بہتر کرلے۔ایسا ہی مشورہ فلسطینیوں کو بھی دیا جارہا ہے۔ حالانکہ پاکستان اور فلسطین کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ ہندوستان نے کشمیر پرقبضہ جمارکھا ہے اور دنیا نے اس جارحیت کو تسلیم بھی کرلیا ہے۔اس پس منظر میں پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں، یعنی یا تو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کرکے فاتحہ پڑھ لی جائے، یا کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت جاری رکھی جائے۔دوسری طرف فلسطینیوں کو ایک منظم نسل کُشی کا سامنا ہے اور اس’’کارِ خیر‘‘ میں اسرائیل کو مصر، سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات (حکومتوں) کی حمایت حاصل ہے۔