سیاسی جماعتیں”الیکٹ ایبلز” کی یرغمال

پاکستان کی سیاست ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج بھی اپنی سیاست اور جمہوری حکمرانی میں مربوط اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کسی بھی جمہوری نظام اور حکمرانی کی بنیادی کنجی عملی طور پر سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں کیونکہ وہ مجموعی جمہوری نظام کی نگرانی کرکے اسے شفاف بناتی ہیں۔ جو معاشرے مضبوط سیاسی جماعتوں سے محروم ہوتے ہیں وہاں جمہوری نظام کی مضبوطی کی توقع رکھنا محض خوش فہمی کے زمر ے میں آتا ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد اُن کے لاکھوں کارکن یا ووٹ بینک نہیں بلکہ ان کا داخلی جمہوری نظام ہوتا ہے۔
آج کل 2018ء کے عام انتخابات کے تناظر میں ایک بار پھر ہمارے سیاسی تجزیہ نگار یا اہلِ دانش انتخابی حلقوں میں موجود الیکٹ ایبلز یعنی طاقتور اور بااثر افراد کی حکمرانی کو بنیاد بناکر سیاسی نظام یا جماعتوں پر تنقید کررہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں بالخصوص پنجاب میں بہت بڑی تعداد میں ان بھاری بھرکم سیاسی افراد نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ عمران خان بنیادی طور پر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ سیاست میں آئے تھے۔ ایک بار ہماری مجلس میں عمران خان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ انتخاب کیسے جیت سکتے ہیںکیونکہ آپ کے پاس معروف بھاری بھرکم سیاسی الیکٹ ایبلز موجود نہیں؟ اس پر عمران خان نے کہا تھا کہ میری حکمت عملی الیکٹ ایبلز کے مقابلے میں سیاسی نظام اور جماعت کو مضبوط کرنا ہے، ووٹر الیکٹ ایبلز کے مقابلے میں سیاسی جماعت کو ووٹ دے، اگر ایسا ہوگا تو میں انتخاب جیت سکوں گا، وگرنہ میری سیاست کی کوئی اہمیت نہیں۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے ملکی سیاست میں موجود زمینی حقائق اورکو سمجھ لیا ہے، یا اُن کو سمجھا دیا گیا ہے کہ فی الحال سیاسی رومانس کے بجائے عملی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکٹ ایبلز کی پارٹی میں شمولیت پر صرف عمران خان پر ہی تنقید کیوں؟ یہ عمل تو پاکستان کی بڑی اور چھوٹی جماعتیں ماضی میں کرتی رہی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں۔ یہ الیکٹ ایبلز جو اب تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں، اس سے قبل شریف اور زرداری کی سیاست کا حصہ رہے ہیں۔ نوازشریف جن کو اپنی سیاست کا بڑا زعم ہے انہوں نے بھی سیاسی سمجھوتے کے تحت اپنے بڑے سیاسی دشمن جنرل(ر) پرویزمشرف اور چودھری برادران کی باقیات کو 2013ء کے انتخابات سے قبل ہیوی ویٹ کی بنیاد پر اپنی چھتری تلے جمع کیا تھا۔ ماضی میں بھٹو جیسی مضبوط شخصیت کو بھی انھی بڑے بڑے خاندانوں، جاگیرداروں اور مضبوط برادریوں سے سیاسی سمجھوتا کرکے انتخاب لڑنا پڑا تھا۔ یہ الیکٹ ایبلز اگر نوازشریف یا زرداری کے ساتھ ہوں تو جمہوریت پسند اور شریف ہوجاتے ہیں، لیکن جب تحریک انصاف کا حصہ بنتے ہیں تو ان کو لوٹا اور مفاد پرست کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہماری سیاست اور قیادت سمیت اہلِ دانش کا ایک بڑا طبقہ تضادات کے ساتھ اپنی سوچ، فکر اور حکمت عملی کو آگے بڑھاتا ہے۔ جب کوئی برا فرد، جاگیردار، بڑا خاندان یا مافیا آپ کے ساتھ ہو تو وہ اچھا، اور اگر مخالف کیمپ کا حصہ بن جائے تو اُس میں ساری خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ جس طرح عمران خان نے سیاسی سمجھوتا کرکے بڑے بڑے الیکٹ ایبلز کو اپنی سیاست کا حصہ بنایا ہے، اسی طرح آج بھی دیگر بڑے بڑے الیکٹ ایبلز شریف، زرداری، اسفند یار ولی، اچکزئی اور سندھ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ ہیں، لیکن ان پر خاموشی ہے۔ اصل میں اِس وقت عمران خان بہت سے سیاسی حریفوں کے دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ نوازشریف، شہبازشریف، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان اور ایم کیو ایم سبھی عمران خان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ پنجاب میں نوازشریف کا اصل مقابلہ عمران خان سے ہے۔ جبکہ خیبر پختون خوا میں عمران خان کا اصل مقابلہ متحدہ مجلس عمل سمیت اے این پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ سندھ میں عمران خان پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی حمایت کررہے ہیں، اس لیے میڈیا میں عمران خان کی روایتی سیاست پر بہت تنقید کی جارہی ہے جبکہ باقی سیاسی جماعتوں کے بارے میں خاموشی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل تک عمران خان کو سیاسی طعنہ دینے والے کہتے تھے کہ آپ انتخاب کسی بھی صورت نہیں جیت سکتے کیونکہ آپ کے پاس الیکٹ ایبلز ہی نہیں ہیں۔ اب جب وہ اُن کو اپنے اردگرد جمع کرچکے ہیں تو بھی اُن پر تنقید کی جارہی ہے۔ عمران خان نے یقینی طور پر زمینی حقائق کو قبول کیا ہے، جس سے یقینی طور پر اُن کی اصولی سیاست کی نفی ہوتی ہے، لیکن سیاست میں سمجھوتا کرنا ہماری سیاست کے معمول کا حصہ ہے۔ الیکٹ ایبلز ہمیشہ سے طاقت کی سیاست کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے، کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی عمل کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے، اور وہ ووٹر کے قریب بھی ہوتے ہیں اور ووٹر بھی ان کی قید میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کی ضرورت بنے ہوئے ہیں، اور سیاسی جماعتیں چاہتے ہوئے بھی ان الیکٹ ایبلز کی سیاست سے باہر نہیں نکل سکی ہیں۔ نوازشریف کا بیانیہ ہے کہ اِس بار ووٹر ہمیں ووٹ دے کر الیکٹ ایبلز کی سیاست کا خاتمہ کردے گا۔ یہ خوش فہمی تو ہوسکتی ہے مگر زمینی حقائق بڑے مختلف ہیں، اور ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ووٹر ان بڑی مقامی سیاسی طاقتوں کو آسانی سے شکست دے سکیں۔
کیا وجہ ہے کہ آج بھی ہماری سیاسی جماعتوں اور منشور کے بجائے الیکٹ ایبلز یا طاقتور بااثر افراد نے پورے سیاسی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے؟ اس وقت ان بڑے بڑے سیاسی طاقتور افراد اور خاندانوں کے بغیرکسی سیاسی جماعت کا انتخاب جیتنا بہت مشکل مرحلہ نظر آتا ہے۔ سیاست ایک رومانوی عمل نہیں بلکہ بعض اوقات ہمیں تلخ حقائق کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی وضع کرنا پڑتی ہے۔ جو مسائل موجود ہوتے ہیں اور جن کا واقعی ہمیں عملاً ادراک ہوتا ہے، تو سیاسی قیادتیں اپنی جماعت اور منشور کی بنیاد پر ایسی حکمت عملی اختیار کرتی ہیں جس کی مدد سے سیاسی عمل میں موجود الیکٹ ایبلز سمیت دیگر خرابیوں کو دور کرکے سیاسی نظام اور جماعت کو مضبوط، اور سیاست کو شفاف اور مربوط بنایا جائے۔ عمران خان کی سیاست کا عروج 2011ء کے بعد ہوا ہے، لیکن اس سے قبل ہماری مقبول اور بڑی سیاسی جماعتوں نے جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نمایاں ہیں، کیوں اصلاحات پر کام نہیں کیا؟ سیاسی جماعتیں جو بہت کمزور اور چند خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال نظر آتی ہیں وہ کیوں ایک مضبوط ادارے کی شکل اختیار نہ کرسکیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی قیادتیں اور جماعتیں اپنی تمام تر ناکامیوں کا الزام اپنے سر لینے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر خود کو معصوم ثابت کرتی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل نے بھی ملک میں سیاسی نظام اور جماعتوں کو کمزور کیا ہے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ مکمل سچ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادتوں نے سیاسی جماعتوں کو عملی طور پر ایسی پرائیویٹ کمپنیوں میں تبدیل کردیا ہے جو محض اُن کے ذاتی مفادات کے کھیل سے جڑی ہوئی ہیں۔ سیاست میں جو فیصلے کیے جارہے ہیں اُن میں مشاورت کم اور چند بااثر افراد کا کھیل زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ووٹروں اور سیاسی کارکنوں کو تو ہماری سیاسی جماعتوں اور قیادتوں نے اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرکے ان کا بری طرح استحصال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کو سوائے سیاسی تنہائی کے کچھ نہیں ملتا، کیونکہ ووٹر اور سیاسی کارکن بھی اپنے آپ کو لاتعلق کرلیتا ہے۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاسی قوتوں نے اوّل تو اصلاحات کے سلسلے میں کوئی مؤثر کام نہیں کیا، اور اگر کچھ کام ہوا تو وہ بھی قانون سازی تک محدود رہا۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ ماضی میں جو بڑی بڑی سیاسی اور جمہوری رکاوٹیں موجود تھیں اُن کو کمزور کرنے کے بجائے زیادہ مضبوط کیا گیا ہے۔ پہلے محض جاگیردار، وڈیرے اور بڑی بڑی سیاسی برادریاں موجود تھیں، اور اب سرمائے کی بنیاد پر بڑے بڑے سرمایہ دار، طاقتور اور بااثر افراد مافیا پر مبنی طبقات اپنی جائز و ناجائز دولت اور اختیارات کے ذریعے سیاسی نظام کو عملی طور پر کنٹرول کرچکے ہیں۔ سیاسی، جمہوری اور قانون پر مبنی حکمرانی کے اس نظام کو کیسے شفاف بنایا جاسکتا ہے اور کیسے اس کو موذی امراض سے بچایا جاسکتا ہے، یہ بڑا سوال ہے جس سے ہم نے عملی طور پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
ہمارے اہلِ دانش جن کا کام سیاسی نظام میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرنا اورعوام کے سیاسی شعور کو اجاگر کرکے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کو تیارکرنا تھا، وہ خود ان طاقتور فریقین کے کھیل کا حصہ بن کر قوم کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو واقعی سیاسی نظام میں حقیقی تبدیلی کے خواہش مند ہیں، لیکن یہ محدود لوگ ہیں اور ان کی سیاسی جماعتوں اور قیادت میں کوئی پذیرائی نہیں۔ اگر یہ زیادہ مزاحمت کریں تو ان کو سیاسی جماعتوں میں دیوار سے لگا دیے جانے کا خوف ہوتا ہے جو ان کو خاموش رکھتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کو اگر واقعی الیکٹ ایبلز اور طاقتور یا بااثر افراد کی سیاست یا ان کی سیاسی جماعتوں میں یرغمالی سے بچنا ہے تو محض الزام تراشیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ ایک مشترکہ بحران ہے جس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی ہی درکار ہوگی۔ لیکن اگر سیاسی جماعتیں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے خود الیکٹ ایبلز کے مفادات کو تقویت دیں گی تو یہ طاقتور نظام کمزور نہیں بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوگا۔ ہمیں واقعی ایک مضبوط اورمربوط سیاسی نظام، سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور عوامی مزاحمت درکار ہے۔ کیونکہ ان کی مشترکہ حکمت عملی ہی الیکٹ ایبلز کی سیاست کو کمزور کرکے ایک ایسے نظام کو طاقت دے گی جو واقعی ہماری جمہوری سیاست کو درکار ہے۔ وگرنہ محض الزام تراشی کی سیاست کرکے یا الیکٹ ایبلز کو گالی بک کر ان کو کمزور نہیں کیا جاسکے گا۔