ہجرت اللہ کا حکم ہے۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ مکہ سے مدینہ ہجرت نے دنیا کی تاریخ بدل دی مگر آج کا المیہ یہ ہے کہ اسلام مسلم ریاستوں سے ہجرت کررہا ہے، مظلوم مسلمان ہجرت کررہے ہیں۔ گو یہ سنتِ اللہ ہی کی ایک شکل ہے، مگر بالکل نیا منظرنامہ ہے۔ گزشتہ قوموں پر عتاب آتے تھے، منکرین صفحۂ ہستی سے مٹادیے جاتے تھے، اللہ نئی قوم اٹھاتا تھا۔ انبیاء علیہم السلام کے قافلے کشتیوں پر یا سمندر چیر کر، یا پا پیادہ ہجرت کرجاتے تھے۔ مگر آج مسلم دنیا میں اسلام پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔
گو بہت مثالیں ہیں۔ ہم نمونے کے طور پر ایک مثال دیکھتے ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی میں ایک رپورٹ آئی ہے، عنوان ہے ’’وہ جگہ جہاں حجاب آپ کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے، برطانوی ادارے نے حسبِ روایت اسلامی شعار کو ’’مسئلہ‘‘ بناکر پیش کیا ہے۔ اس بدعنوانی سے قطع نظر، رپورٹ کہتی ہے کہ مصرکی نسبت برطانیہ میں اسلام پر عمل آسان ہے۔
رپورٹ کے کچھ حصے یہاں نقل کرتے ہیں۔ ’’قاہرہ کی نسبت لندن میں حجاب اوڑھنا آسان ہے‘‘۔ یہ الفاظ 47 سالہ دالیا آنان کے تھے جنھوں نے اپنے ملک مصر میں اسلامی حجاب اوڑھنے کا موازنہ برطانیہ جیسے ملک سے کیا۔ مصر ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور وہاں جو عورت حجاب کرنا چاہے اُس کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے یہ سب کچھ بدل رہا ہے، خاص طور پر اعلیٰ طبقے کی خواتین میں۔ دالیا کہتی ہیں کہ شام میں مخصوص اوقات کے بعد آپ کچھ ریسٹورنٹس میں داخل نہیں ہوسکتے، یا یوں کہیں کہ شمالی ساحل کے ٹھنڈے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دالیا کہتی ہیں کہ وہیں دو بڑے ریسٹورنٹس نے ان کے حجاب کی وجہ سے انھیں داخلے کی اجازت نہیں دی۔
دینا ہشام جن کی عمر 23 برس ہے اور وہ کینیڈا میں رہتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مصر میں مجھے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کون سی جگہیں ہیں جہاں کوئی عورت حجاب پہن کر جا سکتی ہے یا نہیں‘‘۔ ٹورنٹو کی یارک یونیورسٹی میں پڑھنے والی دینا سمجھتی ہیں کہ حجاب کو شاید لاشعوری طور پر کسی کٹیگری میں ڈال دیا گیا ہے، اسے اُن مخصوص جگہوں پر ممنوع قرار دے دیا گیا ہے جہاں خاص طور پر اعلیٰ طبقے کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
رواں برس مئی میں ’’مائی چوائس‘‘ ہیش ٹیگ لانچ کیا گیا تھا۔ اس مہم میں شامل 30 سالہ حبا کہتی ہیں کہ جب وہ تین سال قبل بیرونِ ملک سے مصر واپس لوٹیں تو ان کے لیے یہ بات حیرت کا سبب تھی کہ حجاب کی وجہ سے آپ کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور آپ کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔‘‘
دیگر تازہ مثالیں سعودی عرب سے سامنے آئی ہیں۔ ابن سلمان نے مغرب کی محبت میں حد سے گزرنے کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکہ دامے درمے قدمے مددگار رہا ہے۔ تفریحی صنعت کے عنوان تلے اسلامی مرکز میں بگاڑ لانے کا سامان کیا گیا ہے۔ سنیما کھولے گئے ہیں۔ کیٹ واک کی محفلیں سجانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ثقافت کے نام پر عرب نسلی عصبیت کے فروغ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسے وژن 2030 کا عنوان دیا گیا ہے۔ اسے post- wahabi Islam یعنی ’اسلام کے بعد‘ کی normal country کا منصوبہ بیان کیا گیا ہے۔
مسلم ریاستوں کے ظالم اور نااہل حکمران مغرب کی محبت میں اسلام دشمن فیصلے کررہے ہیں۔ کئی مسلم ممالک میں مظلوم مسلمان ہی خاک وخون میں نہلائے جارہے ہیں۔ عراق سے افغانستان تک صورت حال سامنے ہے۔
مسلمانوں کی یہ ہجرت غیر مسلم دنیا کی جانب ہے۔ بالخصوص یورپ میں یہ ہجرت نمایاں ہے۔ اس کی چند سادہ سی وجوہات ہیں۔ یہ ریاستیں نسبتاً بہت زیادہ آزاد ہیں۔ یہاں کے باشندے عمومی طور پر دہرے معیارات (منافق) کے نہیں ہیں۔ یہاں کے حکمران مطلق العنان نہیں۔ یہاں کے باشندے غضب اور غصب کے مظاہر کے لیے داخلی طور پر تیار نہیں۔ یہ رواداری اور عدم مداخلت کا رویہ صدیوں کے خون خرابے کے بعد انہیں میسر آیا ہے۔ تاریک صدیوں میں بھٹکتے بھٹکتے یہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ مغرب نے یہ کائناتی اصول تعلیماتِ الٰہیات ہی سے سیکھے ہیں۔ فلاحی ریاست کا تصور اسلام ہی کی دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام یہاں خود کو اجنبی محسوس نہیں کررہا۔ یوں بھی یہیں وہ غرناطہ ہے جہاں سے اسلام نے صدیوں پہلے رختِ سفر باندھا تھا۔ تاہم ایسا نہیں کہ مغرب میں اسلام کی مخالفت نہیں ہورہی۔ اسلام دشمنی پر بھرپور سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ ذرائع ابلاغ چیخ وپکار مچارہے ہیں۔ مگر یہ دشمنی منافقانہ نہیں کافرانہ ہے۔ یہ دشمنی قانون کے دائرے میں ہے۔ اندھیرنگری چوپٹ راج نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اسلام مخالف رجحان یہاں مقبول نہیں ہورہا۔ مسلم ریاستوں کی طرح یہاں منظم مظالم قانونی قرار نہیں دیے جاسکے ہیں۔ یہاں کے قوانین میں ظلم وزیادتی کا بہت زیادہ جواز آسان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو اسلام پر عمل نسبتاً بہت زیادہ آسان لگ رہا ہے۔
یہ سنتِ اللہ ہے کہ جب تم نہیں اٹھوگے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ اٹھائے گا، اور وہ تم سے بہترہوں گے۔ نوحؑ کی قوم نے اپنے نبی کی تعلیم کو مسترد کیا، بقاء و فلاح کی کشتی ہجرت کرگئی۔ فرعون سے تنگ بنی اسرائیل ہجرت کرگئے، سمندر پیچھے رہ جانے والوں کے آگے حائل ہوگیا۔ بنی اسرائیل نافرمان ہوئے،مکہ والوں نے زمین تنگ کی، اسلام مدینۃ النبی ہجرت کرگیا۔ ہندوستان میں زمین تنگ ہوئی، مسلمان پاکستان ہجرت کرگئے۔ آج مشرق میں اسلام پر زمین تنگ ہورہی ہے، اسلام مغرب کی طرف ہجرت کررہا ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ اسلام جہاں سے ہجرت کرگیا اور پھر نہیں لوٹا۔