میزبان وزیراعظم کینیڈا کو جھوٹا اور بے ایمان قرار دے کر مشترکہ اعلامیہ پر دستخط سے انکار
اس بار G-7کی سربراہ کانفرنس کیوبیک سٹی (Quebec City) کینیڈا کے سیاحتی مرکز لاملبے (La Malbaie) میں منعقد ہوئی۔ مشرقی کینیڈا کا یہ چھوٹا سا خوبصورت شہر سینٹ لارنس اور دریائے ملبے کے سنگم پر واقع ہے۔ لاملبے کی شناخت پُرتعیش ہوٹل، قمار خانے، عالیشان میکدے اور رقص گاہیں ہیں۔ علاقے کا ارضیاتی محلِ وقوع اور چٹانوں کی ساخت و ترکیب کچھ اس طرح ہے کہ یہاں وقتاً فوقتاً زلزلے کے خفیف جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ ارضیات کی اصطلاح میں ایسے علاقوں کو Active Seismic Zone کہتے ہیں۔ تاہم زیرزمین غیر معمولی ارتعاش کے باوجود ملبے اور متصل علاقوں سے گزشتہ دوسو سال کے دوران کسی بڑے زلزلے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ملبے کی یہ خصوصیت سیاسی لطائف کا عنوان بنی رہی اور کچھ مبصرین نے ازراہِ تفنن کہا کہ اگر اجلاس میں صدر ٹرمپ کے غیر متوازن خطاب سے ہلچل مچی تو بہت سے لوگ اسے زیر زمین لرزش سمجھ کر نظرانداز کردیں گے۔ دنیا کے 7 ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک کی سربراہ کانفرنس جمعہ 8 جون سے شروع ہوئی اور ہفتے کی شام اس شان سے ختم ہوئی کہ امریکی حکومت نے نہ صرف مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے انکار کردیا بلکہ صدر ٹرمپ نے میزبان وزیراعظم ٹروڈو کو جھوٹا قرار دیا جنھوں نے اعلامیہ جاری کرتے وقت اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’یہ G-7 سربراہ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ہے‘‘۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور کینیڈا پر مشتمل یہ تنظیم گروپ آف سیون یا G-7کہلاتی ہے۔ دنیا کی دولت کا 62 فیصد حصہ ان 7 ملکوں میں مرکوز ہے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران جب سابق سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے امریکہ اور مغربی دنیا کو تیل کی فراہمی بند کردی تو صورتِ حال پر غور کرنے کے لیے سابق فرانسیسی صدر گسکارڈ دیستان (Giscard d’Estaing) کی دعوت پر امریکہ، جاپان اور یورپ کے 4 رہنما فرانس میں جمع ہوئے اور 1975ء کی یہ بیٹھک G-6 کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تاسیسی اجلاس میں شرکت کرنے والے سربراہان میں اب صرف فرانس کے سابق صدر گسکارڈ دیستان ہی زندہ بچے ہیں، باقی سب آنجہانی ہوگئے۔ اس کے اگلے سال امریکہ کے نوآدیاتی علاقے پورٹوریکو میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں کینیڈا بھی شریک ہوا اور یہ ادارہ G-7 کہلانے لگا۔ بنیادی طور پر یہ اقتصادی تعاون کی تنظیم ہے۔ سیاسی و نظریاتی اصطلاح میں اسے آپ استحصالی سودی معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام کے محافظوں کا اتحاد کہہ سکتے ہیں۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد عظیم الشان کمیونسٹ سلطنت روس تک محدود ہوگئی۔ رشین فیڈریشن کے نام سے ایک نئی ریاست قائم ہوئی جس نے کمیونزم سے تائب ہوکر سودی سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنانے کا اعلان کیا۔ مغرب کے ساہوکار ظالمانہ سودی نظام کے لیے ’آزاد معیشت‘ کی خوبصورت و پُرکشش اصطلاح استعمال کرتے ہیں ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
1997ء میں سرمایہ دارانہ نظام کی چوکھٹ پر سر جھکانے والے روس کو G-7 کی رکنیت دے کر تقرب سے سرفراز کیا گیا۔ یاں یوں کہیے کہ نجکاری کو ڈکیتی اور سود کو سرمایہ داروں کا پھندا کہنے والا روس بھی کوچۂ سودخواراں کی زینت بن گیا اور امریکی ریاست کولوریڈو کے صدر مقام ڈینور (Denver) میں ہونے والی G-7چوٹی کانفرنس کے میزبان صدر کلنٹن نے رکنیت کے صداقت نامے پر دستخط کرکے یہ دستاویز روس کے پہلے صدر بورس یلسن کے حوالے کی۔ اب یہ تنظیم G-8 کہلانے لگی۔ 2014ء میں G-8 سربراہ کانفرنس روس میں ہونی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب روس نے کریمیا (Crimea) پر غاصبانہ قبضہ جما لیا تھا اور صدر اوباما اس جارحیت پر سخت غصے میں تھے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا خیال تھاکہ کامیاب چوٹی کانفرنس سے کشیدگی میں کمی آئے گی، چنانچہ روسی رہنما خاصے پُرجوش تھے۔ کانفرنس کو عالیشان و یادگار بنانے کے لیے صدر پیوٹن نے بحراسود (Black Sea کے ساحلی شہر سوچی میں ایک کنونشن سینٹر تعمیر کروایا۔ اسی کے ساتھ ایک میکدہ اور جدید رقص گاہ بھی قائم کی گئی۔ سارے روس سے انتہائی خوبرو روسی حسینائیں اور بیلے ڈانسر سوچی لائی گئیں تاکہ امریکہ و یورپ کی قیادت کو روسی ثقافت کا براہِ راست مشاہدہ کروایا جاسکے۔ خیال ہے کہ ان تیاریوں پر روس نے ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ کیے۔ یورپ کے سراغ رساں حلقوں کا کہنا ہے کہ کانفرنس کی تیاریوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ روس گئے جہاں ان کی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی۔ روسی صدر نے بہت فخر کے ساتھ اپنے دوست کو بتایا کہ روس کی شناخت ہماری’محبت‘ کرنے والی خوبرو خواتین ہیں، اور ان پری پیکروں اور مہوشوں کو دیکھ کر یورپ کے زعما مبہوت رہ جائیں گے۔
لیکن صدر اوباما ان تیاریوں سے متاثر نہیں ہوئے اور انھوں نے G-8کے سربراہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے تنظیم کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ مارچ 2014ء کی ہیگ میں ہونے والی ہنگامی سربراہی کانفرنس میں روس کو دعوت نہیں دی گئی اور ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے G-8 سے روس کی رکنیت معطل کردی گئی۔ روس کے اخراج کے بعد یہ تنظیم دوبارہ G-7 بن گئی۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، G-7کا ظاہری مقصد تو اقتصادی تعاون ہے، لیکن سودی معیشت، ’مثالی طرزِ زندگی‘، اور سفید فام اقدار کا تحفظ G-7کی بنیادی ترجیحات ہیں۔ یعنی G-7 نیٹو کا سیاسی و معاشرتی ونگ ہے یا نیٹو G-7کی عسکری شاخ۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی کوچۂ سود خواراں میں کشیدگی و رسّا کشی کے آثار گزشتہ برس جون میں اُس وقت نمایاں ہوئے جب امریکہ ماحولیاتی تحفظ کے معاہدۂ پیرس (Paris Agreement) سے الگ ہوگیا۔ اس حوالے سے صدرٹرمپ کی زبان خاصی غیر محتاط تھی اور انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ معاہدے کے ذریعے اُن کے یورپی حلیفوں نے امریکی صنعت پر غیر منصفانہ پابندیاں عائد کردی ہیں جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور امریکی مصنوعات یورپی مال سے مہنگی ہوگئیں۔ اِس سال کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے آزاد تجارت کے طے شدہ سرمایہ دارانہ اصول کے برخلاف تامینی تجارت (Protective Trade) کا علَم بلند کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سابقہ حکومتوں نے آزاد تجارت کے نام پر جو معاہدے کیے ہیں انھوں نے امریکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ دوسرے ممالک اپنی مصنوعات بلا روک ٹوک امریکی منڈیوں تک پہنچا رہے ہیں جسے کاروباری اصطلاح میں dumpingکہتے ہیں۔ دوسری طرف ان ممالک نے امریکی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کرکے اپنی منڈیوں کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ’غیر منصفانہ‘ باہمی تجارت نے امریکہ کے توازنِ ادائیگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے امریکی کارخانے تالا بندی کا شکار اور کارکن بے روزگار ہیں۔ اس ’ناانصافی‘ کے سدباب کے لیے انھوں نے کینیڈا اور میکسیکو سے آزاد تجارت کے نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ یا NAFTA معاہدے پر نظرثانی کے ساتھ درآمدی فولاد، المونیم، کاروں اور دوسری مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کردیئے۔ بادی النظر میں ان اقدامات کا ہدف چین تھا لیکن بجلی کینیڈا پر گرگئی جو ہرسال ساڑھے 5 ارب ڈالر کا فولاد اور ساڑھے 8 ارب ڈالر کا المونیم امریکہ کو فروخت کرتا ہے۔ ان پابندیوں سے امریکہ کے شمالی پڑوسی کی معیشت سخت دبائو میں ہے اور ساتھ ہی یورپی یونین کے ممالک کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یورپی یونین اور کینیڈا کو صدر ٹرمپ کے طرزِ سیاست، تلون مزاجی اور بے قابو زبان سے بہت زیادہ شکایتیں تھیں لیکن اتحادیوں نے اب تک اپنی زبان کو قابو میں رکھا ہوا تھا۔ اب پیٹ پر لات پڑنے سے ان کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا اور حلیفوں کی جانب سے جوابی اقدامات کی دھمکی نے بدمزگی میں اضافہ کردیا۔
ماحولیات خاص طور سے گلوبل وارمنگ کے باب میں امریکہ کی عدم دلچسپی کے علاوہ فلسطین کے مسئلے پر بھی امریکہ کے اتحادیوں کے شدید تحفظات ہیں۔ ان تمام ممالک نے امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کی مخالفت کی اور اقوام متحدہ میں امریکہ کے خلاف منظور ہونے والی مذمتی قرارداد کی حمایت کے علاوہ بیت المقدس میں سفارت خانے کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ غزہ کے حالیہ قتلِ عام پر فرانس کے صدر میکران نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور پیرس کا دورہ کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی کمیٹی کو تحقیقات کے لیے غزہ جانے کی اجازت دیں۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ اسرائیل کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ خونریزی کی ذمہ دار حماس ہے اور اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کی یک طرفہ علیحدگی پر اُس کے حلیف اب تک اُس سے ناراض ہیں۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کو توقع ہے کہ ان کے اتحادی ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیں گے، حالانکہ چند روز پہلے ہی یورپی یونین ایران کے خلاف پابندیاں عائد نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔
اس ناخوشگوار پس منظر کی بنا پر یہ بات سب کو معلوم تھی کہ سربراہ اجلاس میں صدر ٹرمپ کو اپنے اتحادیوں کی جانب سے تلخ و ترش سننا پڑے گا اور بحث کے دوران مغلوب الغضب اور سریع الاشتعال امریکی صدر تنہائی کا شکار رہیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کا G-7 سربراہ اجلاس G-6 بمقابلہ امریکہ میچ کی شکل اختیار کرلے گا… اور ہوا بھی بالکل ایسا ہی۔ کانفرنس کے آغاز سے ایک دن قبل صدر ٹرمپ نے ایک نجی نشست میں فرمادیا کہ سربراہ کانفرنس میں میری عدم شرکت خارج از امکان نہیں۔ یہ گفتگو میڈیا پر آگئی اور جواب میں ان کے فرانسیسی ہم منصب نے کہا کہ یہ طرزعمل امریکہ کو مزید تنہا کردے گا۔
صدر ٹرمپ کانفرنس میں شرکت کے لیے تاخیر سے پہنچے اور کینیڈین وزیراعظم کا افتتاحٰی خطاب نہ سن سکے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جناب ٹرمپ کی جانب سے مسٹر ٹروڈو کے ’قابلِ اعتراض‘ رویّے کے خلاف ناراضی کا دانستہ اظہار تھا۔ تاخیر کی وجہ سے وہ صنفی مساوات پر ہونے والی گفت و شنید سے بھی غیر حاضر رہے۔ اجلاس میں پہنچتے ہی انھوں نے حیرت سے پوچھا کہ یہاں روس کو مدعو کیوں نہیں کیا گیا؟ اپنے لیکچر دینے والے مخصوص انداز میں انھوں نے کہا: لیڈرانِ کرام! ہمیں دنیا چلانی ہے اور آپ تسلیم کریں یا نہ کریں روس ایک بڑی طاقت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ روس کی رکنیت بحال کرکے ادارے کو دوبارہ G-8 بنادیا جائے۔ امریکی صدر کی تقریر کے فوراً بعد کینیڈا کی وزیرخارجہ نے پالیسی بیان میں دوٹوک وضاحت کی کہ جب تک روس اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا اُسے G-7 میں واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے صدر ٹرمپ کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے معاملے پر روسی نقطہ نظر میں بنیادی تبدیلی سے پہلے G-7 میں روس کی واپسی ممکن نہیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات فرانسیسی صدر کے بھی تھے۔ مزے کی بات کہ خود روس کو بھی صدر ٹرمپ کی بات پسند نہ آئی اور روسی صدر پیوٹن نے G-7 کو اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ روس کو G-7کی رکنیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کانفرنس کے اجلاسوں میں Paris Agreement، ایران جوہری معاہدہ، مشرق وسطیٰ اور شام سمیت ایجنڈے کے ہر نکتے پر صدر ٹرمپ کو 6 کا ٹولہ رگیدتا رہا۔ صرف شمالی کوریا کے جوہری بحران پر تمام ممالک نے امر یکی مؤقف کی حمایت کی اور صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ سنگاپور میں شمالی کوریا کے رہنما سے دب کر نہیں بلکہ ڈٹ کر بات کریں۔ حسبِ توقع صدر کی تامینی یا Protectiveپالیسی پر اٹلی کے سوا تمام ممالک نے صدر ٹرمپ کوتنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ دن پہلے امریکی صدر نے کہا تھا کہ ان پابندیوں کا مقصد محض امریکی تجارت و اقتصادیات کا تحفظ نہیں بلکہ یہ قدم ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ جرمنی، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا چاروں کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کی سلامتی کو نیٹو اتحادیوں سے خطرہ ہے تو پھر عسکری اتحاد کا مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔ فرانسیسی صدر اور کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے ذاتی ملاقاتیں کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن امریکی صدر اپنی بات پر اَڑے رہے۔ انھوں نے ماضی میں امریکہ کی ’حماقتوں‘ کا الزام سابق صدور پر لگایا اور کہا کہ انھیں چین، کینیڈا، میکسیکو اور یورپی یونین سے کوئی شکایت نہیں، امریکی معیشت کا خون ماضی کی امریکی قیادت کے سر ہے۔
ہفتے کو ظہرانے سے پہلے صدر ٹرمپ یہ کہہ کر کانفرنس سے اٹھ گئے کہ انھیں شمالی کوریا کے سربراہ سے ملاقات کے لیے سنگاپور جانا ہے۔ حالانکہ یہ ملاقات 12 کو ہونی تھی، اور اگر وہ کانفرنس کے اختتام پر بھی روانہ ہوتے تو بروقت سنگا پور پہنچ سکتے تھے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ مشترکہ اعلامیہ کی تدوین کے مرحلے سے دور رہنا چاہتے تھے اور وہ جانے سے پہلے اپنے اقتصادی مشیر لیری کڈلو (Larry Kudlow) کو اعلامیے پر دستخط نہ کرنے کی ہدایت کرگئے۔ جناب کڈلو کانفرنس کے اختتام تک موجود رہے لیکن انھوں نے اختتامی پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ امریکی دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لیری کڈلو حفظِ مراتب یا پروٹوکول کے احترام میں پریس کانفرنس سے دور رہے۔ سربراہانِ مملکت کی صف میں ایک افسر کا کھڑا ہونا مناسب نہیں تھا۔
روانگی سے قبل صدر ٹرمپ نے اخباری نمائندوں سے تفصیلی خطاب میں کہا کہ یہ ’احمقانہ‘ اور ناقابلِ قبول (حد تک کم) محصولات ان کی برداشت سے باہر ہیں، اور اگر ضروری محسوس ہوا تو یورپی یونین سے تجارت کا مکمل خاتمہ بھی ناممکن نہیں۔ جوشِ جذبات میں صدر ٹرمپ نے کینیڈین وزیراعظم ٹروڈو کو بے ایمان (dishonest)اور کمزور رہنما کہہ ڈالا۔ آزاد تجارت کے نام پر یورپی یونین اور کینیڈا کے ہاتھوں امریکہ کے استحصال کا شکوہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان ملکوں نے تو ہمارے بچوں کے گلک بھی لوٹ لیے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے حلیفوں کو مکمل آزاد تجارت کی پیشکش بھی کردی اور کہا کہ ہم صفر محصولات، صفر پابندی کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کینیڈا اور یورپی ممالک اپنی صنعتوں کے لیے غیر ضروری رعایت یا سبسڈی ختم کرنے کا وعدہ کریں۔
کانفرنس ختم ہوجانے کے بعد بھی کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو لیری کڈلو کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اتوار کو CNNکے ایک پروگرام میں جناب کڈلو نے کہا کہ مسٹر ٹروڈو تجارتی معاملات پر الزام تراشی کرکے صدر ٹرمپ کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں جس کی وجہ سے سنگاپور مذاکرات میں صدر ٹرمپ کی پوزیشن متاثر ہوسکتی ہے۔ جناب کڈلو نے ٹروڈو کی بے وفائی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈین وزیراعظم نے ہماری پشت میں چھرا گھونپا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مشیر برائے تجارت پیٹر نوارو (Peter Navarro) نے نام لیے بغیر ٹروڈو کو متنبہ کیا کہ صدر ٹرمپ سے سفارتی بددیانتی کرنے والے رہنمائوں کے لیے جہنم میں ایک خاص جگہ مقرر کردی گئی ہے۔ جس پر یورپین کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک) (Donald Tuskنے ٹویٹ پر ترنت ایک جوابی فتویٰ جاری کردیا کہ ’’جنت میں ایک اعلیٰ مقام جسٹن ٹروڈو کے لیے وقف کردیا گیا ہے‘‘۔
وعیدوں اور دھمکیوں سے قطع نظر اجلاس میں صدر ٹرمپ کا خطاب اور رویہ دونوں ہی غیر متوازن و غیر مربوط نظر آئے۔ انھوں نے ایک تکلیف دہ تجارتی جنگ کا آغاز حلقۂ یاراں سے کیا اور اپنے قریب ترین دوستوں کو دشمن بنالیا۔ رہی سہی کسر اُن کے مشیروں نے پوری کردی جن کے اشتعال انگیز بیانات اور سیاسی فتوے جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ جس تجارتی خسارے کا رونا رو رہے ہیں اُس کی بنیادی وجہ کریڈٹ کارڈ کی شکل میں امریکی قوم کی مصنوعی قوتِ خرید ہے۔ امریکہ میں جتنی اشیا و خدمات استعمال ہوتی ہیں ملک کے اندر اس قدر پیداوار ممکن ہی نہیں، اور نتیجے کے طور پر یہ مصنوعات باہر سے درآمد کی جاتی ہیں۔ امریکہ کے تجارتی خسارے کا علاج درآمدی محصولات نہیں بلکہ عیش و طرب اور فضول خرچی کی حوصلہ شکنی ہے۔
’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے‘‘۔ (القرآن)