علا الدین مری:نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان

انتخابات ملتوی کرنے کے بیان پر سیاسی حلقوں میں تشویش

بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ کا تقرر ہو ہی گیا۔ علا الدین مری نامی شخص کو نگران وزیراعلیٰ کا منصب دے کر بلوچستان پر ایک اور مہربانی و کرم نوازی کردی گئی۔ علا الدین مری مستونگ ضلع کے رہائشی ہیں۔ والد بیوروکریٹ تھے۔ خود کاروبار کرتے ہیں، گاڑیوں کا بزنس بھی ہے۔ افغانستان سے اسمگل کی گئی گاڑیوں کی خریدو فروخت بھی کرتے تھے یا شاید اب بھی کرتے ہوں۔ ایران سے اسمگل شدہ پیٹرول کے بیوپاری بھی رہے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بھی آزاد امیدوار تھے۔ عبدالقدوس بزنجو اور ان کے چند ہمراز، ہم نوالہ و ہم پیالہ علا الدین مری کے نام پر بضد تھے۔ پرنس احمد علی بھی نگران وزارتِ اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل تھے، مگر وہ قدوس بزنجو کو پسند نہ تھے۔ چونکہ پشتون خوا میپ، نیشنل پارٹی اور نون لیگ حزبِ اختلاف میں تھیں، چناں چہ ان جماعتوں نے اشرف جہانگیر قاضی اور سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے نام نگران وزیراعلیٰ کے لیے دے رکھے تھے۔ اشرف جہانگیر قاضی بڑے سیاسی گھرانے کے فرد ہیں، ان کا خاندان تحریک پاکستان میں نمایاں کردار کا حامل تھا۔ خود منجھے ہوئے نامور سفارت کار رہ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور بھارت میں پاکستان کے سفیر رہے۔ سوڈان اور عراق میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کے طور پر بھی کام کیا۔ ان کے چچا قاضی عیسیٰ بلوچستان میں مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے اور مسلم لیگ بلوچستان کے صدر تھے۔ ان کے دادا ریاست قلات میں وزیراعظم کے عہدے پر رہ چکے تھے۔ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ ان کے چچازاد ہیں۔ خود اشرف جہانگیر قاضی کی والدہ جنیفر موسیٰ اور والد قاضی موسیٰ سیاسی حوالے سے نمایاں نام تھے۔ جنیفر موسیٰ 1971ء کی اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی (نیپ) کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں۔ اس خاتون کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ قاضی موسیٰ سے شادی کے بعد تادم مرگ پشین میں ہی مقیم رہیں۔ اسلم بھوتانی بھی صوبے کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، خود صوبائی اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں، یعنی سینئر سیاست دان ہیں۔ علا الدین مری کو یہ اہم منصب دینے کا حکم آچکا تھا اور بہرحال ان کو نگران وزیراعلیٰ بنایا جانا تھا۔ حزبِ اختلاف اور وزیراعلیٰ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں جو بے نتیجہ رہیں۔ آخر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس گیا جس میں حکومت کی جانب سے امان اللہ نوتیزئی، طاہر محمود اور سرفراز چاکر ڈومکی، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے نواب ثناء اللہ زہری، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سید لیاقت آغا کمیٹی کے ارکان تھے۔ عین وقت پر یعنی 6 جون کو جب پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہونا تھا تو عبدالقدوس بزنجو نے کمیٹی کے اجلاس میں نہ بیٹھنے کا اعلان کردیا، یعنی حکومتی ارکان نے مقاطعہ کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت نے ایک اور شخص سردار شوکت پوپلزئی کا نام بھی پیش کردیا تھا۔ یہ نام انتہائی آخری لمحوں میں سامنے آیا۔ قدوس بزنجو نے 5 جون کو پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے لیے دئیے گئے نام متنازع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ محسوس ہوتا ہے صوبے میں جوڈیشل مارشل لا لگ چکا ہے۔ عدلیہ پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کسی حلقے کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کسی منصوبے کا اعلان کرتا ہے یا پھر کھلی کچہری میں کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کے لیے موجودہ صوابدیدی فنڈز بند کرا دیئے جاتے ہیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیار بھی بیوروکریسی کو دے دیا گیا(6جون2018ء)۔ وزیراعلیٰ نے یہ عذرلنگ بھی پیش کیا کہ حزبِ اختلاف نے پانچ سال تک اپوزیشن میں رہنے والی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی کو نظرانداز کیا۔ یعنی ان سے نگران سیٹ اپ کے لیے مشاورت نہ کی اور اپنی مرضی کے نام دے دئیے گئے۔ اور یہ کہ آئین کے آرٹیکل 224(A) کی سب کلاز دو میں لکھا ہے کہ اپوزیشن نگران وزیراعلیٰ کے نام تمام جماعتوں کی مشاورت سے دے گی، جس نے ایسا نہیں کیا، اور 13ارکان اسمبلی پر مشتمل اتحاد کو نظرانداز کردیا۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹی متنازع بن گئی اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
کیوں کہ مذکورہ جماعتیں قدوس بزنجو کی تحریک عدم اعتماد کے بعد سے معاون و مددگار بنی ہوئی ہیں اور انہیں وہی کرنا تھا جو عبدالقدوس بزنجو یا اُن کے سرپرست چاہ رہے تھے۔ یقینا حزبِ اختلاف کو اُن تمام جماعتوں سے بھی مشاورت کرلینی چاہیے تھی کہ جنہوں نے بہرحال خود کے ساتھ حزبِ اختلاف کا ٹائٹل آخر تک لگا رکھا تھا۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ جماعتیں بلاواسطہ حکومت کا حصہ بن گئی تھیں، ان کا کوئی بھی عمل حزبِ اختلاف کا نہ رہا۔ حزبِ اختلاف صوبے کی اسمبلی میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ڈھائی سالہ دور میں رہی۔ نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے تو بالخصوص جے یو آئی (ف) اور اے این پی ان سے شیر و شکر ہوگئیں۔ سردار اختر جان مینگل اور بی این پی عوامی کے ظفر زہری ان پانچ برسوں میں غیر فعال رہے، جو محض چند اجلاسوں میں ہی شریک ہوئے۔ تحریک عدم اعتماد میں ان جماعتوں نے عبدالقدوس بزنجو یا غیر مرئی قوتوں کا ساتھ دیا اور اپنا اپنا حصہ بٹورا۔ لہٰذا اخلاقاً ان کو حزبِ اختلاف کے دعوے پر ڈٹا نہیں رہنے چاہیے تھا۔ اور پھر نون لیگ یا پشتون خوا اور نیشنل پارٹی کے پاس اپنی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کے سوا دوسرا چارہ نہ رہا، جنہوں نے حزبِ اختلاف کی نشستوں کے لیے اسپیکر کو درخواست دی جو کہ منظور کرلی گئی۔ چونکہ ان کے پاس اکثریت تھی لہٰذا مولانا عبدالواسع کی جگہ پشتون خوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال حزبِ اختلاف کے قائد بن گئے۔
عبدالقدوس بزنجو کے اعتراض پر سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے جواباً کہاکہ جے یو آئی، بی این پی مینگل، اے این پی اور بی این پی عوامی تحریک عدم اعتماد کے بعد عملاً حکومت کا حصہ بن گئی تھیں۔ ان کے رہنمائوں یا رشتہ داروں نے مراعات اور عہدے حاصل کیے۔ انہی جماعتوں کے ایما پر پشتون خوا میپ، نیشنل پارٹی اور ثناء اللہ زہری کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ پشتون خوامیپ کے لیاقت آغا نے کہا کہ نگراں وزیراعلیٰ کے لیے ابتدائی مشاورت میں عبدالقدوس بزنجو نے حکومت کی جانب سے جن افراد کو نگران وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا اُن میں جے یو آئی کے سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ اور اے این پی کے سابق سینیٹر دائود خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ یعنی وزیراعلیٰ نے حکومتی جماعتوں کی حیثیت سے جے یو آئی اور اے این پی کے نامزد کردہ نام بھی نگران وزیراعلیٰ کے امیدواروں کی فہرست میں شامل کرائے تو اپوزیشن لیڈر ان سے کیوں کر مشاورت کرتے! غرض نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر اسمبلی کے اندر اتفاقِ رائے مشکل بن گیا تھا۔ اُدھر سردار اختر جان مینگل نے نگران وزیراعلیٰ کے نام کے لیے اعتماد میں نہ لیے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی تڑی دے دی تھی۔ یہ سب کچھ کسی کے اشاروں پر ہورہا تھا۔ یہ جماعتیں پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی سعی کررہی تھیں۔ ان کا خود کو حقیقی حزب اختلاف کا دعویٰ کرنا بے وقت کی راگنی تھی۔ پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کرکے عبدالقدوس بزنجو اور ان کے دوست اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا۔ الیکشن کمیشن نے 7 جون کو علا الدین مری کو بطور نگران وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب کرلیا۔ الیکشن کمیشن کو لامحالہ علا الدین مری کو نگران وزیراعلیٰ بنانے کا ہی فیصلہ کرنا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد یہ امر بھی یقینی دکھائی دیتا ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات کا شفاف ہونا اِشتباہ سے خالی نہیں ہے۔ الیکشن کا التوا بھی ہوسکتا ہے۔
8 جون کو علاالدین مری نے گورنر ہائوس میں منصب کا حلف اُٹھایا۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کی، جہاں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگر مناسب سمجھے تو آئندہ انتخابات میں کچھ دن کی تاخیر میں کوئی قباحت نہیں۔ علا الدین مری کا یہ کہنا غور طلب ہے، اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے آتے ہی اپنے آقائوں کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کردیا ہے،اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے” کسی” کی ہدایت پر ایک سطحی اور غیر معروف شخص کو صوبے کی انتہائی اہم ذمہ داری حوالے کردی ہے۔ اس یتیم صوبے سے مزید کیا کیا زیادتیاں ہوں گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ نیشنل پارٹی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر افسوس اور حیرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ علاالدین مری صوبے میں صاف وشفاف انتخابات کرانے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ نیشنل پارٹی نے یہ بھی قرار دیا کہ الیکشن کمیشن سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی قرار دیا ہے کہ علاالدین مری کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں، اور اس نام پر حزب اختلاف کے شروع ہی سے تحفظات تھے۔ تاہم پشتون خوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ پسند و ناپسند کے باوجود الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اعتراض نہیں،کیونکہ اعتراض اُٹھاکر الیکشن کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ عبدالرحیم زیارتوال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اندرونی طور پر علاالدین مری کے نام پر معترض نہ تھے۔ بہرکیف نگران وزیراعلیٰ کی حلف برداری سے قبل ہی بیوروکریسی میں من پسند تبادلے کرلیے گئے ہیں اور یہ سب علاالدین مری کی خواہش کے تحت ہی ہوا ہے۔ گویا بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا دئیے گئے۔