ڈاکٹر حسن عسکری رضوی پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیات میں مشاہد حسین سید اور عمر اصغر خان کے ساتھی رہے ہیں
پنجاب کے عوام حالیہ دنوں میں پہلی بار اُس وقت حیرت زدہ ہوئے جب نگراں وزیراعلیٰ کے لیے خاصی دوڑ دھوپ اور ردوکد کے بعد ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا نام سامنے آیا، اور دوسری بار اُس وقت حیرت میں ڈوب گئے جب الیکشن کمیشن نے نہ صرف اُن کا نام فائنل کردیا بلکہ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ کا حلف بھی اٹھا لیا۔ اُن کی تقرری اہلِ پاکستان کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی ہے کیونکہ وفاق اور چاروں صوبوں میں نگران سیٹ اَپ کے لیے حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کی نظریں ریٹائرڈ ججوں، ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور کاروباری اورسیاسی خاندانوں کے بظاہر نیم سیاسی افراد پر تھیں۔ وفاق اور چاروں صوبوں میں ایک ماہر تعلیم کا نام پہلی بار سامنے آیا تھا اور خیال تھا کہ مقتدر حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ نام قبول نہیں کیا جاسکے گا اور خود الیکشن کمیشن بھی کسی سابق بیوروکریٹ کے نام پر ہی یکسو ہوگا۔ بہرحال ملکی سیاست میں یہ ایک صحت مند تبدیلی ہے کہ اب وزیراعلیٰ جیسے اہم عہدے پر کسی ماہرِ تعلیم کا نام سامنے آنے کے بعد قبولیت کی سند بھی پا چکا ہے۔ گو ابھی نگران وزارتِ اعلیٰ کا مرحلہ ہے، تاہم اچھی امید رکھنی چاہیے کہ شاید اگلے مرحلے میں وزارتوں یا باقاعدہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے بھی ماہرینِ تعلیم کے نام آنے لگیں۔ اب تو یہ صورتِ حال ہے کہ پوری قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کوئی مستند ماہر تعلیم موجود نہیں۔ حد یہ ہے کہ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹس کی نشست پر بھی کوئی ماہرِ تعلیم نظر نہیں آتا۔ یوں دو، چار دن کسی کالج میں پڑھاکر قانونی ضرورت پوری کرکے سینیٹر بن جانے والے تو کئی افراد آپ کو مل جائیں گے لیکن کوئی مستند ماہر تعلیم، کوئی سابق وائس چانسلر یا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کوئی چیئرمین سیاسی حلقوں میں کبھی اس قابل نہیں سمجھا گیا۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا نام تحریک انصاف کی جانب سے آنے سے لوگوں کو مزید حیرت ہوئی، کیونکہ ڈاکٹر صاحب لبرل نظریات کے آدمی ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے گرویدہ اور پیپلز پارٹی کے سپورٹر سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے اگر اُن کا نام پیپلزپارٹی پیش کرتی تو کسی کو حیرت نہ ہوتی۔ تحریک انصاف کی جانب سے یہ نام آنے پر گمان گزرتا تھا کہ ناصر سعید کھوسہ کا نام واپس لینے کے بعد تحریک انصاف نے محض خانہ پری کے لیے یہ نام پیش کیا ہے۔ انہیں ان کی تقرری سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے اور عملاً تحریک انصاف نے اس نام پر کوئی زیادہ زور نہیں دیا۔ ویسے یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا نام تحریک انصاف نے بھی ماہرِ تعلیم ہونے کی وجہ سے نہیں دیا۔ اس نے یہ نام صرف آصف سعید کھوسہ کا نام واپس لینے کے بعد ہونے والی سبکی کی وجہ سے پیش کیا، کیونکہ اگر کسی ماہر تعلیم ہی کا نام دینا تھا تو پنجاب میں شہرت، تجربے، ناموری اور خدمت کے لحاظ سے تعلیم کے شعبے میں ڈاکٹر عسکری سے بڑے نام موجود تھے۔ لگتا یہ ہے اور قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ نام کہیں اور سے آیا ہے۔ تحریک انصاف نے محض اسے پیش کرنے کا الزام اپنے سر لیا ہے۔
یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ نگران وزیراعلیٰ کے لیے صوبے کی دونوں بڑی جماعتوں اور ان کی قیادت نے پہلے سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔ انتخابات کے اعلان کے بعد بھاگا دوڑی میں اس پر سوچ بچار ہوا اور جیسے تیسے جو بھی نام آئے کسی سنجیدہ غوروفکر کے بغیر پیش کردیے گئے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن لیڈر دونوں کے نام جلد بازی کے تھے اور اِن کا پروفائل دیکھنے کے بجائے کسی اہم آدمی کے کہنے پر یہ نام پیش کردیے گئے۔ تحریک انصاف نے پہلے سابق سینئر بیوروکریٹ ناصر سعید کھوسہ کا نام پیش کیا تھا جس کے پیچھے بنیادی سوچ یہ کام کررہی تھی کہ وہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے والے بینچ کے اہم رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بھائی ہیں، اس لیے ازخود یہ تصور کرلیا گیا کہ وہ نوازشریف اور اُن کی جماعت کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے ہوں گے۔ حالانکہ یہ مفروضہ درست نہیں تھا، اور اب تحریک انصاف کے لوگ خود یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ناصر سعید کھوسہ نواز، شہباز اور نون لیگ کے آدمی تھے۔ تحریک انصاف کے اہم ترین ذرائع کے مطابق ناصر کھوسہ کا نام جہانگیر ترین نے کپتان کو دیا تھا، کیونکہ جہانگیر ترین جب وفاقی وزیر تھے تو اُس وقت ناصر کھوسہ اُن کی وزارت کے سیکرٹری تھے۔ بعد میں بھی دونوں کے درمیان تعلقات قائم رہے، لیکن جہانگیر ترین ان کی شخصیت کا پورا اندازہ نہ کرسکے۔ بطور بیوروکریٹ وہ ایک دیانت دار اور اہل افسر تھے لیکن ان کے تعلقات کا حلقہ شہباز اور نواز کے ساتھ بھی تھا۔ چنانچہ اگر تحریک انصاف ان کے نام پر ڈٹی رہتی تو مسلم لیگ (ن) اس نام کو عملاً خوشی سے اور بظاہر خاصی مخالفت کے بعد قبول کرلیتی۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر تحریک انصاف کے محمودالرشید نے یہ نام کپتان کی ہدایت پر دیا تھا۔ نام پیش ہونے کے بعد پارٹی کے اندر اور دوسرے ذرائع سے کپتان تک اس نام کے بارے میں تحفظات آنے لگے، چنانچہ کپتان کی ہدایت پر محمودالرشید نے یہ نام واپس لے لیا۔ اس دوران پارٹی اور کپتان کو سبکی سے بچانے کے لیے محمودالرشید پر پارٹی کے اندر سے یہ دبائو ڈالا گیا کہ وہ میڈیا سے کہہ دیں کہ ناصر کھوسہ کا نام انہوں نے اپنے طور پر پیش کردیا تھا، پارٹی نے ہدایت نہیں کی تھی۔ محمودالرشید جہاندیدہ سیاسی کارکن ہیں، کونسلر سے لیڈرآف دی اپوزیشن تک اپنی محنت اور کام کی بنیاد پر پہنچے ہیں۔ وہ صورتِ حال کو بھانپ گئے اور انہوں نے قربانی کا بکرا بننے سے صاف انکار کردیا۔ یہ نام پارٹی اور کپتان نے دیے تھے، انہی کے کہنے پر انہوں نے پیش کردیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی کو سبکی سے بچانے کے لیے اپنا طویل سیاسی کیریئر کیوں تباہ کریں! اس دوران اخبارات اور سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی چلتی رہی کہ محمودالرشید اور میاں شہبازشریف کے درمیان اچھی انڈراسٹینڈنگ ہے اس لیے دونوں نے اپنی اپنی آسانی کے لیے ناصر کھوسہ کا نام دے دیا ہے جو قبول ہوجائے گا۔ حالانکہ اصل صورتِ حال اس سے مختلف تھی کہ یہ نام تو کپتان نے جہانگیر ترین کے کہنے پر دیا تھا۔ بعد میں جب پارٹی نے ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا نام دیا تو محمودالرشید نے یہ نام پیش کردیا جو آخرکار الیکشن کمیشن کے ذریعے فائنل ہوگیا۔ خیال یہی ہے کہ تحریک انصاف نے یہ نام اپنی سابقہ بدنامی اور تنقید کے پیش نظر جلدی میں پیش کردیا، لیکن باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا نام کسی مقتدر حلقے سے اس خیال کے ساتھ آیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اپنا وقت پورا کرنا چاہیں گے اور کسی کے ساتھ مڈبھیڑ یا ڈٹ جانے کے بجائے اپنا کام پورا کرکے گھر چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب مزاجاً لڑائی جھگڑے والے آدمی نہیں ہیں بلکہ ایک صلح جو انسان ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات میں وہ مشاہد حسین سید اور ائر مارشل اصغر خان کے بیٹے عمر اصغر خان مرحوم کے ساتھی ہیں، اس شعبے کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ باہر کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں اور ریڈیو، پی ٹی وی اور دوسرے ٹی وی چینلز پر بطور سیاسی تجزیہ نگار آتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ قبل تک راقم کے ساتھ بھی ریڈیو پاکستان کے حالاتِ حاضرہ کے لیے پروگرام میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ دھیمے مزاج کے اپنے نظریات پر قائم رہنے والے فرد ہیں اور جھگڑوں سے گریز کرتے ہیں۔ جب شعبہ سیاسیات کے سربراہ تھے تو ڈاکٹر صفدر بٹ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انہوں نے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دفاتر میں ہیٹر اور ائرکنڈیشنر چلانے کے اوقات مقرر کردیے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی پروا نہ کی، شکایت ہوئی تو وائس چانسلر کو کہہ دیا کہ وہ سینئر پروفیسر ہیں اور ہیٹر یا ائر کنڈیشنر کی موجودگی میں بہتر کام کرسکتے ہیں۔ وائس چانسلر کا اصرار تھا کہ ضابطے کی پابندی سب کو کرنا پڑے گی۔ اس پر بات بڑھ گئی اور ڈاکٹر صاحب نے استعفیٰ دے دیا جسے وائس چانسلر نے فوراً قبول کرلیا۔ دعا کریں کہ اس بار کوئی اختلاف پیدا ہونے پر ڈاکٹر صاحب استعفیٰ نہ دیں بلکہ اپنا کام پورا کرکے گھر جائیں۔