صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ

چین کے علاوہ کینیڈا اور یورپی یونین سے امریکی کشیدگی

فیض نے کہا تھا:

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے اَنا کے ہوتے ہیں

صدر ٹرمپ کا اندازِ سیاست و فرماں روائی حضرتِ فیض کے اس شعر کی عملی تشریح ہے۔ وہ تقریباً ہر معاملے پر مشیروں کی صلاح اور وزیروں کے مشوروں پر حقارت کی چھری چلاکر وہی کرتے ہیں جس سے ان کی اَنا کی تسکین ہوتی ہو۔ اپریل کے آغاز میں انھوں نے چین کے خلاف تجارتی جنگ یا Trade War کا طبل بجا دیا اور املاکِ دانش یا Intellectual Properties کی چوری کا الزام لگاکر امریکی صدر نے چینی مصنوعات کی درآمد پر 50 ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے متنبہ کیا کہ یہ محض آغاز ہے اور وہ امریکی اداروں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے میکسیکو اور کینیڈا کو بھی دھمکی دینی شروع کردی اور زور دے کر کہا کہ اگر ان کے جنوبی اور شمالی پڑوسیوں نے امریکہ سے تجارت کے باب میں اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو تینوں ملکوں کے درمیان شمالی امریکہ آزاد تجارت معاہدہ یا NAFTA منسوخ کردیا جائے گا۔ کچھ اسی نوعیت کی دھمکی انھوں نے یورپی یونین کو بھی دی۔
صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلسل کہہ رہے تھے کہ امریکی حکومتوں نے دوسرے ممالک سے جو تجارتی معاہدے کیے ہیں اُن میں امریکہ کے مفادات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے، اور ان ممالک نے ہماری منڈیوں میں اپنی سستی مصنوعات کا انبار لگاکر امریکی کارخانوں کو تالا بندی پر مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں امریکی کارکن بے روزگار ہیں۔ اپنے جلسوں میں صدرٹرمپ نے World Trade Organization (WTO)کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ WTO امریکہ کی تباہی کا عالمی معاہدہ ہے۔
چین پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اضافی محصولات عائد کرنے سے قبل ان کی انتظامیہ نے سات مہینے تک امریکی املاکِ دانش کی چوری کی تحقیقات کی ہیں اور انھیں یقین ہے کہ امریکی اداروں اور سائنس دانوں کی روز و شب کی محنت چین کوڑیوں کے بھائو خرید رہا ہے۔ بیجنگ نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جن کے تحت وہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے ڈیزائن کی ساری تفصیلات تقسیم کنندہ کو دینا ضروری ہے، اور مشارکے کی صورت میں اُن مصنوعات کی تفصیلات کی فراہمی پر بھی اصرار کیا جاتا ہے جو چین میں فروخت ہی نہیں ہوتیں۔ انھوں نے چین پر اپنی کرنسی کی قیمت جان بوجھ کر کم رکھنے کا الزام بھی لگایا جس کے لیے انھوں نے Currency Manipulation کی اصطلاح استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کرنسی کی قیمتوں میں ڈنڈی مارنا WTOکی صریح خلاف ورزی ہے، لیکن دنیا نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے چین کی اشک شوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ صدر ژی ان کے بہت اچھے دوست ہیں اور ہم چین سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ انھوں نے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار سازی سے روکنے کے لیے چین کی کوششوں کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔
صدر کے اس اعلان پر چین کے جوابی اقدامات سے پہلے ہی امریکہ کے بازارِ حصص لرز کر رہ گئے اور نیویارک اسٹاک ایکس چینج کو تاریخی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا جو ایک ہی جھٹکے میں 700 پوائنٹ نیچے آگیا۔ بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن اور ایپل سمیت اُن تمام اداروں کے حصص زمین پر آرہے جو چین سے کاروبار کرتے ہیں۔ امریکہ کی تقریباً ہر ریاست براہِ راست چین سے کاروبار کرتی ہے۔ ریاست الاسکا (Alaska)کی ایک چوتھائی سے زیادہ برآمد چین کو ہوتی ہے۔ اسی طرح Illinois, Texas اور Iowaکی زرعی معیشت کا دارومدار چین کو سویابین، مکئی اور کپاس کی برآمد پر ہے، جبکہ West Virginia چین کو کوئلہ برآمد کرتا ہے، اور ان چار ریاستوں سے چین کو 30 ارب ڈالر کی زرعی اجناس اور کوئلہ فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی وسط مغربی ریاستوں سے چین کو گائے کے گوشت اور دودھ، مکھن و پنیر کی فروخت کا تخمینہ کئی ارب ڈالر ہے۔ کسانوں کے ساتھ امریکہ کے تاجروں نے بھی متوقع تجارتی جنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں سے امریکی صارفین زیادہ متاثر ہوں گے، اور اب امریکہ کی دکانوں میں عام استعمال کی چینی مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی۔
چین نے شروع میں تحمل کا مظاہرہ کیا اور امریکی صدر کے اعلان پر چینی وزیراعظم لی کیوانگ (Li Keqiang) نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنگ عسکری ہو یا تجارتی، جنگ جنگ ہے جس میں کوئی فاتح نہیں ہوتا اور عام لوگ نقصان میں رہتے ہیں۔ جب ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا چین امریکی درآمدات پر جوابی قدغن عائد کرے گا؟ تو چینی وزیراعظم نے کہا: ہم ایک غیر جذباتی قوم ہیں اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
زبانی دھمکیوں کے ساتھ صدر ٹرمپ نے درآمدی فولاد پر 25 فیصد اور المونیم پر 10 فیصد اضافی ڈیوٹی لگانے کا اعلان کردیا، جس کے دوسرے دن چینی کاروں پر 25 اضافی محصولات عائد کردیئے گئے۔ جواب میں چین نے امریکہ سے آنے والے سور کے گوشت پر 25 فیصد، گائے کے گوشت پر 20 فیصد، پھل، مچھلی، سبزی اور غذائی اجناس پر 15 فیصد اضافی ڈیوٹی لگا دی۔ اسی کے ساتھ امریکی سویابین اور گوار پر بھی ڈیوٹی لگاکر بیجنگ نے نہلے پہ دہلا جمادیا۔ گویا اُس تجارتی جنگ (Trade War) کا آغاز ہوگیا ہے جس کا امریکی تاجروں کو خوف تھا۔ صدر کے مشیر برائے اقتصادی امور لیری کڈلو (Larry Kudlow) سمیت تمام ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ تجارت کی جنگ میں چین کا پلہ بھاری ہے، اس لیے کہ چین کی امریکہ کو برآمدات اتنی سستی ہیں کہ محصول کے بعد بھی وہ امریکی خام مال اور مصنوعات سے کم قیمت ہوں گی، یعنی محصولات کا سارا بوجھ امریکی صارفین کو برداشت کرنا ہوگا۔ دوسری طرف امریکہ سے برآمد کی جانے والی مچھلی، زرعی اجناس، پھل، سبزی، گوشت، دودھ، مکھن اور پنیر پر عائد کی جانے والی ڈیوٹی سے ایشیا اور یورپ کے تاجروں کو چین سے تجارت کے نئے مواقع مہیا ہوں گے کہ محصولات کے بعد چین کی منڈیوں میں امریکی اجناس دوسرے ملکوں کے مال سے مہنگی ہوجائیں گی۔
دوسری طرف چین نے بین الاقوامی تجارت ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی میں کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ رائٹرز کے مطابق روس اور انگولا اپنے تیل کی قیمت یووان (Yuan) میں لینے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ چین اپنی ضرورت کے تیل کی بڑی مقدار روس، انگولا اور سعودی عرب سے خریدتا ہے۔ چین دنیا میں تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگر چین نے روس اور انگولا کو خام تیل کی قیمت اپنی کرنسی میں وصول کرنے پر رضامند کرلیا تو پھر سعودی عرب بھی چین کو اپنا تیل یوان میں بیچنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس وقت ساری دنیا میں تیل کی خریدوفروخت کا سالانہ حجم 14 ہزار ارب ڈالر ہے، اور اگر اس کا ایک تہائی کاروبار بھی مقامی کرنسیوں میں ہونے لگا تو اس سے دنیا میں ڈالر کی بالادستی متاثر ہوسکتی ہے۔ دودہائی پہلے ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے تیل کی خرید و فروخت کے لیے پیٹروڈالر کے نام سے ایک کرنسی بنانے کی تجویز دی تھی لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس بار ایسا لگ رہا ہے کہ کم ازکم چین کی حد تک تیل کی خریدوفروخت کے لیے ڈالر کا متبادل سامنے آنے والا ہے۔
کچھ ایسا ہی ردعمل میکسیکو، کینیڈا اور یورپی یونین کی طرف سے آیا۔ کینیڈا امریکی زرعی مصنوعات کا بہت بڑا خریدار ہے۔ سیاسی اعتبار سے دیہی امریکہ ری پبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کا گڑھ ہے اور اس مرحلے پر جبکہ چند ماہ بعد وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں، کسانوں میں بے چینی سے ری پبلکن پارٹی اور اُس کے ارکانِ کانگریس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جنھیں اِس سال نومبر میں انتخابات کا سامنا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ محصولات پر عمل درآمد کچھ عرصے کے لیے مؤخر کردیا گیا تاکہ چین، یورپی یونین اور NAFTA ارکان سے بات چیت کرکے کوئی درمیانی راستہ تلاش کرلیا جائے۔
امریکی حکومت کے اس اعلان کا دوسرے ملکوں نے مثبت جواب دیا۔ چین نے اعلان کیا کہ وہ امریکی تجارت کا خسارہ کم کرنے کے لیے امریکی مصنوعات کی خریداری میں اضافہ کرنے پر تیار ہے، اور اس سلسلے میں چینی حکومت نے کہا کہ آئندہ برسوں میں امریکہ سے درآمدات کے حجم کو 200 ارب ڈالر بڑھا دیا جائے گا۔ خیال ہے کہ چین امریکہ سے خام تیل کی کچھ مقدار خریدے گا۔ کینیڈا اور میکسیکو نے NAFTAکی شرائط پر نظرثانی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا اور کینیڈا کے وزیراعظم نے امریکہ سے تجارتی کشیدگی کم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ سے خود ملاقات کی۔ یورپ کے رہنما بھی امریکہ آئے اور ایسا لگا کہ شاید صدر ٹرمپ اس معاملے کو محصولات کے بجائے مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے نوید سنائی کہ ترمیم شدہ NAFTA پر امریکہ سے اتفاقِ رائے ہوگیا ہے اور جلد ہی نئے معاہدے پر دستخط کردیئے جائیں گے۔
افہام و تفہیم کی یہ فضا 30 مئی کو امریکہ کی وزارتِ تجارت کے اس اعلان سے دوبارہ مکدر ہوگئی کہ صدر ٹرمپ نے اپریل میں فولاد اور المونیم پر درآمدی محصولات عائد کرنے کا جو اعلان کیا تھا اُس پر عمل درآمد کا آغاز جمعہ یکم جون سے ہوگا۔ وہائٹ ہائوس کے مطابق امریکہ نے اپنے دوستوں کے مثبت جواب کا انتظار کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا امریکہ کے تحفظ اور سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔ یعنی یہ محض تجارتی جنگ نہیں بلکہ امریکہ کی سلامتی کی جنگ ہے۔ ان الفاظ پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے کہا کہ اگر امریکہ کے تحفظ و سلامتی کو نیٹو اتحادی اور اپنے پڑوسیوں سے خطرہ ہے تو یہ بات ہم سب کے لیے انتہائی سنگین ہے۔ ان پابندیوں سے کینیڈا بری طرح متاثر ہوگا جو ہر سال ساڑھے 5 ارب ڈالر کا فولاد اور ساڑھے 8 ارب ڈالر کا المونیم امریکہ کو فروخت کرتا ہے۔ محصولات سے میکسیکو کی امریکہ کو برآمدات بھی متاثر ہوں گی، چنانچہ کینیڈا اور میکسیکو نے جواب میں امریکی درآمدات پر اسی شرح سے محصولات عائد کردیئے۔ میکسیکو اور کینیڈا جانوروں کا گوشت، دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات، غلہ، پھل، سبزی اور مویشیوں کی خوراک امریکہ سے درآمد کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دیہی علاقوں کے علاوہ صدر ٹرمپ کی اَنا کی قیمت عام امریکیوں کو مہنگائی کے سیلاب کی شکل میں ادا کرنی ہوگی۔ مکان اور کار سے لے کر کمپیوٹر، اور الکحل سے لے کر کوکاکولا تک ہر چیز مہنگی ہوجائے گی، کہ تمام مصنوعات میں فولاد، المونیم یا ان سے بنی ہوئی چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ تجارتی جنگ کے خوف نے گزشتہ صدمے سے بمشکل سنبھلے بازارِ حصص کو ایک بار پھر مندی کا شکار کردیا اور بازار 200 پوائنٹس نیچے آگیا۔ چین نے امریکہ کو خبردار کیا کہ اگر اس نے تجارتی پابندیوں اور نئے درآمدی محصولات کو نافذ کرنے پر اصرار کیا تو دونوں ملکوں کے مابین تجارتی مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، اور کشیدگی کے ماحول میں تجارتی معاہدے کی توقع فضول ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیجنگ نے امریکہ سے درآمدات کا حجم بڑھانے کی پیشکش بھی واپس لے لی۔ یہ بیان واشنگٹن میں امریکی وزیر تجارت ولبر راس اور چین کے نائب وزیراعظم لیوکی ملاقات کے بعد سامنے آیا، جس میں چین نے کہا تھا کہ بیجنگ تجارتی عدم توازن کم کرنے کے لیے زیادہ امریکی مصنوعات خریدنے پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے۔ ولبر راس کو ایسا ہی جواب دو دن بعد بیجنگ میں بھی سننا پڑا جہاں وہ امریکہ اور چین کے درمیاں تجارت کے عدم توازن پر بات کرنے گئے تھے۔
جی سیون ممالک نے بھی امریکہ کی جانب سے المونیم اور اسٹیل پر درآمدی محصولات میں اضافے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکہ کے اتحادی ملکوں کے وزرائے خزانہ کو منانے کے لیے امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منوچن کینیڈا آئے لیکن وہ اپنے حلیفوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور تین روزہ کانفرنس بے نتیجہ رہی۔ ترمیم شدہ NAFTA معاہدے کو 5 سال تک محدود کرنے کے اصرار سے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان بدمزگی مزید بڑھ گئی اور وزیراعظم ٹروڈو نے NAFTAکو آخری شکل دینے کے لیے امریکہ جانے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا ہر پانچ سال بعد اعصاب شکن مذاکرات پر وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں۔
تجارتی پابندیوں پر صدر ٹرمپ کا اصرار اس لحاظ سے غیر منطقی ہے کہ ری پبلکن پارٹی سرمایہ دارانہ نظام یا Capitalismکی حامی ہے، اور آزادانہ تجارت سرمایہ دارانہ نظام کی روح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ WTOکی امریکہ اور یورپ نے زبردست حمایت کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بین الاقوامی تجارت کو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ آزاد تجارت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ تجارت پر پابندیوں کا خاتمہ بڑی کارپوریشنوں کے مقابلے میں چھوٹے تاجروں اور کارخانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے جو برآمدات کو اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
ان پابندیوں سے تجارت و معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوں گے وہ اپنی جگہ، لیکن صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان اختلافات بڑھتے جارہے ہیں۔ جی سیون کے اجلاس میں فرانس کے وزیرخزانہ نے صاف صاف کہا کہ یورپی یونین نے بھی جوابی کارروائی کے لیے امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کرلی ہے۔ یورپی دارالحکومتوں کی سیاسی و سفارتی نقل و حرکت سے ایسا لگ رہا ہے کہ اب نئے اتحاد بنیں گے اور تجارتی مفادات نئی رفاقتوں کو جنم دیں گے۔ کینیڈا فولاد اور المونیم کی فروخت کے لیے یورپی یونین کی طرف دیکھ رہا ہے، اور پھر سب سے بڑھ کر چین اور امریکہ کے نیٹو اتحادی قریب آرہے ہیں۔ چین گوشت، ڈیری اور زرعی اجناس کے لیے جرمنی، برطانیہ، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک سے بات چیت میں مصروف ہے۔ چین کو سبق سکھانے کی امریکی خواہش اپنی جگہ، لیکن فولاد اور المونیم پر لگنے والے محصولات سے اصل نقصان جنوبی کوریا، برازیل اور ہندوستان کا ہے کہ چین تو خود فولاد اور المونیم کا سب سے بڑا درآمدی ہے۔ دوسری جانب چین نے گوشت اور زرعی اجناس پر ڈیوٹی عائد کرکے دیہی امریکہ میں صفِ ماتم بچھادی ہے اور صدر ٹرمپ پر خود ان کی پارٹی کی طرف سے دبائو بڑھ گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کے ان اقدامات کا اصل فائدہ چین کو ہوگا جو اپنے صدیوں پرانے شاہراہِ ریشم خواب کی دورِ حاضر کے تقاضے سے ہم آہنگ تعبیر Belt and Road Infrastructure کی شکل میں تلاش کرچکا ہے۔ صدر ٹرمپ کے جذباتی اقدامات سے اُن منڈیوں کے دروازے بھی چین کے لیے کھل سکتے ہیں جن پر نظریاتی قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کے اقتصادی مشیر لیری کڈلو اب بھی پُرامید ہیں کہ محصولات عائد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرلیا جائے گا۔ لیکن جی سیون کانفرنس کے منفی نتائج اور امریکی وزیرتجارت کے ناکام دورۂ چین سے کڈلو صاحب کے بیان کو خوش فہمی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا، اور ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی معیشت کے حالیہ اقبال پر شیخی بگھارتے صدر ٹرمپ کی اَنا ہی اس عفیفہ کے زوال کا سب بنے گی۔