نواز شریف کے بعد جنرل اسد درانی کی غداری

میاں نوازشریف کو اگر پاکستان کی سیاست کا جنرل درانی، اور جنرل درانی کو پاک فوج کا کامیاب نوازشریف قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، میاں نوازشریف نے سیاست کے دائرے میں بھارت پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے، اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے عسکری تشخص کے دائرے میں بھارت نوازی کا شرمناک مظاہرہ کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’بھارت پوجا‘‘ کے حوالے سے وطنِ عزیز میں سول اور فوجی کی تفریق مٹ گئی ہے۔ بقول شاعر:
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیرے ’’دربار‘‘ میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے… ایک قومی المیہ۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ جنرل(ر) اسد درانی نے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ مل کر “The Spy Chronicles RAW ISI and the Illusion of Peace” کے عنوان کے تحت جو کتاب تصنیف کی ہے اس میں بڑی افسوس ناک باتیں موجود ہیں۔ مگر اصولی اعتبار سے یہ اس سلسلے کا ثانوی اعتراض اور ثانوی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ اور اصل اعتراض یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے پاک بھارت تعلقات کی پوری تاریخ کو پسِ پشت ڈال کر ایک ایسی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے کی جرأت کیسے کی جو1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی ذمے دار تھی اور جو آج بھی پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ فوجی اہلکار خود اس امر کا انکشاف کرچکے ہیں کہ را نے صرف سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ را اگر ایک پاکستانی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کررہی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پورے پاکستان کے خلاف اُس کے خوف ناک منصوبوں اور اُن کے لیے مختص کیے جانے والے مالی وسائل کی وسعت کا کیا عالم ہوگا؟ یہ بات ہمیں معلوم ہے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کو بھی معلوم ہوگی۔ مگر میاں نوازشریف اور جنرل درانی دونوں نے گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگانے کی مثال قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
میاں نوازشریف کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھارت کے وزیراعظم اندر کمار گجرال تھے تو میاں صاحب اُن کے ایسے عاشق تھے کہ پاک بھارت تعلقات ’’نواز گجرال تعلقات‘‘ نظر آتے تھے۔ گجرال کی جگہ واجپائی آئے تو پاک بھارت تعلقات ’’نواز واجپائی تعلقات‘‘ کا منظر پیش کرنے لگے۔ نریندر کمار مودی بھارت کے وزیراعظم بنے تو یہ تاثر عام ہوا کہ پاک بھارت تعلقات دراصل ’’نواز مودی تعلقات‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے جنرل اسد درانی نے را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر جو ’’تخلیقی کارنامہ‘‘ انجام دیا اُسے دیکھ کر خیال آیا کہ پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں آئی ایس آئی اور را کے تعلقات ہیں۔ لیکن جرنیل ہوں یا سیاست دان… دانش ور ہوں یا صحافی… مؤرخین ہوں یا اساتذہ… سب کو پاک بھارت تعلقات کے بارے میں ایک بنیادی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ پاک بھارت تعلقات نواز مودی تعلقات نہیں، آئی ایس آئی اور را کے تعلقات نہیں، دو فوجوں کے تعلقات نہیں۔ اس کے برعکس پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں دو مذاہب کے تعلقات ہیں، دو تہذیبوں کے تعلقات ہیں، دو تاریخوں کے تعلقات ہیں، دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ جس شخص کو یہ بات معلوم ہے اسے پاک بھارت تعلقات کی ہر بات معلوم ہے۔ اور جسے یہ بات معلوم نہیں اُسے پاک بھارت تعلقات کی کوئی بات معلوم نہیں خواہ وہ کوئی سیاست دان ہو یا جرنیل، یا آئی ایس آئی کا سابق یا موجودہ سربراہ۔ اس تناظر میں پاکستان اور بھارت مذاکرات کریں گے تو اپنی اصل کے تناظر میں۔ ان کے درمیان کشیدگی ہوگی تو پاک بھارت تعلقات کی اصل کے حوالے سے۔ یہاں تک کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کی جنگ بھی ہوگی تو پاک بھارت تعلقات کی اصل کی روشنی میں۔ کچھ عرصہ قبل آئی ایس پی آر کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے ایک بہت اچھا بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ شخصیات اہم نہیں ہیں، ادارے اہم ہیں۔ ادارے بھی اہم نہیں ہیں، اُن سے زیادہ ملک اہم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مگر آصف غفور کے اس بیان میں ایک بہت ہی بڑا عیب ہے، انہیں ملک سے بھی آگے جانا چاہیے تھا، اس لیے کہ پاکستان میں پاکستان سے بھی زیادہ ایک اہم چیز ہے، وہ ہے نظریہ، جس نے خود پاکستان کو تخلیق کیا۔ یہ نظریہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مگر ہمارے اکثر سیاست دان ہوں یا جرنیل، صحافی ہوں یا دانش ور… کوئی بھی پاکستان کے نظریے کو یاد نہیں رکھتا۔ نظریہ سبھی ملکوں کے لیے اہم ہوتا ہے مگر پاکستان کا نظریہ پاکستان کے لیے ہوا اور پانی کی طرح اہم ہے۔ بعض احمق کہتے ہیں کہ پاکستان جمہوری جدوجہد سے قائم ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا تاریخی جھوٹ ہے۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے، اور اکثریت کے اصول کے تحت برصغیر کے مسلمانوں کو بھارت کی ہندو اکثریت کے غلبے کو تسلیم کرلینا چاہیے تھا۔ سرسید انگریزوں کی ہر چیز کے عاشق تھے، مگر انہوں نے انگریزوں کی جمہوریت پر تھوک دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ مسلمان ایک جلی ہوئی رسّی کی طرح ہیں۔ رسّی جل گئی ہے مگر اس کے بل نہیں گئے ہیں۔ یعنی مسلمان برصغیر کے حاکم رہے ہیں اور وہ کسی بھی طرح ہندوئوں کے غلبے کو نہیں مان سکتے۔ اقبال نے اپنے خطبات میں پارلیمنٹ کا پرچم بلند کیا ہے مگر خطبۂ الٰہ آباد میں انہوں نے جمہوریت کو ایک طرف پھینک کر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی بات کی ہے۔ قائداعظم نے اس بحث کو ایک نیا رخ دیا۔ انہوں نے کہا کہ انگریز اور ہندو مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ کہتے ہیں، مگر مسلمان ’’اقلیت‘‘ نہیں ایک ’’قوم‘‘ ہیں۔ قائداعظم کے زمانے میں قوم کی تعریف نسل، جغرافیہ اور زبان سے متعین ہورہی تھی، مگر قائداعظم نے قوم کی اس تعریف کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں دو قومی نظریے پر اصرار کیا، اور دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام تھا، اس سے برآمد ہونے والی تہذیب تھی، اس سے نمودار ہونے والی تاریخ تھی، اس سے آشکار ہونے والے ہیروز تھے۔ قائداعظم اس نظریے پر اصرار نہ کرتے تو نہ وہ مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ کے بجائے ’’قوم‘‘ ثابت کر پاتے، اور نہ اس کے ’’جداگانہ تشخص‘‘ پر اصرار کے لیے اُن کے پاس کوئی اہم دلیل ہوتی۔ اس تناظر میں پاک بھارت تعلقات دائمی طور پر دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ جو شخص یہ بات نہیں مانتا یا اس پر عمل نہیں کرتا وہ خواہ کوئی ہو پاکستان، اس کے نظریے، اس کی تہذیب اور اس کی تاریخ کا شعوری یا لاشعوری طور پر غدار ہے۔
بدقسمتی سے جنرل درانی کی کتاب کے اقتباسات 21 مئی سے اخبارات بالخصوص روزنامہ جنگ میں شائع ہورہے تھے مگر جنرل باجوہ اور آئی ایس پی آر نے ان اقتباسات کا 25 مئی تک کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس سے یہ خیال عام ہوا کہ شاید جنرل درانی کی کتاب کی پشت پر فوجی اسٹیبلشمنٹ موجود ہے۔ مگر ان اقتباسات پر سوشل میڈیا میں ہنگامہ ہوا تو اسٹیبلشمنٹ نے 25 مئی 2018ء کو جنرل درانی کے برپا کیے ہوئے تماشے کا نوٹس لیا۔ آئی ایس پی آر نے 25 مئی 2018ء کو رات 11 بج کر 58 منٹ پر اس سلسلے میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جنرل درانی کو 28 مئی 2018ء کے روز جی ایچ کیو میں طلب کرلیا گیا ہے۔ یہ ایک اچھی پش رفت ہے۔ کاش اس پیش رفت میں ہونے والی تاخیر کی بھی کوئی وضاحت آجائے تو اچھا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل درانی نے را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ مل کر جو کچھ کیا وہ نیا نہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان نے 6 اکتوبر2017ء کو لندن اسکول آف اکنامکس میں امر جیت دولت کے ساتھ ایک مشترکہ پروگرام کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے تھا، سرحدوں پر اُس کی جارحیت بڑھ رہی تھی، مگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان را کے سابق سربراہ کے ساتھ اس طرح تشریف فرما تھے جیسے دو بچھڑے ہوئے بھائی کئی دہائیوں کے بعد ملے ہوں اور دنیا کو بتا رہے ہوں کہ وہ کیسے بچھڑے تھے اور کیسے ملے تھے۔ یہ ملاقات پاکستان، پاکستانی قوم اور کشمیر کے شہدا کا مذاق اڑانے کے مترادف تھی، اور اس ملاقات سے بھی یہی تاثر عام ہورہا تھا کہ پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں آئی ایس آئی اور را کے تعلقات ہیں۔ چونکہ اس ملاقات پر ہنگامہ برپا نہ ہوسکا اس لیے جی ایچ کیو اور آئی ایس پی آر نے بھی اس کا ’’نوٹس‘‘ نہیں لیا۔ ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘ کے مصداق اس ملاقات پر قومی ردِعمل سامنے آگیا ہوتا تو شاید پاکستان اور پاکستانی قوم جنرل درانی کی تخلیق کی ہوئی ذلت اور شرمندگی سے محفوظ ہوجاتے۔ تجزیہ کیا جائے تو جنرل احسان اور دولتؔ کی ملاقات بھی کم افسوس ناک نہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں جنرل احسان نے ہنس ہنس کر را کے سابق سربراہ کو ’’لطیفے‘‘ سنائے۔ ایک ایسی ایجنسی جو آدھا پاکستان توڑ چکی ہے اور باقی ماندہ پاکستان کو فنا کرنے پر تلی ہوئی ہے اُس کے سابق سربراہ کو ’’لطیفے‘‘ سنانا دو قومی نظریے، اقبال اور قائداعظم کی فکر کی تذلیل کے سوا کیا ہے! ویسے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستانی جرنیل بھارت کے اعلیٰ اہلکاروں کو ہمیشہ لطیفے سناتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں؟ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا ہورہا تھا اور کرنل صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ کے مطابق جنرل نیازی بھارتی جنرل کو ’’فحش لطیفے‘‘ سنا رہے تھے۔ جنرل احسان کے لطیفوںکے بارے میں قومی سلامتی سے متعلق ادارے ہی قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں کہ وہ فحش تھے یا نہیں۔ بالفرض جنرل احسان کے لطیفے فحش نہیں تھے تو بھی سوال یہ تھا کہ وہ لندن اسکول آف اکنامکس میں را کے سابق سربراہ کے ساتھ کیا کررہے تھے اور جی ایچ کیو نے اس ملاقات کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آئی ایس آئی کا ایک سربراہ نہیں بلکہ دو سابق سربراہ ’’را‘‘ کے سربراہ کے ساتھ کھلے عام رابطوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خفیہ رابطوں کا حال خدا ہی کو معلوم ہے۔ بہرحال جہاں تک جنرل درانی کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ را کے ایک سابق سربراہ نے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کو اپنے ریاستی مقاصد کے لیے ٹشوپیپر کی طرح استعمال کیا اور تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے ساتھ بھارت یہ سلوک کرسکتا ہے تو پھر باقی لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل احسان اور جنرل درانی دونوں، بالخصوص جنرل درانی نے ایک اہم ترین قومی ادارے پر قوم کے اعتبار اور اعتماد کو مجروح کیا ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ فوج کا وہ نظام کیسا ہے جس سے گزرنے کے باوجود جنرل احسان اور جنرل درانی جیسے لوگ اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچے اور کسی کو ان کی اصل شخصیت کا اندازہ نہ ہوسکا۔
بدقسمتی سے اس سلسلے میں ہمارے جرنیلوں کی تاریخ حقیقی معنوں میں افسوس ناک ہے۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا، مگر امریکہ کی شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو وہ ضرور ایسا کرتے، مگر اس کے لیے امریکی آشیرباد کی کیا ضرورت تھی؟ جنرل ایوب کی امریکہ پرستی اتنی بڑھی کہ انہیں Friends not Masters جیسی کتاب لکھ کر قوم کو ’’باور‘‘ کرانے کی ’’نفسیاتی ضرورت‘‘ محسوس ہوئی کہ ہم امریکہ کے ’’دوست‘‘ ہیں اُس کے ’’غلام‘‘ نہیں۔ جنرل نیازی سقوطِ ڈھاکا یعنی ملک کی تباہی کے دن بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُن کی علمی و اخلاقی اور عسکری تربیت کا کیا عالم رہا ہوگا۔ سقوطِ ڈھاکا قریب تھا کہ ایک فوجی اہلکار جنرل یحییٰ کے پاس پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ جنرل یحییٰ ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ فوجی اہلکار نے ٹی وی بند کرنے کی کوشش کی تو جنرل یحییٰ نے کہا ’’ٹی وی کھلا رہنے دو، ابھی نورجہاں کا گیت آنے والا ہے‘‘۔ جنرل جہانگیر کرامت نے ریٹائر ہوتے ہی امریکہ کا ایک تھنک ٹینک جوائن کرلیا۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ صرف اپنے مہروں کو تھنک ٹینک میں کھپاتا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد اچانک اپنا قبلہ، اپنے دوست اور اپنے دشمن بدلے تو ہمیں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمیدگل سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے جنرل پرویز پر تنقید کی تو جنرل حمیدگل نے برا منایا، کہنے لگے ’’جنرل پرویز میرا شاگرد رہا ہے، آپ اُس کی کیمسٹری نہیں جانتے‘‘۔ ہم نے کہا کہ آپ کا خیال درست ہوگا مگر جنرل پرویز کی کیمسٹری کیا ہے؟ مرحوم کہنے لگے ’’وہ کبھی بھی پاکستان کے مفادات کا سودا نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے سر پر ایک بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے اور جنرل پرویز اسے ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے، وہ جو کچھ کررہے ہیں امریکہ کے لیے کررہے ہیں اور پورے کمٹمنٹ کے ساتھ کررہے ہیں۔ جنرل صاحب کہنے لگے ’’ایسا نہیں ہے‘‘۔ مگر اس انٹرویو کے چند ماہ بعد جنرل حمیدگل خود جنرل پرویز کے بارے میں وہی کہنے لگے جو ہم نے اُن سے کہا تھا۔ اب جنرل درانی نے بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے کا ’’خیالی‘‘ نہیں ’’عملی‘‘ مظاہرہ کیا ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر رونا آتا ہے اور ذہن سوال اٹھاتا ہے کہ کیسے کیسے اہم مناصب پر کیسے کیسے معمولی لوگ فائز رہے ہیں اور (شاید) اب بھی ہوں گے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا وہ حال نہ ہوتا جو ہے۔ جنرل حمیدگل نے اپنے انٹرویو میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ہماری فوج کا نظامِ تعلیم و تربیت ابھی تک نوآبادیاتی ہے۔ کہنے لگے کہ آرمی میں ابھی تک بائرن اور شیلے پڑھائے جاتے ہیں، حالانکہ میں کہتا ہوں کہ اقبال کو پڑھائو اقبال کو۔ ہم نے کہا کہ آپ صرف کہتے ہی کیوں رہے؟ آپ تو جنرل ضیا کے قریب تھے اور آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، آپ کو تو ’’عملاً‘‘ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اس بات کا جنرل صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس فوجی کو اقبال کے ایک ہزار شعر یاد نہ ہوں اور ان کی تشریح معلوم نہ ہو اُسے میجر کے عہدے کے قابل نہ سمجھا جائے۔ جسے اقبال کے تین ہزار شعر مع تشریح یاد نہ ہوں اسے میجر جنرل، اور جسے اقبال کے چار ہزار شعروں پر کامل دسترس نہ ہو اُسے لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ نہیں ملنا چاہیے۔ ہمارا آرمی چیف تو ہونا ہی اُس شخص کو چاہیے جسے اقبال کے تمام بڑے تصورات کے ہر پہلو کا بھرپور علم ہو۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ پاک فوج میں کیسے جنرل نیازی، جنرل یحییٰ خان، جنرل کرامت، جنرل پرویزمشرف، جنرل احسان اور جنرل درانی پیدا ہوتے ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق جنرل درانی نے ’را‘ زدہ کیفیت میں پاکستان اور بھارت کی کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز پیش کرکے جنرل درانی نے پاکستان کے نظریے، تہذیب، تاریخ، قوم، اقبال اور قائداعظم پر تھوک دیا ہے۔ لیکن یہ تجویز صرف جنرل درانی کو نہیں، ایک ذہنی سانچے کو Define کررہی ہے۔ امریکہ یہی چاہتا ہے، یورپ یہی چاہتا ہے، میاں نوازشریف یہی چاہتے ہیں (بلکہ وہ تو گریٹر پنجاب تک پر آمادہ ہیں)، ممکن ہے اسٹیبلشمنٹ میں بھی کچھ لوگ یہی چاہتے ہوں، اور بعض حقائق کی بنیاد پر خیال آرہا ہے کہ شاید چین بھی یہی چاہتا ہو۔ اس تجزیے کی بنیاد یہ ہے کہ چین بھارت تعلقات تیزی کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں۔ چین فنانشل ٹاسک فورس کا صدر منتخب ہوا تو چین کے پرانے دشمن بھارت کے نمائندے نے آگے بڑھ کر چین کو مبارک باد دی۔ بھارت میں مقیم تبت کے رہنما دلائی لامہ بھارت میں اپنی آمد کی سالگرہ اہتمام سے مناتے رہے ہیں مگر اِس سال بھارت نے دلائی لامہ کو ایسا کرنے سے روک دیا، اور دلائی لامہ کی تقریب میں کوئی بھارتی اہلکار شریک نہیں ہوا۔ چین اور بھارت اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ نریندر مودی نے چین کے حالیہ دورے میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ تنہائی میں پانچ ملاقاتیں کیں جنہیں Heart to Heart ملاقات کا نام دیا گیا۔ بھارت بظاہر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی تیار نہیں تھا مگر اچانک معلوم ہوا کہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں چین اور روس کی فوجوں کے ساتھ مل کر جلد ہی مشترکہ مشقیں کرنے والی ہیں۔ دی نیوز کی ماریانہ بابر نے اس حوالے سے ایک خصوصی خبر فائل کی۔ اس خبر میں کہا گیا تھا کہ بھارت، چین، روس اور پاکستان کی مشترکہ فوجی مشقوں کی خبر نے مغربی ممالک کے اعلیٰ اہلکاروں کو چونکا دیا ہے اور سوال کیا جارہا ہے کہ جو بھارت اور پاکستان “Talking Terms” پر بھی نہیں تھے وہ اچانک مشترکہ فوجی مشقوں پر کیسے آمادہ ہوگئے۔ مشترکہ جنگی مشقوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس کی پشت پر چین ہے۔ ہم فرائیڈے اسپیشل کے ایک حالیہ کالم میں عرض کرچکے ہیں کہ ابھی تک چین اور روس کے تعلقات تزویراتی نہیں، تاہم دونوں ممالک تزویراتی تعلقات کے قیام کی طرف گئے تو امریکہ کے اتحادی بھارت کے لیے بڑی مشکل کھڑی ہوجائے گی اور اُسے امریکہ کے ساتھ اتحاد پر غور کرنا پڑے گا۔ ابھی اس عمل کا ’’آغاز‘‘ تو ہمارے سامنے نہیں، مگر ہمیں اس جانب متوجہ رہنا چاہیے۔ رہنما کی ایک تعریف یہ ہے کہ رہنما خود ہار جاتا ہے مگر قوم کو جتا دیتا ہے، مگر پاکستان کو وہ رہنما میسر رہے ہیں جو اپنی جیت کے لیے قوم کو ہرا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی قیادت کسی بحران میں قوم کو اعتماد میں نہیں لیتی۔ نہیں بتاتی کہ پردے کے سامنے اور پردے کے پیچھے کیا ہورہا ہے؟ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور جنرل درانی اور را کے سابق سربراہ کی ملاقاتوں اور تصنیف کے کیا معنی ہیں؟۔