محمد الطاف صاحب کا تعلق کشمیر کی وادیٔ نیلم کے علاقے لوات بالا سے ہے۔ مڈل تک ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد دینی تعلیم کے لیے اسلامک سینٹر میرپور میں داخلہ لیا، جہاں سے حفظِ قرآن حکیم اور چار سال تک درس نظامی کی تعلیم مکمل کی، پھر جامعہ عربیہ گوجرانوالہ منتقل ہوگئے۔ تین سال یہاں سے تحصیلِ علم کے بعد ایک سال دارالعلوم منصورہ میں زیر تعلیم رہے، اور یہیں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اور لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری بھی حاصل کرچکے ہیں۔
جمعیت طلبہ عربیہ اور چھوٹے بچوں کی تنظیم ’’بزم قرآن‘‘ سے شناسائی اسلامک سینٹر میرپور ہی میں ہوگئی تھی، اور مختلف اوقات میں بزم قرآن آزاد کشمیر اور بزم قرآن پنجاب کے صوبائی ناظم کی ذمے داری ادا کرتے رہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے ضلعی ناظم اور تین سال تک آزاد کشمیر کے منتظم بھی رہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ کے معاون امینِ عام اور تین سال تک امینِ عام (سیکریٹری جنرل) کی ذمے داریاں بحسن و خوبی نبھا چکے تو اِس سال 22-21 اپریل کو جامع مسجد الہدیٰ کراچی میں منعقدہ اجتماع میں جمعیت کے ارکان نے انہیں آئندہ سال کے لیے منتظم اعلیٰ منتخب کرلیا۔ جمعیت طلبہ عربیہ، دینی مدارس اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کے حوالے سے ان سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: الطاف صاحب! طلبہ اور نوجوانوں کی پہلے سے موجود بہت سی تنظیموں کے ہوتے ہوئے جمعیت طلبہ عربیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی انفرادیت اور افادیت کیا تھی؟
محمد الطاف:اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یقینا معاشرے میں نوجوانوں اور طلبہ کی بہت سی تنظیمیں موجود تھیں، مگر دینی مدارس جو اسلام کا گہوارہ کہلاتے ہیں، یہاں طلبہ کو اقامتِ دین کے حقیقی مقاصد اور نصب العین کے گرد جمع کرنے والی کوئی مؤثر تنظیم موجود نہیں تھی، بلکہ اکثر دینی مدارس فرقہ واریت اور مناظرہ بازی کے مراکز بن چکے تھے جہاں فروعی مسائل، تعصب اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر تعلیم دی جاتی تھی۔ ان مدارس میں وسعتِ قلبی اور باہمی رواداری کے فقدان کے ساتھ علمی تحقیق کا رواج بھی ختم ہوچکا تھا۔ انہی حالات میں 10 محرم الحرام 1395ھ (13 جنوری 1975ء) کو چند پاکیزہ صفت نوجوان لاہور میں قاری ابوطیب کی دعوت پر جمع ہوئے اور جمعیت طلبہ عربیہ کی بنیاد رکھی، تاکہ دینی مدارس کے طلبہ کو فرقہ واریت، علاقائی تعصبات، لسانیت اور مسلکی بتوں کو توڑ کر باہمی اتحاد اور رواداری کے مقاصد پر منظم کیا جا سکے، اور انہیں اسلام کا حقیقی علم حاصل کرنے اور اسے عملاً اپنی زندگیوں میں اپنانے کی دعوت دی جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: جمعیت طلبہ عربیہ اپنی زندگی کے چالیس سال سے زیادہ گزار چکی ہے۔ نصب العین کی جانب اپنے سفر میں آج آپ کس منزل پر کھڑے ہیں؟
محمد الطاف: ہمارا بنیادی مقصد دینی مدارس کے طلبہ کو انتشار سے بچاکر اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا کرنا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں مدارس کی غالب اکثریت فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر قائم ہو، ہمارا کام آسان نہیں تھا، تاہم اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور ہمارے ساتھیوں کی مسلسل محنت اور تگ و دو کا نتیجہ ہے کہ آج تمام مکاتبِ فکر کے طلبہ جمعیت طلبہ عربیہ سے وابستہ ہیں۔ عزم مصمم کے حامل 23 طلبہ کے ساتھ سفر کا آغاز کرنے والے قافلے میں آج جمعیت کے 650 ارکان، 8 ہزار رفقا، 30 ہزار کارکنان اور ایک لاکھ سے زائد حامیان موجود ہیں۔ فرقہ واریت کی شدت کے باعث جن مدارس میں ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، آج ان میں سے اکثر میں جمعیت طلبہ عربیہ کے کارکنان اور شاخیں موجود ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ معاشرے اور خصوصاً مدارس کے ماحول میں برداشت اور وسعتِ ظرفی کو فروغ دیا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: اتحادِ امت کے لیے کام کی اساس کیا ہوسکتی ہے؟
محمد الطاف: اس کام کی اساس قرآن ہے، ہمارا یعنی تمام مکاتبِ فکر کے مسلمانوں کا اللہ ایک ہے، نبیؐ ایک، دین ایک، قبلہ اور شریعت بھی ایک… اور یہی اتحادِ امت کی بنیاد اور اساس ہے، جسے سب مانتے اور جس پر سب متفق ہیں۔ اختلافات تو فروعی اور فقہی ہیں، جس کا ایک اہم سبب علم کے لحاظ سے ہمارا پیچھے رہ جانا بھی ہے۔ جمعیت نے ’’آئو کتاب پڑھیں‘‘ کے عنوان سے ایک مہم منظم کرنے کا بھی پروگرام بنایا ہے، ہم اگر کتاب کو دوست بنا لیں، کتاب سے تعلق مضبوط کرلیں تو ہمارے لیے نئے نئے راستے کھلیں گے۔ ایک وقت تھا کہ صرف خلیفہ معتصم بااللہ کے گھر کی ذاتی لائبریری میں چار ہزار کتب تھیں، جب کہ پورے یورپ میں کتب کی تعداد چار سو سے زائد نہ تھی۔ مسلمانوں کی ترقی کا راستہ یہی ہے کہ علم میں رسوخ بڑھائیں۔ ہم اپنی کتاب مہم میں دینی مدارس کے طلبہ اور عام لوگوں کو کیمپ لگاکر غیر نصابی کتب کے مطالعے کی جانب متوجہ کریں گے تاکہ قوم میں کتاب سے محبت بڑھے اور جہالت کا خاتمہ ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: جمعیت کی عمومی سرگرمیوں کا محور کیا ہوتا ہے؟
محمد الطاف:گزشتہ چالیس سال سے زائد عرصے میں جمعیت نے مختلف مہمات منظم کیں جن میں اتحادِ امت، غلبۂ اسلام، سالمیتِ پاکستان، تحفظ نظریۂ پاکستان، تحفظ دینی مدارس اور دینی مدارس کے طلبہ کے حقوق شامل ہیں۔ ان مہمات کے نتیجے میں ہمیں اپنی دعوت پھیلانے اور اثر رسوخ بڑھانے کے مواقع ملے۔ اس کے علاوہ ہم دینی مدارس کے طلبہ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مختلف پروگرام بھی منظم کرتے ہیں جن میں طلبہ کی عربی اور انگریزی زبان میں مہارت کے لیے خصوصی کورس کرائے جاتے ہیں، جب کہ تقریری صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے تربیت گاہیں منعقد کی جاتی ہیں۔ ہم طلبہ میں تحقیق کو فروغ دینے کے لیے بھی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھوائے جاتے ہیں۔ اسی طرح جدید طریقۂ تدریس سے آگاہی کے لیے اساتذہ کے تربیتی کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ یوں جمعیت طلبہ عربیہ نظامِ تعلیم میں موجود دوئی اور خلا کو پُر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:مختلف مسالک کے طلبہ کو قریب لانے کے لیے بھی کوئی سرگرمی آپ کے پیش نظر ہے؟
محمد الطاف: میں نے جتنی بھی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے ان میں مختلف مسالک کے طلبہ شریک ہوتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ باہم اتحاد و یگانگت کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے گزشتہ اٹھارہ سال سے اتحاد تنظیمات مدارسِ عربیہ کے پانچ بورڈز کے پوزیشن ہولڈر طلبہ میں انعامات تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے، ان تقریبات میں ہم مختلف مسالک کے علمائے کرام کو مہمانانِ خصوصی کے طور پر مدعو کرتے ہیں اور اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ہماری نجات کسی مسلک نہیں، اقامتِ دین کی جدوجہد ہی سے ممکن ہے، اور اتحاد کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلک کو پیچھے رکھ کر دین کو آگے رکھیں اور اتحاد و یک جہتی سے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مگر اب تو فرقہ واریت مقامی سطح سے بڑھ کر عالمی سطح تک پہنچ گئی ہے اور امتِ مسلمہ کے مختلف ممالک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ اس باہمی تصادم کو روکنے کے لیے اسلامی تحریکیں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟
محمد الطاف: اصل میں سب سے بڑا طاغوت خود امریکہ ہے۔ اسرائیل اور بھارت اُس کے ساتھی ہیں۔ یہ طاغوت اب براہِ راست حملے کے بجائے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دُور بیٹھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سعودیہ اور ایران میں کشیدگی ہو، شام میں فاسفورس بموں کا استعمال ہو، پاکستان میں دہشت گردی ہو، یا کسی دوسرے مسلمان ملک میں تباہی و بربادی… ہر جگہ آپ کو امریکہ کا کردار واضح نظر آئے گا۔ شیعہ سنی فساد میں امریکہ دونوں جانب اسلحہ دیتا ہے تاکہ مسلمان آپس میں لڑ کر کمزور ہوں اور ایک دوسرے کا جانی و مالی نقصان کریں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ امت بے حسی کی نیند سوئی ہوئی ہے۔ مگر ہم مایوس نہیں، امید ہے امتِ مسلمہ جلد متحد ہوگی۔ طیب اردوان کا اس ضمن میں کردار نمایاں ہے۔ امید ہے کہ مزید قائدین بھی امت کو ملیں گے۔ کشمیر اور فلسطین میں حکومتی مظالم کے سامنے مسلمان نوجوان سینہ تانے کھڑے ہیں، یہ لہر مزید پھیلے گی اور دنیا بھر کے مسلم نوجوان طاغوت کے ظلم کو شکست دینے کے لیے میدانِ عمل میں آئیں گے، کیونکہ دنیا بھر میں مسلمان نوجوان، امت کی موجودہ زبوں حالی پر اضطراب سے دوچار ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اسرائیل طویل عرصے سے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ اب امریکہ نے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرکے اس قبضے پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس پر احتجاج کرنے والے درجنوں مسلمان نوجوانوں کو شہید اور سینکڑوں کو اسرائیلی فوج نے زخمی کردیا ہے، مگر اس ظلم و ناانصافی پر تمام مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟
محمد الطاف: اس کی وجہ واضح ہے کہ تمام مسلمان ممالک امریکہ کی باج گزار ریاستوں کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں اور ان کے حکمران ٹرمپ کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ یہی مسلمانوں کی ذلت کا اصل سبب ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمان عوام میں شعور پیدا کیا جائے اور ان کی غیرتِ ایمانی کو بیدار کیا جائے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو امریکہ کے خلاف احتجاج پر مجبور کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے آپ کیا توقعات وابستہ کرتے ہیں؟
محمد الطاف: سیاسی اور انتخابی حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ اس دینی اتحاد کو کامیاب و کامران کرے، مگر اس کا یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں کہ معاشرے میں اختلاف و انتشار کی جو کیفیت اس وقت موجود ہے یہ اتحاد اُس میں کمی اور خاتمے میں بہت زیادہ مفید و معاون ثابت ہوگا، کیونکہ متحدہ مجلس عمل میں تمام مسالک کی جماعتیں ایک جگہ جمع ہیں جس کے معاشرے پر لازماً خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں امن و استحکام اور پوری دنیا میں اسلامی یک جہتی کے حوالے سے فضا بہتر بنانے میں متحدہ مجلس عمل کا اتحاد مؤثر ثابت ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: آئندہ عام انتخابات میں جمعیت طلبہ عربیہ کا کیا کردار دیکھتے ہیں؟
محمد الطاف: ہم نے اپنی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو اسلامی نظام کی برکات سے آگاہ کرنے کے لیے ’’ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور‘‘ کے عنوان سے ایک بھرپور مہم چلائی جائے گی جس کے دوران قوم میں شعور بیدار کیا جائے گا کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام کو اختیار کرنے سے ہی ممکن ہے۔ بے لاگ احتساب صرف اسلام کے عادلانہ نظام ہی سے ممکن ہے۔ دہشت گردی کا علاج بھی دینی تعلیمات پر عمل درآمد ہی میں ہے۔ قوم کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اسلام صرف سزائوں کا نام نہیں، یہ ایک مکمل اور بابرکت نظامِ حیات ہے۔ صرف زکوٰۃ کے حکمِ الٰہی پر عمل درآمد ہوجائے تو معاشرے سے غربت ختم ہوسکتی ہے، ہر چوک پر کھڑے بھکاریوں سے آسانی سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اسلام بے روزگاروں کو بھی بہترین حقوق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام آخرت کے ساتھ دنیا کی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے، اور معاشرے کو ایسے اعلیٰ اصولوں پر استوار کرتا ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے۔ اس وقت فحاشی، عریانی اور لبرل ازم پاکستان اور اسلامی تہذیب کے لیے بڑے خطرات ہیں، ان سے بچنے کا راستہ یہی ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بجائے ’’عزت دار کو، دین دار کو ووٹ دو‘‘ کا پیغام معاشرے میں عام کیا جائے، کہ اسی میں ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔