قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد خیبر پختون خوا اسمبلی سے قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام پر مشتمل 31 ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری سے موجودہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ تعاون سے بالآخر وہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کا قبائلی عوام پچھلے ستّر برسوں سے انتظار کررہے تھے۔ اس انقلابی آئینی ترمیم کا کریڈٹ بلاشبہ موجودہ وفاقی اور خیبر پختون خوا حکومتوںکو جاتا ہے، لیکن یہ بھاری پتھر یہ دونوں حکومتیں ہرگز اٹھا نہیں سکتی تھیں اگر انہیں اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کا اخلاص پر مبنی تعاون حاصل نہ ہوتا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے حوالے سے جس31 ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دی ہے اس کی حمایت میں 229 ووٹ آئے، جبکہ اس کی منظوری کے لیے 228 ووٹ درکار تھے۔ یوں یہ بل ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس ہوگیا۔ جے یو آئی (ف) اور پختون خوا میپ نے اس بل کی منظوری کے وقت نہ صرف احتجاج کیا اور رائے شماری میں حصہ نہیں لیا بلکہ ان دونوں جماعتوں کے ارکان نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑیں۔
بل کے تحت خیبر پختون خوا اسمبلی میں فاٹا کے لیے 16 عام نشستوں کے علاوہ خواتین کے لیے 4 اور اقلیتوں کے لیے ایک نشست مختص کی گئی ہے جن پر الیکشن عام انتخابات کےایک سال بعد ہوں گے۔ بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ کی8 نشستیں برقرار رہیں گی، تاہم پانچ سال بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 12سے گھٹ کر 6 ہوجائے گی جس سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد بھی 342 سے کم ہوکر 336 رہ جائے گی، اور سینیٹ میں فاٹاکی 8 نشستوں کے خاتمے سے سینیٹ کی کُل نشستیں بھی104سے کم ہوکر 96 رہ جائیں گی۔ بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عمل داری سے فاٹا میں صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے، اور اس طرح 118سالہ ایف سی آر کے اُس کالے قانون کا بھی مکمل خاتمہ ہوجائے گا جو انگریزی سامراج نے سو سال پہلے اپنے مخصوص سامراجی مفادات کے حصول کے لیے قبائل کی گردنوں پر اُن کی مرضی اور منشا کے خلاف نافذ کیا تھا۔ فاٹا ترمیمی بل کی روشنی میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ سالانہ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب (دس کھرب) روپے کا خصوصی ترقیاتی فنڈ الگ سے ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہوسکے گا۔ ترمیمی بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا، جب کہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔
بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں فاٹا کے حوالے سے قومی اتفاقِ رائے انتہائی خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم فاٹا کے عوام کو وہی سہولیات دینا چاہتے ہیں جو ملک کے باقی عوام کو حاصل ہیں، ہمارا مقصد قبائلی علاقوں کے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے، اور یہی ہمارا رہنما اصول رہے گا۔
فاٹا کے صوبہ خیبر پختون خوا میں انضمام کے حوالے سے 31 ویں آئینی ترمیم 2018ء کے نام سے موسوم بل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 1، آرٹیکل51، آرٹیکل 59، آرٹیکل 62، آرٹیکل 106، آرٹیکل 155، آرٹیکل 246 اور آرٹیکل247 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختون خوا اسمبلی جس کے موجودہ ارکان کی مجموعی تعداد124ہے، میں نشستوں کی کُل تعداد 145 ہوجائے گی، جن میں 115 جنرل نشستیں، 26 خواتین اور 4 اقلیتوں کے لیے مخصوص ہوں گی۔ فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختون خوا سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے علاوہ خیبر پختون خوا کا رقبہ بھی فاٹا کا 27220 مربع کلومیٹر رقبہ شامل ہونے کے بعد47521 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر74741مربع کلومیٹر ہوجائے گا۔
فاٹا انضمام کی زیر بحث آئینی ترمیم پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 239 کی شق 5 کے تحت پارلیمنٹ سے منظوری کے باوجود صدرِ مملکت کی حتمی توثیق سے قبل اس آئینی ترمیم کی خیبر پختون خوا اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری لازمی تھی۔ اسی طرح 31 ویں آئینی ترمیم کے تحت چونکہ بلوچستان میں بھی پاٹا کے علاقے صوبے میں ضم کیے گئے ہیں اس لیے اس ترمیم کے مکمل اطلاق کے لیے بلوچستان اسمبلی کی منظوری بھی لازمی ہوگی، تاہم فاٹا کے علاقوں کو خیبر پختون خوا کے بندوبستی علاقوں میں ضم کرنے کے لیے صرف خیبر پختون خوا اسمبلی کی منظوری ہی لازمی تھی جس کے لیے گزشتہ اتوار کے روز تعطیل کے باوجود خیبر پختون خوا اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا جس نے جمعیت(ف)کے پُرتشدد احتجاج کے باوجود اس بل کی دوتہائی اکثریت سے منظوری دے دی، جس کے بعد صدرِ مملکت نے بھی اس بل کی باقاعدہ توثیق کردی ہے، جس سے یہ تاریخی آئینی ترمیم نافذالعمل ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا اسمبلی کے 124 رکنی ایوان سے دوتہائی اکثریت سے منظوری کے لیے صوبے میں برسراقتدار پی ٹی آئی کو اپنے 20 ارکان کی بغاوت اور جماعت اسلامی کی، حکومت سے علیحدگی کے بعد اس بل کو پاس کرانے کے حوالے سے سخت مشکلات درپیش تھیں، لیکن حکومت اور اپوزیشن کے 92 ارکان کی حمایت سے اس بل کی منظوری سے فاٹا انضمام کا وہ کٹھن مرحلہ عبور ہوگیا ہے جس کا لاکھوں قبائل کو سات دہائیوں سے انتظار تھا۔
دریں اثناء 28 مئی کو صوبائی اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد چونکہ صوبائی حکومت اور اپوزیشن نگراں حکومت کے قیام پر متفق نہیں ہوسکے ہیں اس لیے اکثر سیاسی حلقوں کی جانب سے اس ناکامی کا ذمے دار وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ ساتھ جمعیت (ف) کے اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمن (جو کہ مولانا فضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ہیں) کو ٹھیرایا جارہا ہے، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چند دن قبل وزیراعلیٰ کے ساتھ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارب پتی تاجر منظور آفریدی کے بطور عبوری وزیراعلیٰ تقرر پر آمادہ ہوگئے تھے لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے شدید تحفظات کے اظہار اور منظور آفریدی کی تقرری میں اُن سے مشاورت کیے جانے کے آئینی تقاضے کو بائی پاس کرنے پر جب اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کا احتجاج سامنے آیا تو وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور مولانا لطف الرحمن کو منظور آفریدی کے نام سے پیچھے ہٹنا پڑا، جس کے باعث یہ معاملہ اب الیکشن کمیشن کو طے کرنا پڑے گا جو یقینا وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی ناکامی یا پھر ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح جمعیت (ف) نے فاٹا انضمام کے آئینی ترمیمی بل کی خیبر پختون خوا اسمبلی سے منظوری کے مو قع پر جو پُرتشدد احتجاج کیا اُس پر بھی سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ غیر جانب دار مبصرین یہ کہہ کر شدید تنقید کررہے ہیں کہ اگرجمعیت (ف) کو یہ احتجاج کرنا ہی تھا تو قومی اسمبلی سے اس بل کی منظوری کے وقت کرنا چاہیے تھا، لہٰذا جب ایک مرتبہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس بل کی منظوری دے دی تھی تو صوبائی اسمبلی سے اس کی ایک آئینی تقاضے کے تحت منظوری کے وقت رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں نہ تو اپنے کارکنان کو آزمائش میں ڈالنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی اس احتجاج کے ذریعے طے شدہ آئینی ترمیم کا راستہ روکا جانا جمہوری رویّے کی عکاس تھی، اگر اس احتجاج کا مقصد آئینی ترمیمی بل پر بطور ٹوکن محض اپنا احتجاج ہی ریکارڈ کرانا تھا تو پھر اس احتجاج کو پُرتشدد بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور خاص کر میڈیا جو اپنے فرائض کی ادائیگی اور جمعیت (ف) کا احتجاج کور کرنے کے لیے موجود تھا اس کو کس جرم میں تشدد کا نشانہ بنایاگیا؟ واضح رہے کہ جمعیت (ف) کے متذکرہ احتجاج سے جہاں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے وہیں میڈیا کے کئی نمائندے بھی مظاہرین کے تشدد کا نشانہ بنے، جبکہ کئی ڈی سی این جیزکی توڑ پھوڑ کے علاوہ فوٹو گرافروں سے کیمرے بھی چھین کر توڑے گئے۔ اس احتجاج سے بعد ازاں جمعیت (ف) کے ذمے داران نے یہ کہتے ہوئے کہ ان پُرتشدد کارروائیوں میں جمعیت (ف) کے کارکنان ملوث نہیں تھے بلکہ یہ کارستانی بعض تخریب کار عناصر کی تھی، جس ڈھٹائی سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے اس پر بھی عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں خاصا غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا اظہار پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس میں کیے جانے والے اس فیصلے سے ہوتا ہے جس میں جمعیت (ف) کی تمام سرگرمیوں کا اُس وقت تک بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب تک مولانا فضل الرحمن پریس کلب آکر خود صحافیوں سے معافی مانگ کر ہونے والے نقصانات کی تلافی کا اعلان نہیں کرتے۔
دوسری جانب قبائل نے عمومی طور پر فاٹا انضمام کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے جہاں مختلف قبائلی ایجنسیوں میں یوم تشکر منایا، وہیں بعض مخصوص حلقے اس اقدام پر دبے الفاظ میں ناپسندیدگی کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ دراصل یہ وہ مٹھی بھر عناصر ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کے ہاتھوں اسیر ہوکر نہ صرف قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت کررہے ہیں بلکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں بالواسطہ طور پر فاٹا پچھلے ستّر برسوں سے غربت، لاقانونیت، پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ یہ عناصر قبائلی علاقوں سے ملک ازم کے نام پر بے تحاشا مفادات سمیٹتے رہے ہیں۔ یہ وہ مخصوص لوگ ہیں جو پچھلے ستّر برسوں کے دوران فاٹا میں سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں اور ان کی ملی بھگت سے پولیٹکل انتظامیہ کو قبائلی علاقوں کا بے تاج بادشاہ بننے کا موقع ملتا رہا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو ووٹوں کی خرید و فروخت سے لے کر ترقیاتی کاموں میں کھلے عام کمیشن کے ذریعے عام قبائل کے حقوق اور وسائل غصب کرتا رہا ہے، لہٰذا اب چونکہ ان کی یہ دکانیں بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے تو یہ انضمام کی مخالفت میں عام قبائل کو بہکانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
حرفِ آخر یہ کہ اب جب فاٹا انضمام کا تاریخی اقدام آئینی ترمیم کی صورت میں اٹھا لیاگیا ہے تو توقع رکھنی چاہیے کہ اس تاریخی فیصلے کا تمام قبائل بلااستثنا نہ صرف خیرمقدم کریں گے، بلکہ قبائل کو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے بقول، ملنے والی اس دوسری آزادی سے حقیقی معنوں میں مستفید ہونے کے لیے درکار وہ تمام اقدامات بھی ترجیحی بنیادوں پر اٹھائے جائیں گے جو انضمام کے فیصلے کو عملی روپ دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔