واصف علی واصف
ہم کروڑوں انسان، سارے کے سارے تنہا… افراتفری، ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایک دوسرے کے ساتھ ناانصافی، وعدہ شکنی، مطلب پرستی، ہوس پرستی، زَرپرستی، منصب پرستی اور ظاہر پرستی… خطرہ تو ضرور ہوگا۔
مظلوم کی بددُعا خطرہ پیدا کرتی ہے۔ محروم کی آہ خطرہ پیدا کرتی ہے۔ یتیم کی فریاد پانی میں آگ لگادیتی ہے۔
جس بستی سے حق والا محروم ہوکر نکلے، وہ بستی ویران ہوجاتی ہے۔
آج ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آخر ہم کس طرف کو جارہے ہیں۔ ہم کہاں سے چلے تھے۔ ہمارا حال کیا ہے۔ ہمارے اندیشے اِتنے بے سبب بھی نہیں۔
ہم ایک دفعہ پہلے تقسیم ہوچکے ہیں۔ ہم ایک دفعہ پہلے بھی کٹ چکے ہیں۔ ہمارے پاس آج بھی حالات اچھے نہیں اور دشمن پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ ایک دفعہ ہونے والا حادثہ، کیا دوسری دفعہ نہیں ہوسکتا؟
خوف تو ہوگا!
لیکن نہیں۔ بات اتنی خطرناک بھی نہیں۔ دامنِ اعمال خالی ہو، تو ہو۔ دامنِ رحمت تو بھرا ہوا ہے۔ ہمارا سہارا ہمارے اعمال میں نہیں اُس کی رحمت میں ہے۔ رحمت کا کام ہی یہ ہے کہ محروم کو حق سے سِوا دیتی ہے۔ وہ دینے والا ہے۔ جب چاہے، جسے چاہے، جو چاہے دے دے۔ ہماری بقا صرف ہماری ہی بقا نہیں اُس کے نام کی بھی عظمت ہے۔
جب ہم غلام تھے، تو ہم نے ہندوستان میں اپنی آزادی کو حاصل کیا۔ ایک نیا ملک بنایا۔ آج تو ہم آزاد ہیں۔ ہم ملک کا تحفظ کیسے نہیں کریں گے!
ہم دشمن سے ڈرنے والے نہیں۔ ہمیں اگر کبھی خوف ہوا تو صرف دوستوں کا۔ اپنوں سے ڈر ہے۔ اپنے، اپنے ہوجائیں تو بیگانے کا کیا خوف!
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ اپنے اعمال اور اپنے مال میں سب کو شریک کریں۔ دوسروں کی عزت کریں تاکہ ہماری عزت محفوظ ہو۔ دشمن کوئی حرکت کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچے گا۔ ہمیں اپنی حفاظت کے لیے کسی سوچ کی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف وحدت اور صداقت کی ہے۔ ہمیں بے راہ زندگی کا خوف ہونا چاہیے۔ اُس کی راہ میں مرنا ہمارے لیے خوف کا نہیں، شوق کا باعث ہے۔ ویسے اُس کی راہ، حق اور حقیقت کا راستہ ہے… بھائی کے لیے وہ چیز پسند کرنے کا راستہ، جو اپنے لیے پسند ہو۔ انصاف قائم ہوجائے، خطرہ ٹل جائے گا۔
سینے میں ایمان بیدار ہوجائے، خوف نکل جائے گا۔ یقین زندہ ہوجائے، موت ختم ہوجائے گی۔ دولت کی محبت کم کردو، اندیشے کم ہوجائیں گے۔ سیاست سے جھوٹ نکل جائے، دل سے خوف نکل جائے گا۔
لالچ خوف پیدا کرتی ہے۔ اندرونی انتشار، بیرونی سرحدوں پر خطرے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ خطرہ بہرحال اندر ہے، باہر نہیں!!
( واصف علی واصفً’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘… ص122۔123)
پروفیسررشید احمد انگوی
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارا
’’ارمغان حجاز‘‘ کی ایک نظم سے لیا گیا یہ شعر اپنی جگہ ایک مستقل باب ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امت مسلمہ و ملت ابراہیمی کی اصلی پہچان اسلام سے ہے۔ اسلام کو مذہب کے محدود معنوں میں نہ لو کہ اسلام مذہب کے عمومی مفہوم سے کہیں بڑھ کر راہ ہدایت ہے۔ قرآن میں اسلام کو ’دین‘ قرار دیا گیا ہے جس کی تعلیمات و ہدایات انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی اور زندگی کے ہر شعبے، ہر محکمے، ہر معاملے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ تہذیب و ثقافت کا ہر عنوان اسلام کی تعلیمات سے روشنی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ جس طرح ریاست کے امور مختلف وزارتوں اور شعبوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں تو کوئی ایک وزارت یا محکمہ بھی اسلام کی ملی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی، اطلاعاتی، دفاعی وغیرہ تعلیمات سے لا تعلقی اور بے نیازی اختیار نہیں کر سکتا۔ علامہ نے غلامی کی زنجیریں توڑ کر برطانوی سامراج کی غلامی سے آزادی کا راستہ بھی دکھایا اور اس کے لیے ہدایات بھی دیں جن میں اپنی خودی پہچاننے اور بے یقینی سے دامن چھڑا کر پختہ یقین کا راستہ دکھایا مگر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ انگریز سے آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے اللہ کی بندگی سے آزاد ہو کر دین سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ نہیں، نہیں، ایسا ہر گز نہ کرنا کہ اگر دین سے محروم ہو کر تم سے کسی بھی قسم کی آزادی حاصل کر لی تو یہ نفع کا نہیں صریحاً نقصان اور خسارے کا سودا ہو گا۔ علامہ نے ہمارے رسولؐ کی محبت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’آبروئے زنامِ مصطفیٰؐ است‘‘۔ (ہماری عزت و آبرو تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کےنام نامی اسمِ گرامی سے وابستہ ہے)۔