ہم ایک عرصے سے اس الجھن میں ہیں کہ بذات خود اور بجائے خود میں کیا فرق ہے اور ان کا محل استعمال کیا ہے۔ ماہنامہ قومی زبان میں ایک بڑے ادیب کا جملہ پڑھا ’’یہ پرے (رسائل و جرائد) بذات خود ایک ادارہ تھے۔‘‘ عرصہ پہلے ہمیں ایک استاد نے بتایا کہ ’’بذات خود‘‘ کا استعمال کسی زندہ مخلوق کے ساتھ کرتے ہیں جس میں ذات کا دخل ہو۔ اور اگر بے جان چیز ہے تو بہتر ہے کہ ’’بجائے خود‘‘ استعمال کیا جائے۔ یعنی اگر رسائل و جرائد کا ذکر ہے تو ان کے لیے بجائے خود کا استعمال مناسب ہوگا۔ مگر جب بڑے بڑے لکھاری اس کا اہتمام نہیں کر رہے تو ہم کون۔
رشید حسن خان مرحوم نے اردو کی تہذیب میں بڑا کام کیا ہے۔ ایسا ہی کام مولانا ماہرالقادری نے کیا ہے۔ رشید حسن خان کی کتاب ’’زبان اور قواعد‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر القادری نے ان الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا کہ ’’جناب رشید حسن خان اردو لسانیات کے بادشاہ ہیں‘ اس فن میں وہ آپ ہی جواب ہیں۔‘‘ ماہر القادری (مرحوم) نے اپنے رسالے مازان میں ان کی کئی کتابوں پر تبصرہ کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ ان کی تحقیق و تدقیق سے اہل نظر روشنی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ماہر القادری نے کہیں کہیں پکڑ بھی کی ہے۔ مثلاً رشید حسن خان نے بلکہ کو ہمیشہ توڑ کر یعنی ’’بل کہ‘‘ لکھا ہے اور فٹ نوٹ میں لکھا ہے کہ ’’ایران میں لفظوں کے انغصال کی جگہ اتصال کا یہ عالم ہے کہ حسین علی کو حسینعلی اور اشرف علی کو اشرفعلی املا کیا جاتا ہے۔ بلکہ عربی اردو فارسی کا اشتراک ہے۔ لغت کے مطابق ’’بل‘‘ عربی میں ترقی‘ اضراب‘ اعراض کے لیے آتا ہے۔ فارسی دانوں نے کاف کا اضافہ کردیا اور بمعنی شاید بھی استعمال کرتے ہیں‘ پھر بھی علاوہ‘ سوا کے معنوں میں آتا ہے۔ (ہندی میں ’’بل‘‘ طاقت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو اردو میں بھی رائج ہے جیسے بل بوتہ‘ کس بل وغیرہ۔ ختم اور شکن کے معنوں میں بھی آتا ہے جیسے سحر کا یہ مصرع ’’مگر زلف کا بل نکلتا نہیں ہے‘‘ ہندی مکیں بل کے اور بھی کئی معانی ہیں مثلاً وہ قربانی جو خاص دیوتائوں کے لیے کی جائے‘ دیوتا کا بھوگ۔ اردو میں پہلو‘ رخ‘ جانب‘ کروٹ‘ ذریعہ‘ سہارا‘ مروڑ‘ اینٹھن بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے اور بہت سے معانی ہیں۔ وہ پھر کبھی سہی تاہم ایک مطب قدیر اور تصدق بھی ہے ان معنوں میں خسرو کا ایک یہ مصرع بہت معروف ہے ’’خسرو نظام کے بل بل جایئے۔‘‘
سید انشا نے اپنی کتاب دریائے لطافت میں تلفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’جاننا چاہیے کہ وہ جو لفظ اردو میں آیا وہ اردو ہوگیا خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی‘ ترکی ہو یا سریانی‘ پنجابی ہو یا پوربی‘ اصل کی رو سے غلط ہو یا صحیح وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح‘ اس کی صحت اور غلطی اس کے اردو میںرواج پکڑنے پر منحصر ہے کیونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے وہ غلط ہے گو اصل میں صحیح ہو اور جو اردو کے موافق ہے وہی صحیح خواہ اصل میں صحیح بھی نہ ہو۔‘‘
انشا نے تلفظ اور املا کے حوالے سے کام آسان کر دیا۔ خورشید حسن خان نے بھی تلفظ کے سلسلے میں جچی تلی بات کی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص یہ کہے عربی‘ فارسی الفاظ کا تلفظ بھی اسی طرح سمجھا جائے گا جس طرح ان زبانوں کے لغات میں محفوظ ہے تو یہ سمجھا جائے گا اور سمجھا جانا چاہیے کہ یہ شخص اردو کو کوئی مستقل زبان نہیں سمجھتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تلفظ کے سارے تغیرات لازماً قابل قبول ہیں جو کسی بھی شخص کی گفتگو میں نمایاں ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص کو زبان کی اعتبار اور لغت کے استفاد کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
رشید حسن خان نے اس کلیے کے سہارے لئیق‘ مرغن‘ شکریہ‘ خراج‘ مشکور‘ فوق‘ البھڑک جیسے بہت سے الفاظ کے برے میں لکھا ہے کہ یہ عام طور پر مستعمل ہیں۔ ایسے الفاظ کو غلط سمجھا جائے تو یہ انداز فکر اردو زبان کی خصوصیات کو‘ اردو زبانوں میں لفظوں کے بگڑنے کے مسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا۔
لیکن یہ مسلمہ اصول کیا ہیں؟ اردو میں تو نئے نئے الفاظ بغیر کسی مسلمہ اصول کے شامل ہو رہے ہیں جن میں ہراسگی‘ اور ہراسیت بھی شامل ہے اور چند ماہ سے بیانیہ کا بڑا شور ہے۔ رشید حسن نے عربی اردو تلفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ عربی کے بہت سے لفظوں کا تلفظ ہمارے لیے مشکل ہی نہیں نامانوس بھی ہے مثلاً ’’خیال‘‘ عربی کا لفظ ہے اور یہ بکسر اول ہے (یعنی خ کے نیچے زیر) اردو والا اس کو خیال کہے گا تو لہجہ بگڑ جائے گا۔ اسی طرح ’’بقراط‘‘ فرہنگ آصفیہ بقراط (ب پر زبر) ہے جبکہ زبان زد عام و خاص بضم حرف اول یعنی بُقراط ہے۔ درخشاں فرسی میں بضم اول و دوم (یعنی دال اور را پر پیش) لیکن ارد و میں یہ فتح اول و دوم درخشاں بولا جاتا ہے اور یہی درست ہے۔ رشید حسن خان نے جسارت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بول چال میں بہ کسر اول آتا ہے (یعنی جسارت) ماہر القادری نے اس سے اختلافات کیا ہے اور بجا کیا ہے۔ عوام و خواص اسے جَسارت زبر ہی کے ساتھ بولتے ہیں۔ ہم نے کسی کو بالکسر بولتے نہیں سنا۔ ماہرالقادری لکھتے ہیں کہ جو شاید رشید حسن خان کے وطن شاہجہان پور میں بولتے ہوں۔
ایک غلطی ہم نے تلاش کی ہے۔ کہتے ہیں کہ خطائے بزرگان گرفتن خطا است لیکن اب ہم خود عمر کے لحاظ سے بزرگ ہوگئے ہیں۔ رشید حسن خان نے اپنی کتاب املا اور انشا میں ’’خدوخال‘‘ کے باریمیں لکھا ہے خد بھی خال کو کہتے ہیں چنانچہ خط و خال لکھنا چاہیے۔ مرحوم نے جانے کون سی لغت میں خد کا مطلب خال دیکھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ خد کا مطلب چہرہ‘ رخسار‘ گال۔
اب ایک دو برقی لطائف پڑھ لیجیے۔ سندھ کے بجٹ کی خبر دیتے ہوئے نیوز ریڈر کہہ رہے تھے ’’حکومت نے دو روّیہ سڑکوں کے لیے بجٹ نہیں رکھا۔ رویہ اور روّیہ لکھا تو ایک ہی طرح جاتا ہے۔ فاضل صحافی کو شاید ’’رویہ‘‘ کا مطلب نہیں معلوم تھا۔ ایک اور صاحب فرما رہے تھے کہ حکومت نے فلاں معاملے میں صِرف نظر کیا جب کہ اس کا تلفظ ہے ’’صرفے نظر‘‘ ان کے سامنے جو تحریر تھی وہ بے سوچے سمجھے پڑھ ڈالی۔
اب امریکا سے دو برقی خطوط بتوسط عبدالمتین منیری۔
جناب اطہر ہاشمی صاحب کا ’خبر لیجے زباں بگڑی‘ پڑھا۔ 4مئی کا ان کا کالم بہت دلچسپ تھا۔ ایک دو باتیں اس کے سلسلے میں مَیں بھی کہنا چاہتا ہوں، اگر ان تک پہنچا دیں تو عنایت ہوگی۔
پہلی بات یہ کہ انہوں نے مارشل لاء کے حمزہ پر اعتراض کیا ہے، یہ اپنی جگہ بالکل بجا ہے۔ البتہ میں اس حمزہ سے اس لیے خوش ہوسکتا ہوں کہ یہ لکھائی میں اردو کا ماحول بناتا ہے۔ ان کے اسی کالم میں ایک لفظ سدومیت استعمال ہوا ہے جب کہ انگریزی کا لفظ ہے ’سڈومی‘ اور اسے ہم اردو میں بالکل صحیح طرح لکھ سکتے ہیں۔ ایک اور مثال ہے ٹکنیک کی جسے ہم اردو میں تکنیک لکھتے ہیں۔ البتہ اعتراض کی جا یہ ہے کہ یا تو سب کے سب ’لاء‘ لکھیں اور اسی ہجا کو تسلیم کریں۔ لکھنے لکھانے میں ہجا کے معاملات کا رواج سے بہت تعلق ہے۔ ایک اور مثال اسکول کی ہے، اب ’سکول‘ رواج پا رہا ہے، شاید سکون آجائے۔
ہاشمی صاحب کے اسی مضمون میں رئیس احمد مغل صاحب کے مضمون ’مجوزہ تراجم اصطلاحات‘ کا بھی ذکر ہے۔ میں اس سلسلے میں کچھ کہنا چاہوں گا۔ آج کل ڈرون کا بڑا چرچا ہے لیکن مجھے اس اڑتی مشین کے لیے یہ لفظ ایک آنکھ نہیں بھاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈرون شہد کی مکھی کے شوہر کو کہتے ہیں جو بالکل نکھٹو ہوتا ہے، اسے ایک ہی کام آتا ہے، جب کہ ڈرون بہت ہی فعال اور چست و مستعد ہے۔ اس سلسلے میں اردو کا لفظ ’بھنورا‘ کہیں زیادہ بہتر ہے اور اس مشین کے لیے سچا نام ہے۔
والسلام
یمین الاسلام زبیری
آگسٹا، جارجیا
امریکہ
امریکہ ہی سے سید محسن نقوی نے ایک بار پھر یاد کیا ہے لکھتے ہیں:
اطہر ہاشمی صاحب کے کالم بہت مفید ہیں اور ان میں نئی سے نئی باتیں آرہی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
بانگِ درا کی ترکیب علامہ اقبال کے کلام نے اردو والوں میں عام کردی ہے لیکن بہت سے لوگ ابھی تک اس کے مفہوم سے ناواقف ہیں، خاص طور سے یہ کہ علامہ نے کتاب کا نام یہ کیوں تجویز کیا ہے۔
پرانے وقتوں میں جب قافلے چلا کرتے تھے تو ان کا پڑاؤ بھی ہوتا تھا۔ عام طور سے پڑاؤ رات بھر کا ہوتا تھا اور پھر منہ اندھیرے دوبارہ سفر شروع ہوتا تھا۔ اکثر قافلے بڑے بڑے ہوتے تھے، اور صبح اُٹھ کر ہر مسافر کو ایک ایک کرکے بتانا مشکل ہوتا تھا کہ اُٹھو اب چلنے کا وقت آگیا ہے۔ اس لیے ایک مُعَلِّن پکارتا تھا کہ چلو۔ اکثر کوئی آواز کا باجا یا بگل وغیرہ زور سے پھونکا جاتا تھا۔ یہ آواز بہت بلند ہوتی تھی اور سب سن لیتے تھے۔ اس پکار کو بانگِ درا کہا جاتا تھا۔
علامہ نے تو خود اپنے شعر میں اس کا مطلب بیان کردیا ہے۔
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اقبال پیغام یہ دے رہے ہیں کہ ان کا کلام قوم کو جگا کر نئے اور ترقی کے راستے پر لگا دے گا۔
ہمارے خیال میں معلق پر ایسا تشدد مناسب نہیں۔ یہ لفظ مع ۔ لن ہے۔ تصدیق کرلیں۔ بانگِ درا کی وضاحت کا شکریہ۔ یمین الاسلام کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ سکول رواج پا رہا ہے۔ یہ رواج پنجاب میںہے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر اخبارات میں یہ اب بھی اسکول ہی ہے۔ تاہم اس پر پہلے بھی بحث ہو چکی ہے لیکن نہ وہ جیتے نہ ہم جیتے۔