آٹھ روز بعد قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوجائے گی اور نگران حکومت ملک کا نظم و نسق سنبھال لے گی۔ نگران حکومت کی مدت سے متعلق آئین خاموش ہے، تاہم آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد نئی قومی اسمبلی کا انتخاب ساٹھ روز کے اندر ہوگا۔ اگر آئین پر سیاسی حالات غالب نہ آئے تو نگران حکومت وقت پر انتخابات کرا دے گی، دوسری صورت میں ملک کے سیاسی و زمینی حقائق انتخابات کا راستہ روک سکتے ہیں۔ نگران حکومت کے قیام کے بعد کیا ہوگا؟ خبر ہے کہ انتخابات احتساب کے بعد ہوں گے اور کڑے احتساب کی تیاری بھی مکمل ہے۔ نگران حکومت کے سربراہ کے نام کا کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ معاملہ اس پر اٹکا ہوا ہے کہ کیا نگران وزیراعظم انتخابات کرانے کے اپنے مینڈیٹ تک محدود رہیں گے یا احتساب چاہنے والی قوتوں کے کیمپ میں جا کھڑے ہوں گے؟
مستقبل کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے متعدد اہم سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی ایک اہم ملاقات خلیج کے ملک میں ہوئی۔ اس ملاقات کی تفصیلات چند دنوں تک سامنے آجائیں گی۔ یہ ملاقات نگران وزیراعظم کے لیے تھی۔ اس معاملے پر اب تحریک انصاف فریق نہیں رہی، پیپلزپارٹی کو سبز باغ دکھاکر گھیرا جارہا ہے، مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ کسی سابق جج یا بیوروکریٹ کے بجائے سیاسی پس منظر رکھنے والی کوئی شخصیت ہی نگران وزیراعظم بنے۔ یہ معاملہ متعدد نئے ناموں کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی سے ہوتا ہوا الیکشن کمیشن میں جاتا نظر آرہا ہے، کیونکہ زبیدہ جلال کا نام عین آخری لمحے میں شامل کیا گیا تھا، لیکن وہ خود ہی انکار کرچکی ہیں، اور زیرِ بحث سب ناموں پر اعتراضات آچکے ہیں۔ اب جسٹس(ر) تصدق جیلانی اور جسٹس(ر) ناصرالملک کے ہی دو نام رہ گئے ہیں، جو قانون، معیشت اور کسی حد تک سیاست سے بھی واقف ہیں، لیکن اصل نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے الیکشن کمیشن تک پہنچیں گے۔ یہ بات تو طے ہوچکی ہے کہ نگران وزیراعظم اور حکومت کسی بڑے فیصلے پر انگوٹھا نہیں لگائیں گے، لیکن اگر حالات نگران حکومت کو ہانک کر کڑے احتساب کی جانب لے گئے تو پھر انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔
دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ نگران حکومت سے پہلے سبکدوش ہوتی ہوئی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کا بل منظور ہوسکتا ہے۔ اس بل کے لیے قانونی مسودہ تیار کیا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی فاٹا کے انضمام کے لیے زور دیا گیا تھا۔ ان حالات کے باعث ہی قائد حزبِ اختلاف اور وزیراعظم نگران حکومت کے انتظامی سربراہ کے لیے کسی متفقہ نام کی تلاش میں ہیں، اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ قائد حزبِ اختلاف کی جانب سے پیش کیے جانے والے نام کو قبول کرلیں گے، لیکن مشکل یہ ہے کہ جو متفقہ نام ان دونوں کے ذہن میں ہے وہ ایک بڑے سیاسی کردار کی بدزبانی کی وجہ سے منصب سنبھالنے سے گریز کررہا ہے۔ نگران وزیراعظم کے لیے ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری اشتیاق احمد خان بھی اہم سمجھے جارہے ہیں، لیکن معاملہ یہ بنا ہوا ہے کہ ان میں کوئی نام بھی ایسا نہیں جو سیاسی یتیم ثابت ہوسکے، جب کہ دونوں بڑی جماعتیں کسی ایسے ہی نام کی تلاش میں ہیں۔ اپنی رائے کے باوجود قائد حزبِ اختلاف اور وزیراعظم نگران وزیراعظم کے نام کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور اپنی جماعتوں کی قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں، کیونکہ فیصلہ تو انہی کو کرنا ہے۔
آئینی لحاظ سے اگرچہ نگران حکومت کا کردار محض دکھاوے کی حد تک ہوتا ہے، اصل انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس چلے جاتے ہیں، اس کے باوجود نگران حکومت مملکت کے امور چلانے کے لیے عبوری انتظامیہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ بڑے سیاسی فیصلے اور آئینی اقدام اٹھانے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن اِس بار ملک کے سیاسی حالات ماضی سے کہیں مختلف ہیں۔ نوازشریف کی نااہلی ایک بڑا سیاسی موضوع بنی ہوئی ہے اور اس فیصلے نے سیاسی صورتِ حال تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ اب نوازشریف کی سزا بھی متوقع ہے۔
ملک میں سیاسی ماحول کی زمینی حقیقت اپنی جگہ، مسلم لیگ(ن) سمجھتی ہے کہ نوازشریف اِس وقت ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں، لیکن وہ یہ ذکر نہیں کرتی کہ اگر نوازشریف ٹارگٹ ہیں تو کوئی ان کے نشانے پر بھی ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ان کے سینے میں راز ہیں تو اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ ان تمام امور پر بات کرنا چاہتے ہیں بقول اُن کے جن کی وجہ سے ان کی حکومت سول ملٹری تناؤ کا شکار ہوئی ہے۔ احتساب عدالت میں بھی انہوں نے دفعہ342 کے تحت بیان ریکارڈ کراتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا ہے۔
اس تمام پس منظر میں ملک میں حالیہ انتخابات ایک ایسے وقت پر ہورہے ہیں جب امریکی لابی اس خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھارت سے مل کر یہاں اپنے قیام کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کررہی ہے، جب کہ چین کا مؤقف ہے کہ شنگھائی تنظیم کے رکن ہونے کی حیثیت سے بھارت اور پاکستان دونوں سیکورٹی ایشوز حل کرنے کے پابند ہیں۔ اس خطے میں امریکہ، روس اور چین کے مفادات کی جنگ کی وجہ سے اگلی حکومت یقیناًان خطرات اور مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہوگی جو یہ لابی یہاں کھڑے کرنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔ نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری، یا عمران خان۔۔۔ یہ تینوں اس دوڑ میں شریک ہیں اور اس لابی کو اپنی وفاؤں کی یقین دہانیاں بھی کرا رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں ایشیا پیسفک گروپ کو ایک رپورٹ بھیجی ہے جس میں پاکستان کی جانب سے اس خطے میں امن کے قیام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، لیکن جواب میں پاکستان کو ایک نیا سوال نامہ بھجوایا گیا ہے، جو اقدامات اٹھائے جانے کی شرط عائد کی گئی ہے یہ سب کچھ تین چار ماہ میں نہیں ہوسکتا، اس کے لیے طویل مدت چاہیے۔ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ وہ گرے لسٹ سے باہر نکل جائے گا، لیکن اس پر امریکیوں کی جانب سے غیر ضروری دباؤ بڑھایا جارہا ہے، امریکہ کی جانب سے جن باتوں کا تقاضا کیا جارہا ہے حکومت سمجھتی ہے کہ اس طرح پاکستان دہشت گردی کی جنگ سے مزید پندرہ بیس سال تک نہیں نکل سکتا۔ قومی سلامتی کمیٹی میں ان نکات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے۔ نوازشریف کا حالیہ بیان جس پر بہت بحث ہورہی ہے، اسی تناظر میں تھا۔ اس خطے میں امریکی لابی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے مختصر اور جامع تجزیہ اور تبصرہ یہی ہے کہ ’’سی آئی اے پاکستان کو اپنا ٹارگٹ بناکر یہاں سی پیک اور دیگر معاشی سرگرمیوں کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انتخابات اندیشوں اور وسوسوں کا باعث بن رہے ہیں۔ یقیناًاس وقت خارجہ محاذ پر پاکستان کو ایک نئی مشکل کا سامنا ہے، امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کی ترجمان ڈانا ڈبلیو وائٹ کہتی ہیں کہ ’’نوازشریف کا بیان پاکستان کے لیے فیصلہ کن موڑ ہے، اسے دہشت گردی کے خلاف کچھ کرنا ہوگا‘‘۔ اسی طرح امریکی ایوانِ نمائندگان کی ایک کمیٹی میں بھی گفتگو ہوئی ہے۔ ایوان کی جوڈیشری سب کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی لابیسٹ شیلا جیکسن لی نے کمیٹی میں کہا کہ ’’امریکی حکومت پاکستان سے مضبوط رابطوں کا ایک پیغام اسلام آباد بھیجے‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ اتحادی ملک کو ہتھوڑے سے نہیں، گفتگو سے قائل کیا جائے، کیونکہ جانب دارانہ پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں ہونے والی یہ گفتگو بہت اہم ہے، امکان ہے کہ امریکی انتظامیہ اب گاجر اور چھڑی کی پالیسی اختیار کرے گی اور اپنا مفاد نکالتی رہے گی۔
ملک کی بیوروکریسی حالات کی بو سونگھ رہی ہے، اسی لیے متعدد اہم وفاقی وزارتوں کے سیکرٹری رخصت پر چلے گئے ہیں۔ ان میں اطلاعات و نشریات، توانائی، کیڈ، انسانی حقوق وزارتوں سمیت دیگر آٹھ وفاقی سیکرٹری شامل ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بڑے فیصلوں کا حصہ بننے کے بجائے ان سے الگ رہنا بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ عدالت کے غیر معمولی تحرک کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی صورت حال نہیں، جو خطرات اور چیلنج اس وقت درپیش ہیں شاید سیاسی قیادت کو اس کا بہت کم ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکی پالیسیوں کے مقابلے میں کہیں نہ یکسوئی ہے اور نہ متفقہ سوچ۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا نکتہ نظر ہے۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) تینوں کے نزدیک ملک کے حالات اسی صورت میں درست ہوسکتے ہیں کہ جب بلاشرکتِ غیرے، بلا روک ٹوک کلی طور پر اقتدار انہیں سونپ دیا جائے۔- امریکی بھی یہی چاہتے ہیں، کیونکہ وہ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں سے واقف ہیں، لہٰذا وہ رائے عامہ کی ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے سرپرست بن جاتے ہیں اور سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہوجاتی ہیں کہ امریکہ ان کے ساتھ ہے۔
تین سیاسی جماعتوں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی سیاسی ترجیحات کا تجزیہ بہت ضروری ہے تاکہ سیاسی کارکن اُن کے اہداف سے آگاہ ہوسکے۔ پیپلزپارٹی کی سینئر لیڈرشپ سے اس حوالے سے فرائیڈے اسپیشل نے استفسار کیا تو جواب ملا ’’ہم بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں کچھ نہیں بہت زیادہ مداخلت ہوگی اور جو نظام اس مداخلت کے نتیجے میں قائم ہوگا وہ پائیدار نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہمارا فیصلہ اور حکمت عملی یہی ہے کہ بیل کو لال کپڑا دکھا کر مشتعل کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی جائے، مزاحمت بھی نہ کی جائے اور حمایت کے لیے ہامی بھی نہ بھری جائے۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف احکامات کی تعمیل میں تمام آزمائے ہوئے پرانے مستریوں کے ذریعے نیا پاکستان بنانے کے لیے ہر قسم کے لوگوں پر اپنے دروازے کھول چکی ہے۔ اسی لیے وہ تمام سیاسی خاندان جو مسلم لیگ (ق) کی گاڑی میں لادے گئے تھے اب مسلم لیگ(ن) میں وقت گزار کر تحریکِ انصاف میں پناہ لے رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ملک کے بیشتر حلقوں میں ووٹر پرانے امیدوار کو نئی پارٹی کے لیے ووٹ دیں گے۔ اگر نوازشریف کے لیے کوئی دروازہ نہ کھلا تو مسلم لیگ (ن) کے لیے اب دو راستے بچے ہیں، اسے شہبازشریف اور نوازشریف دونوں میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
اس وقت ملکی سیاست کا عجیب منظرنامہ ہے، عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ماضی میں نوازشریف کو اقتدار دلایا۔ اپنے الزام میں انہوں نے باقاعدہ بریگیڈیئر (ر) مظفر رانجھا کا نام لیا، وہ اس وقت پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کے طور پر کام کررہے ہیں۔ جواب میں بریگیڈیئر (ر) مظفر رانجھا نے عمران خان کی جانب سے الیکشن میں نون لیگ کے لیے فوجی معاونت کا الزام مسترد کردیا اور مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان کے الزام پر خصوصی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، عمران خان بیانِ حلفی جمع کرائیں، میں بھی بیانِ حلفی دوں گا، دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو عمران خان کو پھانسی ہونی چاہیے۔ مظفر رانجھا نے عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا اور کہاکہ عمران خان غیر ذمہ دار شخص ہیں جو فوج پر انتخابات میں اثرنداز ہونے کا الزام لگا رہے ہیں،فوج بحیثیت ایک ادارہ کام کرتی ہے، ایک بریگیڈیئر اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، اُس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے سختی سے کہا تھا کہ سیاسی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا ہے۔ عمران خان نے سابق چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں بننے والے عدالتی کمیشن کے روبرو تو خاموشی اختیارکیے رکھی، جہاں انہیں ثبوت دینے تھے وہاں پیش نہیں ہوئے، اب سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے الزام لگارہے ہیں