داعش کی شکست کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں جو عراقی پارلیمان وجود میں آئی ہے اُس نے ایک مستحکم حکومت کے قیام کو مشکل اور مشکوک بنادیا ہے۔ بھرپور انتخابی مہم کے باوجود عوام میں جوش و خروش پیدا نہ ہوسکا۔ انتخابات کے دن سخت حفاظتی انتظامات کے نتیجے میں پولنگ تو بہت پُرامن ہوئی، لیکن بند سڑکوں اور جابجا ناکوں کی وجہ سے لوگوں کے لیے انتخابی مراکز تک پہنچنا بے حد مشکل ہوگیا۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر پبلک ٹرانسپورٹ بند رکھی گئی اور صرف الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو ووٹروں کی آمد و رفت کے لیے خصوصی بسیں چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان ساری پابندیوں کے نتیجے میں بہت سے ووٹروں نے گھروں پر رہنے کو ترجیح دی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب صرف 44.52 فیصد رہا۔
12 مئی کو یہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر منعقد ہوئے جس میں مجلس النواب یا ایوانِ نمائندگان کی کُل 329 نشستیں جماعت یا اتحاد کے مجموعی ووٹوں کے تناسب سے تقسیم کردی گئیں، اور ہر جماعت کی کم از کم 25 فیصد خواتین کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 9 نشستیں اقلیتوں کے لیے مختص ہیں۔ انتخابات میں 9 اتحادوں اور 9 جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں نے حصہ لیا جن کی مجموعی تعداد سات ہزار سے زیادہ تھی۔ 2 کروڑ 40 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں کے لیے سارے ملک میں 55 ہزار پولنگ
اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ زیادہ تر جماعتیں اور اتحاد فرقے یعنی سنی و شیعہ کی بنیاد پر ترتیب دیئے گئے تھے، جبکہ کردستان اور کرکوک میں کرد قوم پرستوں نے حصہ لیا۔ تینوں کرد صوبوں یعنی دھوک، اربیل اور سلیمانیہ میں مقابلہ صرف کرد جماعتوں کے درمیان رہا اور شیعہ جماعتیں یہاں سے دور رہیں۔ مخلوط آبادی والے صوبوں نینوا اور کرکوک سے کردوں نے بھرپور حصہ لیا اور دونوں جگہ انھیں محدود کامیابی نصیب ہوئی۔
انتخابی مہم کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے اصل مقابلہ وزیراعظم حیدرالعابدی کے النصر اتحاد، ہادی العامری کے فتح اتحاد، سابق وزیراعظم نوری المالکی کی دولت القانون پارٹی اور شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے اتحاد برائے انقلاب و اصلاحات کے درمیان ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں حیدرالعابدی خاصے آگے تھے اور دوسری پوزیشن کے لیے مقتدیٰ الصدر اور سابق وزیراعظم نوری المالکی کے درمیان مقابلہ تھا۔ تاہم نتیجہ توقع سے مختلف رہا اور مقتدیٰ الصدر کا اتحاد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرا۔ کردستان کی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو پولنگ کے انتظامات پر سخت تشویش تھی جو پولنگ کے دن تک جاری رہی، حتیٰ کہ انتخابات کے روز چار کرد جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگاکر انتخابات کو مسترد کردیا۔ اربیل میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کردش گورن (تبدیلی) پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ سلیمانیہ میں عراقی افواج نے گورن پارٹی کے دفاتر پر حملہ کیا اور کردوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ پریس کانفرنس میں کومل پارٹی، اتحاد برائے ترقی و انصاف (CDJ) اورکردستان اسلامک یونین (KIU)کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ان تمام جماعتوں نے انتخابات کو غیر شفاف اور مہمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ مزے کی بات کہ بائیکاٹ کے باوجود گورن نے 5، CDJنے 3، اور KIU نے 3 نشستیں جیت لیں۔
انتخابات کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی عدم دلچسپی کی بنا پر جماعتی کارکنوں اور سرگرم حامیوں کے ووٹوں نے نتیجہ خیز کردار ادا کیا اور ہر سیاسی جماعت نے اپنے اپنے علاقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ سنیوں کے اتحاد المتحدون نے الانبار، بغداد، بصرہ، کرکوک اور بسیط صوبوں کے علاوہ کردستان کے سلیمانیہ صوبے سے مجموعی طور پر 17 نشستیں حاصل کرلیں، اور سنی جماعت الحل نے الانبار اور نینوا صوبوں سے مجموعی طور پر 10 نشستیں جیت لیں۔ اس طرح سنیوں کے پاس 27 نشستیں ہیں، اور اگر اس میں کرد اسلامی جماعتوں یعنی کردستان اسلامک یونین کی 3 اور کردستان اسلامک گروپ کی 2 نشستیں جوڑ دی جائیں تو اسلامی خیالات کے سنیوں کا پارلیمانی حجم 32 ہے جو ایوانِ نمائندگان میں چوتھی بڑی پارلیمانی پارٹی ہوگی۔
سرکاری نتائج کے مطابق مقتدیٰ الصدر کے اتحاد برائے انقلاب و اصلاحات (عرب مخفف ’سائرون‘) کو 56 نشستوں پر کامیابی ہوئی ہے۔ سائرون مقتدیٰ الصدر کی صدری تحریک اور حمید مجید موسیٰ کی عراقی کمیونسٹ پارٹی پر مشتمل ہے۔ ایران نواز ہادی العامری کا فتح اتحاد 47 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، جبکہ وزیراعظم حیدرالعابدی کا النصر اتحاد تیسرے نمبر پر آیا جس کے پاس 42 نشستیں ہیں۔ سابق وزیراعظم نوری المالکی کی قانون پارٹی 25 نشستوں پر کامیا ب ٹھیری۔ کردستان میں کردش ڈیموکریٹک پارٹی (KDP)کا پہلا نمبر ہے جس کے پاس 24 نشستیں ہیں۔ پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK)کو کردستان سے 15 نشستیں ملیں اور کردستان کی باقی 17 نشستیں 5 چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں۔
اب ایک اعصاب شکن مرحلہ حکومت سازی کا ہے جس کے لیے کم ازکم 165 ارکان کا اعتماد درکار ہے، اور سب سے بڑی پارٹی کا پارلیمانی حجم 56 ہے۔ خیال ہے کہ صدر محمد فواد معصوم جلد ہی مقتدیٰ الصدر کی جماعت کو حکومت سازی کی دعوت دیں گے۔ مقتدیٰ نے خود کو انتخابی عمل سے دور رکھا تھا لہٰذا اُن کے وزیراعظم بننے کا کوئی امکان نہیں۔ 44 برس کے مقتدیٰ الصدر کا عراقی شیعوں میں بڑا احترام ہے۔ ان کے والد آیت اللہ حضرت محمد صادق الصدر نہ صرف شیعانِ عراق کے روحانی پیشوا تھے بلکہ انھوں نے پوری زندگی کمزوروں اور غریبوں کی دستگیری کی، جس کی وجہ سے وہ سنیوں اور کردوں میں بھی بے حد مقبول تھے۔ شعلہ بیان آیت اللہ صادق الصدر اپنے خطبات میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور استحصالی نظام کے خلاف ڈٹ کر گفتگو کرتے تھے، اور اسی بنا پر انھیں ساری زندگی آزمائش کا سامنا رہا۔ آیت اللہ صادق الصدر فروری 1999ء میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ نجفِ اشرف میں شہید کردیئے گئے۔ شہادت کے وقت آیت اللہ کی عمر صرف 55 برس تھی۔ مقتدیٰ الصدر مشہور شیعہ رہنما آیت اللہ العظمیٰ حضرت باقرالصدر کے داماد ہیں۔ باقرالصدر عراق میں صدام کے خلاف پُرعزم مزاحمت کا استعارہ تھے اور 17 برس کی عمر سے قیدوبند اور بدترین کا نشانہ بنائے گئے۔ ذہنی اذیت پہنچانے کے لیے ان کی ہمشیرہ محترمہ امینہ صدر بنتِ الہدیٰ کو آیت اللہ کے سامنے بدترین تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا گیا اور اپریل 1980ء میں آیت اللہ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ ان کے اقربا نے الزام لگایا کہ 45 سالہ آیت اللہ باقرالصدر کے سر میں کیل ٹھونک کر ان کی لاش کو پھانسی دی گئی۔ مقتدیٰ نظریاتی طور پر اپنے والد اور سسر سے بے حد متاثر اور ان دونوں بزرگوں کی طرح غریبوں کے حقوق کے زبردست حامی ہیں۔ 2003ء میں امریکی حملے کے بعد انھوں نے اپنے ملک میں غیر ملکی فوج کی موجودگی کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور امریکی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے انھوں نے جیش مہدی کے نام سے ملیشیا تشکیل دی۔ تاہم مقتدیٰ کا کہنا تھا کہ جیش جنگ و جدل کے بجائے غیر ملکی قبضے کے خلاف پُرامن مزاحمت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور انھوں نے جیش مہدی کا نام تبدیل کرکے سرایہ السلام یا جتھہ برائے امن رکھ دیا تھا۔ عراق پر امریکی قبضے کے خلاف انھوں نے شہری نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ مقتدیٰ نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بھی کئی بار پُرامن مظاہرے کیے۔ مقتدیٰ اپنے عقیدے کے اعتبار سے ایک راسخ العقیدہ شیعہ ہیں لیکن وہ آیت اللہ خمینی کی طرح اتحاد بین المسلمین کے زبردست حامی ہیں۔ 2009ء میں وہ انقرہ گئے جہاں انھوں نے اُس وقت کے ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم ایردوان سے ملاقاتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کو امریکہ کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے دونوں بڑے پڑوسیوں یعنی ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر علاقے کی خوشحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ حالیہ انتخابات میں انھوں نے کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر انتخابی اتحاد تشکیل دیا جس نے بہت سے سنی اور کردوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے۔ ان کے اتحاد کو سنی علاقوں میں بھی پذیرائی نصیب ہوئی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مقتدیٰ وزیراعظم حیدر العابدی کے نصراتحاد، سنی اتحادوں، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی اور 5 چھوٹی کرد جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کا مجموعی پارلیمانی حجم 168 کے قریب ہوگا۔ معتدل خیالات کی وجہ سے سنی اور کردوں میں مقتدیٰ کے لیے احترام پایا جاتا ہے جس کی بنا پر اُن کی قیادت میں اس قسم کا متنوع اتحاد ناممکن نہیں۔ لیکن امریکہ اور ایران دونوں کے لیے مقتدیٰ قابلِ قبول نہیں۔ عراق میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے ایران اور امریکہ کی مداخلت تاریخ کا حصہ ہے۔ 2010ء کے انتخابات میں موجودہ نائب صدر ایاد علوی کا عراقی اتحاد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرا تھا لیکن ایران کے شدید دبائو پر نوری المالکی کی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی جو دوسرے نمبر پر تھی۔
واشنگٹن کو مقتدیٰ کی حکومت میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن امریکی چاہتے ہیں کہ اس کی قیادت حیدرالعابدی کے ہاتھ میں ہو۔ دوسری طرف ایران کی خواہش ہے کہ ہادی العامری کی قیادت میں نوری المالکی کی قانون پارٹی اور چھوٹی جماعتوں و اتحادوں سے مل کر حکومت تشکیل دی جائے۔ لیکن کردوں اور سنیوں میں ہادی العامری کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایران عراق جنگ کے دوران انھوں نے ایرانی فوج کی مدد سے جیش البدر تشکیل دیا تھا جو عراقی فوج پر حملے کرتا تھا اور اس دوران جیش البدر نے مبینہ طور پر سرحدی علاقوں کی سنی مساجد کو نشانہ بنایا اور صدام کی حمایت کا الزام لگاکر بہت سے سنی نوجوانوں کو تشدد کرکے ہلاک کیا۔ داعش سے مقابلے کے لیے ہادی العامری نے جنگجوئوں کا ایک گروہ حشدالشعبی بنایا جسے مبینہ طور پر ایران نے مسلح کیا۔ ہادی العامری تہران سے قریبی تعلقات کے پُرجوش حامی ہیں اور ان کے ایرانی فوج کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ حشدالشعبی پر الزام ہے کہ اس نے داعش سے لڑائی کے دوران عام سنیوں کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کررکھا تھا، اور حشد پر کئی علاقوں میں سنی آبادی کے قتل عام کا الزام ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حشد کے سینکڑوں جنگجو شام میں بشارالاسد کی ملیشیا کا حصہ ہیں۔ انتہا پسندانہ خیالات کی بنا پر عراق کی چھوٹی جماعتیں ان سے اتحاد پر راضی نہیں، جبکہ 10 چھوٹی جماعتوں کے پاس مجموعی طور پر 71 نشستیں ہیں۔
منقسم مینڈیٹ کی بنا پر کرد جماعتوں کی 56 نشستیں بہت اہمیت اختیار کرگئی ہیں، لیکن یہاں بھی دو بڑی جماعتوں یعنی KDP اور PUKکی باہمی رقابت بڑی واضح ہے اور یہ دونوں اپنی حمایت کی بھاری قیمت وصول کریں گی۔ گزشتہ دنوں کردستان میں علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہوا تھا جس میں رائے دہندگان کی غالب اکثریت نے آزاد کردستان کے حق میں ووٹ دیا۔ وفاق کے علاوہ عراق کے تینوں پڑوسی ممالک سعودی عرب، ترکی اور ایران نے ریفرنڈم کو مسترد کردیا تھا۔ KDP سمیت تمام کرد جماعتیں چاہتی ہیں کہ آزادی کے سوال پر وفاق کردستان میں ریفرنڈم کا اہتمام کرے۔ عراقی حکومت نے گزشتہ ریفرنڈم کے نتائج کو یہ کہہ کر مسترد کیا تھا کہ پولنگ کا سارا انتظام کرد حکومت کے ہاتھ میں تھا جس کی وجہ اس کی غیر جانب داری مشکوک ہے۔
عراقی دستور کے تحت پارلیمانی انتخابات کے 90 دن کے اندر نئی حکومت کی تشکیل ضروری ہے۔ بری طرح سے منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے نئی حکومت عملاً بھان متی کا کنبہ ہوگا جس کے لیے مختلف النوع اینٹ اور روڑے چُنے جارہے ہیں جو ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ ایران اور امریکہ کی مداخلت نے ایک مستحکم حکومت کے قیام کو مزید مشکل بنادیا ہے۔