پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ چوبیس فی صد ہے۔ آبادی میں اضافہ اور صنعتی ترقی ملک میں پانی کی قلت کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق گیارہ سو کیوبک میٹر پانی سالانہ فی کس ضرورت ہے۔ یہ بنیادی ضرورت اس وقت پوری نہیں ہورہی اور ملک آبی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔موسمی تبدیلیوں اور گرمی کے موسم میں کمی کے باعث گلیشیر پگھل نہیں رہے، اور بھارت نے بھی مقبوضہ کشمیر سے بہہ کر آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانا شروع کردیے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت سندھ طاس معاہدے کا حصہ ہیں لیکن بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے اور ہماری کسی حکومت نے اس معاملے پر عالمی سطح پر بھارت کا راستہ نہیں روکا۔
ملک میں پانی کے بحران سے متعلق گزشتہ دنوں سینیٹر محسن لغاری نے ایک نہایت مفصل رپورٹ سینیٹ میں پیش کی تھی جس میں اعدادو شمار سے یہ بات ثابت کی گئی کہ ملک کی زراعت پانی کی قلت کا شکار ہے، کسانوں کو موسمی تبدیلیوں سے متعلق کوئی ادارہ تربیت دینے کے قابل نہیں ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پینے کا ستّر فیصد پانی ہر سال ضائع ہورہا ہے۔ پاکستان کی زراعت اور پینے کے پانی کا زیادہ تر حصہ ہمیں بارشوں اور دریاؤں کے پانی سے ملتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشیں کم ہونے سے پانی کی شدید قلت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی کم ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار اُن تیس ممالک میں ہے جہاں پانی کے نصف ذرائع اور وسائل سرحدوں سے باہر سے آنے والے دریاؤں سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ڈھائی سو سے زائد آبی گزرگاہیں ہیں جو 145 ممالک کی سرحدوں کو کراس کرتی ہیں اور دنیا کی دو ارب نفوس پر مشتمل چالیس فی صد آبادی اس سے استفادہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کے بحران سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر سب سے پہلا معاہدہ 1815ء ویانا میں انٹرنیشنل کنونشن آف یونیورسل ایپلی کیشن کے نام سے ہوا تھا، اس معاہدے پر پھر1921ء میں کام ہوا، اور اس وقت عالمی سطح پر پانی کے معاہدوں میں 1997ء میں برسلز میں ہونے والا عالمی معاہدہ بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ پاک بھارت کی سطح پر پانی کے سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ستلج، راوی اور بیاس پر بھارت، اور دیگر پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم چناب، سندھ اور جہلم پر گزارا کررہے ہیں لیکن بھارت جہلم کے بعد افغانستان کے ساتھ مل کر دریائے سندھ پر بھی ڈیم بنارہا ہے۔ بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت اس خطے میں امن کو شدید نقصان پہنچائے گی۔
بھارت نے ایک بار پھر واٹر بم سے حملہ کردیا ہے، متنازع کشن گنگا پروجیکٹ کے افتتاح سے اس حملے کی ابتدا کی گئی ہے۔ ڈیم کی تعمیر عالمی قوانین اور سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بھارت متنازع ڈیموں کی تعمیر سے باز رہے۔ بھارت نے متنازع ڈیم سے متعلق پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ مذاکرات سے بھی مکمل انحراف کرتا رہا۔ سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 3کے مطابق بھارت دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر کسی صورت ڈیم یا کسی قسم کا تعمیراتی کام کرہی نہیں سکتا۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کی قیادت پاکستان کا وفد کیس لے کر امریکہ پہنچے ہیں جہاں ورلڈ بینک کے سامنے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر وہ پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے۔ کیونکہ ورلڈ بینک، سند ھ طاس معاہدے کا صامن ہے۔ ورلڈ بینک کی ثالثی کے باوجود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں متنازعہ ڈیم تعمیر کیے ہیں، بھارت کی آبی دہشت گردی جس طرح بڑھ رہی ہے اس کے باعث ضروری ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف آواز بلند کرے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت، بیوروکریسی، پالیسی ساز اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ یہ اُس وقت ہی کیوں جاگتے ہیں جب کام ہوچکا ہوتا ہے؟ اور اُس وقت کیوں بیدار نہیں ہوئے جب بھارت نے اس ڈیم کی ابتدا کی تھی۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت مغربی دریاؤں کا بہتا پانی ہرگز نہیں روک سکتا، لیکن اس نے پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یکے بعد دیگرے 120 ڈیم تعمیر کرلیے جو کہ بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے۔ متنازع کشن گنگا پروجیکٹ سے پاکستان میں نیلم جہلم ہائیڈل پاور پروجیکٹ پانی کی عدم دستیابی سے تباہ ہوکر ریت کا ڈھیر بن جائے گا۔ پاکستان دریائے جہلم کے پانی سے محروم ہوجائے گا۔ پاکستان کی حکومتوں نے اقتدار بچانے اور جنگ سے بچنے کی خاطر یہ انتہائی اہم اور قومی بقا کا مسئلہ آئندہ حکومتوں پر چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے بھارت ایک طویل المدتی پروگرام کے تحت پاکستان کے آبی وسائل اپنی حدود میں کنٹرول کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے 300 ڈیم اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس تعمیر کررہا ہے،جن میں چھوٹے بڑے 100ڈیم مکمل ہوچکے ہیں اور تین درجن سے زائد پروجیکٹس کے لیے ابتدائی کام شروع ہے۔
خفیہ ہاتھوں نے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے ختم کرنے کے لیے قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنی سرگرمیاں شروع کردی تھیں، اور پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرکے اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف سنگین آبی جارحیت شروع کردی ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کو امریکہ، چین اور اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ چونکہ پانی کشمیر سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ سندھ طاس معاہدہ بھارت یک طرفہ ختم نہیں کرسکتا۔ معاہدہ ختم
کرنے سے پاکستان کو ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھی حق حاصل ہوجائے گا۔ مگر یہ باہمی رضامندی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ وطن عزیز آج آبی قلت، توانائی کے شدید بحران اور زبردست معاشی بدحالی کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوئے، یہ ایک طویل ترین کولڈ وار کا نتیجہ ہے۔ قوم یک جان ہوکر بھارت کی یہ صلاحیت ختم کرسکتی ہے۔ موجودہ دور میں نفسیاتی اور تکنیکی جنگ، کلاشن کوف اور ایٹمی جنگ سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ظلم اور دہشت گردی کی انتہا ہے کہ اب بھارت نے دریائے ستلج، بیاس اور راوی کے بعد پاکستان کے باقی ماندہ دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا پانی بھی اپنی حدود میں کنٹرول کرلیا ہے۔ دریائے ستلج اور راوی میں پانی نہ آنے کے باعث پانی کے گراؤنڈ لیول کا ری چارجنگ پراسس ختم ہوگیا۔ کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فی الفور دریائے راوی کا پانی ریلیز ہونا ضروری ہے۔