طاہرہ حبیب جالب
پاکستان نے گزشتہ کئی سالوں کے دوران پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر279ارب روپے خرچ کیے ہیں لیکن ملک کی84فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ پاکستان جو کبھی بڑی مقدار میں آبی وسائل سے مالامال تھا آج پانی کے شدید مسئلے سے دو چار ہے۔ ملک کی آبادی20 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے‘ گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا بھر میں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے سمندر کی سطح بلند اورپینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت2ارب سے زائد انسان صاف پانی سے محروم ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے مطابق دیہات میں82فیصد لوگوں کو پینے کاصاف پانی دستیاب نہیں جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد اسہال‘ہیضہ اور دیگر موذی امراض کاشکار ہوکر جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔شہروں میں رہنے والے صرف15 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے جبکہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل مریضوں میں سے چالیس سے ساٹھ فیصد مختلف بیماریوں کاشکار ہوئے ہیں۔
پاکستانی حکومت پانی کی منصفانہ تقسیم اورآبی ذخائر کے تحفظ کویقینی بناتی تو پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا تھا مگر حکمرانوں کی ناقص حکمتِ عملی کے باعث آج ملک پانی کی قلت سے دوچار ہے پاکستان میں زیر زمین صاف پانی کی مقدار50 ملین ایکڑ فٹ ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام سے آج تک جتنے مسائل کاسامنا کیاہے اگر ان کی گنتی کرنے بیٹھ جائیں تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی جتنے بھی مسائل کا سامنا کیاگیاہے یا اب بھی کرناپڑ رہا ہے ان سے عملی طورپر نبردآزما ہونے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس وقت بھی بہت سے مسائل سراٹھا رہے ہیں جن کے مستقبل میں ہم پربہت گہرے اثرات ہو سکتے ہیں البتہ ان میں سے جس کاحل فوری طورپر ضروری ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے۔ شاید قارئین یہ جانتے ہیں کہ پاکستان ’’واٹر سٹریس لائن‘‘ سے1990ء میں ہی نیچے جاچکاہے جس کا مطلب ہے کہ پانی کی شدید کمی کاشکار ہوگیا ہے۔ اس کے بعد2005ء تک پاکستان پانی کی کم ترین سطح سے نیچے چلاگیا۔ اندیشہ یہ ہے کہ 2025ء تک پاکستان کو شدید قلت آب کاسامنا کرنا ہوگا۔ آج جیسے ہم بجلی کو ترستے ہیں ایسے ہی پانی کو ترسیں گے۔پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا پانی کاصارف ہے مگر ہم صرف دریائے سندھ کے نظام اوربارشوں سے پانی حاصل کرتے ہیں اوربارشیں موسمی تبدیلی کے لحاظ سے کم ہوتی جارہی ہیں۔60 کی ہائی کے بعد سے کوئی بڑا ڈیم بھی نہیں بنایاگیا ہے اورخطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ بھارت تیزی سے ان دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے جو پاکستان کو پانی فراہم کرتے ہیں یعنی بھارت پاکستان کاپانی روک سکتا ہے جوکہ زرعی معیشت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ پانی کی قلت سے نمٹناکوئی بڑا چیلنج نہیں ہے مگر اس کے لئے بروقت منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے ہمیں نئے ڈیموں اورآبپاشی کے نظام تک بہتر رسائی کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگارقومی وسماجی مسائل پرلکھتی ہیں)