میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ سے کیوں ہار جائیں گے؟

معروف کالم نویس جاوید چودھری کا تجزیہ

26 نومبر 2008ء کی رات دس سے گیارہ بجے کے درمیان دس دہشت گرد ممبئی کے آٹھ مقامات کلابا،نریمان ہاؤس، سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن، تاج محل ہوٹل، اوبرائے ہوٹل،لیپوڈ کیفے، سینٹر کروز اور ولے پارلے میں داخل ہوئے، اندھا دھند فائرنگ کی، گرنیڈ پھینکے اور 157 لوگ ہلاک اور 600 زخمی ہوگئے۔
تاج محل ہوٹل پر29نومبر کی صبح8 بجے تک دہشت گردوں کا قبضہ رہا، یہ حملے پوری دنیا میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنے، یہ حملے بھارت کے سیکورٹی سسٹم کے لیے رنگ کاٹ ثابت ہوئے، دنیا نے دیکھا دس دہشت گرد بھارت جیسی ابھرتی معاشی اور دفاعی طاقت کی چند گھنٹوں میں ناک رگڑ سکتے ہیں، تاج محل ہوٹل پر صرف چار دہشت گرد قابض تھے۔
بھارت کی فوج، پولیس اور نیشنل سیکورٹی گارڈز کو ہوٹل کلیئر کرانے میں 57گھنٹے لگ گئے، ممبئی اٹیکس سے بھارت کو آگے چل کر 20بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، انڈیا کی سافٹ ویئر انڈسٹری تباہ ہوگئی، سیاحت، ہوٹلوں اور ریستورانوں کی صنعت کو نقصان پہنچا اور بھارت کے کروڑوں لوگوں کے لیے نیند کی گولیوں کے بغیر سونا مشکل ہوگیا، لہٰذا ممبئی اٹیکس نے بھارت کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچایا، پولیس نے حملوں کے دوران گڑگاؤں چوپاتی سے اجمل قصاب کو گرفتار کرلیا،یہ اوکاڑہ کے قریب موجود گاؤں فرید کوٹ کا شہری نکلا۔
را نے اجمل قصاب کے اعترافی بیان کو بنیاد بناکر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا ’’یہ 10دہشت گرد بوٹ کے ذریعے پاکستان سے ممبئی پہنچے، یہ لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ذکی الرحمن لکھوی نے لانچ کیے تھے اور یہ آپریشن کے دوران کراچی سے رابطے میں تھے‘‘وغیرہ وغیرہ۔ بھارت اسے ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔
پاکستان میں اُس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ، رحمن ملک وزیر داخلہ، اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے 27 نومبر کی شام 6 اینکر پرسنز کو آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر بلایا تھا، ہم نے اعتراض کیا بھارت کا میڈیا پاکستان پر مسلسل الزام لگا رہا ہے، ہم پاکستانی صحافی اکیلے یہ جنگ لڑ رہے ہیں، حکومت کیوں نہیں بول رہی؟ جنرل پاشا کا جواب تھا: ہم بھی اس رویے پر حیران ہیں، حکومت کو بولنا چاہیے۔
جنرل پاشا نے اس میٹنگ میں صاف کہا ’’پاکستانی ریاست یا کوئی ریاستی ادارہ ممبئی حملوں میں انوالو نہیں، یہ لوگ اگر پاکستانی ہیں تو یہ خود وہاں گئے اور یہ حملے ان کا ذاتی فعل ہے‘‘۔ جنرل پاشا نے یہ بھی کہا ’’نائن الیون کے 15 ذمے داروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ امریکہ نے آج تک نائن الیون کو سعودی عرب کا ریاستی حملہ نہیں کہا، چنانچہ ہم چند لوگوں کے ذاتی ایکٹ کو پاکستان کا ریاستی حملہ کیسے مان لیں‘‘۔ جنرل پاشا کا کہنا تھا ’’ہم اس حملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کررہے ہیں، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ حملہ کہیں بھارت کے اپنے لوگوں نے تو نہیں کیا،ہم اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے‘‘۔ ہم لوگ جنرل پاشا کی وضاحت سے مطمئن ہو گئے۔
صدر آصف علی زرداری نے اس حملے کو پہلی بار ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ (کی کارستانی) قرار دیا، یہ اصطلاح اس سے قبل پاکستانی میڈیا میں نہیں آئی تھی۔ پاکستان میں ممبئی اٹیکس کے بعد چند بڑی تبدیلیاں آئیں، بھارت کے دباؤ پر12 فروری 2009ء کو حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی، حماد امین صادق، مظہر اقبال اور یونس انجم کو گرفتار کرلیا گیا، پاکستان ان کی گرفتاری کے بعد بھارت سے ثبوتوں کا مطالبہ کرنے لگا لیکن بھارت نے آج تک ثبوت پیش نہیں کیے۔
بھارت نے پاکستان کو اجمل قصاب تک رسائی بھی نہیں دی، چنانچہ ذکی الرحمن لکھوی9 اپریل 2015ء کو ضمانت پر رہا ہو گئے، پاکستان نے ہر فورم پر تفتیش اور تحقیقات میں بھارت کی مدد کا عندیہ دیا لیکن بھارت نے آج تک ’’کو آپریشن‘‘ نہیں کیا، تاہم صدر آصف علی زرداری، وزیرداخلہ رحمن ملک، امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل محمود درانی یہ تسلیم کرتے رہے کہ ممبئی اٹیکس میں شامل لوگ ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ تھے۔ یہ لوگ اپنے طور پر بھارت گئے تھے، ریاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ایف آئی اے کے ڈی جی طارق کھوسہ نے 3 اگست 2015ء کو ڈان میں مضمون لکھا اور تفتیش کی بنیاد پر تسلیم کرلیا کہ یہ لوگ پاکستانی نان اسٹیٹ ایکٹرز تھے اور اس آپریشن کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی، لیکن بھارت نے ان لوگوں کو نان اسٹیٹ ایکٹرز ماننے سے بھی انکار کردیا اور ممبئی اٹیکس کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان اور ایران میں بھاری سرمایہ کاری اور کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کے ذریعے طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو سرمایہ، اسلحہ، بارود اور ٹریننگ بھی دینا شروع کردی۔ یوں پاکستان دہشت گردی کے خوفناک فیز میں داخل ہوگیا۔
بھارت نے ممبئی اٹیکس کا بدلہ لینے کے لیے اکتوبر 2009ء میں ہمارے جی ایچ کیو پر حملہ بھی کرایا، بھارت ان حملوں کو عالمی سطح پر کوریج بھی دلاتا رہا جس سے پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا، سرمایہ کار بھاگ گئے، سفارت خانوں نے عملہ کم کردیا اور پاکستان کے اپنے متمول لوگ بھی دبئی اور یورپ میں شفٹ ہونے لگے، یہ سلسلہ چلتا رہا اور 2013ء آگیا، میاں نوازشریف بھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن گئے،یہاں سے دوسرا فیز شروع ہوا۔
ہم اگر میاں نوازشریف کی شخصیت اور 2013ء سے 2018ء کے درمیان ہونے والے واقعات کا تجزیہ کریں تو ہم چند نتائج پر پہنچیں گے،مثلاً میاں نوازشریف فوج کے خلاف ہیں، یہ اختلافات جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہو گئے تھے، جنرل ضیاء الحق میاں نوازشریف کو چودھری صاحبان کے سامنے ڈانٹ دیتے تھے، وہ یہ بے عزتی آج تک نہیں بھولے، یہ جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کے ’’کردار‘‘ پر بھی دکھی ہیں۔
جنرل غلام محمد ملک(کمانڈر دس کور) نے 1993ء میں نوازشریف کے کندھے پر چھڑی رکھ کر کہا تھا ’’سٹ ڈاؤن ینگ مین‘‘ اور پھر فوج نے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا،میاں صاحب یہ بھی نہیں بھولے۔ میاں صاحب کے دل پر جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویزمشرف کے لگائے ’’زخم‘‘ بھی ابھی تک موجود ہیں چنانچہ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اور جنرلز دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
نوازشریف حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیشِ محمد کا مکمل خاتمہ بھی چاہتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں ممبئی اٹیکس ہوں، پٹھان کوٹ کا واقعہ ہو یا پھر اڑی حملہ، ہم یہ حملے روک سکتے تھے۔ یہ ذاتی محفلوں میں بار بار چین اور روس کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔
یہ کہتے ہیں ’’مجھے چین اور روس کے صدر نے بھی کہا تھا، آپ اپنے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو روکیں، ہم زیادہ دیر تک آپ کی مدد نہیں کرسکیں گے‘‘۔ اور یہ سمجھتے ہیں ’’ہم جب تک بھارت کے ساتھ اپنے معاملات درست نہیں کرلیتے، ترقی نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بھارت کے ساتھ بارڈرز بھی کھولنا چاہتے ہیں اور تجارتی تعلقات بھی استوار کرنا چاہتے ہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف دونوں بھائیوں میں فوج، افغانستان اور انڈین پالیسی پر اختلاف ہے۔
میاں شہبازشریف فوج کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں ہمیں کام کرنا چاہیے، ہمارا کام کبھی نہ کبھی ہمیں فتح یاب کردے گا، جب کہ میاں نوازشریف فوج سے مقابلہ بھی چاہتے ہیں اور افغان اور انڈین پالیسی بھی بدلنا چاہتے ہیں، ان ایشوز پر مریم نواز، پرویز رشید اور طارق فاطمی ان کے ساتھ ہیں، مشاہد حسین سید بھی اب اس فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔
پارٹی کے سینئر لوگوں کا خیال ہے کہ سرل المیڈا کے ڈان ٹو کے متنازع فقرے کے ڈیزائنر بھی مشاہد حسین سید ہیں، پارٹی بھی نوازشریف کے نقطہ نظر کے خلاف ہے، پارٹی سمجھتی ہے کہ ملک اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ ملک ہے، ہم ان سے لڑ کر سیاست کرسکتے ہیں اور نہ ہی حکومت۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ فوج سے تمام اختلافات کے باوجود میاں نوازشریف ’’اینٹی پاکستان‘‘ نہیں ہیں، اور فوج بھی ان کی وفاداری کو تسلیم کرتی ہے، ہم اب تازہ ترین ایشو کی طرف آتے ہیں۔
حکومت نے 6 اکتوبر2016ء کو سرل المیڈا کے ذریعے ڈان میں ایک خبر لیک کرائی، وہ خبر ڈان لیکس کے نام سے مشہور ہوئی، آپ کسی فرانزک ایکسپرٹ سے خبر کے الفاظ اور طارق فاطمی کے ڈرافٹس کا تجزیہ کرا لیں، آپ کو حقیقت تک پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔ پرویزرشید نے خبر کی اشاعت میں سہولت کاری کی تھی، چنانچہ یہ دونوں لوگ وزارتوں سے فارغ ہو گئے، مریم نواز کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا لہٰذا یہ بچ گئیں، جنرل باجوہ نے 9 مارچ کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں یہ تسلیم کیا تھا ’’ڈان لیکس میں مریم نواز انوالو نہیں تھیں۔‘‘12مئی کو ایک بار پھر ڈان اور سرل المیڈا استعمال ہوئے۔
نوازشریف نے اس انٹرویو میں کہا ’’عسکریت پسند تنظیمیں متحرک ہیں، کیا ہمیں انھیں اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار کریں اور ممبئی میں 150 لوگوں کو مار دیں؟‘‘سرل المیڈا کی یہ دونوں خبریں بھارتی میڈیا میں ’’اوور پلے‘‘ ہوئیں۔
’’اوورپلے‘‘ کا یہ کام بھارتی گجرات کے ایک ارب پتی بزنس مین نے کیا، یہ بزنس مین نریندر مودی اور میاں نوازشریف کے درمیان رابطہ ہیں، چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی اور امریکہ میاں نوازشریف کے ان خیالات کے بینی فشری ہیں۔ یہ دونوں ’’ہم نہ کہتے تھے یہ گند پاکستان پھیلا رہا ہے‘‘ کا واویلا کرکے پاک فوج کو ٹائٹ کررہے ہیں۔
ہم اگر ان واقعات کا تجزیہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ میاں نوازشریف عنقریب افغانستان اور کارگل کے بارے میں بھی ایسی ہی’’حق گوئی‘‘ کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ یہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بھی انکشافات کرسکتے ہیں، اور یہ انکشافات افغانستان، امریکہ اور بھارت کے میڈیا میں ’’اوور پلے‘‘ ہوں گے، اور یہ میاں نوازشریف کی سیاست اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔
میاں نوازشریف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست اور اپنی زندگی دونوں کے لیے خطرناک ہوتے جارہے ہیں، کیوں؟ ہم جواب کی طرف آنے سے پہلے ذرا سا پس منظر میں جھانکیں گے۔
یہ ملک ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بنا تھا، یہ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت کے پیچھے بے شمار حقیقتیں چھپی ہیں، مثلاً یہ ملک ایک طاقتور فوج کے لیے بھی بنا تھا، کیوں؟ دو وجوہات ہیں، پاکستان دو عالمی طاقتوں روس اور چین اور دنیا کی تیسری ابھرتی ہوئی عالمی طاقت بھارت کی سرحد پر واقع ہے، پاکستان کی مضبوط فوج تینوں طاقتوں کی عالمی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ ہے، آپ فرض کرلیجیے پاک فوج مضبوط نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟
سوویت یونین 1960ء تک بحیرہ عرب، خلیج فارس اور خلیج عمان تک پہنچ گیا ہوتا اور امریکہ 1980ء کی دہائی کی افغان جنگ بھی نہ جیت سکتا اور یہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی نہ لڑسکتا۔ امریکہ پاک فوج کی وجہ سے بھارت کو بیسیوں مرتبہ میز پر لے کر آیا، اور یہ جنرل یحییٰ خان تھے جنہوں نے امریکہ اور چین کے مذاکرات شروع کرائے، چنانچہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کبھی بھی معاشی نہیں رہی، ہمارے تعلقات ہمیشہ دفاعی رہے۔
امریکہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات استوار کرتا ہے اور یہ ہمیشہ دفاعی تعلقات ہی توڑتا ہے، امریکہ پر جب بھی پاکستانی لیڈر یا فوج دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آتا ہے یہ ہمیشہ لیڈر فوراً قربان کردیتا ہے، آپ ایوب خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک تمام لیڈروں کے بارے میں امریکہ کا رویہ دیکھ لیجیے، ایوب خان امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھے لیکن جب انھیں 1968ء میں ضرورت پڑی تو امریکہ فوج کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
یحییٰ خان صدر بنے تو امریکی سفیر بنجمن ہلبرن نے سب سے پہلے مبارک باد پیش کی، یحییٰ خان نے امریکہ اور چین کو ایک میز پر بٹھایا لیکن 1971ء کی جنگ کے بعد جب یحییٰ خان اور فوج میں سے ایک کے انتخاب کا وقت آیا تو امریکہ فوج کے ساتھ کھڑا ہو گیا، یحییٰ خان قربان ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے وقت بھی امریکہ نے فوج کا ساتھ دیا۔ امریکہ نے 1988ء میں اپنے ہیرو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اپنا سفیر آرنلڈلیوس رافیل بھی قربان کردیا۔
نوازشریف اور بل کلنٹن دوست تھے لیکن جب جنرل پرویزمشرف اور نوازشریف میں انتخاب کا وقت آیا تو امریکہ فوج کے ساتھ کھڑا ہو گیا، جنرل پرویزمشرف نو سال امریکہ کی آنکھوں کا تارا رہے لیکن جب فوج نے یہ بوجھ اتارنے کا فیصلہ کیا تو امریکہ نے جنرل پرویزمشرف کے حق میں کلمہ خیر تک کہنے سے انکار کردیا، جنرل پرویزمشرف آج بھی دبئی میں رہتے ہیں، امریکہ میں نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو امریکہ پاکستان لے کر آیا تھا لیکن جب وہ شہید ہوئیں تو امریکی وزارت خارجہ نے محترمہ کے لابیسٹ مارک سیگل کی ای میلز تک کی تصدیق سے انکار کردیا اور آج پاک فوج اور امریکہ کے تعلقات انتہائی خراب ہیں لیکن یقین کیجیے جب میاں نوازشریف کھل کر میدان میں اتریں گے تو امریکہ ان کا ساتھ نہیں دے گا، یہ نوازشریف کے بیانات کو تاش کا پتہ بناکر پاک فوج کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرلے گا، یہ نوازشریف کو دھوکا دے دے گا۔
ہم اب ایک اور حقیقت کی طرف آتے ہیں۔ پاک فوج ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے، میں دل سے سمجھتا ہوں کہ یہ ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا اور یہ جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتا، ہم نے جس دن فوج کو کمزور کردیا، یہ ملک اس دن پانچ حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔
عوام یہ حقیقت جانتے ہیں چنانچہ یہ فوج پر کمپرومائز نہیں کرتے، آپ خواہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے کرشماتی سیاست دان ہی کیوں نہ ہوں اور آپ خواہ الطاف حسین جیسے مضبوط لیڈر ہی کیوں نہ ہوں، آپ فوج کو گالی دے کر پاکستان میں سیاست نہیں کرسکتے، آپ کے اپنے لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، یہ آپ کو بھائی سے صاحب اور قائد ملت سے قائدِ قلت بنادیتے ہیں، چنانچہ ہمیں ماننا ہوگا کہ عوام لاکھ اختلافات کے باوجود فوج سے محبت کرتے ہیں اور ملک میں جب بھی سیاست دانوں اور فوج کے درمیان ریفرنڈم ہوگا لوگوں کا ووٹ فوج کے ساتھ ہو گا۔ یہ نوازشریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔
اور تیسری حقیقت پنجاب کا کردار ہے، ہم پنجابیوں میں کھڑے ہونے کے جینز ہی نہیں ہیں، راجا پورس اور رنجیت سنگھ کے سوا آج تک پنجاب کا کوئی لیڈر کسی سے نہیں لڑا، راجا پورس خطے کی دس ہزار سال کی تاریخ کا واحد بادشاہ تھا جس نے کسی حملہ آور کا راستہ روکا، ورنہ سینٹرل ایشیا سے جو بھی آیا ہم نے دریائے سندھ پر اس کے گلے میں ہار ڈالے اور اسے پانی پت چھوڑ کر آئے، وہ جیت گیا تو ہم اس کی جیت میں شامل ہو گئے، اور اگر وہ ہار گیا تو ہم نے شکست زدہ فوج کو لوٹ لیا، یہ ہماری تاریخ ہے۔
تاریخ کا پہیہ صرف ایک بار بدلا تھا، انگریز پانی پت سے لاہور آئے تھے، ہم نے اس بار انھیں راوی کے کنارے سے لیا تھا اور کابل چھوڑ کر آئے تھے، انگریز اس کے بعد 1947ء تک افغانوں کے ساتھ لڑتا رہا۔ ہم پنجابی، طاقت وروں کے ساتھ لڑتے نہیں ہیں، ہم سچوں کے ساتھ کھڑے بھی نہیں ہوتے، یہ ہمارا کریکٹر، یہ ہماری تاریخ ہے۔ جب کہ ہمارے مقابلے میں سندھ نے آج تک بھٹو کو مرنے نہیں دیا۔
بلوچ تین نسلوں سے اپنے سرداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کے پی کے میں دوسری نسل اور اسفند یار ولی تیسری نسل سے لیڈر ہیں، ان تینوں صوبوں نے انتہائی ناقص کارکردگی اور غلط سیاسی اتحادوں کے باوجود اپنے لیڈروں کو تنہا نہیں چھوڑا، جب کہ پنجاب نے ستر برسوں میں ستر لیڈر بدلے۔ ہم چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے لوگ ہیں۔ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ پاکستان تحریک انصاف کی نئی سیاسی فہرست دیکھ لیجیے، آپ کو اس میں بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا کے لوگ کم اور پنجاب کے زیادہ دکھائی دیں گے۔
آج اگر عدالت میاں نوازشریف کے حق میں فیصلہ دے دے یا نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہوجائے تو آپ دیکھ لیجیے گا کل عمران خان بنی گالہ میں اکیلے بیٹھے ہوں گے، چنانچہ میاں نوازشریف اگر یہ جنگ پنجاب کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں تو پھر یہ میدان سجنے سے پہلے یہ جنگ ہار جائیں گے، کیونکہ اس جنگ میں شاید محمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو ان کا ساتھ دے دیں لیکن پنجاب ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا، یہ لوگ دل نوازشریف کو دے کر تلواریں نئے آنے والوں کے حوالے کردیں گے، ہم پنجابی فطرتاً کوفی ہیں۔
میاں نوازشریف نے بدقسمتی سے یہ تمام حقیقتیں جانے اور تاریخ کا ادراک کیے بغیر یہ جنگ چھیڑ دی، اور یہ دن بدن پھنستے چلے جارہے ہیں۔ میاں نوازشریف کی اس جنگ میں ان کا سگا بھائی اور بھائی کا خاندان بھی ان کے ساتھ نہیں ہے، ان کے دل اور تلواریں دونوں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں، یہ سمجھتے ہیں ہمیں صلح کرلینی چاہیے، لیکن میاں نوازشریف ضد پر اڑ گئے ہیں، میاں صاحب یہ حقیقت ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ مشاہد حسین سید تابوت کی آخری کیل ہیں، یہ کیل انھیں بچانے نہیں دفن کرنے آئی ہے اور میاں صاحب یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ امریکہ اور بھارت مستقبل میں ان کے بیانات کو تاش کے پتوں کی طرح استعمال کریں گے۔
یہ ان کی مدد سے اپنے اپنے الو سیدھے کریں گے اور آخر میں انھیں تنہا چھوڑ دیں گے۔ کاش میاں نوازشریف سرل المیڈا کی اسٹوری کے بعد کے واقعات دیکھ لیں، یہ دیکھ لیں کہ ان کے سگے بھائی میاں شہبازشریف اور ان کی اپنی حکومت ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔
شہبازشریف نے کہہ دیا تھا ’’میاں نوازشریف کے الفاظ پارٹی پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے‘‘۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں نوازشریف کے موقف کو گمراہ کن اور غلط قرار دے دیا تھا، یہ جب نوازشریف سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے لیے وزیراعظم سیکریٹریٹ آئے اور انھوں نے اپنے وزراء کو بتایا ’’مریم بی بی کہتی ہیں، ہم اپنا ردعمل بونیر کے جلسے میں دیں گے‘‘تو وزراء نے وزیراعظم کو پریس کانفرنس منسوخ کرنے کا مشورہ دیا۔
وزیراعظم پریس کانفرنس منسوخ کرنے کی ہمت نہ کرسکے تو پھر دو وفاقی وزراء نے وزیراعظم کی پریس کانفرنس ’’آن ائیر‘‘نہیں ہونے دی۔ یہ وزراء وزیراعظم کو سمجھاتے رہے کہ میاں نوازشریف نے سرل المیڈا کو انٹرویو دے کر غلطی کی اور آپ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اعلامیے کے بعد نوازشریف کا ساتھ دے کر حماقت کررہے ہیں، اور یہ حماقت پورے سسٹم اور پوری جماعت کو لے کر بیٹھ جائے گی۔
کاش میاں صاحب یہ دیکھ کر ہی سنبھل جاتے، کاش یہ اشارے کو کافی سمجھ لیتے۔ لیکن میاں نوازشریف بدقسمتی سے الطاف حسین کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ الطاف حسین بیان دیا کرتے تھے اور پارٹی اس بیان میں سے ’’سیاق و سباق‘‘ نکالتی رہ جاتی تھی، یہاں تک کہ ایک دن الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگا دیا اور ان کی اپنی پارٹی نے انھیں الطاف بھائی سے الطاف صاحب بنا دیا، یہ اپنوں کے لیے بھی اجنبی ہو گئے۔
مجھے خطرہ ہے کہ میاں نوازشریف نہ رکے تو یہ بھی الطاف حسین کی طرح قائدِ محترم سے قائد فراموش ہوجائیں گے۔ طارق فضل چودھری جیسا وفادار اور مخلص ساتھی بھی اپنے مچلکے واپس لینے پر مجبور ہوجائے گا۔ میاں نوازشریف کے پاس اب بھی وقت ہے کہ مزید سیاسی غلطیاں نہ کریں ورنہ یہ سیاست کے ساتھ ساتھ اپنا سب کچھ کھو دیں گے، کیوں؟
کیونکہ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں صرف سچا ہونا کافی نہیں ہوتا، سمجھ دار بھی ہونا چاہیے۔ اور سمجھ دار وہ ہوتا ہے جو اشاروں کو کافی سمجھے، جو مچھلی کی طرح واپسی سے پہلے پتھر نہ چاٹے۔