انتخابات 2018ء: شکوک، شکایت، شبہات

۔11 مئی 2013ء کو صبح سویرے قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے اپنا ووٹ کاسٹ کرکے میں بھاگم بھاگ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی سیکریٹریٹ پہنچا۔ کوئی ساڑھے دس بجے کا وقت ہوگا۔ عمارت کے مرکزی ہال میں حکمران خاندان کا دیرینہ کشمیری ملازم ایک کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے سامنے کی دیوار پر لگا بڑی اسکرین کا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ یہ وہی ہال ہے جس میں اُس وقت سے اب تک پنجاب کے مکھیہ منتری تقریباً ہر روز کوئی میٹنگ رکھتے ہیں۔ کشمیری ملازم ایک ایسی کرسی پر بیٹھا تھا جس پر بیٹھنے کی بہت سے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ کرسی مکھیہ منتری کے بالکل ساتھ والی کرسی تھی۔ چائے کا کپ حاجی صاحب کے سامنے رکھا تھا۔ میں نے ہال میں داخل ہوتے ہوئے یوں ہی پوچھ لیا ’’حاجی صاحب کیا خبریں ہیں انتخابات کی؟‘‘ حاجی صاحب کا جواب بڑا برجستہ مگر بہت گہرا تھا۔ اتنا گہرا کہ اگلے پانچ سال تک ملک بھر میں اُسی کی گونج رہی، اور اب بھی فضا میں کہیں نہ کہیں وہی خدشہ موجود ہے۔ جہاں دیدہ کشمیری خدمت گزار کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایسے انتخابات ہیں جنہیں کوئی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ آگے بڑھنے کے بجائے میں یک لخت رک گیا۔ میرے پائوں جیسے زمین نے پکڑ لیے ہوں، دماغ وسوسوں اور خدشات سے بھر گیا۔ یااللہ ابھی تو پولنگ شروع ہوئی ہے، یہ بھی واضح نہیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ سب اپنا اپنا زور لگارہے ہیں، پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فتح کے لیے لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں، ووٹروں کو نکالا جارہا ہے، پولنگ کے عملے کے ساتھ سازباز کی کوششیں ہورہی ہیں، ابھی پولنگ ختم ہونے میں 7 گھنٹے اور نتائج آنے میں کم از کم دس گھنٹے باقی ہیں اور حاجی صاحب ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کے نتائج کو کوئی نہیں مانے گا! میں نے اپنا خدشہ فوراً اُگل دیا ’’حاجی صاحب یہ آپ کا اندازہ ہے یا آپ کے پاس اس طرح کی کوئی اطلاعات ہیں؟‘‘ انہوں نے بھی فوراً ہی جواب دے دیا جیسے پہلے ہی انہیں اس سوال کا اندازہ ہو، کہنے لگے ’’اطلاعات اور معلومات تو بڑے لوگوں کے پاس ہوتی ہیں، میرا تو صرف اندازہ اور سابقہ تجربہ ہے۔ دیکھ لینا یہی ہوگا‘‘۔ حاجی صاحب کا لہجہ تیقن سے بھرا ہوا تھا… اور پھر وہی ہوا، اگلے ایک گھنٹے بعد اس طرح کی خبریں آنے لگیں: کراچی میں جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، سندھ کے اندرونی علاقوں میں ووٹنگ کا عمل رُک گیا، خیبرپختون خوا کے دور دراز علاقے ہی نہیں دارالحکومت کے قرب و جوار میں بھی لڑائی جھگڑے کے بعد پولنگ رکی رہی، بلوچستان میں پولنگ رک رک کر ہوتی رہی اور فائرنگ رکتی اور چلتی رہی۔ الیکشن کمیشن کو ہر ضلع اور بیشتر حلقوں سے دھاندلی کی شکایات ملتی رہیں۔ ابتدائی نتائج آنا شروع ہوئے تو سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں مسلم لیگ (ن) پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ پھر مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں بدترین دھاندلی کا الزام لگادیا۔ تحریک انصاف نے کہیں مسلم لیگ (ن) اور کہیں پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ بلوچستان میں سرداروں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات جڑ دیے۔ اور پورے ملک میں ہاہاکار شروع ہوگئی۔ ابتدائی نتائج میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی واضح ہونے لگی تو رات 11 بج کر 20 منٹ پر میاں نوازشریف اسی بالکونی پر آئے جس کے نیچے والے ہال میں اُن کے دیرینہ ملازم نے چند گھنٹے قبل انتخابات کے بارے میں شدید خدشہ ظاہر کیا تھا۔ میاں نوازشریف کے دائیں بائیں میاں شہبازشریف، مریم نواز، انوشہ رحمان، طارق عظیم اور دوسرے لوگ تھے، اور نیچے لان میں مسلم لیگی کارکن بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ میاں نوازشریف نے یہاں وہ تقریر کی جو بعد میں پورے پانچ سال متنازع بنی رہی۔ انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے واضح اکثریت دلائو تاکہ میں فیصلوں کے لیے آزاد ہوں اور کسی کے آگے مجبور نہ ہوں۔ ان ہی جملوں کو چند گھنٹوں بعد عمران خان نے آر اوز کے نام پیغام سے تعبیر کردیا۔ انہوں نے پورے ملک میں منظم دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے چار حلقوں کی ری کائونٹنگ کا مطالبہ کیا۔ بعد میں ان چاروں حلقوں میں دوبارہ گنتی کے بعد عدالتوں نے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ چناں چہ
ایاز صادق اور جہانگیر ترین کے حلقوں میں دوبارہ پولنگ ہوئی۔ سعد رفیق نے اس حکم کے خلاف عدالتی حکم امتناعی حاصل کرلیا جو اب تک قائم ہے۔ خواجہ آصف کو الیکشن کمیشن نے اُس وقت نااہل قرار دیا جب ضمنی انتخاب کرانے کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ پورا ملک پانچ سال تک انتخابی دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہا۔ ہر جماعت موقع بہ موقع دوسری کسی سیاسی جماعت پر 2013ء میں دھاندلی کا الزام لگاتی رہی۔ اور عملاً حاجی صاحب کی بات درست ہوگئی کہ کسی نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔
11 مئی 2013ء کا یہ سارا منظر آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے، پانچ سال گزر چکے لیکن یہ پورے پانچ سال اسی ہنگامے میں گزرے کہ کسی نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ اگلے دو ماہ میں نئے انتخابات ہونے والے ہیں، حالات وہی ہیں بلکہ پہلے سے بدتر ہیں۔ حکمران جماعت کے دیرینہ ملازم کو پولنگ والے دن یہ خدشہ تھا، آج پاکستان کے ہر سیاسی کارکن کو یہی خدشہ ہے، اور یہ خدشہ بھی انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ہے۔ انتخابی عمل شروع ہونے سے قبل ہی دانشور حلقوں کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات بھی 2013ء کی طرح کسی کو قبول نہیں ہوں گے۔ یہ فضا بن چکی ہے، انتخابات تک مزید پختہ ہوجائے گی اور انتخابات کے بعد پھر وہی فضا اور ہنگامہ خیز ماحول بن جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کو ابھی سے خوف اور خدشہ ہے کہ اُسے انتخاب میں جیتنے نہیں دیا جائے گا۔ وہ خلائی مخلوق کی بھی باتیں کررہی ہے اور عدلیہ کے فیصلوں پر بھی تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔ وہ جس طرح الیکشن میں جانا چاہتی ہے اس طرح جا نہیں پائے گی۔ اگر انتخابات سے قبل نوازشریف کو سزا ہوجاتی ہے اور وہ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم نہیں چلا پاتے تو اس پارٹی کے خدشات سچ ثابت ہوں گے۔ ایسے میں جہاں اُسے پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ کا سامنا ہوگا وہیں سب سے بڑی مشکل یہ ہوگی کہ وہ کس بیانیے پر انتخاب لڑے۔ نوازشریف، مریم نواز اور ان کے حمایتیوں کاکہنا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پر الیکشن لڑا جائے۔ یہ بیانیہ اعلانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے، اس پر عدلیہ کو بھی تحفظات ہوں گے اور فوج کو بھی۔ شہبازشریف جو اب پارٹی کے سربراہ بن چکے ہیں، اگر اس بیانیے کے ساتھ میدان میں اُترتے ہیں تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھلا اعلاِن جنگ ہوگا، جس کے شہبازشریف متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے خواہاں ہیں اور اُس کے لیے کوشش بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی زبان سے اب تک ووٹ کو عزت دو کا جملہ بھی ادا نہیں کیا۔ ایسی صورت میں نوازشریف کے جیالوں کے ووٹ کیسے حاصل کریں گے؟ اور اگر یہ نعرہ لگاتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کیسے چلائیں گے؟ پھر انہیں پنجاب میں تحریک انصاف ہی نہیں جنوبی پنجاب کے بااثر حلقوں کی مخالفت اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے الیکٹیبلز کا بھی سامنا ہوگا۔ اِس بار پورا ملک تو دور بات ہے، نون لیگ کو پنجاب میں بھی سنگل لارجسٹ پارٹی بننے کا موقع شاید نہ مل سکے۔ ان نتائج کو نوازشریف ہی نہیں شہبازشریف بھی مسترد کردیں گے کہ بلوچستان میں اب انہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف سے ناراض لوگوں اور وہاں تحریک انصاف کی سطحی کارکردگی سے جو جگہ ملنا تھی وہ اب ایم ایم اے لے جائے گی۔ اندرون سندھ میں پہلے ہی اس کا کچھ نہیں تھا، اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کراچی میں بھی وہ بہت ہمت کرے تو شاید ایک آدھ سیٹ نکال سکے۔ اس ماحول میں مسلم لیگ (ن) انتخابی نتائج قبول نہیں کرے گی۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے تین دھڑے آمنے سامنے ہوں گے، اگر بہادر آباد اور پی آئی بی ایم کیو ایم اکٹھی ہوجائیں تو پی ایس پی کو یہ نتائج قبول نہیں ہوں گے، اور اگر تینوں دھڑے الگ الگ میدان میں اترتے ہیں تو تینوں، نتائج کو مسترد کردیں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کہہ چکے ہیں کہ اگر آئندہ انتخابات بھی سینیٹ کے انتخابات جیسے ہوں گے تو اس سے پورا نظام ڈسٹرب ہوجائے گا۔ گویا اُن کا خدشہ ہے کہ عام انتخابات سینیٹ کے انتخابات جیسے ہی ہوں گے۔ اگر جماعت اسلامی یعنی ایم ایم اے کی اہم جماعت ابھی سے خدشات کا اظہار کررہی ہے جب کہ ایم ایم اے کی ایک اہم رکن پارٹی جے یو آئی (ف) پہلے ہی نوازشریف کی اخلاقی فیور کرے تو شاید ایم ایم اے بھی انتخابات کو قبول نہ کرے۔ بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کے گروپ کو پذیرائی ملے گی اور باقی سردار ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ یہ سردار اور دوسری جماعتیں بھی نتائج کو قبول نہیں کریں گی۔ رہ گئیں چھوٹی اور علاقائی جماعتیں، وہ تو ہمیشہ ہی دھاندلی کی شاکی رہتی ہیں۔ ایسے میں لگتا یہی ہے کہ 2013ء کے انتخابات کو تو لوگوں نے پولنگ کے بعد مسترد کیا تھا، لیکن شاید ان انتخابات کو پولنگ سے قبل ہی ماننے سے انکار کردیں۔ ایسی صورت میں سیاسی جماعتیں بہت سے تحفظات کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیں گی، اور پھر تحفظات اور شکووں کے ساتھ نتائج قبول تو کرلیں گی مگر اس سے ملک کا سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوگا بلکہ خدشات اور تحفظات کا یہ ماحول پورے نظام کو بُری طرح متاثر کرے گا اور عام آدمی کا اس نظام پر یقین مزید کمزور ہوجائے گا۔