2013ء کے عام انتخابات میں پی کے 20 چارسدہ سے قومی وطن پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے خالد خان مہمند کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے صوبائی اسمبلی میں قومی وطن پارٹی کی گرنے والی وکٹوں کی تعداد سات ہوگئی ہے، جس سے صوبائی اسمبلی میں اب اس کے صوبائی صدر اور پارٹی کے بانی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو کے بڑے صاحب زادے سکندر حیات خان شیرپائوسمیت قومی وطن پارٹی کے ارکان کی تعداد دس سے گھٹ کر محض تین رہ گئی ہے، جن میں دوسرے چارسدہ سے منتخب رکن اسمبلی ارشد خان عمر زئی ہیں، جبکہ تیسری ر کن پارٹی کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور صوبائی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں پر پارٹی کی خاتون رکن محترمہ انیسہ زیب طاہر خیلی ہیں۔ قومی وطن پارٹی (جس نے گزشتہ عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہی پیپلز پارٹی شیرپائو کے وجود سے جنم لیا تھا) نے 2013ء کے انتخابات میں ناتجربہ کاری اور سیاست میں نئی انٹری کے باوجود دس نشستوں پر کامیابی کے ساتھ جہاں صوبے کی تین پرانی جماعتوں پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کو عددی برتری کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا تھا، وہیں وہ پی ٹی آئی کی قیادت میں بننے والی تین فریقی مخلوط حکومت میں بھی شامل ہوگئی تھی جس نے تمام سیاسی پنڈتوں کو نہ صرف حیرت میں ڈال دیا تھا بلکہ ان کے تمام سیاسی تجزیوں کو بھی غلط ثابت کردیا تھا، البتہ قومی وطن پارٹی کے ساتھ یہ المیہ ضرور ہوا تھا کہ قومی اسمبلی میں سارے صوبے سے اسے صرف چارسدہ سے ایک نشست پر کامیابی ملی تھی جس پر پارٹی چیئرمین آفتاب خان شیرپائو کامیاب ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ قومی وطن پارٹی 2013ء کے انتخابات میں چارسدہ کے علاوہ صوابی، دیر پائین اور مانسہرہ سے بھی نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوگئی تھی جس سے وہ اور اس کی قیادت اس تاثر کو زائل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے تھے کہ قومی وطن پارٹی دراصل شیرپائو گروپ کا نیا جنم ہے جس کا آغاز شیرپائو خاندان سے ہوکر اسی پر ختم ہوتا ہے، اور اس کا سیا سی اثر رسوخ صرف چارسدہ تک محدود رہنے کی قیاس آرائیاں بھی کی جارہی تھیں، لیکن جب 2013ء میں اس نے حیران کن طور پر بہتر سیاسی حکمت عملی کے تحت چارسدہ کے علاوہ صوابی، دیر پائین اور مانسہرہ جیسے مختلف النوع سیاسی صورت حال کے حامل علاقوں سے بھی نشستیں جیت لی تھیں تو اس کے حوالے سے کیے جانے والے تمام تجزیے نقش برآب ثابت ہوگئے تھے۔ لیکن اب پانچ سال بعد قومی وطن پارٹی جس مقام پر کھڑی ہے اور اسے آئندہ انتخابات میں جو سخت چیلنج اور کٹھن مراحل درپیش ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر قومی وطن پارٹی کے اس مقام پر پہنچنے کا سبب یا اسباب کیا ہیں؟ آیا قومی وطن پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر دو دفعہ صوبائی حکومت میں شمولیت کے علاوہ بطور منتخب ارکان کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز سے مستفید ہونے والے اس کے نصف درجن سے زائد ارکان کو ایسی کون سی مجبوریاں لاحق ہوگئی تھیں کہ انہیں اپنی پارٹی اور اپنے محسن کو داغِ مفارقت دینا پڑا۔ آیا ان کی ان اُڑانوں کے پیچھے بڑی پارٹیوں کے ٹکٹوں کے حصول کی چمک کارفرما ہے، یا پھر ان منتخب ارکان کو پارٹی اور اس کی قیادت اپنی صفوں میں سنبھالنے میں ناکام رہے ہیں۔ باَلفاظِ دیگر پارٹی چونکہ ان بھاری بھرکم شخصیات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکی ہے نتیجتاً پارٹی کے نصف درجن منتخب ارکان ایسے وقت میں پارٹی کو داغ مفارقت دے گئے ہیں جب آئندہ انتخابات کا طبلِ جنگ بجنے والا ہے اور پارٹی کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹرز کے پاس جانے کا سخت مرحلہ درپیش ہے۔
واضح رہے کہ قومی وطن پارٹی سے بے وفائی کرنے والے صرف پی ٹی آئی ہی میں شامل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ اس کے ارکان دوسری جماعتوں کا بھی حصہ بنے ہیں۔ قومی وطن پارٹی سے بغاوت کرنے والوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ مارچ میں سینیٹ کے ہونے والے انتخابات میں دولت کی چمک کا شکار ہوئے ہیں، اور یہیں سے ان کے اور پارٹی قیادت کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھنی شروع ہوئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ سینیٹ الیکشن سے بھی بہت پہلے شروع ہوگیا تھا جب سب سے پہلے 2013ء میں ہری پور سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے گوہر نواز خان نے پارٹی میں شمولیت کے بعد 2015ء میں ہری پور میں قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں اپنے بھتیجے بابر نواز خان جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے، کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپورٹ کیا تھا، اور بعد ازاں انہوں نے خود ہی قومی وطن پارٹی سے راہیں جدا کرلی تھیں۔ قومی وطن پارٹی سے سینیٹ الیکشن سے پہلے جن تین ارکانِ اسمبلی نے علیحدگی اختیار کی ان میں صوابی سے رکن اسمبلی عبدالکریم خان، چارسدہ سے سلطان محمد خان، مانسہرہ سے ابرار حسین تنولی شامل تھے، جن میں اول الذکر دو ارکان پی ٹی آئی، جب کہ ابرار حسین تنولی جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے تھے۔ قومی وطن پارٹی کے ان متذکرہ چار ارکان کے علاوہ باقی تین ارکان میں خواتین نشستوں پر نامزد رکن اسمبلی محترمہ معراج ہمایوں خان کا تعلق صوابی سے ہے، انہوں نے بھی سینیٹ الیکشن سے چند ہفتے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی، اور ان کے بارے میں عام تاثر یہ تھاکہ پارٹی سے منحرف ہونے کے بعد وہ سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں گی، لیکن یہ تاثر اُس وقت ہوا میں تحلیل ہوگیا تھا جب پی ٹی آئی کے سینیٹ الیکشن میں پارٹی سے غداری کے جرم میں نکالے جانے والے بیس ارکان میں محترمہ معراج ہمایوں کا نام بھی سامنے آیا تھا۔ اس طرح انہیں بیک وقت دو جماعتوں یعنی قومی وطن پارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے شوکاز نوٹس موصول ہوا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو معراج ہمایوں خان کو دہرے سیاسی نقصان اور الزامات کا سامناکرنا پڑا ہے، اور اب عملاً وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہیں، اور بظاہر ان کا سیاسی مستقبل اگر تاریک نہیں توغیر یقینی ضرور نظر آتا ہے۔ اسی طرح پارٹی سے راہیں جدا کرنے والے باقی دو ارکان جن پر ووٹوں کی خرید و فروخت کے سنگین الزامات لگ چکے ہیں، ان میں دیر پائین سے بخت بیدار خان پیپلز پارٹی کو پیارے ہوچکے ہیں، جب کہ چارسدہ سے خالد خان مہمند جنہیں قومی وطن پارٹی کی گرنے والی وکٹوں میں تاحال آخری وکٹ ہونے کا شرف حاصل ہے، خیبر پختون خوا ہائوس اسلام آباد میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرتے ہوئے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ چونکہ پارٹی سے نئے بننے والے صوبائی حلقے پی کے56 چارسدہ کا ٹکٹ مانگ رہے تھے اور پارٹی یہ حلقہ سکندر حیات شیر پائوکو الاٹ کرچکی ہے، لہٰذا انہوں نے نہ صرف پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے بلکہ وہ اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوارکے طور پر سکندر حیات شیرپائو کا مقابلہ بھی کریں گے۔
یہاں اس امر کی جانب اشارہ کرنا بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگاکہ قومی وطن پارٹی شاید صوبے کی واحد جماعت ہے جس سے اتنی بڑی تعداد میں منتخب لوگ دوسری جماعتوں میں تو شامل ہوئے ہیں لیکن اب تک کسی بھی دوسری جماعت سے کوئی منتخب رکن تو ایک طرف، کسی اوسط درجے کی نمایاں سیاسی شخصیت نے بھی اس کی صفوں میں شامل ہونا پسند نہیں کیا ہے، بلکہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اس کے منتخب افراد کے علاوہ گزشتہ انتخابات میں ہارنے کے باوجود اچھا اسکور کرنے والے اس کے بعض سابقہ امیدواران بھی اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں جن میں کم از کم پشاور کی حد تک دو نمایاں نام سابقہ پی کے 5 کے امیدوار ابرار خان خلیل اے این پی، اور پی کے6کے امیدوار منظور خلیل پیپلز پارٹی میں نہ صرف شمولیت اختیار کرچکے ہیں بلکہ ان دونوں امیدواران کو شامل ہونے والی جماعتوں کی جانب سے آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کا ملنا بھی یقینی ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں آفتاب احمد خان شیر پائو جن کی عمر 74سال ہوچکی ہے، کے لیے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا چیلنج آئندہ انتخابات کا درپیش ہے جس میں ان کا مقابلہ اگر ایک طرف اپنی روایتی حریف اے این پی کے ساتھ ہوگا تو دوسری جانب ان کو ٹف ٹائم دینے کے لیے جہاں پی ٹی آئی بھرپور فارم کے ساتھ میدان میں موجود ہوگی، وہیں متحدہ مجلس عمل سے بھی ان کا مضبوط جوڑ پڑنے کا قوی امکان ہے۔