بچوں کے منفرد رسالے ساتھی کا ایک اور سنگ میل، شکایت نمبر

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

نام رسالہ : ماہنامہ ساتھی (مئی 2018ء)
مدیر:محمد طارق خاں
مجلسِ ادارت:عبدالرحمن مومن، عاقب جاوید
ناشر:سرفراز احمد
ایف 206 سلیم ایونیو، بلاک 13۔بی، گلشن اقبال، کراچی
فون نمبر: 0333-5803339-34976468
مدیر ماہنامہ ساتھی، کراچی جناب محمد طارق خاں کے الفاظ کے مطابق گزشتہ برسوں میں شائع ہونے والے ساتھی خاص نمبروں کی مقبولیت اور اندازے سے بڑھ کر بھرپور پسندیدگی کی وجہ سے دگنی سے زیادہ یعنی تین گنا زیادہ کہانیاں موصول ہوئیں اور قابلِ اشاعت ہونے کے باوجود اور کچھ تاخیر سے موصول ہونے کے سبب اس خاص نمبر میں شائع نہیں ہوسکیں، ان کو ان شاء اللہ اگلے شماروں میں شامل کیا جائے گا۔ اس شکایت نمبر کی ابتدا عبدالرحمن مومن کے ابتدائی گوشہ ’’علامہ اقبال کی خداوندانِ مکتب سے شکایت‘‘ سے ہوئی ہے کہ وہ شاہین بچوں کو زمین پر خاکبازی یعنی زمینی مشغلوں کا درس دے رہے ہیں جسے وہ مسلم نوجوان کی شان اور شاہین کی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے شعر کے ذریعے جو معلمین یا خداوندانِ مکتب سے شکایت کی ہے وہ یہ ہے
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
مصنف حماد ظہیر کا نام اور پتا شکایت مٹائو تحریک کے صدر کی حیثیت سے ان کے دوست شجاعت مرزا نے پورے محلے میں تقسیم کردیا تھا جس میں محلے کی صفائی ستھرائی کی پیشکش کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ سارے اخراجات، ٹریکٹر، ٹرک اور ٹرالی کے کرائے سمیت بمشکل سو روپے خرچہ آئے گا، اور اہلِِ محلہ سے اپیل کی گئی کہ وہ اس میں اپنا حصہ ڈالیں، اور اگلے روز سے اہلِ محلہ نے حماد ظہیر کے ہاتھ میں بطور حصہ سو سو روپے پکڑانے شروع کردیے، اور مرزا نے محلے کی کرکٹ ٹیم کو انعام کی خوشخبری دے کر ان سب کو محلے کے کوڑا کرکٹ کی صفائی پر لگادیا، اور ٹرک، ٹرالی، ٹریکٹر، مزدور اور خاکروب غرض سب کی مدد سے مختصر وقت میں محلے کو صاف کرڈالا اور درودیوار اور گلیوں کو چمکا دیا۔ گٹر کے پانی کو پارک کی طرف موڑ دیا گیا اور مسئلہ حل ہوگیا، کنویں کھود کر ان کا کنکشن پانی کی مین لائن سے تمام گھروں میں کردیا۔ سارے محلے والے خوش، مکانوں کی قیمت دگنی، اخبارات اور میڈیا میں واہ واہ ہوگئی۔ شہرت مل گئی لیکن غیرقانونی کام کرنے پر حوالات کی سیر بھی کرنی پڑی، لیکن محلے کی ایک سیاسی شخصیت عظیم میاں کی مدد سے رہائی ملی۔ اس تحریر میں اہلِ محلہ کے باہمی تعاون سے مشترکہ مسائل کو حل کرنے کی اچھی ترغیب دی گئی ہے، ایک بامقصد اور اچھی تحریر ہے۔ گلِ رعنا نے ’’ایپرن‘‘ کے عنوان سے وکٹوریا وُڈ (Victoria Wood) کی کہانی سُپر مارکیٹ چیک آئوٹ (Super Market Checkout) کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ مشہور سپر مارکیٹ کی کہانی ہے جہاں صاف ستھری نظر آنے والی اشیاء غیرصحت مندانہ ماحول اور طریقوں سے حفظانِ صحت کے اصولوں کے برخلاف گندے اور غیر صحت مند ملازمین گاہکوں کو فروخت کرتے ہیں اور ناسمجھ عوام پھر بھی ان کی شہرت کی وجہ سے وہاں سے اشیاء خریدتے ہیں۔ محمد الیاس نواز کی ’’جن کی شکایتیں‘‘ ایک طنزیہ، مزاحیہ، ڈرامائی تشکیل ہے جس میں تین کردار ہیں: خالہ خیرن، جو ایک گھریلو خاتون ہیں، عجیب شخص کے حلیے میں ایک جن، اور خاور جو خالہ خیرن کا بیٹا ہے۔ جن خالہ خیرن کی چیزیں چرا کر کھاتا ہے اور استعمال کے لیے ان کی چیزیں لے جاتا ہے، جب وہ چیزوں کو چھپا لیتی ہیں تو شکایت کرتا ہے۔ ان کے بیٹے خاور کی موٹرسائیکل بھی لے جاتا ہے۔ سیما صدیقی کا ’’سیاہ چشمہ‘‘ پاکستان سے شاکی پاکستانیوں کے لیے ایک عبرتناک سبق ہے جو اپنے ملک میں صرف کیڑے نکالتے ہیں اور غیر ملکی پہناوے اور چیزوں پر فخر کرتے ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان کی تحریر ’’شکایت کی جزا‘‘ ایک ہیڈماسٹر کے اپنے شاگرد کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ابنِ بہروز کی باتصویر کہانی ’’بدصورت بطخ‘‘ ایک اچھی اور سبق آموز کہانی ہے۔ رنگین تصاویر نے کہانی کو چار چاند لگادیے ہیں۔ ’’سبزستان میں ہنگامہ‘‘ مہ جبیں تاج ارزانی کی ایک اچھی علامتی کہانی ہے جس میں یہ سبق ملتا ہے کہ بھنڈیوں کے ناجائز مطالبے کو منوانے سے خود ان کو نقصان ہوا اور چار گنا قیمت ہونے سے لوگوں نے بھنڈی خریدنا چھوڑ دی۔ نتیجتاً دکانوں پر پڑے پڑے بھنڈیاں خراب اور گلنے سڑنے لگیں، انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کدّو بادشاہ سے انہوں نے معافی مانگ لی۔ فوزیہ خلیل کا ’’سرخ لیٹر بکس‘‘ ایک لیٹر بکس کے اندر کا حال ہے جس میں خط پڑے پڑے پرانے ہوگئے اور کوئی ڈاکیا ڈاک تقسیم کرنے کے لیے لیٹر بکس کو کھولنے نہیں آیا۔ احمد خاں کی تحریر ’’مجھے تم سے شکایت ہے‘‘ میں شکایت کرنے کے طریقے سمجھائے گئے ہیں، اس مضمون میں شکایت کرنے والوں کی قسمیں اور ’شکایت کیسے کی جائے‘ کے طریقے بتائے گئے ہیں، لیکن تعجب ہے کہ شکایت نمبر کے اس اہم مضمون کا نام فہرستِ مضامین میں سے غائب ہے۔ ’’ذرا کھکھلایئے‘‘ لطائف کا ایک گلدستہ ہے جس کو کئی مراسلہ نگاروں نے دلچسپ لطائف کے ساتھ سجایا ہے۔ ’’شکایتیں کیا کیا‘‘ نیّر کاشف کی کہانی ہے جو مس بننے کے خواب کی تعبیر کے بعد شکایتوں کی متنوع اقسام اور طلبہ کے والدین کی شکایتوں کے بارے میں ہے جو انہیں اپنی اولاد سے ہیں۔ ’’گھر گھر کی شکایتیں‘‘ تصویری شکایت نامے ہیں جس کی مراسلہ نگار آرزو صفدر ہیں، اس سلسلے میں مختلف شکایتوں کو تصاویر کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔
احمد حاطب صدیقی کی کہانی ’’گڈو کی شکایتیں‘‘ ایک معلوماتی حکایتی کہانی ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو ضائع کرتے ہیں، پھر وہ کوشش کرکے معلوم کرکے رہتے ہیں کہ پانی کی نعمت کیسے ان تک پہنچتی ہے۔ گڈو میاں کے پوچھنے پر مانو پانی کی کہانی کا پتا چلاتی ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ سمندر سے پانی بھاپ بن کر بادل، بادل سے بارش، بارش سے دریا اور سمندر اور وہاں سے نہروں کے ذریعے پانی کو صاف کرکے بستیوں میں پہنچایا جاتا ہے جو پینے کے قابل ہوتا ہے۔
’’کتاب کی شکایت‘‘ حسنات احمد چوہان کی ایک مختصر تحریر ہے جو کتاب کو انسانوں سے ہے کہ انہوں نے کتاب کو چھوڑ کر کمپیوٹر اور موبائل کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ’’کہانی ایک سفر کی‘‘ محمد فیصل شہزاد کا قسط وار سفرنامہ ہے، اس شکایت نمبر میں یہ اس کی ساتویں قسط ہے جو پاکستان کے شمالی علاقوں، جھیل سیف الملوک، خطرناک راستوں اور ان کے خطرناک موڑوں اور جیپ میں سفر کی کہانی ہے، اور پاکستان میں واقع دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے مشکل ترین چوٹی کے۔ ٹو ہے، اور دنیا کا خطرناک ترین پہاڑ نانگا پربت ہے جو دنیا بھر میں کلر یعنی قاتل پہاڑ کے نام سے موسوم ہے۔ شکایت یہ ہے کہ یہاں ہر سال سینکڑوں سیاح، کوہ پیما اور رپورٹر آتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے باقاعدہ صفائی کا کوئی بندوبست نہیں، یہاں گندگی بڑھتی جارہی ہے اور مقامی اور وفاقی حکومتوں کو ان شکایات کو رفع کرنے کا شعور نہیں، حالانکہ اگر ان سہولتوں کو بہتر، راستوں کو محفوظ اور صفائی ستھرائی کا مستقل بندوبست کیا جائے تو سیاحت کی آمدنی میں بہت اضافہ ہوسکتا ہے۔ ’’اونٹ کی شکایت‘‘ اُمّ حود کا توشہ ہے جس میں ایک روایت کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں پر بھی بڑھاپے اور تکلیف میں رحم کرنے کا حکم دیا۔
’’ننھا کبوتر‘‘ ماریہ حجاب کا ایک اصل واقعہ ہے جو ان کے ساتھ دبئی میں پیش آیا تھا۔ ان کے والد نے ایک ننھے کبوتر کی جان بچائی تھی جو دوسرے پرندوں کے ساتھ اڑتے ہوئے بچھڑ کر پانی میں جاگرا تھا اور ماریہ کے والد نے اس کو ہمت کرکے نکال کر گرمائش پہنچائی اور وہ ٹھیک ہوگیا۔ نور فاطمہ صدیقی اس مرتبہ ’’بونے کیوں ڈر گئے‘‘ کے عنوان سے بونوں کی کہانی کے ساتھ شامل ہوئی ہیں۔ یہ بونے پہاڑ اور دریا کے درمیان واقع ایک بستی میں رہتے تھے اور برسوں میں اس وادی کو رہنے کے قابل بنادیا تھا، آبادی کے چاروں طرف پھولوں کے باغات قائم کردیے تھے۔ پھلوں کے درخت اور سبزیوں کے کھیت تھے۔ ان کے پاس رہائش اور خور و نوش کی سب ضروریات پوری کرنے کا سامان تھا۔ لیکن وہ دریا اور پہاڑ سے شاکی تھے، دریا میں مچھلیاں نہیں تھیں اس لیے وہ اسے خالی کرکے اس کا پانی پہاڑ پر ڈالنے لگے تاکہ دریا ختم ہوجائے اور پہاڑ کا پانی برف بن جائے، اس بات پر دریا اور پہاڑ ناراض ہوگئے اور دریا نے اپنا رخ بدل لیا اور پہاڑ سرک کر دور ہوگیا۔ شروع میں تو بونے خوش ہوئے، مگر ان کے باغات، درخت اور کھیت سوکھنے لگے۔ اس صورت حال پر تمام بونے باہم مشورہ کرنے لگے، وہ اپنے اقدام پر شرمندہ تھے۔ بونوں نے ہوائوں کو پیغام دیا کہ وہ پہاڑ اور دریا کو ان کا معذرت نامہ پہنچائیں اور ان سے کہیں کہ واپس آجائیں۔ آخرکار پہاڑ اور دریا اپنی جگہ پر واپس آگئے اور بونوں کی بستی کی رونق دوبارہ لوٹ آئی۔ بچے بونے بڑے ہوگئے، جوان بونے بوڑھے ہوگئے اور پھر نئی نسل سامنے آگئی۔ اس نئی نسل میں جم جم بستی کا سب سے ذہین لڑکا تھا۔ ایک رات دریا میں بہتا ہوا بونوں کی ایک اور بستی میں چلا گیا جہاں کے لوگوں نے اپنے وسائل سے اپنے مسئلے حل کرلیے تھے۔ جم جم ان سے سیکھ کر واپس آگیا اور پہاڑ اور دریا جو چاہتے تھے وہ ترکیب کامیاب رہی اور بونے شکایتوں کے بجائے غور و فکر سے محنت کرکے اپنے مسئلے حل کرنے لگے۔
عبدالعزیز کی تحریر ’’وہ کچھ شکایتیں‘‘ کے عنوان سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور اسوۂ حسنہ سے متعلق ہے۔ اس تحریر میں حضرت جابرؓ کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹے کی باپ سے شکایت کے مسئلے کو احسن طریقے سے حل کیا۔ ایک اور صحابیؓ کی شکایت پر ایک پڑوسی کے سلوک کو حُسنِ تدبیر سے بہتر بنادیا۔ اس تحریر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانوروں اور پرندوں سے حُسنِِ سلوک کا ذکر ہے جس سے ان کی شکایتیں رفع ہوگئیں۔ آخر میں شکایت کے سلسلے میں کچھ رہنما ہدایتیں شامل ہیں جن کو پڑھنے اور ان پر عمل کرنے سے شکایتوں کا ازالہ ممکن ہے۔ اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے، آمین، ثم آمین۔
’’سردی گرمی اور برسات کی پریاں‘‘ رمانہ عمر کی ایک علامتی دلچسپ کہانی ہے جس میں سردی، گرمی، برسات کے موسموں کی پریاں آپس میں بحث کرتی ہیں کہ انسانوں کو کس کا لایا ہوا موسم پسند ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے یہ طے کیا کہ سب سے پہلے ملنے والے انسان سے پوچھیں کہ اسے سب سے اچھا موسم کون سا لگتا ہے۔ ادھر باغ میں احمد کا خاندان پکنک منانے آیا ہوا تھا۔ احمد کی دادی پیار، محبت اور اخلاق والی خاتون تھیں جن کی وجہ سے سب ان کو پسند کرتے تھے۔ ان کے سوا سب گھر والے باغ کی سیر کو نکل گئے اور وہ ٹانگ کی تکلیف کی وجہ سے سامان کے ساتھ رک گئیں۔ سب سے پہلے ان کے پاس سردی کی پری آئی اور پوچھا کہ انہیں سردی کیسی لگتی ہے؟ دادی اماں نے سردی کی تعریف کرکے اور سردی کی تیاریاں بتاکر سردی کی پری کو خوش کردیا تو اس نے ان کو اشرفیوں کی ایک تھیلی دے دی۔ اس کے بعد گرمی کی پری آئی اور پھر برسات کی پری… اور اپنی اپنی تعریف سن وہ احمد کی دادی کو اشرفیوں کی تھیلیاں دے کر چلی گئیں۔ احمد کے دوست مصطفی اور اس کے گھر والوں کو جب اس کہانی کا پتا چلا تو ان کے دل میں لالچ آیا کہ ہمیں بھی اشرفیوں کی تھیلی ملنی چاہیے۔ مصطفی اور اس کے گھر والے بھی روز باغ میں جانے لگے، وہ اپنی دادی کو وہاں چھوڑ کر گھومنے چلے جاتے۔ مصطفی کی دادی غصیلی تھیں، چنانچہ جب سردی، گرمی اور برسات کی پریاں آئیں تو انہوں نے سب کی برائی کی اور انہیں برا بھلا کہا۔ سب پریاں ان سے ناراض ہوکر گئیں اور اشرفیوں کے بجائے مصطفی کی دادی کی ڈانٹ مصطفی اور گھر والوں کو سننا پڑی۔ آخر تینوں پریوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موسم تو اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور اچھے ہوتے ہیں۔ ناشکری اور شکایت نہیں کرنی چاہیے۔
سوشل میڈیا کی شکایتیں مختلف چھوٹی چھوٹی شکایتیں ہیں جو ساتھی کے قارئین نے بھیجی ہیں۔ پہلی شکایت عظمیٰ ابونثر صدیقی کی ایک سبق آموز کہانی ہے جس میں اپنے ضمیر کی آواز پر ایک طالب علم یوسف نے اپنی سازش کا خود ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔ ’’مرکز شکایت‘‘ بینا صدیقی کے دماغ کی اختراع اور تحریر ہے جس میں رافع اور راقع نے بجلی اور ٹیلی فون کے شکایت کے محکموں کی طرز پر ’’مرکزِ شکایات برائے اہلِ خاندان و محلہ‘‘ کھولا اور عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ ہفتے اور اتوار کو اسکول کی چھٹی کے دنوں میں انہوں نے معمولی فیس کے عوض یہ خدمات انجام دینے کے لیے اہلِ محلہ اور خاندان کے کام آنے کا سوچا تھا، مگر لینے کے دینے پڑ گئے، اور خاندان اور اہلِِ محلہ کے آپس کے جھگڑوں سے تنگ آکر انہیں گھر میں پناہ لینی پڑی۔
فائزہ حمزہ نے ’’اللہ سے شکوہ؟‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کی ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ جیسی انقلابی نظموں کا مجموعی خلاصہ اس مضمون میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال کی ’شکوہ‘ میں ایک مسلمان نے اللہ سے شکایت کی ہے اپنی ناگفتہ بہ حالت اور مظلومیت کی۔ ’جوابِ شکوہ‘ میں علامہ اقبال نے اللہ کی طرف سے تخاطب میں مسلمانوں کو اپنی موجودہ حالتِ زار، دین سے بے گانگی اور قرآن اور اسلام سے دوری پر شرمسار کیا ہے۔ یہ ایک اچھا مضمون ہے جسے کہانی کے پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ محترم بزرگ صحافی اطہر علی ہاشمی حسب معمول اپنے عنوان ’’اردو زباں ہماری‘‘ میں فرمائش پر غلطیوں کو تلاش کرکے ان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حسام چندریگر کا مضمون ’’اگر یہ بھی شکایت کرتے‘‘ ایک اچھا معلوماتی مضمون ہے جس میں چند ایسے جری اور باہمت لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی بیماریوں، معذوریوں اور شخصیت میں کمی کے باوجود بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے اور کامیابیاں حاصل کیں، اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے، بلکہ خوداعتمادی سے اپنی کمزوریوں کو پس پشت ڈال کر اپنی صلاحیتوں کا دنیا سے لوہا منوایا۔ حسام چندریگر کے اس مضمون پر ان کا نام غلطی سے چھپنے سے رہ گیا۔ نکولاس جیمس دوجیسک پیدائشی طور پر ہاتھ پائوں سے محروم تھا لیکن وہ تعلیم و تربیت کے بعد ایک بہترین تحریکی مقرر بنا۔ اسٹیفن ہاکنگ جسمانی طور پر بڑی حد تک معذور تھا مگر اس نے ایک معروف شہرۂ آفاق ماہر طبعیات بن کر دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ جیک ما ایک کوتاہ قد انسان تھا مگر اس کی جدوجہد اور ہمت سے اس کا شمار امیر ترین کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔ ہیلن کیلر بچپن میں بیماری کی وجہ سے سماعت اور بینائی سے محروم تھیں، لیکن انتھک محنت اور لگن سے انہوں نے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرکے عالمی شہرت حاصل کی اور خصوصی بچوں کے لیے کارنامے سرانجام دیے۔ ’’شکایتی ٹٹو‘‘ شازیہ فرحین کی ایک دلچسپ تحریر ہے جس میں دو بہنوں رمشا اور فردا کی نٹ کھٹ حرکتوں، شرارتوں اور ایک دوسرے کی شکایتوں کی کہانی ہے، لیکن ناراض ہونے کے بعد وہ ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکیں اور بالآخر دونوں نے صلح کرلی۔ ’’کھلونوں کی شکایت‘‘ اُمّ ایمان کے دماغ کی اختراع ہے جس میں انہوں نے چارپائی کے نیچے پڑے کھلونوں کا تذکرہ کیا ہے جن کو بچوں نے نظرانداز کردیا۔ وہ اس کے مشتاق ہیں اور اپنے ماضی کو یاد کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے دوبارہ کھیلا جائے۔ ’’ازالہ‘‘ ڈاکٹر ارفع معراج کی تحریر ہے جس میں وہ اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر ایڈیٹر کے اصرار پر قلم سے ناتا جوڑنا چاہتی ہیں مگر مریضوں اور شوہر کی ذمہ داریوں کے سبب قلم کاغذ اور ایڈیٹر کی شکایت دور نہیں کرپاتیں۔
’’میں بے چارہ‘‘ محمد وجاہت خاں کا ایک معلوماتی مضمون ہے جو اردو نستعلیق فونٹ یعنی اردو سوفٹ ویئر کی ایجاد کے بارے میں ہے، جسے مرزا احمد جمیل جو معروف اشاعتی ادارے کے مالک اور ایک اچھے مصور اور کاتب بھی تھے، اور ان کے والد ’’نور محمد‘‘ کے نام سے نوری نستعلیق اِن پیج ان ہی کی ایجاد ہے، اس مضمون میں اردو کمپوز کرنے والوں کی غلطیوں کی تصحیح کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ ’’ڈائری کا ورق‘‘ ایک لڑکی کی آپ بیتی ہے جس کے کھانے کی اس کے بھائی کبھی تعریف نہیں کرتے بلکہ خامیاں نکالتے رہتے ہیں لیکن سارا کھانا کھا جاتے ہیں، وہ اپنی ڈائری میں یہ سب شکایتیں لکھتی ہے جس کو چھپ کر اس کے بھائی بھی پڑھتے ہیں۔ ساجدہ غلام محمد نے مانچسٹر سے جو سوغات بھیجی ہے اس کا نام ’’رامش بھول گیا‘‘ ہے جس میں علامتی طور پر کتابوں، پنسل، ربر اور پنسل تراش اور کاپیوں نے رامش کے رویّے اور لاپروائی کی شکایت کی ہے۔ رامش یہ سب باتیں سن کر عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ ان سب باتوں کا خیال رکھے گا۔ ’’پریشانی پر پشیمانی‘‘ رمشا جاوید کا افسانہ ہے جس میں علی، احسن، فراز، اسد اور زوہیب چھٹیاں گزارنے لاہور اپنے ماموں کے یہاں آئے ہوئے تھے، وہ فقیر کا بھیس بدل کر اپنے ماموں سے بھیک مانگتے ہیں جو ہر مانگنے والے کو بھیک ضرور دیتے ہیں چاہے وہ مستحق ہو یا نہ ہو، لیکن اپنے غریب اور مستحق رشتہ داروں کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ ان پانچوں نے اپنے ماموں سے خیرات جمع کرکے ایک غریب عزیزہ کو دس ہزار روپے بھجوائے۔ آخر میں خط اور ان کے جوابات ہیں۔ منیر احمد راشد، ارسلان اللہ خان، عمر منیر، ضیاء اللہ محسن کی طویل نظم ’’جن کی شکایت‘‘ اور مدیحہ صدیقی کی ’’رب سے شکایت‘‘ اچھی نظمیں ہیں۔ صفحہ 202 غلط جوڑا گیا ہے، وہ کسی اور کہانی کا صفحہ ہے۔ باقی رسالہ ایک اچھی کوشش ہے۔ حروف چینی کی غلطیاں بہت کم ہیں، بحیثیتِ مجموعی ’’شکایت نمبر‘‘ اچھا ہے۔